جان برک نے جنوبی میکسیکو کے چھوٹے شہر ویلاڈولڈ کا 1835 میں سفر کیا۔ انہیں یوکاٹان کے سابق گورنر ڈان بارانڈا اور سکاٹ لین سے آئے ہوئے میک گریگر نے کاٹن فیکٹری لگانے اور کا انتظام سنبھالنے کے لئے بلایا تھا۔ یہاں کپاس کی پیداوار ہوتی تھی اور ان کا خیال تھا کہ کیوں نہ فیکٹری بھی یہاں ہی لگا لی جائے۔
یہ فیکٹری بنانا آسان کام نہیں تھا۔ نیویارک سے نہ صرف مشینیں لائی گئیں بلکہ وہ ریہڑے بھی جن پر لاد کر انہیں منزل تک پہنچایا جا سکے۔ چار انجنیر بھی اس کے ساتھ آئے۔ دو کا فوراً ہی ملیریا سے انتقال ہو گیا۔ کوئی آرکیٹکٹ نہیں تھا۔ اس کے بغیر ہی عمارت کا ڈیزائن ہوا۔ دو بار محرابیں گرنے سے عمارت کا حصہ گر گیا۔ لیکن برک، برانڈا اور میک گریگر نے سات سال میں فیکٹری لگا ہی لی۔ 117 مزدوروں کو ملازم رکھا گیا۔ ان کے علاوہ مایا قبیلے والے لکڑیاں کاٹ کر فراہم کرتے تا کہ سٹیم انجن کی آگ دہکتی رہی اور یہاں کے مکئی کے کھیتوں میں کپاس اگائی جاتی۔ 1844 میں اس فیکٹری میں 395,000 گز کپڑا تیار ہوا۔ یہ لنکاشائر کے حساب سے بڑی نہیں تھی لیکن یہ ایک شاندار کامیابی تھی۔
یوکاٹان کے جزیرہ نما کے درمیان میں اس فیکٹری سے بندرگاہ تک پہنچتے ہوئے کئی دن لگتے تھے۔ تہذیب سے اس قدر دور اس کارخانے کا لگائے جانا مشینی پیداوار کی کشش کی ایک مثال تھا۔ صنعتی انقلاب کی کامیاب کے بعد صنعتوں کے جال دنیا میں پھیلنے لگے تھے۔ اور یہ کوئی ایک کہانی نہیں، ایسی سینکڑوں یا ہزاروں کہانیاں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے جرمنی کا مقام ویزنٹل اس کی مثال ہے۔ بلیک فارسٹ کی چوٹیوں سے اتر کر اس وادی میں تاجر یہاں پر باسل سے کپاس لاتے تھے۔ یہاں کے کپڑا بنانے والوں کو دی جاتی تھی جو اس سے کپڑا بن کر تاجروں کو دیتی تھے اور یہ ملہاوس کے کنارے فیکٹری کو رنگنے دیا جاتا تھا۔ یہاں پر سوئس سرمایہ لانے والوں کی بہتات تھی۔ 2500 کاریگروں کو غیرمشینی تیاری کے عوض معاوضہ دیا جاتا۔
یہاں پر جب پہلا کارخانہ 1794 میں لگایا گیا تو حکومت نے اسے بند کروا دیا۔ حکومت کو خوف تھا کہ اس سے بے روزگاری اور غربت پھیلے گی اور بغاوت ہو سکتی ہے۔ لیکن 1810 میں واٹر فریم اور میول یہاں پہنچ چکا تھا۔ نئی حکومت صنعتکاری پر زور دے رہی تھی۔ بلیک فارسٹ سے گرنے والی ندیاں صنعت کے لئے آئیڈیل جگہ تھیں۔ اور نئی مشینوں نے آنے کے ساتھ ہی ہاتھ سے کام کرنے والے دستکار ختم کر دئے۔ پہلے غیرمشینی سپننگ ختم ہوئی اور پھر غیرمشینی ویونگ۔ 1860 تک ویزنٹل میں 160,000 مشینی تکلے اور 8,000 مشینی کھڈیاں لگ چکی تھیں۔ زراعت پر منحصر اس دورافتادہ وادی کو صنعتی انقلاب نے فتح کر لیا تھا۔ یہ اب اس انقلاب کے نقشے کا ایک نقطہ تھا۔
فرانس میں سپننگ جینی 1771 تک پہنچ گئی تھی۔ جرمن بولنے والے علاقے ڈسل ڈورف میں انگریزی بولنے والے ماہر کو بلا کر جوہان بروگلمین نے 1783 میں پہلی سپننگ فیکٹری لگائی۔ اس سے دو سال بعد مشینی سپننگ مشین بارسلونا میں پنہچ گئی تھی۔ 1789 میں برٹش کاٹن ماہر سیموئل سلیٹر نے امریکہ میں کامیاب فیکٹری لگائی۔ 1792 میں بلجیم کی پہلی فیکٹری ٹوینٹ میں لیون بوونز کی تھی۔ اس سے ایک سال بعد دھاگہ بنانے کی فیکٹری روس میں لگی۔ 1798 میں سیکسن کے شہر چیمٹنز میں۔ 1801 میں سویٹزر لینڈ میں۔ اس سے سات سال بعد لومبارڈی میں انٹراک شہر میں تکلے گھومنے لگے۔ 1818 میں مصر میں محمد علی پاشا کے حکم پر پہلی کاٹن مل نے کام شروع کیا۔ برانڈا کی لگائی گئی فیکٹری بھاپ سے چلنے والا میکسیکو کا پہلا کارخانہ تھا۔
کاریگروں، سرمایہ داروں، ریاستی اہلکاروں اور کاروباری شروع کرنے والوں نے اس کو قبول کر لیا تھا۔ 1860 تک ڈنمارک، اٹلی، مصر، سپین، ہیبسبرگ کی سلطنت، امریکہ، روس، نیدرلینڈز، انڈیا، میکسیکو، بلجیم میں نئے کارخانے دھاگہ اور کپڑا نکال رہے تھے۔ لیکن دنیا کے 67.4 فیصد مشینی تکلے ابھی بھی برطانیہ میں تھے۔ صنعتی پیداوار میں کوئی اس کے پاسنگ نہ تھا۔ لیکن ہر جگہ پر صنعت لگنے کی رفتار تیز ہو رہی تھی۔
ساتھ لگی تصویر میکسیکو میں قائم ہونے والے پہلی فیکٹری “اورورا یوکاٹان” کی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...