حمید سہروردی(گلبرگہ)
فجر کی نماز ادا کر نے کے بعدسے ہی علی جان مسر ور و شا دماں نظر آرہا تھا۔ اس کے دل میں کوئی خوشی سمائی ہوئی تھی ۔وہ اپنے ہر کا م میں اس قدر تیزی دکھا رہا تھا کہ ہر کام دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہوتا جارہا تھا ۔صاحبجی کو علی جان نے چائے لا کر دی اور صاحب جی نے کہا :ــ’’میں آج ایک ضروری کام سے با ہر جا رہا ہوں ‘‘۔اتنا کہہ کرصا حب جی اپنے ضروری کام کر کیواپس آئیں گے پھر میں اپنی خو شی سے واقف کر اوں گا ۔علی جان ،کبھی ادھر ،کبھی ادھر ، اس کے قدم ایک جگہ نہیں رک رہے تھے کبھی گنگنا رہا ہے ،کبھی بچوں کے ساتھ میٹھی میٹھی با تیں کر رہا ہے۔کبھی ایک کمرے سے دوسرے کمرے کی صفائی کے لیئے جا رہا ہے۔شاید ہی کبھی علی جان اتنا خوش رہا ہوگا۔
خلاف توقع صا حب جی دوپہر میں گھر واپس نہیں آئے ۔علی جان نے اتنا کبھی انتظار نہیں کیا ہوگا۔علی جان کو کسی قدر تشو یش ہونے لگی ۔آخر کیا وجہ ہے! آج صاحب جی دو پہر میں کیو ں نہیں آئے۔؟؟۔
سورج دن بھر کے منظر سے معدوم ہوتا ہوا پہاڑوں کی اس طرف چلا گیا۔صاحب جی آئے خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔علی جان نے انھیں کمر ے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا اور فوراً چائیبنانے کے لیے مستعد ہوگیا ۔پھر اُسے خیال آیا ،آجصاحبجی ناشتے کے فوراًبعد ہی کسی کام سے باہر چلے گئے تھے ۔ان سے پوچھ لیا جائے کہ کیا وہ کھانا کھانا پسند کریں گے ۔ویسے علی جان کو معلوم تھا کصاحب جی اس وقت کھانا نہیں کھائیں گے وہ تو مغرب کی نمازپڑھ کر ہی رات کا کھا نا کھایا کرتے ہیں۔
علی جان،صاحب جی کا ایسا ملازم جو ہر وقت سائے کی طرح ساتھ رہتا ہے۔ بیگم صاحب کے انتقا ل کیء بعد رلی جان کی توجہ صاحب جی پر زیادہ تھی۔ وہ ہر وقت ان کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔
علی جان نے ساحب جی کے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا :………………
’’صاحب جی !کھانا لگاؤں ۔‘‘
صاحب جی کپڑے بدل کر آرام کر سی پر بے سدھ پڑے ہوئے تھے ۔خاموش۔علی جان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے ۔پھر بھی اس نے ان کے قریب جاکر آہستہ سے پوچھا : ’’کیا،صاحب جی!‘بہت تھک گئے ہیں؟‘‘
صاحب جی نے کر وٹ بدلی اور کہا :نہیں ،کوئی خاص بات نہیں ہے ۔تم جاؤ …………………… تمہیں معلوم ہے ،یہ میرے کھانے کا وقت نہیں ہے ۔
’’مگر آپ صبح صرف ناشتہ کر کے چلے گئے تھے ۔دو پہر کا کھانا بھی آپ نے نہیں کھایا ‘‘۔علی جان اپنی ہی ترنگ میں کہتا رہا ۔
’’اب تم جاؤ مجھے اکیلا رہنے دو‘‘۔
’’کیوں سر درد ہو رہا ہے ؟‘‘
’’نہیں ؟‘‘
’’پھر کیا بات ہے ؟صاحب جی!‘‘
صاحب جی خاموش رہے اعر پھر آرام کر سی پر پیر پھیلا کر آنکھیں بند کرلیں ۔علی جان سوچتا رہا …………کہیں آج صاحب جی ، بیگم صاحب کی یا دوں ہیں تو کھوئے ہوئے نہیں یا پھر کسی اور کام کی وجہ سے …………مگر کون سا کام ہو سکتا ہے ؟!صاحب جی تو ہر وقت ہشاش بشاش رہتے ہیں ۔ہو سکتا ہے ،دن بھر کی تھکن سے نڈھا ل ہوگئے ہوں …………علی جان نے بغیر کسی اطلاع کے کمر ے سے نکل گیا ،اور کچھ دیر میں چائے لے کر کمرے میں داخل ہوا ۔ صاحب جی بدستور اسی حالت میں تھے ۔
علی جان نے انھیں آواز دی :آپ تھکے ہوئے ہیں لیجیئے چائے لے کر آیا ہوں ۔‘
اب صاحب جی ’’ہوں ‘‘کہہ کر آرام کر سی پر سیدھے ہوگئے ،اور سامنے آئے ہوئے ٹیبل پر رکھی ہوئی ٹرے پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی ۔علی جان نے آگے بڑھ کر چائے کا کپ صاحب جی کو دے دیا، پھر اپنے ہی مو ڈ میں کہنے لگا :’’کیا، ۔۔۔صاحب جی ! طبیعت ٹھیک نہیں ؟‘‘
’’نہیں ،بس یو نہی ۔۔۔۔۔کسی قدر تھکن سی محسوس کر رہا ہوں ۔‘‘
’’میں نے سمجھا ،کوئی خاص بات ہے ۔‘‘علی جان ، صاحب جی کو بات کرتے ہوئے
دیکھ کرخو ش ہوا۔
’’صاحب جی ! آپ نے کھانا نہیں کھایا !‘‘
’’نہیں ، میں نے کھانا کھا لیا تھا اپنے دوست کے گھر ۔‘‘
’’صاحب جی! ایک بات کہوں ؟آج فجر کے بعد ہی سے مجھے احساس ہو رہا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ،ہاں ،کہو،کیا بات تمہارے احساس میں اتر آئی ہے؟‘‘
علی جان کچھ دیر خاموش رہا اور ،ادھر ادھر کمر ے پر نظر ڈالی ۔
’’کہو ، کیا بات ہے ؟ خاموش کیوں ہو ؟ ادھر ادھر کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘کوئی راز کی بات ہے ؟۔۔۔۔۔کیوں ؟پھر اب کئی شادی کر نے کا خیال تو نہیں آیا؟!‘‘
’’نہیں ،صاحب جی ! اس عمر میں شادی کر کے کیا کروں گا !‘‘
’’تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟!‘‘
’’بات یہ ہے کہ آج صبح۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ،بھئی آج صبح کیا ہوا۔۔۔۔؟!‘‘
علی جان پھر صاحب جی کو دیکھنے لگا۔
’’کہو ،کیا کہنا چاہتے ہو !۔۔۔۔۔مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو ؟!‘‘ میر ی مدد کی ضر ور ت
ہے ؟‘‘
’’صاحب جی ! آج صبح میر ے جی میں آیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا آیا تمہا رے جی میں ؟۔۔۔۔جلدی کہو ۔میر ی مدد کی ضرور ت ہو تو کہو ، میں تمہاری مددکروں گا۔‘‘
’’ہاں کچھ ایسا ہی ہے ۔ آپ کی مدد کی ضرورت تو ہے ۔۔۔۔۔میں آپ سے صرف یہ پوچھنا چا ہتا ہوں ۔۔۔۔‘‘
’’اب کہو گے بھی یا یوں ہی پہیلی بجھواتے رہوگے!‘‘
’’ہاں ، تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔صاحب جی !۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج صبح میر ے جی میں آیا
کہ میں کربلا جاؤں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیو ں نہیں ! ضرور جا سکتے ہو ۔۔۔لیکن تم کربلا کیوں جانا چاہتے ہو؟!‘‘
’’صاحب جی !‘‘ سچ تو کہ ہے ، مجھے خود بھی معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘‘اور علی جان
صاحب جی کی طرف دیکھنے لگا۔
’’بھئی یہ کیا بات ہوئی کہ تم کربلا جانا چاہتے ہو ۔۔۔۔۔کیوں جاناچاہتے ہو ،معلوم
نہیں !‘‘
’’بس !،صاحب جی !فجر کی نماز کے بعد یہ خیال آگیا۔‘‘
’’میاں ! کربلا جاکر کیا کرو گے ؟‘‘
علی جان ویسا ہی کھڑا رہا اور زیر لب بڑبڑ انے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ہاں! کربلاجاکر
کیا کروں گا!!‘‘
جب ’کربلا‘تمہارے احساس میں شامل ہے تو کربلا جاکر کیا کروگے !وہاں تمہاری آنکھیں اشک بار ہو جائیں گی۔‘‘
صاحب جی ! آنکھیں اشک بار کیو ں ہوں گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کربلا تو عبر ت کی جگہ ہے ۔‘‘
’’کیا کہا۔؟!۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کچھ نہیں ،صاحب جی !یہ سب کچھ تو آپ کی خدمت میں رہنے کا نتیجہ ہے ۔سچ تو یہ ہے،ساحب جی !، جب آپ جھوم جھوم کر کتابیں پڑھتے رہتے ہیں تو میں آپ کو دیکھ دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کربلکا دیکھ لیتا ہوں اور ایسا لگتا ہے ،صاحب جی !اب ہیں کربلا کا گیان پاہی لوں گا۔‘‘
’’تم جب کربلا اپنی آنکھوں میں بسائے ہوئے ہو تو پھر کربلا جاکر کیا کرو گے؟۔نہیں بابا !نہیں!!۔۔۔۔۔میرے پڑھتھے رہنے سے تمہہیں کر بلا کیو ں کر سمجھ میں آئے گا۔!۔۔۔۔کر بلا تو متقی اور پرہیز گار لوگوں کا مقدر ہے۔‘‘
’’تو ،کیا میں کر بکا نہیں جا سکتا ؟ــ‘‘
کیوں نہیں !کیوں نہیں !!۔۔۔۔۔۔۔۔تم بھی تو متقی اور پریز گار لوگوں میں سے ہو!‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پھر میں کربلا کس طرح جاسکتا ہوں ؟‘‘
’’چونکہ تم نے کر بلا جانے کا ارادہ کیا ہے ، تم ہی جانو کہ کیسے جاؤ گے ۔۔۔۔۔۔میں کیوں کر جانوں !۔۔۔۔۔۔میں تو ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جن کامقدر کر بلا ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر کر بلا تو بہت دور ہے ۔‘‘
’’مگر میں تو کربلا جاؤ ں گا ۔‘‘
’’تمہارا جی جانا چاہتا ہے تو جاؤ ۔ میں تمہارے اس نیک ارادے کو کیو ں کر بدل سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’مگر ،صاحب جی ! راستہ تو آپ ہی کو بتلانا ہوگا ۔‘‘
’’میر ے مقدر میں کربلا نہیں ہے ۔‘‘
’’ایک بات کہو ں صاحب جی ! آپ بُرا تو نہیں مانیں گے ؟!
’’ارے ! تم تو باتیں کیے جارہے ہو ۔ میں کیوں تمہاری بات کا بُرا مانوں گا۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔۔کہو !‘‘
’’صاحب جی ! میں آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا تھا ، میری بند آنکھوں میں سُرخ رنگ ہی نظر آتا ہے ۔ کیا ککربلا کی زمین بھی سُر خ ہے ؟ــ‘‘
’’پتہ نہیں ، تم جانو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’پھر آپ کتابوں میں کیا پڑھتے ہیں صاحب جی ؟!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
علی جان ، صاحب جی کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھنے لگا۔
صاحب جی نے آرام کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’تم نہیں مانوگے ۔، میں کتابوں میں کچھ اور ہی پڑ ھتا ہوں ۔ تم نہیں سمجھو گے ۔‘‘
’’اور اخبارات میں کیا ہوتا ہے ؟صاحب جی !‘‘
’’خبر یں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور کون کون سی ضروری اشیاء کی قیمتو ں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’پھر سرکار کیا کر تی ہے ؟!،صاحب جی !‘‘
’’سر کار بھاشن سیتی ہے ، اور کیا کر تی ہے!‘‘
’’کیا وہ بھاشن ہی دیتی ہے ۔؟‘‘
’’ہاں ! وہ صرف بھاشن ہی دے سکتی ہے !‘‘
’’ایسا کیو ں ہوتا ہے ؟،صاحب جی !‘‘
’’ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کربلا بہت دور ہے ۔بس!۔۔۔۔۔۔۔۔تم اب یہاں سے جا سکتے ہو ۔‘‘
’’کیا۔، صاحب جی !ْناراض ہو گئے ؟‘‘
’’نہیں ، علی جان ! اب تم جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔تم نہیں سمجھو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔‘جو لو گ کر بلا سے نہیں گزرتے وہ بھا شن دے کر شانت ہو تے ہیں ‘
’’ اور جو مطمئن نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’وہ کر بلا کے آرزو مند ہوتے ہیں ۔‘‘
’’اور وہ ، صاحب جی ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اور کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’وہ جو کر بلا کو بھی جانتے ہیں اور بڑ ھتی ہوئے قیمتو ں سے بھی واقف ہو تے ہیں ،وہ کیا
کرتے ہیں ؟‘‘
’’وہ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو بس کر بلا ہیں بسر ہوتے رہتے ہیں ۔‘‘
’’ایسا کیسے ہوتا ہے ؟صاحب جی !‘‘
’’یہ مت پو چھو کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے۔اب تم جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
صاحب جی خامو ش ہو تے ہیں اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیتے ہیں اور آرام کر سی پر پیر پھیلایے ہیں ۔
علی جان ، صاحب جی کی طر ف دیکھتا ہے ۔ وہ بھی لفظوں کو تھام لیتا ہے۔اور صاحب جی کو آرام کر تے دیکھ کر کمرے سے ، بڑبڑاتا ہوا با ہر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید کربلا بہت دورہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹی کنکر اور ہوا : پروفیسر حمیدسہروردی
شام کے منظر نامے میں
خواب سبھی کچھ بکھرے بکھرے رہتے ہیں
رات تلک اک سناٹا
مٹی کنکر اور ہوا
سب آہستہ آہستہ
بولنے لگتے ہیں
رات تمہاری ہوتی ہے
رات مری کب ہوتی ہے
خواب سے آگے کچھ بھی نہیں
رات سے آگے کچھ بھی نہیں