کراچی روشنیوں کا شہر یہاں رات کا دوسرا پہر اپنی آب و تاب کے ساتھ سارے جہاں کی رعنایاں سمیٹے ہوئے تھا
مشہور زمانہ کلب جس میں لوگ اپنی پریشانیاں بھولنے کے لیے گناہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں روشنیوں سے بھری ہوئی سڑک پر ایک لینڈ کروزر آکر رکی جس کے آتے ہی سویل وردی میں ملبوس گارڈز ایکٹو ہوئے
سفید رنگ کی شلوار قمیض میں بازل شاہ کسی شہزادہ سے کم نہیں لگ رہا تھا ابھی اُسکے استقبال کے لیے اُسکے مخالفین باہر ہی آئے تھے جب عبداللہ کا نمبر اُسکی موبائل سکرین پر چمکا
"سر نور میڈم کی طبیعت خراب ہوگئی ہے جلدی آئیں”
بجلی کی تیزی سے بھاگا انکھوں میں سُرخی ایک سیکنڈ میں در آئی زن سے گاڑی بھاگا کر لے گیا وہاں کھڑے تمام نقوش ایک مرتبہ حیران ہوئے اُنکا بنایا ہوا پلان ایک سیکنڈ میں ختم ہوگیا تھا
"قسمت کب تک ساتھ دے گی تمہارا بازل شاہ”
مجوسی سے کہا اور دوبارہ پھر اندر کی طرف چلا گیا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
کلب کے ڈرنک کاؤنٹر پر کھڑے دونوں نقوش وہاں کی رعنائیوں کو دیکھ کر حیران تھے جب سے مایا اُسے لے کر آئی تھی پورے تین گھنٹے لگا کر ایک چور دروازہ سے اندر داخل ہوئے تھے اور وہاں ہاف ڈریس زیب تن کیے ہوئے لڑکیاں اپنی مدھوش کردینے والی اداؤں سے دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔محد نے تو تب سے آنکھیں نہیں اٹھائیں تھیں جبکہ مایا دو تین بار اُسکی حرکتیں نوٹ کر رہی تھی ساتھ ہی اپنے چہرے کے تاثرات بدل رہی تھی
"مسٹرنی جی ادھر کا کام بہت خراب ہے اپن واپس گھر جارہا ہے”
کلب میں ایلیٹ کلاس کے نیک اور شریف لوگوں کی اصلیت دیکھ کر اُسنے آنکھیں بند کرکے اپنے دائیں طرف کھڑی لڑکی کو کہا
"پپو آرام سے کھڑے رہو ورنہ گولی پہلی تمہارے سینے میں اتارنی ہے ”
جینز کے ساتھ کھولی سے شرٹ جو گھٹنوں تک تو آسانی سے آرہی تھی البتہ اسکارف تھوڑا موڈرن طریقے سے لیا ہوا تھا ماحول کے لحاظ سے اپنے آپ کو تھوڑا بہت بدلہ تھا
"مایا جی آپ بس مجھے ہی دھمکیاں دیتی رہا کریں ۔۔۔۔اپن سے نہیں دیکھیں جاتی اپنی ملک کی بیٹیاں اس حالت میں”
آنکھیں پر ہاتھ بدستور قائم تھے اور لہجے میں غیرت کا اثر نمایاں تھا
اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتا وہ اُسکی طرف سیدھی ہوئی سر پر اپنی سلانسر پروف پسٹل رکھ کر ٹریگر دبا دیا
اِس سے پہلے کے کچھ سمجھ آتا مایا کے چہرے پر پیچھے سے رومال رکھ دیا
"اوئے یہ ک۔۔۔۔۔”
اس سے پہلے کے محد اپنی مردانگی دکھاتے ہوئے اُن پر حملے کرنے کو تھا جن کے چہروں پر نقاب بدستور قائم تھے تب اُن میں سے ایک نے وہی رومال اُسکے چہرے پر رکھا
اور دونوں ہوش و حواس سے خمسہ ہوگئے
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ایک اندھیرا کمرہ جس میں اُسے چیئر کے ساتھ باندھ کر رکھا ہُوا تھا شاید کوئی سٹور روم تھا لیکن ہر چیز اپنی ہی جگہ پر ماجود تھی کہیں پے ڈسٹ نام کی کوئی چیز یا کوئی گندھی سمل آرہی تھی ایک نائیٹ بلب کی رونشی جس میں تقریباً سارا کمرہ نظر آرہا تھا
اپنے آپ کو ہوش میں لانے کے لیے سر بلکل جھٹکا تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بیدار ہوئی
ایک نظر ہاتھوں کو دیکھا جو بلکل نرمی سے بندھ رکھے تھے پاؤں میں کوئی رسی نہیں تھی
یہ بھی پتہ تھا کہ جان بھوج کر ایسا کیا گیا ہے پھر خود ہی اگلے بندہ کے پلان کو کامیاب کرنے کے لیے ہاتھ کھولے تو سامنے سکرین خود با خود آن ہوگئی جس میں سے آواز تو نہیں آرہی تھی بس کچھ بلیک سا تھا
تھوڑی دیر میں سکرین پر محد کا چہرہ تھا اور اُسکے اوپر چھوٹی سی پٹی پر لائیو لکھا ہوا تھا جو بلکل خون سے تر تھا شاید نیم بیہوش پڑا تھا اور ساتھ میں دو آدمی گنز لیے کھڑے تھے
اب ایسا لگ رہا تھا جیسے ذہن ماوف ہوچکا ہے
جو بھی تھا غلط کر رہا تھا
"چھوڑو اُسے”
اتنی اونچی آواز میں چلائی تھی کہ دروازہ کے پاس کھڑا وجود بھی ایک مرتبہ پیچھے ہوا اور کانوں پر ہاتھ رکھ لیے
"چھوڑ دیں گے مس مایا بس آپ کنٹرکٹ سائن کردیں ”
پیچھے سے بھاری اور گھمبیر آواز اُسے مڑنے پر مجبور کرگئی
"دی اُوشن کنگ بازل شاہ”
جسے وہ سیکنڈ میں پھچان سکتی تھی وہی ہُوا تھا جس کا ڈر تھا
"اُسے اور مت مارو۔۔۔۔۔۔ چھوڑ دو”
مایا شیخ اُس سے درخواست کر رہی تھی جو دو دن پہلے بدلے لینے کو تیار تھی ۔محد کی نڈال دیکھ کر دل کانپ رہاتھا
"کانٹیکٹ ”
یاد دھانی کروائی اور ایک پیج اُسکے سامنے رکھا
جسے ایک سیکنڈ میں جپھٹ لیا مباد اُس سے یہ آفر چھین نہ لے
"سائن کروں گی لیکن کچھ میری شرائط بھی ہونگی”
لہجہ بلکل پرسکون تھا
"کیا”
سخت لہجہ جیسے ماننے کا کوئی اردہ نہ ہو ویسے بھی اُسکی کمزوری تھی بازل کے پاس وہ کیوں مانتا
"میں کیسے مان لوں کے تم میرے ساتھ بھی دھوکہ نہیں کرو گے کیا پتہ تم میری محنت اپنے مفاد کے لیے استعمال کرو اور کانٹیکٹ بھول جاؤ”
اپنا خدشہ ظاہر کیا لیکن لہجہ کاٹدار تھا
"نکاح کر لو ۔۔۔۔۔۔اگر میری زبان پر یقین نہیں ”
دوسری طرف سے سہولت سے آفر دی گئی جیسے نکاح کا نے ہوا مذاق ہُوا
"لیکن میری تمام شرائط کے مطابق”
اب حیرتوں کے پہاڑ بازل پر گرے تھے کتنی جلدی ایک معمولی سے انسان کے لیے اپنی زندگی برباد کرنے کے لئے تیار تھی شاید وہ اُن لوگوں میں سے تھی جن کے لیے اپنی ذات کوئی معانی نہیں رکھتی یہ پھر جو بس دوسروں کے لیے جینا جانتی ہو
"Done”
اب آواز میں تشندگی تھی رکا نہیں تھا ایک خالی کاغذ اُسکے آگے پھینک کر چلا گیا تھا لیکن اِس وقت وہ سکرین پر غور نہیں کر سکی تھی جو پتہ نہیں کب سے بند تھی
پروفیشنل انداز میں اب پوری توجہ اُس پرجے پر تھی جس پر نمبروں کے حساب سے شرائط تحریر ہورہی تھیں
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"پھوپھو جانی”
رخسار ٹی وی پر ڈراما دیکھنے میں مصروف تھی جب مخصوص سے آواز اُسکے کانوں میں پڑتی تو خوشی کی لہر چہرے پر آئی
"نہیں تمھیں گھر میں کوئی روٹی نہیں دیتا جو منہ اُٹھا کر دوسرے دن ہمارے گھر آجاتی ہو”
اِس سے پہلے کے وہ رخسار تک پہنچتی سامنے دامل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اُسکے اگے حائل ہُوا
"دامل تمیز میں رہو ۔۔۔۔تمہاری یہ بھی بھابھی ہے اُس کے تو بڑے کلمہ پڑتے ہو”
رخسار نے آنکھیں دیکھیں
"ویسے کدھر ہے پھوپھو وہ طلاق یافتہ عورت بتانے آئی ہوں کے بہت جلد طالش اور میں نکاح کر رہے ہیں”
گردن اکڑا کر دیب کی طرف دیکھا جو پیچھے کھڑی تمام کاروائی دیکھ رہی تھی
"کل ہی تاشی سے بات ہوئی ہے پتہ ہے پھوپھو وہ تو رات دو بجے بھی یہی کہہ رہے تھے کے ابھی اور بات کرو لیکن نیند آگئی مجھے ”
اپنی خود ساختہ محبت کا قصہ سناتے ہوئے ایک مرتبہ دیب کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں آنسو ڈگمگا رہے تھے رخسار تو اُسکے صدقے واری جارہی تھی
دیب نے بے دھیانی سے اُس طرف کو قدم اُٹھائے شاید اُسکی آنکھوں میں جھوٹ تلاشنا چاہتی تھی
"رک جاؤ لڑکی تم طلاق یافتہ ہو تمہارے سخت قدم اور سایہ میری میری بہو پر نہ پڑے”
چلتی ہوئی دیب کے آگے آگئی جبکہ دمل پیچھے کھڑا اپنی ماں کی بے رحمی دیکھ رہا تھا آنکھوں میں بے یقینی تھی
جبکہ دیب نے اپنے قدم پیچھے کو لیے اور بھاگ کے اپنے کمرے میں بند ہوگئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°
"تم لوگوں کے ہاتھ سے وہ لڑکی بھی نکل گئی بہت کام کی چیز تھی وہ ”
اُسکی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی بس دروازہ کو ونڈو وائس پروف ہونے کی وجہ سے آواز باہر نہیں جارہی تھی
"سر وہ ایک عام سے فلیٹ میں رہتی ہے اُسے قابو کرنا آسان ہے لیکن بازل کل کو امریکہ واپس جارہا اور ویسے ملک اُس جیسے اہم شخصیت پر ہاتھ ڈالنا آسان کام نہیں”
اُسکا منیجر تھوڑا سہمے ہوئے انداز میں بولا
"نئے پلان بناؤ کل ایئرپورٹ جانے سے پہلے اُسکو ٹارگیٹ کرنا ہے ورنہ وہ خود تو ڈوبے گا ہمیں بھی ساتھ لے کر ڈوبے گا ”
آج چہرے پر ناگواری اور جلن تھی
"سر سیکیورٹی بہت زیادہ ہوتی ہے اگر اُسے کچھ ہوا تو سب سے پہلے امریکہ انویسٹیگیشن کرے گا”
ابھی وہ کچھ اور بولتا ایک زور دار پنچ اُسکے منہ پر پڑا
"اِس چیز کی تنخوائیں دیتا ہوں میں ”
اور ساتھ ہی اپنی گن نکال کر اُسے شوٹ کردیا
ایک مچھر جتنی بھی وقعت بھی تھی اُسکے سامنے انسان کی
"فخر کسی نئے منیجر کا انتظام کرو جس کے پاس ذہن ہو نہ کے بس زبان ”
موبائل رکھ کر ایک کک بے جان وجود کو ماری اور خود باہر چلا گیا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...