رئیس فروغ صاحب ہمیشہ میرے لیے خوش بو سے بھری بند کتاب کی طرح رہے۔ مجال ہے کہ میں ان سے رات دن کی قربت کے با وصف انہیں اتنا جان سکتا کہ آج جب میں ان کی تصویر بنانے بیٹھا ہوں تو انہیں ان کے پورے جمال اور کمال کے ساتھ پوٹرے کر سکتا۔ یہ نہیں کہ وہ بولتے نہیں تھے یا میری ان پر توجہ کم تھی لیکن شاید ایسا اس لئے ہوا کیوں کہ ابھی میں نے لفظی مصوری کا ارادہ نہیں باندھا تھا اور نہ ہی میرا مشاہدہ ایسا تھا کہ انسان کو پرت در پرت کھول سکوں۔ یہ تو بہت بعد کا قصہ ہے کہ میں نے جانا کہ آدمی کے بھیتر ایک پورا جہاں آباد ہوتا ہے اور اس کے رنگ کیسے پکڑ میں آتے ہیں۔ ان دنوں میں کچی عمر کا ایک مصرعہ ساز ہوا کرتا تھا، اور ریڈیو میں جناب قمر جمیل کا کلام دل نواز مجھے بولائے دیتا تھا وہ شاعری کی ایسی اعلی و ارفع مثالیں پیش کیا کرتے کہ مجھے ان کے سامنے میر و غالب کی شاعری بھی ایک کار زیاں محسوس ہوتی۔ یہ جدید طرز فکر رکھنے والوں کی منڈلی تھی اور ان دنوں وہ اپنے سرخیل قمر جمیل کے ساتھ غزل سے نالاں اور نثری نظم کے علم بردار تھے۔ ان میں افضال احمد سید، عذرا عباس، احمد ہمیش اور خود قمر بھائی کی نثری نظموں میں اس صنف کا مستقبل خاصا روشن نظر آتا تھا ان کے علاوہ سید ساجد، شوکت عابد، ناظمہ طالب اور کئی اور نوجوان بھی بڑی چوکسی سے نثری نظمیں لکھ رہے تھے۔ اسی محفل میں پہلی بار میں نے خوش قامت اور دل کو موہ لینے والی مسکراہٹ کے مالک رئیس فروغ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ قمر بھائی اور لڑکے لڑکیاں ان سے نیم وحشی صنف غزل سنانے کی فرمائش کر رہے ہیں۔ میں نے سوچا یہ کیسے بے پناہ شاعر ہیں کہ باغیوں کا یہ گروہ ان سے غزل سننے کا متمنی ہے۔ فروغ بھائی نے غزل شروع کی تو کینٹین میں بیٹھے کتنے ہی دیگر نام ور اس میز کی طرف کان لگائے بیٹھے دکھائی دیئے یوں بھی رئیس فروغ بہت کھلے ڈھلے انسان تھے اور ان کی شخصیت میں ایسی مخفی جاذبیت تھی کہ ان سے ملاقات کے دوران آدمی کے پاس ان میں محو ہو جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہ جاتا تھا۔
فروغ بھائی طبعاً ایک خاموش انسان تھے جیسے ریشم کا ایک الجھا ہوا گچّھا، مجھے لگتا جیسے اس چپ میں کوئی بھید پوشیدہ ہے لیکن میں اس راز کو کبھی نہیں جان سکا۔ وہ اتنے مطمئن اور خوش باش نظر آنے والے فرد کے بارے میں صرف اندازے ہی قائم کیے جا سکتے ہیں۔ مگر۔ ۔ ۔ کیا میں اور کیا میری اوقات کہ اپنے خیال کی تصدیق کر سکتا۔ میری کیفیت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ایسی تھی۔ نوجوان دانش وروں کی اس محفل میں رئیس فروغ، ثروت حسین اور افضال سید کے علاوہ میں نے کسی کو کبھی غزل سناتے نہیں دیکھا۔ یہاں ہمہ وقت رانبو، بودلیئر اور دیگر فرانسیسی شاعروں اور مفکروں کا چرچا رہا کرتا کبھی کبھار شوکت عابد ہسپانوی شاعروں کا ذکر بھی لے بیٹھتا لیکن اس بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیا جاتا۔ فروغ بھائی اس گروہ میں قمر بھائی اور احمد ہمیش کے بعد سب سے زیادہ نمایاں فرد تھے۔ ایک با وقار اور با اعتماد انسان جو دوسروں پر جان وارنے کا حوصلہ بھی رکھتا تھا۔ میں نے فروغ بھائی کو ہمیشہ نوجوانوں کی ہمت افزائی کرتے دیکھا وہ مجھ ایسے بے نشان لڑکے کے اشعار بھی توجہ سے نہ صرف سنا کرتے بلکہ ان کی دل سے داد بھی دیا کرتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پر وہ اسکرپٹ رائیٹر کی حیثیت سے فائز تھے اور اس قدر انہماک سے دفتری کام کرتے کہ اب سوچتا ہوں تو مجھے رشک آتا ہے جب وہ کاغذ پر پینسل سے حرف کاڑھنے میں مشغول ہوتے تو انوپا (صفیہ حیدر) کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی انہیں ڈسٹرب کر سکے۔ حالانکہ وہ انوپا کو نثری نظم کی شاعرہ کی حیثیت سے پسند کرتے تھے پھر دادا کو انوپا کی آواز بھی پسند تھی۔ رئیس فروغ صاحب دیکھنے میں کیسے دکھائی دیتے تھے؟ یہ سوال یقیناً آپ کے دماغ میں کھد بد کر رہا ہو گا۔ تو میرے عزیز وہ ایک نہایت دیدہ ذیب شخصیت کے مالک تھے۔ پیچھے کو پلٹے ہوئے چاندی کے لچھوں ایسے بال اور فراخ بے داغ ماتھا اور درمیانی بھوؤں کے نیچے جگ مگ کرتی روشن آنکھیں، جن میں ہر آن کوئی خیال تیرتا نظر آتا اور رنگت گیہوں کے نوخیز دانے ایسی اور باریک ہونٹوں پر ایک دائمی مسکراہٹ جو جیسے ان کی شخصیت میں آویزاں تھی اور ٹھوڑی کم زور یعنی ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں اور پیٹ کسی سلیقہ مند بی بی کی پکائی چپاتی کی طرح اور لمبی ٹانگیں ان سے مل کر انسان کو اپنی شخصی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہوتا تھا۔ وہ بظاہر ایک لا پرواہ اور بے فکرے انسان دکھائی دیتے تھے لیکن ایسا تھا نہیں انہوں نے تمام عمر ریڈیو میں نہایت ذمہ داری سے ملازمت کی اور میں دیکھتا کہ شام کو دفتر کا وقت ختم ہوتے ہی جب کینٹین میں مکالمے کا بازار گرم ہوتا، فروغ بھائی پر ایک بے چینی سی سوار ہوتی جیسے وہ رسی تڑا کر بھاگ لینے کو بے تاب ہوں اور پھر کسی نہ کسی بہانے وہ واقعی گھر کے لئے نکل لیتے۔ ان کے جانے کے بعد قمر بھائی مسکرا کر ہانک لگاتے کوئی کسی دن دادا کو روک کر دکھاؤ۔ وہ واقف تھے کہ یہ ممکن نہیں ہے میں ان سے برسوں کے تعلق کے باوجود کبھی یہ نہیں جان سکا کہ ان کا قیام کراچی میں کہاں ہے۔ شاید وہ دوستوں کو گھر بلانا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن میرا خیال ہے کہ شاید یہ پورا سچ نہیں ہے کیوں کہ وہ ایک دوست دار انسان تھے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ دوستوں کو گھر پر خوش آمدید کہنا پسند نہ کرتے ہوں یقیناً اس کی کو ئی اور وجہ رہی ہو گی۔ جیسے کبھی کوئی بھی یہ نہ جان سکا کہ وہ اپنے ساتھ ایک مہلک بیماری کو لئے پھرتے ہیں۔ ریڈیو کینٹین میں ہی میرے گناہ گار کانوں نے رئیس فروغ صاحب کو نثری نظم سناتے سماعت کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قمر بھائی نے انہیں نثری نظم لکھنے پر مجبور کر کے ان کے ساتھ بہت ناانصافی کی کہ فروغ بھائی کا میدان تو رچی اور سجی ہوئی غزل ہی تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ دادا نے قمر بھائی کے کہنے پر نثری نظم لکھی وہ انکار کر سکتے تھے تو میرے بھائی وہ بھلے دن تھے دادا ٹھہرے ایک دوست پرست ان میں انکار کا یارا کہاں تھا۔ قمر بھائی کا یہ عمل ایسا ہی تھا جیسے میٹھے پانی کے چشمے پر سے اٹھا کر کھارا پانی پینے پر مجبور کیا جائے۔ دادا کو میں نے کبھی کوئی مشاعرہ پڑھتے نہیں دیکھا وہ اسے وقت کا زیاں خیال کرتے تھے کہا کرتے بھائی اتنے مجمع میں بھلا شاعری سے لطف اندوز ہونا ممکن ہے یہ تو ہاؤ ہو کا میلہ ہوتا ہے اور میں اس تماشے کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں۔ جب کبھی وہ شعر پڑھتے تو ان کی آواز بہت بلند ہوتی اور ہر لفظ کو پوری صحت کے ساتھ ادا کیا کرتے۔ مجھے محسوس ہوتا کہ شعر پڑھتے ہوئے وہ خود بھی شعر سے حظ اٹھاتے ہیں۔ شعر پڑھنے کا ان کا اپنا ایک منفرد ڈھنگ تھا، وہ ہر مصرعہ ایک جھٹکے کے ساتھ ختم کر کے سامعین پر ایک نظر ڈالتے اور پھر ان کے لبوں پر ایک باریک سی مسکراہٹ جگہ بناتی اور اسی کے ساتھ وہ شعر مکمل کرتے۔ فروغ بھائی کے انتقال کے بعد ان کا مختصر سا شعری مجموعہ رات بہت ہوا چلی” شائع ہوا اور میں نے جانا کہ” اصل چیز کثرت نہیں معیار ہوتا ہے۔ اسی طرح ثروت حسین کا مجموعہ “آدھے سیارے پر”، بھی نہایت سرسری انداز میں شائع ہوا لیکن یہ تخلیق کی طاقت تھی کہ یہ دونوں شاعر آج بھی زندہ ہیں بلکہ ہمیں اپنے اردگرد موجود محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فروغ بھائی کا ریوائول ہو رہا ہے اور وہ نئے سرے سے شاعری کے شیدائیوں کے دلوں میں جگہ بنا رہے ہوں۔ رئیس فروغ بھائی سے جو ایک بار مل چکا ہے اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ انہیں فراموش کر دے اور ہمارے تو خیر وہ دل میں رہتے ہیں۔ اب ان کی باتیں لاکھ قصہ کہانیاں سہی لیکن ان کا وجود پوری قوت سے ہمارے اردگرد موجود رہتا ہے۔ کیا نہیں؟
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...