ہیلو گائز !! دروازہ کھولنے پر اسے احمد کی خوشگوار آواز سنائی دی ۔ زائر گہری سانس لے کر دروازے سے ہٹ گیا۔
“مرسلین , مرسلین کہاں ہو گدھے مجھے یہاں بلا کر ؟؟”۔ احمد زور دار آواز میں بولا۔
مرسلین آنکھیں ملتے ہوئے کمرے سے باہر آیا اور احمد کو دیکھ کر چیختے ہوئے اس کے گلے گیا۔
“کمینے تجھے کتنا مس کیا میں نے ، دو ہفتے سے محترم جگہ جگہ مارے پھر رہے تھے اتنی توفیق نہیں ہوئی مجھے بھی بلا لیتے”۔ مرسلین اس کی کمر پر دھموکا جھڑتے ہوئے بولا۔
“او یار پاپا نے پھنسا دیا تھا مجھے یہاں ۔۔۔ اب میں آ گیا ہوں نا ۔۔۔”۔ وہ دونوں زائر کو نظر انداز کیے باتوں میں مصروف تھے۔
“او زائر تم بھی یہی ہو ؟؟” وہ مصنوعی حیرت سے بولا۔
“شرم تم کو مگر نہیں آتی “۔ زائر گنگنایا اور کچن کی جانب بڑھ گیا۔
“اس کو کیا ہوا ہے ؟؟”۔
“یہ محترم یہاں کام کے سلسلے میں آئیں ہیں اور ظاہر ہے ہمارے ہوتے ہوئے یہ یہاں کام کیسے کر سکے گا بس اسی لیے منہ بنائے پھر رہا ہے ۔۔۔!!”۔ مرسلین کے بتانے پر دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسے۔
“تھینک یو سو مچ زائر “۔ کافی کا مگ پکڑ کر احمد بولا۔
“سو تھینک گاڈ ہم اتنے عرصے بعد ملے اور اب ۔۔۔۔”۔ احمد کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی جب زائر درمیان میں بولا۔
“ایک منٹ میں تم لوگوں کے کسی بھی پلان کا حصہ نہیں بنوں گا مجھے کام کے سلسلے میں بھیجا گیا ہے اور میں کام ہی کروں گا “۔
تمہیں لگتا ہے ہم تمہاری تقریر سے متاثر ہو کر تمہیں کام کرنے دیں گے تو بھول جاؤ۔۔۔۔۔ اور تیار رہنا کل کے لیے , مرسلین کو دبئی گھومانا ہے ۔۔۔۔!!”
زائر نے ان دونوں کو گھورا اور اپنے کمرے میں آ گیا ۔
وہ دونوں سر جوڑے کل کے لیے پلان کر رہے تھے۔۔۔!!
※••••••※
ہادیہ ناشتے کی ٹیبل پر اخبار پڑھ رہی تھی حیدر صاحب اور یوسف ناشتہ کر رہے تھے۔
“ہادیہ ناشتہ کر لو پہلے “۔ زارا نے اپنی بیٹی کو ٹوکا۔
وہ نالائق کب آ رہا ہے دبئی سے ؟؟” انہوں نے ناشتے میں مصروف حیدر صاحب سے پوچھا۔
“رات کو بات ہوئی تھی میری کہہ رہا تھا چار پانچ دن اور لگ جائیں گے۔۔۔”۔
“توبہ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ اُسے یاد کر رہے ہیں “۔ زارا بڑبڑائی۔
“اگر اپنے بزنس کی طرف آ جاتا تو اس طرح دھکے تو نا کھانے پڑتے مگر صاحب زادے کو منظور ہی نہیں تھا”۔ یوسف صاحب بولے۔
“دھکے کہاں کھا رہا ہے منحوس آدھی دنیا تو گھوم ہی آیا ہے اب بھی دبئی میں گھوم رہا ہے اور ابو بھی نا “۔ ہادیہ مومل کو جو اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تھی اس سے بولی۔
مومل بےساختہ مسکرائی اور پھر مصنوعی خفگی سے بولی۔
“اب میرے اتنے پیارے بھائی کو منحوس تو مت کہو۔ ابھی تائی اماں نے سن لیا نا تو چھوڑے گی نہیں وہ تمہیں ۔۔۔۔”۔
“پھپھو اور ان کی صاحبزادی نہیں آئی اتنے دنوں سے خیریت ہے نا ؟؟”۔ ہادیہ ناشتہ کرتے ہوئے بولی۔
“مرسلین بھائی کے آنے پر ہی وہ دونوں آئیں گی ۔۔۔ ان کی غیر مودجوگی میں کیسے آئیں گی۔۔۔”۔ اب کی بار جواب فضا کی طرف سے آیا تھا جو مومل سے چھوٹی تھی۔
“فضا جلدی ناشتہ کرو فہد چھوڑ آئے گا یونیورسٹی ، وہ لیٹ ہو رہا ہے “۔ سارا بولی۔
“جی امی بس کر لیا “۔ وہ جوس پی کر باہر بھاگی۔
“تم بھی چلی جاتی “۔ مومل مسکراہٹ دبائے بولی۔
“میں کیوں جاتی ۔۔۔ میرا کام تو یہی ہوتا ہے یہ تو مرسلین حیدر جیسے نکمے لوگ ہیں جو جاتے ہیں “۔ وہ ناک سکیڑ کر بولی۔
مومل ہنس دی ۔
“میں نے پہلی دفعہ سنا ہے نکمے لوگوں کو پروجیکٹ ملتے ہیں ” ۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
“چپ کرو تم بھائی کی چمچی ہو پوری “۔
“بھائی ہے وہ میرا “۔ اس کے خون نے فوراً جوش مارا۔
“بھائی ہے وہ میرا ” ہادیہ نے اس کی نقل اتاری۔
“ابھی تو آفس جا رہی ہوں آ کر پوچھتی ہوں تمہیں ” ۔ ہادیہ اسے دھمکاتے ہوئے اٹھی۔
مومل اسی طرح مسکرا رہی تھی۔
“چاچو چلیں “۔ وہ حیدر سے بولی۔
“چلو بیٹا”۔
“دھیان سے کام کرنا دبئی کے خیالوں میں کھو کر ڈانٹ ہی نا کھا لینا۔۔”۔ مومل اسے چھیڑنے سے باز نہیں آئی تھی۔
“تم اپنا بندوبست کر لینا آج تو نہیں بچو گی میرے ہاتھوں سے “۔ ہادیہ کہہ کر بھاگی باہر حیدر ہارن پہ ہارن دے رہے تھے۔
“امی پلیز مان جائیں نا تین دن کی تو بات ہے ہم آ جائیں گے بھائی کے آنے تک پلیز پلیز ۔۔۔۔ آپی آپ بھی کچھ کہیں نا ۔۔۔”۔ عمر اور صائم کے میچ کا فائنل تھا سیالکوٹ میں ادھر جانے کے لیے وہ فاطمہ سے اجازت مانگ رہا تھا پاس بیٹھی مریم کو بھی اس نے گھسیٹا۔
“خالہ جانے دیں اور بھی اتنے لڑکے جا رہے ہیں “۔ مریم نے ان دونوں کی سفارش کی جو معصوم بنے بیٹھے تھے۔
“ہمارے کوچ بھی جا رہے ہیں “۔ صائم جھٹ سے بولا۔
“پر بیٹا زائر یہاں نہیں ہے اس کی غیر موجودگی میں یہ دونوں جائیں گے مجھے اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔۔ ان کے ابو کی وفات کے بعد تو میں نے کبھی انہیں نہیں جانے دیا اکیلے کہیں پر بھی “۔ “خالہ اب دونوں بچے نہیں رہے اور زائر کو پتا بھی نہیں چلے گا جب تک زائر آئے گا یہ دونوں واپس آ چکے ہوں گے۔۔۔۔ اتنی محنت کی ہے دونوں نے جانے دیں آپ “۔ مریم پیار سے ان کے ہاتھ پکڑ کر بولی۔
“امی پلیز ۔۔۔” صائم بولا۔
“اچھا ٹھیک ہے دھیان سے جانا اور پرسوں تم لوگ واپس آ جانا ٹھیک ہے نا ؟؟۔ میں پیکنگ کر دیتی ہوں تم دونوں کی۔۔۔”۔
تھینک یو سو مچ امی ۔۔۔۔ وہ دونوں فاطمہ کو بینچ کر بولے۔
“اور پیکنگ تو ہم نے کل کی کر لی ہے “۔ عمر مسکراتے ہوئے بولا۔
“تھینک یو آپی آپ کی سفارش کے بغیر تو ہمیں امی جانے ہی نا دیتی “۔
“بس پھر دیکھ لو میری اہمیت “۔ وہ فخر سے سے بولی۔
“دیکھ لی ہے بھئی مان گئے آپ کو “۔ عمر کمرے کی جانب جاتے ہوئے بولا۔
“اب اپنے شوہر نامدار کو خود ہی سنبھال لیجئے گا “۔ صائم شرارت سے بولا۔ فاطمہ مسکراتے ہوئے اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔
“تم فکر ہی مت کرو اُس کی دیکھ لو گی میں اسے تم لوگ تو جاؤ اب “۔ اُن دونوں کے جانے کے بعد وہ فاطمہ کی ہلیپ کے لیے کچن میں چلی گئی۔
※••••••※
“زائر کتنے پھوہڑ ہو تم ایک گھنٹہ ہونے کو آیا ہے اور ابھی تک تم سے کھانا نہیں بنا چچ چچ کیا ہو گا تمہارا “۔ مرسلین لاؤنچ میں بیٹھا ہانک رہا تھا اور پھر پاس بیٹھے احمد کو آنکھ ماری ۔
زائر کو اس کا طعنہ سن کر آگ ہی لگ گئی تھی۔
اس نے آتے ہی مرسلین کے کندھے پر کفگیر ماری۔۔۔۔!!
“تم جیسے ویلے نکمے لوگوں سے بکواس کروا لو جتنی کروانی ہے کھانا بنانا پڑے نا پھر پتا چلے اور پھوہڑ ہونے کا طعنہ کس کو دیا ہے ۔۔۔۔ نکمے لوگوں کے منہ سے طعنے اچھے نہیں لگتے ۔۔۔۔”۔ وہ پرسکون آواز میں کہتا وہی بیٹھ گیا۔
“ہنہ فضول “۔ مرسلین برا سا منہ بنا کر بولا۔
“مسٹر احمد بلال آپ بھی منہ سے کچھ پھوٹیں!!”۔ مرسلین جل کر بولا۔
“جب کھانا بن جائے مجھے بتا دینا بہت بھوک لگی ہے “۔ وہ مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائے بولا۔
مرسلین نے اسے گھورا۔ بیل کی آواز پر زائر نے آنکھیں کھولیں۔
“احمد جاؤ باہر دیکھو “۔ زائر کے کہنے پر وہ بدکا۔
“میں کیوں مرسلین جائے “۔
“میں سویا ہوا ہوں مجھے کوئی ڈسٹرب نا کرئے”۔ وہ آنکھیں موند کر بولا۔
بلآخر احمد کو ہی اٹھنا پڑا۔
“جاؤ تم برتن لاؤ “۔ زائر کے کہنے پر مرسلین نے حیرت سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
“کیوں ؟؟”
“ابھی پتا چل جاتا ہے جاؤ”۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
احمد چیختے ہوئے اندر آیا اس کی شکل دیکھ کر دونوں کی ہنسی نکل گئی۔ وہ سامان سے لدا پھندا اندر آیا تھا۔ آتے ہی اس نے سامان صوفے پر پھینکا۔
“یہ کیا ؟؟؟”
“کھانے پینے کا سامان ہے چلو لگاؤ ٹیبل پر مرسلین “۔ زائر مسکراتی آواز میں بولا۔
احمد دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے گھور رہا تھا۔
“لیکن یہ سامان آیا کہاں سے ؟؟؟”
میں نے آرڈر دیا تھا یار اب میں تو پھوہڑ ہوں میں نے سوچا کیوں تم لوگوں کو اپنے ہاتھ کے برے برے کھانے بنا کر کھلاؤں اسی لیے میں نے آرڈر دیا تھا”۔ وہ معصومیت سے بولا۔
اور بل ؟؟
“احمد نے “۔ زائر کے جھٹ سے بولنے پر مرسلین اپنا قہقہہ نہیں روک پایا تھا۔
“میں تم لوگوں کے ہر پلان میں شامل ہوا ہوں تم لوگوں کے خرچے پر “۔
“بیہودہ انسان ایک تو مجھے زبردستی باہر بھیجا اوپر سے دروازہ بھی بند کر دیا وہاں وہ انکار پر میری گردن ہی اتار دیتا”۔ احمد اسے گھور کر بولا۔
“مجھے پتا تھا تم اندر کی طرف بھاگو گے اسی لیے دروازہ بند کیا تھا یار جلدی سے کھانا لگاؤ بہت بھوک لگی ہے “۔ زائر شرارت سے بولا۔
“زائر ویسے کتنے مہینوں کا مگوایا ہے کھانا ؟؟” مرسلین اس کے کان میں گھس کر بولا۔
“کھانا آج کے دن کا مگر کراکری پورے تین مہینے کی آخر بعد میں بھی ہم نے آنا ہے کہاں مشقت کرتے لانے کی “۔ زائر نے کہا اور پھر دونوں قہقہہ لگا کر ہنسے ۔
ان دونوں کی سرگوشی اتنی اونچی ضرور تھی کہ ٹیبل پر بیٹھے احمد نے باآسانی سن لی ان دونوں کے قہقہے پر اس کی ہنسی بھی شامل ہو گئی تھی۔
※••••••※
ہادیہ کمرے بیٹھی فائلوں پر جھکی ہوئی تھی ایک طرف لیپ ٹاپ پڑا تھا وہ مصروف سی کام کر رہی تھی جب اس کا موبائل بجا۔ نمبر دیکھ کر اسے کوفت ہوئی تھی مگر اٹھانے کے سوا چارہ نہیں تھا۔
“ہیلو مصروف لوگوں !!” مرسلین کی خوشگوار آواز سنائی دی۔
“ہیلو نکمے لوگوں!!”۔ منحوس کہنے سے اس نے بمشکل خود کو روکا تھا۔
“چچ چچ جیلس “۔
“ہنہ تم جیسی شکلوں سے میں جیلس ہوں گی ابھی اتنا برا ٹائم نہیں آیا ۔۔۔ فضول باتوں کو چھوڑو یہ بتاؤ کال کیوں کی ہے ۔۔۔ تم جیسے کنجوس آدمی کا دل کیسے کیا اپنا کریڈٹ استعمال کرنے کا۔۔۔”
“ڈونٹ وری کریڈٹ احمد کا اڑایا ہے اس لیے تم آرام سے مجھ سے بات کر سکتی ہو ۔۔۔”۔ وہ پرسکون آواز میں بولا۔ اس کی بات پر حسب عادت ہادیہ بھڑک اٹھی تھی۔
“میں کیوں بات کرو گی تم سے ہنہ ۔۔۔۔ تم ہمیشہ کیوں بھول جاتے ہو فون تم نے کیا ہے “۔
“سوری سوری ۔۔۔ میں واقعی بھول گیا تھا”۔ وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔
“فون کیوں کیا ہے ؟؟”
“دل کر رہا تھا تم سے بات کرنے کو اگر تم یہ سننا چاہتی ہو تو سوری میں یہ بلکل نہیں کہوں گا۔۔۔۔ “۔ وہ بات گھومانے میں ماہر تھا۔
“بندہ اپنی شکل دیکھ لیتا ہے شیشے میں پھر بات کرتا ہے”۔
“ایک دنیا مرتی ہے مجھ پر “۔ فخر سے کہا گیا۔
“ہاں واقعی دنیا مر ہی گئی “۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
مرسلین خوش ہو گیا وہ اس کا طنز نہیں سمجھ پایا تھا۔
“اچھا گھر میں سب کیسے ہیں ؟؟”
“ٹھیک ہیں سب تم کیسے ہو ؟؟”۔
“میں بہت خوش ہوں “۔
“تو وہی پر رہ جاؤ کسی کا تو بھلا کرو “۔ وہ لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے بولی۔
“میں تو رہ لیتا مگر میری ہونے والی بیوی کو نہیں پسند کہ میں دبئی میں رہو یو نو وہ بہت محب وطن ہے “۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
“کون سے والی بیوی ؟؟”۔ ہادیہ نے حیرت سے پوچھا۔
“استغفراللّٰہ میری ایک ہی بیوی ہو گی”۔
“چچ چچ اگر کوئی دنیا کا خوش فہم انسان ہے نا تو وہ مرسلین حیدر ہے “۔
“نہیں ہادیہ یوسف بھی میرے قبیلے کی ہے “۔
“تم ہو ہی ڈھیٹ “۔
“جی بلکل ” وہ تابعداری سے بولا۔
“یار تمہیں کیا بتاؤ دبئی کتنا خوبصورت ہے میرا دل چاہ رہا ہے میں یہی رہ جاؤں آج صبح تو مجھے باقاعدہ انویٹیشن کے زریعے رکنے کا کہا ہے ۔۔۔ تم گھر میں سب کو بتا دینا اور ہاں میری بیوی کو بھی میں تو یہی رہو گا۔۔۔”۔ وہ اس کی سنے بغیر اپنی ہانکے جا رہا تھا۔
“کس نے انویٹیشن دیا ہے تمہیں ؟؟؟ ” وہ باقی سب کچھ بھلائے اس سے یہی پوچھ رہی تھی۔
“ایک خاتون نے آج صبح ہی پرپوز کیا مجھے میری ہونے والی بیوی سے معذرت مگر میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ میں شادی کر ہی لوں ۔۔۔۔ تم کیا کہتی ہو ؟؟”۔
“تم ایک آوارہ ، کمینے انسان ہو ابھی سب گھر والوں کو تمہارے کرتوت بتاتی ہوں ابو اور چاچو تمہارے نکاح میں ضرور شامل ہوں گے “۔ ہادیہ نے کہہ کر فون بند کر دیا۔
مرسلین ہیلو ہیلو ہی کرتا رہا۔ بعد میں اس کا فون آتا رہا مگر وہ انجان بنی اپنے کام میں مصروف رہی۔
※••••••※
“تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا میرے گھر کے معاملات سے دور رہو اتنی سی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی ۔۔۔”۔ زائر کی سرد آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ ابھی تک یہی سوچ رہی تھی کہ زائر کو عمر اور صائم کے جانے کا کیسے پتا چلا۔
“میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے ؟؟”
“یہ گھر میرا بھی ہے اور اس کا ہر معاملہ بھی میرا ہے مجھے “اپنے ” گھر کے معاملات میں عمل دخل کرنے سے پہلے مجھے کسی کی پرمیشن کی ضرورت نہیں ہے “۔ وہ بھی اسی کے انداز میں بولی۔
“بہت خوب !! تقریر بہت اچھی کرتی ہو تم ۔۔۔ مگر افسوس مجھ پر اثر نہیں ہو گا اس کا۔۔۔۔ “۔
“مجھے اس کا اثر آپ پر کرنا بھی نہیں ہے “۔
اس کی بات زائر کو سلگا گئی تھی۔
“مس مریم رجب علی !! آپ کو اگر یاد ہو تو اس شادی سے انکار بھی آپ نے ہی کیا تھا اور آپ ابھی تک نہیں مانتی اس شادی کو ۔۔۔اپنے رویے سے بہت اچھی طرح سمجھا دیا ہے مجھے”۔
“پہلے میں نے انکار کیا تھا اس شادی سے اب میں ہی ایکسیپٹ کر رہی ہوں “۔ وہ آہستگی سے بولی۔
“اب اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مجھے اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ بہر حال آئندہ میرے گھر کے معاملات میں دخل اندازی مت کرنا “۔ زائر کی سرد آواز پر وہ سن رہ گئی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...