کانپتے ہاتھوں سے ڈاکٹر عاصم نے انجکشن بھرا
ڈاکٹر انکل مجھے انجکشن سے بہت ڈر لگتا ہے
شفا نے معصوم سے لہجے میں کہا
نہیں بیٹا کککچھ بھی نہیں ہوگا آپ تو بریو گرل ہو
ڈاکٹر عاصم نے دکھی لہجے کو سنبھالتے ہوئے کہا
نہیں مجھے نہیں لگانا…. شفا نے بواۓ کٹ بالوں کو ہلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
ششش ڈاکٹر انکل کو تنگ نہیں کرو راحیلا نے آنکھیں دکھائیں
مخروطی ہاتھ کی پشت پر رگوں کے جال میں سے ایک پر روئ سے پانی لگایا اب اس کی رگ میں انجکشن لگانے لگا
آہ …شفا درد سے کراہ اٹھی
بس بس ہوگیا ڈاکٹر نے شفا کو رونے کی تیاری کرتا دیکھ جلدی سے کہا
اب باقی دوائیں آپ اسٹور سے لے لیں
ڈاکٹر نے رسمی انداز سے کہتے ہوئے پرچا پکڑایا
……………………..
چیخ کی آواز پر میراج حواسوں میں واپس آیا
سسو…. سوری وہ میں وہ…. گڑگڑاہٹ میں سمجھ نہیں آیا کیا بولوں
مجھے گھر جانا ہے شفا نے بھی آواز پہچان کر مدعا بیان کیا
اچھا چلیں میں چھوڑ دیتا ہوں آپ کو اس کو اپنی بانہوں کی گرفت سے آزاد کرتا چل پڑا
کہاں جانا ہے… میراج نے بغیر مڑے پوچھا
وہ سامنے کی گلی میں آخری گھر ہے دور سے نظر آتی کچی سی گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
آپ تو یہاں کی نہیں لگتیں… میراج نے دل میں آئے سوال کو پوچھ لیا
میں اسلام آباد کی ہوں بس یہاں مجبوری کی وجہ سے آئ ہوں شفا نے بھیگے لہجے میں کہا
میراج کو ہمدردی محسوس ہوئ
کسی بھی مدد کی ضرورت ہوئ مجھے بتائیے گا میں یہاں کا وڈیرہ ہوں
گھر کے پاس پہنچ کر میٹھے لہجے میں کہا
آپ سنگل ہو کسی خیال کے تحت شفا نے میراج سے پوچھا
ہاں جی میراج حیرانی سے بولا
اوکے تھنکیو فار ہیلپ شفا نے بھی کھلے دل سے شکریہ ادا کیا
………………….
قاسم شاہ کبھی تو وقت پر اٹھ جایا کرو علی قاسم کا دوست ہمشہ اسہی طرح اٹھانے آجاتا
یار میراج بھی آگیا ہے تو اس سے بات چیت کرنا شروع کر
علی نے قاسم کے سوۓ ہوۓ وجود سے بات کرتے ہوئے کہا
دفع ہو جا یہاں سے سونے دے قاسم نے پاس پڑا کشن اٹھا کر علی کو مارا جو علی نے کیچ کرلیا
زارا بھی آگئ ہے علی نے دھیمے لہجے میں کہا اور بھاگ گیا
قاسم کی آنکھیں کھل گئیں
ابے روک تو کیا کہہ رہا تھا قاسم علی کے پیچھے بغیر قمیص کے ہی بھاگا
علی رک جا قاسم نے اسے سیڑھیوں سے نیچے جاتا دیکھ کر آواز دی آواز کی بلندی نے سب کو متوجہ کیاقاسم کو اس حالت میں دیکھ کر سب ششدر رہ گئے
دادی نے سب کو قاسم کی طرف دیکھتا دیکھ کر کھنکھاری سب نے نظریں جھکا لیں
قاسم ہی چھا آہے
(قاسم یہ کیا ہے) دادی نے رعب دار آواز میں کہا
وہ دادی سوری اپنے حلیے کو دیکھ کر واپس کمرے کی طرف گیا
زارا مہنجی راٹیں
(زارا میری رانی)
کمرے میں آکر دل کھول کر مسکرایا
ایک سال بعد وہ واپس آئ تھی
خوشی تو بنتی تھی
………………..
سلیو لیس شرٹ اور ٹائیٹ پینٹ شولڈرکٹ بالوں کو چھوٹے سے جوڑے میں باندھے وہ اس وقت دہی لے رہی تھی ایک میں کھانے کی چیزیں تھی دہی اٹھانے کی جگہ ہی نہیں رہی دکاندار بھی پریشان ہوگیا
آج پھر اسے اپنے معذور ہونے پر افسوس ہوا
مجھے دے دیں قاسم نے اس معذور لڑکی کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھایا سائیں نہیں سائیں ہم خود لے جاتے ہیں آپ کیسے نہیں نہیں دکاندار نے قاسم کو دیکھ کر ہاتھ جوڑ کر ڈرتے ہوئے کہا
اچھا لے جاؤ قاسم نے بھی ہامی بھر لی
شکریہ گولمٹول براؤن آنکھوں میں نرمی لیۓ شفا نے مسکرا کر کہا
قاسم نے سرسری سا دیکھا اور دیکھتا رہ گیا
بالوں کی لٹھیں چہرے پر جھول رہی تھیں گرمی کی وجہ سے ماتھے پر پسینے کی بوندے جگمگارہی تھیں
پاکیزہ سا حسن قاسم کو مدہوش کرگیا وہ یہ بھی بھول گیا کہ وہ اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک دیکھنے جا رہا تھا
وہ چلی گئی مگر قاسم کے اندر اشتعال برپا کر گئی دل زارا کو مانگ رہا تھا اور آنکھیں یہ حسن تلاش رہی تھیں اور اس جنگ میں دل جیت گیا
…………
زارا یار یہاں کے وڈیرے تو بڑے نرم دل ہیں شفا نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا
اچھا زارا نے مصروف سے انداز میں کہا
زارا اس لڑکی کو بول جوان لڑکے ہیں گھر میں ڈھنگ کے کپڑے پہنا کرے زارا کی ماں جو کہ شفا کے آنے سے سخت ناخوش تھی اسے بات بے بات ڈانٹتیں
اماں وہ شہر سے آئ ہے ایسے ہی کپڑے پہننے کی عادت ہے ناصر نے شفا کی سائڈ لی
اور زارا کی ماں دل ہی دل شفا کو کوسسنے لگی
بڑی آئ شادی ہوئ نہیں اور بیٹا ابھی سے ہی اشاروں پر ناچنے لگا
………………………