ڈی ڈی کمپنی کے پاور آفس میں اپنی سیٹ پر بیٹھے کریم یزدانی کے چہرے پر تناؤ کی کیفیت تھی۔دائیں ہاتھ سے پیپر ویٹ گھماتے ہوئے انکا اضطراب صاف ظاہر ہو رہا تھا۔یکدم گلاس ڈور کھلا اور انکا پی اے اندر داخل ہوا تھا ۔پیپر ویٹ گھماتے انکے ہاتھ تھمے اور انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔گو کہ اسکے چہرے کے تاثرات نتیجہ بیان کرنے کے لئے کافی تھے مگر پھر بھی وہ خود کو سوال کرنے سے روک نہیں سکے۔”ریزلٹ کیا رہا؟”
“سر! این سی پی پارٹی کافی زیادہ ووٹوں کے فرق سے ہار چکی ہے ۔”
“انکا چہرہ فق ہوا۔
” اس دفعہ ہم نے پارٹی کو فنڈ کی شکل میں کافی رقم دی تھی۔بد قسمتی سے اسکی وجہ سے ہم خسارے میں آ سکتے ہیں۔”پی اے نے مزید بتایا ۔اپنی سفید ہوتی رنگت کے ساتھ انہوں نے میز پر اپنا ہاتھ مارا۔”یہ یکدم سے ہم بیک فٹ پر کیوں جا رہے ہیں؟ ہر جگہ ہمیں منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔داور بھی نہیں ہے جو آسانی سے یہ سب کچھ سنبھال لے۔”
” سر! آپ داور کی ضمانت کے لئے کوئی کوشش کیوں نہیں کر رہے ہیں؟”
“اسے اسکے حال پر چھوڑ دو۔میں نہیں چاہتا کہ اسکے جرائم کی گرد مجھ تک پہنچ جائے۔بہرحال سیکیورٹی ایجنسی کے لئے نیا چیف ہمیں جلد از جلد تلاش کرنا ہوگا ۔ورنہ کمپنی کی حفاظت خطرے میں پڑ جائیگی۔”انکے لہجے میں پریشانی تھی۔
ٹرتھ مرر کی عمارت کے پانچویں فلور پر واقع اپنے آفس میں حسن مجتبٰی گلاس ونڈو کے سامنے کھڑا تھا۔اسکے چہرے پر سکوت تھا۔سامنے شیشے کی کھڑکی سے پورا شہر بھاگتا نظر آ رہا تھا ۔اسکی پشت پر دیوار پر لگی ٹی وی اسکرین پر نیوز چل رہی تھی ۔” این سی پی پارٹی کی ہار کی وجوہات میں اسکی کرپشن اور اپنے قریبی لوگوں کو فائدہ پہنچانا شامل ہے ۔اب ہم بات کرتے ہیں اسکے نمائندے….” حسن مجتبٰی ایک گہری سانس لے کر پلٹا اور خالی نظروں سے انابہ کی میز کو دیکھا۔وہ چلتا ہوا میز تک آیا اور خالی کرسی کی پشت پر ہاتھ پھیرا۔اس واقعے کو گزرے ایک مہینے کا عرصہ ہو چکا تھا ۔اس دوران اسے انابہ نے کئی کالز کیں، اسے کئی میسجز کئے مگر وہ نظر انداز کرتا رہا۔وہ دوبارہ اسے اپنی وجہ سے خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔وہ اسے اسکا ٹرمینیشن لیٹر بھیج چکا تھا ۔وہ انابہ سلمان کی زندگی میں آ کر اسکے لئے پریشانی کا سبب نہیں بن سکتا تھا ۔وہ آنکھوں میں آنے والی نا محسوس نمی سے بے نیاز انابہ کی کرسی پر ہی بیٹھ گیا تھا۔
اس آفس سے کئی میٹر کے فاصلے پر افہام حیدر ایک چھوٹے سے مکان کی پشت پر کھڑا تھا۔وہ اپنے اسمارٹ-فون پر الیکشن کے نتائج دیکھ رہا تھا ۔اسکرین اسکرول کرتے ہوئے اسکے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ اترنے لگی۔یکدم اسے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔موبائل جیب میں ڈالتے ہوئے اسنے اپنا سر اٹھایا ۔سامنے سے ایک تیئس چوبیس سالہ لڑکا آ رہا تھا ۔
“کل کا دن کمپنی کے ڈیٹا بیس میں پہنچنے کے لئے محفوظ رہیگا۔کل کمپنی کے نئے پراڈکٹ کی لانچنگ ہے۔اسلئے آپ آرام سے اپنا کام کر سکتے ہیں ۔” لڑکے نے قریب آ کر کہا۔
“ہوں تم بس سی سی ٹی وی کا دھیان رکھنا ۔میں اپنا کام جلدی کر لونگا ۔”
“اوکے تو آپ تیار رہیں ۔میں کل ہی آپ سے رابطہ کرونگا۔”
” گڈ! داور کے نہیں رہنے سے ہمارا کام اتنا مشکل نہیں ہوگا۔خیر….” افہام نے اپنی جیب سے نوٹوں کی گڈی نکالی۔” اپنی بہن کی سرجری فوراً کرا لینا۔اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور بتانا ۔”وہ اسے پیسے پکڑاتا واپس پلٹ گیا ۔
– – – – – – – – –
کار کا لاک کھولتے اسکے ہاتھ یکدم تھمے۔رئیر مرر میں نظر آتے وجود کے عکس نے اسے پل بھر کے لئے ساکت کر دیا تھا۔نیلے پینٹس اور سفید کرتی میں ملبوس وہ عکس انابہ سلمان کا تھا۔اسکے چہرے پر پھیلا حزن اور آنکھوں میں موجود شکوہ حسن مجتبٰی کو مضطرب کرنے کے لئے کافی تھا۔کار کے کھلے دروازہ کو بند کرتا وہ اسکی جانب مڑا۔
“کیوں آئی ہو تم یہاں؟” بھوری آنکھوں میں ڈھیروں اجنبیت سمیٹے وہ اس سے مخاطب ہوا۔
“آپ نے سوچا تھا کہ میری کالز کو نظر انداز کرنے، میرے میسج کا جواب نہ دینے اور آفس آنے سے منع کرنے پر میں یونہی خاموش بیٹھی رہو گی ۔” وہ غصے سے پھٹ پڑی۔چہرے پر حزن کے ساتھ طیش بھی شامل ہو گیا۔” آفس میں آپ نے مجھے نہیں بلایا تھا بلکہ میں اپنی مرضی سے اور اپنی قابلیت کی وجہ سے یہاں آئی تھی۔تو پھر اس طرح بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مجھے کس طرح نکالا جا سکتا ہے؟ میرے پاس وہ کانٹریکٹ موجود ہے جس میں مجھے چھ مہینوں کے لئے ٹرتھ مرر میں اپائنٹ کیا گیا تھا ۔اور پانچ مہینے ہوتے ہی مجھے کسی معقول عذر کے بغیر نکال دیا گیا ہے ۔میں یہ کانٹریکٹ لے کر ورکرز رائٹ ایسوسی ایشن جاؤنگی۔اور آپ جانتے ہیں کہ انابہ سلمان صرف کہہ نہیں رہی بلکہ وہ ایسا کر بھی سکتی ہے ۔”وہ پر شکن پیشانی اور تیز تیز بولنے سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ بولتی جا رہی تھی ۔اسنے لمحے کے لئے رک کر ایک نظر حسن مجتبٰی پر ڈالی جو خاموش کھڑا اسکی بات سن رہا تھا ۔انابہ کی پیشانی کے بل مزید گہرے ہوئے۔وہ اس طرح کیوں کھڑا ہے ۔اسے کچھ تو کہنا چاہئے ۔” آپ اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ رہے۔اسکا مطلب یہی ہے کہ میں اتنی دیر سے بول رہی ہوں اور آپ کو کوئی پروا نہیں ہے ۔” اسنے تندی سے کہا۔
حسن مجتبٰی نے اسکی جانب ایک قدم بڑھایا اور بے حد نرمی سے انابہ کا دایاں ہاتھ تھاما۔وہ یکلخت خاموش ہوئی اور اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔اسکی بھوری آنکھوں میں بھی اتنی ہی نرمی تھی ۔انابہ کا سارا غصہ، ساری ناراضگی ایک دم سے کم ہونے لگی۔
” کیسی ہو؟” اسکے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑے اسنے پوچھا تو انابہ کی رہی سہی خفگی پل بھر میں زائل ہوئی اور اسکی آنکھوں میں پانی جمع ہونا شروع ہو گیا ۔ایک مہینے سے خود کا نظر انداز کیا جانا، حسن کی بے رخی، اپنا اضطراب یاد آنے لگا ۔
“آئی ہیٹ یو!” اسنے آنسوؤں سے گیلی ہوتی آواز میں کہا۔اسکا ہاتھ اب بھی اسکے ہاتھ میں تھا۔اسنے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
“آئی ایم سوری!” حسن نے دھیمے لہجے میں کہا ۔
“آئی رئیلی ہیٹ یو!” اسنے تیز آواز میں کہتے ہوئے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی ۔
” ہم بیٹھ کر بات کریں؟” اس نے دھیرے سے اسکا ہاتھ چھوڑا اور اسکے لئے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا تھا۔وہ جھجھکتی ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں رگڑتی کار میں بیٹھ گئی۔
وہ گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور اندر بیٹھ گیا۔پھر اسنے اسکی طرف ایک ہاتھ سے ٹشو پیپر اور دوسرے ہاتھ سے پانی کی بوتل بڑھائی جسے انابہ نے خاموشی سے تھام لیا۔ٹشو پیپر سے اپنا چہرہ تھپتھپا کر اسنے بوتل لبوں سے لگائی۔پانی پی کر اسنے بوتل واپس حسن کی طرف بڑھا دی تھی۔وہ بوتل کو ڈیش بورڈ پر رکھتا اسکی طرف متوجہ ہوا۔
“میں تمہارے لئے مزید کسی پریشانی کا سبب نہیں بننا چاہتا ۔اس دن تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اسکا ذمہ دار صرف میں ہوں ۔میں نے ممکنہ خطرے کو جانتے ہوئے بھی تمہیں اپنی مدد کرنے کو کہا۔میں اس احساس سے اب تک پیچھا نہیں چھڑا پایا ہوں کہ اگر اس دن تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں ساری زندگی اسی گلٹ میں گزار دیتا۔اگر ہم مزید ساتھ رہے تو مجھے نہیں معلوم کہ تمہیں پھر کس خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔میری اپنی زندگی ہے، اپنے مقاصد ہیں، کچھ رسک ہے اسکے لئے میں کم از کم تمہیں اسکی زد میں نہیں رکھنا چاہتا۔”وہ دھیمے لہجے میں بغیر اسکی طرف دیکھے کہتا گیا۔” اسلئے ہم دونوں کے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اپنے راستے الگ کر لیں ۔تمہارا اس دفعہ فائنل سمسٹر ہے۔اپنی اسٹڈیز پر دھیان دو، اپنا کیرئیر بناؤ۔جس راستے پر تم چلنا چاہتی ہو اس میں زیاں کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔تمہارے ہاتھ خالی رہ جائینگے اور میں تمہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتا ۔”
” آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی سب سے بڑی پرابلم ہے کہ آپ خود کو پرفیکٹ سمجھتے ہیں ۔اپنے علاوہ دوسرے لوگ آپ کو بیوقوف لگتے ہیں ۔آپ کو لگتا ہے آپ کے کئے گئے فیصلے پرفیکٹ ہیں اب چاہے اس سے اگلا متفق ہو یا نہ ہو آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔آپ کو بس اپنے فیصلے صادر کرنے ہوتے ہیں ۔”انابہ کے لہجے میں رنج تھا۔” آپ نے کہہ دیا کہ میں آپ کی زندگی سے چلی جاؤں ۔آپ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انابہ کیا چاہتی ہے؟ یو نو میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں جسے یہ تک نا پتہ ہو کہ کون سا راستہ صحیح ہے اور کون سا غلط؟ آپ نے جب مجھے ای میل کرنے کو کہا تھا تب ہی میں سمجھ گئی تھی کہ میں خطرے میں پڑ سکتی ہوں ۔مگر پھر بھی میں نے وہ کام کیا۔کیونکہ میں آپ کی مدد کرنا چاہتی تھی اور مجھے یقین تھا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو کوئی ہے جو مجھے اس مشکل سے نکال لیگا۔میں بیوقوف نہیں ہوں حسن مجتبی! ہاں ہوگی آپکی زندگی، آپ کے مقاصد! مگر میرا کیا؟ میری زندگی کا کیا؟ “اسکی آواز بھرا گئی۔حسن مجتبٰی نے اب بھی اسکی طرف نہیں دیکھا۔یہ بات تو طے تھی کہ وہ پیشانی پر گرے بالوں والی اس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا ۔
” میں نے تم پر اپنا فیصلہ صادر نہیں کیا ہے۔مجھے بس تمہاری پروا ہے ۔”اسنے کہا تھا۔
” آگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آفس نا آؤں تو ٹھیک ہے میں نہیں آؤنگی۔مگر آپ اس طرح راستے الگ کرنے کی بات نہیں کر سکتے ۔” اسکی نم آواز میں امید تھی ۔
حسن مجتبٰی نے بغیر کچھ کہے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا ۔بھلا وہ اسکی بات کا طرح ٹال سکتا تھا؟
– – – – – – – – – – –
مین روڈ پر کار روکتے ہوئے اسنے موبائل کان سے لگایا۔
” ہیلو افہام! کیا خبر ہے؟ “اسنے پوچھا ۔
“ہاں حمزہ یزدانی گھر سے نکل چکا ہے ۔میں نے اپنا کام کر دیا ہے باقی تم سنبھال لینا۔” دوسری جانب سے اس نے کہا تھا ۔
“تم فکر مت کرو۔ہم نے جو پلان کیا ہے وہی ہوگا۔” اسنے اسے تسلی دینے والے انداز میں کہا اور موبائل ڈیش بورڈ پر رکھ دیا ۔
پھر اسنے کھڑکی سے سر نکال کر چوراہے پر کھڑے پولیس اہلکار کی طرف دیکھ کر اپنا ہاتھ ہلایا ۔جواباً اسنے اسے مطمئن رہنے کا اشارہ کیا تھا۔
وہ وہیں کار روکے کھڑا رہا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد حمزہ یزدانی کی کار چوراہے کے پاس سے گزری جسے اس پولیس اہلکار نے روک لیا اور اسے سوچنے سمجھنے کا موقع دئیے بغیر وہ اسکی کار کی تلاشی لینے لگے اور زرا ہی دیر میں ان لوگوں نے اسے اریسٹ کر لیا تھا ۔ہکا بکا سے حمزہ کو انہوں نے فون کرنے کا بھی موقع نہیں دیا جو وہ شاید اپنے باپ کو کرنا چاہ رہا تھا ۔
پر سکون انداز میں ساری کارروائی دیکھتے حسن مجتبٰی نے مطمئن انداز میں اپنا سر ہلایا اور سن گلاسز لگاتا کار آگے بڑھا لے گیا تھا ۔
– – – – – – – – –
‘یزدانی مینشن’ آج اداسی میں لپٹا محسوس ہوتا تھا ۔گھر کے ملازمین بظاہر خاموشی سے اپنے کام میں مصروف تھے مگر گاہے بگاہے وہ سرگوشیوں میں تبصرہ کرنا بھی ضروری سمجھ رہے تھے ۔ناشتے کی میز انہوں نے حسب معمول سجا دی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ شاید ہی آج کوئی ناشتہ کرنے کے لئے آئے ۔ڈائننگ ہال کے دائیں جانب کمرے میں کریم یزدانی آدھے گھنٹے سے مسلسل ٹہلتے ہوئے کال لگا رہے تھے ۔دوسری جانب سے خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر انکے چہرے پر جھنجھلاہٹ اور پریشانی ابھر رہی تھی ۔انکے سامنے صوفے پر مسز یزدانی بیٹھی تھیں ۔وہ بھی پریشان تھیں مگر انکی طرح نہیں ۔وہ انہیں بار بار بیٹھ جانے کو کہہ رہی تھیں ۔
“چوبیس گھنٹوں سے میرا بیٹا لاک اپ میں ہے اور تم کہہ رہی ہو میں بیٹھ جاؤں؟” وہ بھڑکنے لگے۔
“آپ کے اس طرح ٹہلنے سے وہ واپس تو آنے سے رہا۔” انکی بیوی نے نخوت سے کہا۔
“اگر وہ تمہارا بیٹا ہوتا تو تم اسی طرح کہتیں؟ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے ۔میں اسکے جسم پر ایک کھرونچ بھی برداشت نہیں کر سکتا اور ابھی وہ سلاخوں کے پیچھے ہے۔میں پریشان نا ہوں تو اور کیا کروں؟ “حمزہ کی حالت کا سوچ کر ہی انہیں تکلیف ہوئی تھی ۔
“آپ کے اکلوتے بیٹے پر سیریس چارجز ہیں ۔بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے کار چلاتے ہوئے وہ نشہ آور ادویات کے ساتھ پکڑا گیا ہے ۔اور ساتھ ہی اس پر کسی لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کا بھی الزام ہے ۔اگر الزام ثابت ہو گیا تو…..”دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھلا اور مسز یزدانی کی بات ادھوری رہ گئی ۔
“چوبیس گھنٹوں سے میرا بیٹا لاک اپ میں ہے اور آپ لوگوں کو باتیں کرنے سے فرصت نہیں ہے ۔” جویریہ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی تھی ۔اسکے چہرے پر اعصابی دباؤ نظر آ رہا تھا ۔سرخ آنکھوں میں تیرتے آنسو بتا رہے تھے کہ وہ کافی دیر سے روتی رہی تھی ۔
“ہم سے جو ہو رہا ہے وہ ہم کر رہے ہیں ۔تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔تم اپنے کمرے میں جاؤ۔”مسز یزدانی نے کوفت سے کہا۔وہ اسے دیکھ کر یونہی کوفت میں مبتلا ہو جاتی تھیں ۔
“خدا کے لئے آپ خاموش رہیں ۔میں اس وقت آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔” اسنے درشتی سے کہا اور اندر آ کر کریم یزدانی کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔”آپ کے اتنے کانٹیکٹس ہیں، منسٹرز تک آپ کو جانتے ہیں تو آپ میرے بچے کے لئے کچھ کیوں نہیں کرتے؟ آپ اسے گھر کیوں نہیں لاتے؟ “آنسو پھسلتے تھوڑی تک آنے لگے۔
“جنکے ساتھ میرے تعلقات تھے وہ سارے ابھی اپوزیشن میں بیٹھے ہیں ۔میں کوشش کر رہا ہوں. تم سے زیادہ مجھے اسکی پروا ہے۔اسلئے فضول میرا دماغ خراب مت کرو۔”انہوں نے اسے جھڑکا۔جویریہ نے اپنی سرخ آنکھیں اوپر اٹھائیں اور کریم یزدانی کو اسکی آنکھوں میں تپش دکھائی دی تھی۔
” وہ میری زندگی میں موجود واحد خونی رشتہ ہے ۔میرے سارے رشتوں کو تو آپ چھین چکے ہیں اور اگر کسی نے آپ سے اپنی دشمنی نکالنے کے لئے میرے حمزہ کو پھنسایا ہوگا تو میں آپ کے اس محل میں آگ لگا دونگی۔” اسنے نفرت انگیز لہجے میں کہا ۔کریم اور انکی بیوی حق و دق رہ گئے تھے ۔آج سالوں بعد جویریہ نے اپنے خاندان کا حوالہ دیا تھا اور ساتھ ہی انہیں دھمکی بھی دی تھی۔لمحے کے شاک سے ابھر کر مسز یزدانی صوفے سے اٹھ کر جویریہ تک آئیں اور اسکا بازو سختی سے دبوچا۔
” ہوش کے ناخن لو جویریہ! شاید تم کچھ ایسا نا کہہ جاؤ جس سے تمہیں زندگی بھر پچھتانا پڑے ۔” انہوں نے اسکا بازو جھٹکا دے کر چھوڑا۔
“جاؤ تم اپنے حواس درست کرو۔اگر تم سامنے رہیں تو مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہارے ساتھ کیا کر بیٹھونگا ۔” کریم نے اسے کرختگی سے کہا تو وہ جیسے ہوش میں آئی تھی۔اسکی آنکھوں میں ہراس پھیلتا نظر آیا اور وہ الٹے قدموں کمرے سے باہر نکل گئی تھی ۔
– – – – – – – – – –
وہ مگن سے انداز میں کسی دھن پر سیٹی بجاتا اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا اور بیڈ پر بیٹھے وجود کو دیکھ کر وہ جامد ہوا ۔اسکے قدم تھمے اور اسنے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھا۔
“آپ؟” اسکے ساکت لبوں میں حرکت ہوئی ۔وہ اسے دیکھ کر جتنا حیران نہیں ہوا تھا اس سے زیادہ وہ اسکے ہاتھ میں اپنا موبائل دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
“اتنے حیران کیوں ہو؟” وہ کھڑی ہوئی۔”مجھے اپنے کمرے میں دیکھ کر یا اسے دیکھ کر؟” اسنے موبائل آگے کیا۔
“جویریہ آنٹی! مجھے واقعی اندازہ نہیں ہے کہ آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں؟” خود کو سنبھالتا وہ آگے آیا۔
“میں صرف ایک دفعہ پوچھونگی اور اسکا جواب مجھے سچ کے علاوہ کچھ نہیں چاہئے ۔”اسنے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔اسکی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے پر غصہ تھا۔
“جی پوچھیں ۔”اسنے مطمئن لہجے میں کہا ۔
” حمزہ کے گرفتار ہونے میں تمہارا ہاتھ ہے نا؟ اور ان سب میں تمہارا کون ساتھ دے رہا ہے؟ وکی کون ہے؟ تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ “اسنے اس سے ہے در پے کئی سوالات کر ڈالے۔
وہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے بظاہر پورے سکون سے اسکی بات سنتا رہا ۔البتہ اسکے دل کی دھڑکن اس وقت بہت تیز ہو گئی تھی اور اندر ہی اندر وہ بہت ڈر گیا تھا ۔
” کیا میں آپ کو جواب دینے کا پابند ہوں ۔اور رہی بات حمزہ کی تو آپ جانتی ہیں کہ اسنے مجھ سے اس وقت جھگڑا کیا تھا جب میں نے اسکے دوست کو ڈرگز لیتے دیکھا تھا۔اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ماموں کے منع کرنے کے باوجود وہ کار ڈرائیونگ پر نکل جاتا تھا اور آخری چیز کسی لڑکی سے بدتمیزی کی ہے تو ٹین ایج میں ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں ۔”افہام نے براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کمال مہارت سے جھوٹ بولا ۔
” اپنی فضول باتیں بند کرو۔”وہ ترشی سے بولی۔” حمزہ کو میں اچھی طرح جانتی ہوں ۔وہ میرا بیٹا ہے ۔حمزہ کا دوست ڈرگز لیتا تھا وہ نہیں ۔اور مجھے نہیں معلوم کہ اسکی کار میں وہ سب ڈرگز کس نے ڈالے ہیں ۔وہ تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔اور بغیر ڈی ایل کے ڈرائیونگ کے متعلق بھی تم نے ہی انفارم کیا ہے ۔میں صحیح کہہ رہی ہوں نا؟ ”
” میں آپ کو جوابدہ نہیں ہوں۔”وہ کہتا ہوا آگے بڑھا ۔جویریہ نے سرعت سے اسکا بایاں ہاتھ کلائی سے پکڑ لیا ۔
” دیکھو افہام! میں نے تمہارے میسجز دیکھ لئے ہیں اور…. اور میں نے ہمیشہ نظر انداز کیا مگر میں تمہیں کسی سے فون پر باتیں کرتے ہوئے بھی سن چکی ہوں جس میں تم اپنے ماموں کے خلاف سازشیں کرتے ہو.۔اور آبش کی شادی کی رات بھی میں نے تمہیں بیوٹی پارلر کی مالکن سے مشکوک باتیں کرتے ہوئے سنا تھا ۔میں نے یہ سب جانتے ہوئے بھی کبھی تمہیں کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی ۔لیکن بات اب میرے بیٹے کی ہے اسلئے اب میں چپ نہیں رہونگی ۔میں تمہارے ماموں کو وہ ساری چیزیں بتاؤنگی جس پر میں نے اپنا منہ بند رکھا تھا اور تم جانتے ہو کہ تم مجھے روک نہیں سکتے۔”وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش میں اور کمزور پڑتی جا رہی تھی ۔اسکی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو گرنے لگے۔
افہام نے ایک طویل سانس لے کر اسے دیکھا۔” مجھے نہیں لگتا کہ آپ کی دھمکیاں مجھ پر اثر کرنے والی ہیں ۔کیونکہ جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ میں اکیلا نہیں ہوں یہ جنگ مجھے تنہا نہیں لڑنی۔اسلئے مجھ سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔” وہ بے نیازی سے کہتا بیڈ پر بیٹھ گیا اور اسکے ہاتھ سے اپنا موبائل لے لیا تھا۔
” افہام! “اسنے پھیکی ہوتی رنگت کے ساتھ اسے پکارا ۔اتنا تو اسے بھی پتہ تھا کہ سامنے بیٹھا وہ شخص اب مزید دس سالہ بچہ نہیں رہا تھا جو اس سے خوفزدہ ہو جایا کرتا تھا ۔
” وکی…. وکی کون ہے؟ اسکا اصل نام کیا ہے؟” اسنے آخری کوشش کے طور پر پوچھا۔
“ہاں اسکا جواب دینا قدرے آسان ہے ۔وکی میرا دوست ہے اور اسکا حقیقی نام حسن مجتبٰی ہے۔”
اسنے بتایا اور جویریہ کو اپنے پیروں پر کھڑا ہو ا مشکل لگنے لگا۔اسکا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو گیا تھا ۔
” مجھے وکی… مجھے وکی سے ملنا ہے ۔وہ تمہارا دوست ہے نا۔اس سے کہو کہ اسکی پھپو اس سے ملنا چاہتی ہے ۔”اسکی آواز اس لمحے کسی بھی جذباتیت سے عاری تھی۔
” آپ…. آپ وکی کی جویریہ پھپو ہیں؟” حیرانی کا لفظ اس کیفیت کے لئے چھوٹا تھا جو اس وقت افہام حیدر محسوس کر رہا تھا ۔
” اس سے کہو کہ میں کریم یزدانی کو کبھی نہیں بتاؤنگی کہ وہ انکے ساتھ کیا کر رہا ہے ۔مجھے بس اپنا حمزہ واپس چاہیے ۔”
– – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...