کرم مانگتی ہوں،عطا مانگتی ہوں
الہی میں تجھ سے دعا مانگتی ہوں
ہوا ہے نہ مایوس ،تیری سوالی
نہیں تیرے در سے گیاکوئی خالی
غریبوں پر تو رحم کر یاالہی۔۔۔
مریضوں کی خاطر، شفاء مانگتی ہوں
کرم مانگتی ہوں، عطا مانگتی ہوں
وہ انتہائی جذب اور عقیدت سے لبریز لہجے میں یہ اشعار پڑھ رہی تھی۔ اُس کا ایک ایک لفظ دکھ اور درد سے لبریز تھا۔۔۔اُس کے گلے اور آواز پر اللہ کا خصوصی کرم تھا۔رات کے اس پہر میں اس کی آواز کمرے کی کھلی کھڑکی سے باہر کوریڈور تک جا رہی تھی۔جمیلہ مائی آنکھیں بند کیے اپنی بیٹی کی آواز کے سحر میں گم تھی۔اُسے معلوم ہی نہیں تھا کہ بہت سے بے آواز آنسو اس کی بیٹی کے گالوں پر پھسل رہے تھے۔
’’سکینہ تم ٹی وی پر ہونے والے نعتیہ مقابلے میں حصّہ کیوں نہیں لیتی ہو۔۔۔؟؟؟‘‘اگلی صبح ڈاکٹر خاور نے اس کی فائل چیک کرتے ہوئے اچانک کہا تو وہ چونک گئی۔اس کی آنکھوں میں سخت تحیّر دیکھ کر انہوں نے وضاحت کی۔
’’بھئی میں رات آپریشن تھیٹر سے فارغ ہو کر یہاں سے گذر رہا تھا تو تمہاری آواز نے پھرمیرے پاؤں جکڑ لیے،مجھے سسٹر فاطمہ نے بھی کہا کہ سکینہ کی آواز میں بہت سوز ہے۔‘‘ وہ آج کافی دن کے بعد اُس سے پرانے دوستانہ انداز میں مخاطب تھے،ورنہ پچھلے کچھ عرصے سے انہوں نے اُس سے بات کرنا بالکل چھوڑ دی تھی۔وہ کافی زیادہ مصروف تھے اور صبح کو راؤنڈ بھی جلدی جلدی کرتے تھے ۔اسی وجہ سے سکینہ کو اپنی زندگی میں کوئی دلکشی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
’’بھئی میں آپ سے مخاطب ہوں۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اُس کے آگے چٹکی بجائی تو وہ ایک دم ہی حقیقت کی دنیا میں آگئی ۔اُس نے شرمند گی سے سر جھکا لیا۔’’کیا کہہ رہے تھے آپ۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے خفّت زدہ انداز سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں ،میں کہہ رہا تھا کہ ایک اسلامی چینل کا مالک میرا دوست ہے وہ اپنے چینل پر کسی آل پاکستان نعتیہ مقابلے کا تذکرہ کر رہا تھا۔مجھے اچانک آپ کا خیال آگیا۔‘‘وہ اب تفصیل سے اُسے بتاتے ہوئے غور سے دیکھ رہے تھے۔جو کافی کمزور کمزور سی لگ رہی تھی۔
’’میں تو کسی بھی مقابلے میں حصّہ لیے بغیر ہی آؤٹ ہوں ڈاکٹر صاحب،جانے دیں۔۔۔‘‘اُس کااستہزائیہ انداز ڈاکٹر خاور کو بالکل بھی اچھا نہیں لگا ۔انہوں نے تاسف بھرے انداز سے اُسے دیکھا ۔جس میں تبدیلی کا عمل بہت تیزرفتاری سے آیا تھا۔
’’آپ مجھے بہت مایوس کر رہی ہیں سکینہ۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے لہجے میں اس قدر سنجیدگی تھی کہ سکینہ کے دل کی دھڑکنیں ایک دم ہی بے ترتیب ہوئیں۔ وہ کچھ لمحے کھڑے اُسے دیکھتے رہے ان کے چہرے کے نقوش کچھ تن سے گئے اور پھروہ کچھ بھی کہے بغیر بڑی سرعت سے کمرے سے نکل گئے۔
وہ سکینہ اللہ دتّا سے ناراض ہو گئے تھے۔یہ بات اس کے دل کا سکون لمحے بھر میں غارت کر گئی ۔اُسے ایسا لگا تھا کہ کمرے کی ہر چیز ہی اس سے خفا ہو گئی تھی۔فضا میں خفگی کے بادل پھیل گئے تھے ۔الماری ،میز،کرسیاں،برتن سب کے ارد گرد ناراضگی کا دھواں پھیل گیا ایسی فضا میں اُس کے لیے سانس لینا محال ہو رہا تھا۔سکینہ نے نم آنکھوں سے برگد کے بوڑھے درخت پر بالکل اُداس اور تنہا چڑیا کو دیکھا۔اُسے لگا کہ اس کا وجود چڑیا کے اندر سرائیت کر گیا ہے۔جیسے جیسے وقت گذر رہا تھا اعصاب پر بوجھ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔جب اس کی برداشت کی انتہا ہو گئی تو وہ بے بسی سے ہچکیاں لے کر رونے لگی تھی۔جب روتے روتے تھک گئی تو اُس نے اپنا بازو آنکھوں پر رکھ لیا ۔
’’اے بٹّو رانی،وڈے ڈاکٹرصاحب پھیرا لگا گئے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ امّاں کینٹین سے دو چائے کے کپ اور ایک پلیٹ میں پیلے پیلے رس کیک رکھے ہانپتی کانپتی اندر داخل ہوئی اور اُسے بالکل خاموش دیکھ کر اُس نے بالکل درست اندازہ لگا یا تھا۔ آج کل وہ ڈاکٹر خاور کے راؤنڈ کے بعد ایسے ہی گم سم ہو جاتی تھی۔
’’امّاں ہزار دفعہ کہا ہے کہ مجھے یہ بٹّو نہ کہا کر،وٹیّ کی طرح میرے سر میں لگتا ہے۔۔۔‘‘اُس نے کہیں کا غصّہ کہیں نکالا ۔اُس کے بُری طرح چڑنے پر امّاں نے اب حیران ہونا چھوڑ دیا تھا وہ بہت سکون اور تسلّی کے ساتھ کیک چائے میں ڈبو ڈبو کے کھا رہی تھی۔
’’پر مجھے تو اچھا لگتا ہے۔۔۔‘‘امّاں معصومیت سے کہتے ہوئے مسکرائی ۔’’تجھے تو آج کل ہر گلّ ہی زہر دی پُڑی لگدی اے پتّر،تے فیر میں کی بولنا ہی چھڈ دیاں‘‘ جمیلہ مائی نے چائے کی لمبی چسکی لی۔وہ کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے بالکل ہی پنجابی میں بات کرنے لگتی ۔
’’امّاں ہزار دفعہ کہا ہے کہ یہ اپنی پنڈ والی بولی یہاں نہ بولا کر۔اچھی خاصی اُردو بولتی بولتی خوامخواہ پٹری سے اتر جاتی ہے۔ ‘‘سکینہ کو ایک اور بات پر غصّہ آگیا ۔اُس کی بات پر اماں نے اُسے یوں دیکھا تھا جیسے اُس کی خرابی طبیعت کا یقین آگیا ہو۔
’’لو میرے پنڈ کی بولی ہے مجھے اُس پر فخر ہے۔ ایویں کملی نہ بنا کر۔جو قومیں اپنی زبان،اپنے لباس اور اپنی شناخت پر شرماتی ہیں ،پتّر وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ پرائے چولے اور پرائی بولیاں بھی کہیں اپنی بنی ہیں۔۔۔‘‘ امّاں کی بات پر اُس نے غصّے سے ہنکارہ بھرا اور بمشکل خود کو بولنے سے روکا ۔جب کہ امّاں ایک دفعہ پھر شرارت سے گویا ہوئی۔
’’چل میری جھلی دھی چاء پی لے،چل غصّہ جان دے۔نکّی جئی جان نوں وختے نہ پایا کر(چھوٹی سی جان کو مصیبت میں نہ ڈالا کرو)۔۔۔‘‘امّاں کی بات پر اُس نے جھنجھلا کر تکیہ منہ پر رکھ کر دیوا ر کی طرف ایسے منہ کر لیا کہ اب اُس کی پشت جمیلہ مائی کی طرف تھی۔ جمیلہ مائی کا دل اُس کے اس انداز پر دکھ سے بھر گیا ۔اُس نے چائے کا کپ ادھورا ہی چھوڑ دیا تھا۔وہ اب سکینہ کی پیٹھ کی طرف نظر جمائے کسی گہری سوچ میں تھی۔
***********************
وہ سائیکلوجسٹ ماہم منصور کی زندگی کا ایک اور دلچسپ لیکن پیچیدہ کیس تھا۔۔۔
اٹھائیس سالہ ثنائلہ زبیرکا شمار ڈائجسٹ ادب کی دنیا میں بہترین اور بہت مشہور رائٹر کی حیثیت سے ہوتا تھا۔اُس نے اپنا پہلا ناول صرف پندرہ سال کی عمر میں لکھا تھا۔اُس ناول نے مقبولیت کے بے پناہ ریکارڈز توڑتے ہوئے ثنائلہ کو صف اوّل کی لکھاریوں میں لاکھڑا کیا تھا۔ اپنے نو سالہ تحریری کےئریر میں وہ بیشمار کتابوں کی مصنفّہ،ایک بلند پایہ شاعرہ کے طور پر ادبی حلقوں میں اپنا ایک مقام بنا چکی تھی،لیکن اُسے خود ذاتی طور پر ’’نثر‘‘کا میدان پسند تھا۔وہ اب شاعری کو چھوڑ کربس نثر کی طرف ہی راغب ہو چکی تھی۔
وہ ایک عجیب سی اُداس شام تھی۔۔۔فضا میں اُداسی کے بادل چھائے ہوئے تھے،جب اُسے اس کے کلینک کی ریسپشن پر موجود لڑکی نے ثنائیلہ کے آنے کی اطلاع دی تھی۔ماہم نے اُسے بالکل بھی انتظار نہیں کروایا ۔۔۔
’’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ مجھے یہاں آنا چاہیے تھا کہ نہیں،لیکن میں آگئی ہوں۔۔۔‘‘ماہم نے سیاہ شلوار سوٹ میں بالکل ایک عام سے نقوش کی حامل لڑکی کو اپنے کلینک میں آتے دیکھا۔اُس کے چہرے پر تذبذب کے آثار تھے۔ وہ کلینک میں آتو گئی تھی لیکن بہت زیادہ شش و پنج کا شکار تھی۔اپنے مریضوں کی طرف سے ایسا رویہ ماہم کے لیے نیا نہیں تھا۔
’’اتنی چھوٹی سی عمر میں ایسی سوچیں تو بندے کو بہت جلد بوڑھا کر دیتی ہیں۔دفع کریں سب باتوں کو،آرام سے بیٹھیں،میں خود پچھلے ایک گھنٹے سے سخت بور ہو رہی تھی۔۔‘‘ماہم کے لہجے کی شگفتگی اور بلا کی بے تکلفی نے ثنائلہ کو بڑی خوشگوار سی حیرت میں مبتلا کیا تھا۔ اُس نے اپنے سامنے بیٹھی فیروزی کلر کے سوٹ میں بلا کی حسین لڑکی کو دیکھا ،وہ کہیں سے بھی سائیکلوجسٹ نہیں لگ رہی تھی۔اُس کے لہجے میں نرمی اور دیکھنے کے انداز میں ایک دوستانہ پن نمایاں تھا۔
’’میں سب سے پہلے وضاحت کر دوں کہ میں کسی بھی طرح سے کم عمر نہیں ہوں،اٹھائیس سال عمر لڑکیوں کے لیے ایک معنی رکھتی ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کے لہجے کی سنجیدگی پر ماہم مسکرائی اور خوشگوار لہجے میں کہا۔
’’افسوس کہ ثنائیلہ آپ جس لڑکی کے سامنے بیٹھی ہیں وہ جسمانی عمر سے زیادہ ذہنی عمر کو اہمیت دیتی ہے۔ میرے خیال میں تو بڑھاپا بھی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جب آپ بیس اکیس سال کی عمر میں خود کو بوڑھا سمجھنے لگیں تو آپ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔لیکن اگر آپ ساٹھ ستّر سال کی عمر میں بھی ذہنی طور پر خود کو توانا محسوس کریں تو یقین کریں کہ موت کے آخری لمحے تک بھی بڑھاپا نام کی کوئی چیز آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔۔۔‘‘ ماہم نے ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ اپنے سامنے بیٹھی تخلیق کار کو دیکھا تھا۔جس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔
’’آپ بہت حیران کن شخصیت کی حامل خاتون ہیں۔۔۔‘‘ اُس نے اعتراف کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ماہم اس کی بات پر بے ساختہ ہنسی ۔
’’مجھے تو بس اتنا پتاہے کہ ایک مشہور و معروف مصنفہ میرے روبرو ہے ،جس کے لفظوں کے پیچھے ایک دنیاپاگل ہے۔جو لفظوں سے ایسا سحر قائم کرتی ہے کہ لوگ اُس کی کشش سے نکل ہی نہیں پاتے۔جس کے کرداروں پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے جس کا تخیل انتہائی طاقتور ہے ۔میں اپنی دوست عائشہ کو بتاؤں گی تو وہ تو حیران ہو جائے گی۔وہ آپ کی تحریروں کی دیوانی ہے۔۔۔‘‘ماہم نے ریوالونگ چئیر کو گھماتے ہوئے بظاہر اُس سے گفتگو کا لیکن اندرون خانہ اپنے کام کا آغاز کر دیا تھا۔ اپنی تعریف پر ثنائیلہ کے چہرے پر پھیلنے والے رنگ بڑے فطری تھے لیکن اگلی ہی بات پر وہ فوراً کونشس ہو گئی۔
’’پلیز آپ میرے یہاں آنے کا کسی سے ذکر مت کیجئے گا آپ کو اندازہ نہیں کہ لوگ رائی کا پہاڑ بنانے میں کمال رکھتے ہیں۔۔۔‘‘وہ ٹشو پیپر سے اپنے چہر ے پرآنے والا نادیدہ پسینہ صاف کرتے ہوئے ایکدم گھبرائی۔
’’ڈونٹ ووری ثنائیلہ۔۔۔!!!!‘‘ ماہم نے فوراً اُے تسلی دی۔یہ ڈر،خوف بھی اس کے لیے نیا نہیں تھا۔اُسے معلوم تھا کہ لوگ جسمانی بیماریوں کے لیے تو دھڑلے سے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں لیکن ذہنی بیماریوں کے لیے کسی کے کلینک جاتے ہوئے ان کا دل کرتا ہے کہ کوئی سلیمانی ٹوپی اوڑھ لیں جس سے وہ باقی دنیا کو دِکھائی نہ دیں۔اسی بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ماہم نے اپنے کلینک کی سیٹنگ ہی ایسے کروائی تھی کہ یہاں سے داخل ہونے اور نکلنے کے لیے دو بالکل الگ گیٹ تھے۔دوسرا وہ کبھی بھی ایک وقت میں دو لوگوں کواکھٹے نہیں بلاتی تھی اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہو جاتا تو ان کو الگ الگ کمروں میں بنائی گئی انتظار گاہ میں بیٹھایا جاتا تھا۔اس لیے تو لوگ بے دھڑ ک ہو کر اُس کے کلینک آجاتے تھے۔
’’دیکھیں ثنائیلہ آپ یہ خوف اپنے ذہن سے نکال دیں۔آپ سمجھیں کہ آپ ایک مصنفہ کی حیثیت سے مجھے ملنے آئی ہیں اور اپنے کسی کردار کی ذہنی الجھنوں کو سلجھانا آپ کا مقصد ہے اور یہ ہی بات آپ ان لوگوں کو بتائیں گی جن سے آپ کی شناسائی ہو اور کبھی اتفاق سے یہاں آتے جاتے ٹاکرا ہو جائے۔‘‘ماہم نے اُس کی الجھن کا بہت عمدہ حل نکالا تھا۔اس بات سے ثنائیلہ کے چہرے پر اطمینان اور سکون کے گمشدہ رنگ بڑی سرعت کے ساتھ واپس آئے تھے۔
’’ہم باقی باتیں بعد میں کریں گے ،آپ پہلے یہ بتائیں کہ آپ کا اپناسب سے پسندیدہ ناول کون سا ہے؟؟؟‘‘ماہم نے بچوں کے سے اشتیاق سے پوچھا۔
’’وہ تو میں بھی بعد میں بتاؤں گی پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ ناول پڑھتی ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ثنائیلہ کے تجسّس بھرے انداز پر ماہم کھکھلا کر ہنس پڑی۔’’اچھا تو آپ کو لگ رہا ہے کہ میں آپ کے ساتھ کوئی ڈرامہ بازی کر رہی ہوں۔آپ اپنے کسی بھی ناول کی اسٹوری مجھ سے پوچھ سکتی ہیں۔۔۔‘‘ماہم کے پر اعتماد جواب پر ثنائیلہ ایک دم خفت کا شکار ہوئی تھی۔
’’نہیں میرا مقصد یہ نہیں تھا۔میرا خیال تھا کہ آپ اتنی زیادہ مصروف رہتی ہیں کہ آپ کے پاس کہاں ان ناولز ،اور افسانوں کے لیے وقت ہو گا۔۔۔‘‘اُس کی وضاحت پر ماہم ایک دفعہ پھر مسکرا دی۔
’’یار ایک بات کہوں۔۔۔؟؟؟‘‘ماہم کی بات پر اس نے تذبذب سے سر ہلایا۔
’’میرے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ مجھ سے اپنے ہم عمر یا اپنے سے چھوٹے لوگوں کو ’’آپ،آپ کر کے بات نہیں ہوتی۔یقین کریں پچھلے پندرہ منٹ سے شدید قسم کی بد ہضمی کا شکار ہوں۔۔۔‘‘اُس کے معصومانہ انداز پر ثنائیلہ کے حلق سے نکلنے والا قہقہہ بڑا فطری سا تھا۔’’اور میرے لیے کیا حکم ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے ہنستے ہنستے پوچھا ۔
’’خبردار لڑکی،تم نے اگر مجھے ’’آپ ،آپ کہہ کر مخاطب کیا تو جان نکال دوں گی۔۔۔‘‘اُ س نے انگلی اٹھا کر بے تکلفانہ انداز میں دھمکی دی تو ثنائیلہ ایک دفعہ پھر ہنس دی۔
’’ویسے مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے تو چھوٹی ہی ہونگی ۔۔‘‘ ثنائیلہ کا توصیفی انداز اور ستائشی نظریں ماہم کے لیے نئی نہیں تھیں۔اُسے معلوم تھا کہ لوگ اُس کی ظاہری خوبصورتی کے بعد اُس کے دوستانہ انداز کے شیدائی ہیں۔عام سی باتوں سے شروع ہونے والی گفتگواگلے تین گھنٹوں تک جاری رہی۔ ثنائیلہ اپنے ذہن کی تمام گرہیں ایک ایک کر کے کھولتی گئی۔
**********************
’’یہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ڈاکٹر خاور نے سخت تعجب اور حیرانگی سے کاپی کا صفحہ پھاڑ کر،گوند سے جوڑا ہوا لفافہ دیکھا تھا۔جو انہیں ابھی ابھی سسٹر ماریہ نے دیا تھا۔وہ اس وقت اپنے آفس میں آکر ابھی ابھی بیٹھے ہی تھے۔
’’سر یہ کمرہ نمبر آٹھ کی مریضہ سکینہ نے خصوصی طور پر دیا تھا کہ آپ تک پہنچا دوں۔۔۔‘‘سسٹرماریہ نے ڈرتے ڈرتے وضاحت دی۔’’آئی ایم سوری سر۔۔وہ بہت زیادہ منت اور واسطہ دے رہی تھی اور پھر میں اکثر اس سے نعتیں سننے اس کے کمرے میں چلی جاتی ہوں اس لیے ایک اچھا تعلق قائم ہونے کی وجہ سے مجھ سے انکار نہیں ہو پایا۔۔۔‘‘
’’اٹس او۔کے۔ سسٹر ماریہ۔۔۔!!!‘‘ ڈاکٹر خاور کو سکینہ کی اس بچگانہ حرکت پر خفت تو ہوئی لیکن انہوں نے اپنے کندھوں کو دباتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا تھا۔جب کہ انہیں اس طرح کندھے دباتے دیکھ کر سسٹر ماریہ تذبذب بھر ے انداز سے بولیں۔
’’ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ،کیا زیادہ تھک گئے ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ ادھیڑ عمر سسٹر ماریہ کو ڈاکٹر خاور میں ہمیشہ اپنے بڑے بھائی کی جھلک نظر آتی تھی جن کا انتقال ایک خود کش دھماکے میں ہو گیا تھا۔ وہ اس بات کا اظہار کئی دفعہ ان کے سامنے کر چکیں تھیں۔
’’بس سسٹر ماریہ ،آج سرجری کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی۔دس گھنٹے کے بعد باہر کی دنیا کی شکل دیکھی ہے لیکن الحمداللہ مریض کی حالت بہت تسلی بخش ہے۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی بات پر سسٹر ماریہ نے مسکرا کر انہیں دیکھا تھا وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ سرجن خاور کو اپنے پروفیشن سے عقیدت کی حد تک عشق ہے۔وہ دن رات کی تخصیص کیے بغیر کئی کئی گھنٹے ماتھے پر بل لائے بغیر اپنا کام کرتے رہتے تھے۔انسانیت کی خدمت کا جذبہ لگتا تھا کہ ان کے جسم میں لہو کے ساتھ گردش کر تا تھا۔
’’میں بہت شرمندہ ہوں آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ کے باہر جاتے ہی انہوں نے لفافہ کھولا تو اندرسکینہ کی بچگانہ سی لکھائی میں لکھا یہ جملہ پڑھ کر وہ مسکرا دیے۔اس نے اردو میں جملہ لکھنے کے بعد نیچے ایک پھول سا بنا کر انگلش میں ’’سوری‘‘ لکھا تھا جس کے اسپیلنگ میں غلطی پر نظر پڑتے ہی وہ بے ساختہ ہنس پڑے ۔
’’کیا ہو گیاخاور صاحب؟کون سا زعفران کا کھیت دیکھ لیا ہے جو یوں چپکے چپکے مسکرائے جا رہے ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ڈاکٹر ضویا جو ابھی ابھی ان کے کمرے میں آئیں تھیں۔اُن کو اکیلے بیٹھے ہنستے دیکھ کر خوشگوار حیرت کا شکار ہوئیں۔
’’یہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ڈاکٹر خاور نے کاپی کا وہ صفحہ انکی جانب بڑھایا تو وہ دیکھ کر جی بھر کر حیران ہوئیں۔
’’کچھ نہیں مائی ڈئیر،یہ روم نمبر آٹھ کی مریضہ سکینہ کا معذرت نامہ ہے ۔۔۔‘‘انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا لیکن ان کی بات پر ڈاکٹرضویا کے چہرے پر پھیلنے والی ناگواری بھی ان کی زیرک نگاہوں سے چھپ نہیں سکی ۔
’’یہ اس نے رقعہ بازی کب سے شروع کر دی ؟مجھے تو آپ کی یہ مریضہ عجیب سی لگتی ہے ،آپ پتا نہیں کیوں اُسے اتنی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔۔۔‘‘ڈاکٹر ضویا کا موڈ ایک دم ہی خراب ہو گیا تھا حالانکہ وہ بہت اچھے موڈ کے ساتھ ڈاکٹر خاور کے ساتھ کافی پینے آئیں تھیں۔
’’کم آن ضویا۔۔۔اصل میں کاظمی کے چینل پر کوئی نعت کمپیٹیشن ہو رہا تھا میں نے سکینہ سے حصّہ لینے کو کہا لیکن وہ ان دنوں شدید قنوطیت کا شکار تھی اس نے مجھے خاصے رؤڈ الفاظ میں انکار کر دیا۔اس کے بعد میں دودن بزی تھا اس لیے راؤنڈ پر نہیں جا سکا اور وہ بے و قوف لڑکی سمجھی میں اُس سے خفا ہوں۔‘‘انہوں سے سادگی سے جواب دیا۔جب کہ ڈاکٹر ضویا کے دلکش چہرے کے زاوئیے ابھی تک بگڑے ہوئے تھے ۔
’’اور جہاں تک سکینہ کو اہمیت دینے کی بات ہے تو میں اپنے ہر مریض کو ایسے ہی اہمیت اور تو جہ دیتا ہوں۔آپ کو نہ جانے کیوں یہ بات عجیب لگی ہے حالانکہ آپ تو مجھے شروع سے جانتی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر خاور کا انداز ہنوز سادہ تھا۔وہ کافی بنانے کے لیے اب الیکٹرک کیٹل میں پانی ڈال رہے تھے۔
’’آپ کو شروع سے جانتی ہوں ،اسی لیے تو مجھے یہ بات بہت عجیب لگی ہے کیونکہ وہ واحد پیشنٹ ہے جس کو آپ بکس لا کر دیتے ہیں۔اُس کو اس کی بیماری کے متعلق چھوٹی چھوٹی باتیں بتاتے ہیں۔صبح و شام اس کی پروگراس پوچھتے ہیں۔ایسے میں وہ کسی خوش فہمی کا شکار ہو جائے تو اس میں اس کا تو کوئی قصور نہیں ناں۔‘‘ ڈاکٹر ضویا نے وہ سادہ سا کاغذ بڑی بے دردی سے میز پر اچھالا تھا۔ڈاکٹر خاور نے ہکا بکا انداز کے ساتھ اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا جو ان کی بہترین دوست ہونے کا دعوی کرتی تھی۔
’’آپ مانیں یا نہ مانیں،محترمہ نے یہ اپنی طرف سے لو لیٹر ہی لکھا ہے۔ماشاء اللہ بہت فاسٹ جا رہی ہیں محترمہ۔۔۔‘‘ڈاکٹر ضویا کے تلخ لہجے پر سرجن خاور چونکے۔
’’استغفر اللہ۔۔۔!!! ضویا یہ کہاں سے آپ کو لوّ لیٹر لگ رہا ہے۔آپ بھی بعض دفعہ کمال کر جاتی ہیں۔۔۔‘‘ ان کے انداز میں ہلکی سی ناگواری کی جھلک پا کر ڈاکٹر ضویا کچھ بے چین ہوئیں۔وہ ڈاکٹر خاور کے والد کے بہترین دوست کی بیٹی تھیں اور وہ اور ڈاکٹر خاور انگلینڈ میں اکھٹے ہی پڑھتے رہے تھے جس کی وجہ سے دونوں میں کافی بے تکلفی اور اچھی انڈرا سٹینڈنگ تھی۔وہ بھی کچھ عرصہ پہلے ہی پاکستان شفٹ ہوئیں تھیں اور ڈاکٹر خاور کی درخواست پر ان کا وارڈ جوائن کیا تھا۔
’’ڈاکٹر ضویا کیا آپ مجھے اس قدر کمزور کردار کا حامل سمجھ رہی ہیں ۔آپ کے خیال میں کیا میں اپنی مریضہ کے ساتھ فلرٹ کر رہا ہوں۔۔۔؟؟؟‘‘اُن کے دوٹوک انداز پر اور خصوصا لہجے میں موجود بڑی واضح ناراضگی پر ڈاکٹر ضویا کے ہاتھ پیر پھولے ۔
انہوں نے بوکھلا کر سامنے اضطراری انداز میں پیپر ویٹ اپنے ہاتھ میں گھماتے ڈاکٹر خاور کو دیکھا ۔جن کو سال میں ایک آدھ دفعہ ہی غصّہ آتا تھا اور وہ اس قدرشدید ہوتا تھا کہ وہ سامنے والے بندے کو حواس باختہ کر دیتا ۔اس سال کی وہ گھڑی آہی چکی تھی۔
’’آئی ایم سوری ڈاکٹر خاور۔۔۔!!!!‘‘ ڈاکٹر ضویا نے معاملے کو ختم کرنے کے لیے فوراً معذرت کی ۔
’’آپ کے خیال میں آپ کے سوری کے الفاظ کیا میری اُس تکلیف کا مداوا کر سکتے ہیں جو آپ کے منہ سے نکلنے والی تلخ بات کو سن کر میرے دل کو پہنچی ہے۔۔۔‘‘ وہ بڑی سرعت سے کھڑے ہوئے اور عجلت میں میز پر پڑا اپنا سیل فون اٹھا یا اور ڈاکٹر ضویا کو ہکّا بکّا چھوڑ کر برق رفتاری سے کمرے سے نکل گئے
’’ویسے یار ،ثنائیلہ زبیر دیکھنے میں کیسی لگتی ہیں؟اُن کی تصویر کبھی بھی کہیں شائع نہیں ہوئی۔۔۔‘‘عائشہ کی سوئی ابھی بھی اپنی فیورٹ مصنفہ میں اٹکی ہوئی تھی۔جن سے ملنے کا اُسے بہت اشتیاق تھا۔اُس کی بات پر ماہم نے بُرا سا منہ بنایا ۔
’’ستائیس اٹھائیس سال کی انتہائی عام سی لڑکی ہے۔موٹے موٹے سے نین نقش،اور قد کے لحاظ سے وزن بھی تھوڑا سا بڑھا ہوا ہے۔اگر تم مائنڈنہ کروتو سادہ سے الفاظ میں اُس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت خوبصورت الفاظ تخلیق کرنے والی ایک انتہائی عام شکل کی عام سی لڑکی ہے،لیکن لفظوں کا استعمال بڑی مہارت اور دلکشی سے کرتی ہے‘‘
’’واقعی،وہ عام سی شکل وصورت کی حامل ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ کو سخت تعجب ہوا ۔
’’ہاں ناں ڈریس سینس بھی بالکل نہیں ہے۔ ‘‘ماہم کو اچانک یاد آیا ۔’’آج کل کے دور میں کون شلوار قمیض پہنتا ہے۔محترمہ نے تنگ پائنچوں کے ساتھ گھٹنوں کے اوپر تک قمیض پہن رکھی تھی حالانکہ آج کل تو شیطان کی آنت جیسی لمبی شرٹس چل رہی ہیں اور محترمہ اس دور میں دقیانوسیت کا چلتا پھرتا اشتہار لگ رہی تھیں۔‘‘ماہم نے ہنستے ہوئے ان کا مذاق اڑایا تو عائشہ کو سخت بُرا لگا تھا
’’خیر اب شلوار قمیض پہننے والے کو ہم دقیانوسی تو نہیں کہہ سکتے ۔یہ تو ہر ایک کی پسند نا پسند ہوتی ہے۔اُن کو یہ درویشوں والے لمبے چوغے اور ٹراوزر نہیں پسند ہوں گے۔‘‘عائشہ نے اُن کی سائیڈ لیتے ہوئے موجودہ دور کے فیشن پر بھی طنز کیا تھا۔اُس کی بات پر ماہم ہنس پڑی ۔
’’یار تمہاری پسندیدہ مصنفہّ کے ساتھ مسئلہ بھی بہت عجیب و غریب ہے۔۔۔‘‘ماہم بڑے جوش کے ساتھ اٹھ کے بیٹھی گئی۔اُس کی بات پر فوراً چونکی اور سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا ۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟؟وہ کیا۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ نے سخت حیرت سے پوچھا۔
’’وہ بہت خوبصورت الفاظ کے ساتھ بہت پیارے کردار تخلیق کرتی ہیں۔ میں نے ان کی اپائنمنٹ کی تاریخ کے بعد صرف اور صرف ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان کے کچھ ناول پڑھے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ انتہائی محبت کے ساتھ ہی اپنی کہانیاں تحریر کرتی ہیں۔‘‘ماہم کے ستائشی انداز پر عائشہ بے ساختہ مسکرا دی۔اپنی پسندیدہ رائٹر کے لیے اس کی پسندیدگی عائشہ کو اچھی لگی ۔
’’تم نے ان کا ناول ’’ محبت روح کا درماں‘‘ پڑھا ہے؟؟؟؟‘‘ ماہم نے تجسّس بھرے انداز میں پوچھا تو عائشہ نے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’وہ ہی ناں جس کا ہیرو سکندر شاہ ہے جوکسی یونانی دیوتا کی طرح وجیہہ اور خوبصورت ہوتا ہے۔‘‘ عائشہ نے یاد دلایا۔
’’ہاں ،ہاں وہ ہی،اُسی کا تو سارا مسئلہ ہے۔۔۔‘‘ماہم پر اسرار طریقے سے مسکرائی۔
’’کیوں کیا ہوا۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ اُس کی مسکراہٹ پر الجھ سی گئی۔
’’سکندر شاہ ایک فرضی کردار تھا ۔جسے اس ناول کی مصنٖفّہ نے بہت محنت،توجہ اور لگن کے ساتھ تخلیق کیا تھا ۔اُن کا یہ ناول تین سال تک ایک ڈائجسٹ میں چلتا رہا اور اُس نے مقبولیت کے کئی ریکارڈ توڑ دیے ۔۔۔ہیں ناں۔۔۔؟؟؟‘‘
ماہم کی بات پر اُس نے تائیدی انداز سے سر ہلایا اور بڑے غور سے اُسے دیکھا جو مسلسل مسکرا رہی تھی ۔’’ہاں تو پھرمسئلہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’ مسئلہ یہ ہے کہ اُس ناول کی مصنفّہ کو اپنے ناول کے اس فرضی کردار کے ساتھ محبت ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ ماہم کی بات پر عائشہ کا د ماغ بھک کر کے اڑا جب کہ منہ حیرت کی انتہا پر پہنچ کر کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ اُس نے سخت بے یقینی سے ماہم کا مسکراتا چہرہ دیکھا۔
’’ایسے کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ کا تعجب اور حیرانگی کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔
’’اس بات نے ثنائیلہ صاحبہ کی ساری زندگی کو ڈسٹرب کر کے رکھ دیا ہے۔وہ شدید پریشانی کا شکا ر ہیں اور اُن سے اب ایک لفظ بھی نہیں لکھا جا رہا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ میری پروفیشنل زندگی کا ایک اور دلچسپ اور حیران کن کیس ہوگا۔۔۔‘‘ماہم نے ایک لمبی انگڑائی لیتے ہوئے عائشہ کو اطلاع دینے کے انداز میں بتایا تھا جو ابھی تک حیرانگی کے سمندر میں غوطے لگاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔’’یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کو اپنے ہی تخلیق کیے ہوئے ایک فرضی کردار سے محبت ہو جائے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
جب کہ ماہم اُس سے بے نیاز اپنے سیل فون پر رامس کے آئے ہوئے ٹیکسٹ میسج کو بہت غور سے پڑھ رہی تھی جس نے کراچی سے اُسے لکھ کر بھیجا تھا۔
کبھی شبوں کے اُداس آنگن میں یاد اترے
یا چاندنی اپنے بال کھولے۔۔۔
کواڑ کے روزنوں سے جھانکے۔۔۔
کتاب کھولو تو میرا عکس جھلملائے۔۔۔
ستارہ پلکوں پر جگمگائے۔۔۔
کبھی جو کمرے کی کھڑ کیوں سے ہوا کا جھونکا۔۔۔
گلاب رت کی نوید لائے۔۔۔
تو جان لینا۔۔۔
میں تمہیں یاد کر رہا ہوں۔۔۔
*******************************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...