“السلام علیکم!” وہی مسحور کن خوشبو لیے عدی اندر داخل ہوا تھا۔ اس نے اپنے دل کو زور و شور سے دھڑکتے سنا تھا۔
“تھک گئی ہوں گی معتداء! لباس تبدیل کرکے آرام کیجیے۔” دھڑکنیں جیسے تھم گئی تھیں۔ قصیدے تو اس نے خیر کیا پڑھنے تھے ایک جملہ ہی موتیا کو نوحے سے کم نہیں لگا تھا۔ وہ ڈریسنگ روم میں جا چکا تھا،
“وہ لہنگا سنبھالتے شیشے کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ پچھلے سال کا وہ دن پوری جزئیات کے ساتھ اسے یاد آیا تھا۔ تب اسے اپنے حسن کے لیے کسی اور کے خراج کی ضرورت نہ تھی تو اس نے پروا بھی نہیں کی تھی۔ لیکن اب صوفیہ کی باتوں کے نتیجے میں وہ عدی کے لیے اپنے دل کے جذباتی تغیر کو محسوس کر چکی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ اسے دیکھا، سراہا جائے اور سب سے بڑھ کر اسے چاہا جائے۔ آنکھوں میں بہت سا پانی جمع ہو کر بہنے کو تیار ہوا تھا۔ اس نے ناک میں پہنی گول چوڑی نما نتھ اتاری۔
“کیا ان دونوں بھائیوں نے مجھے رلانے کی قسم کھائی ہے؟” ہاتھ سے ماتھے کی بندیا نوچتے اس نے تلخی سے سوچا تھا۔
“کیا میری کوئی خواہش نہیں ہے؟” کان سے بندے اتار کر میز پہ پٹخے تھے۔ چوڑیوں اور کنگن کی کھنک کمرے کی پرسکون فضا میں مدھم سا ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔
“معتداء۔!” گہرے نیلے رنگ کے شلوار سوٹ میں عدی کا عکس آئنے میں ابھرا۔ اس کے ہاتھ تھم گئے۔ فضا گویا خاموش ہو گئی تھی۔
“مجھے معلوم ہے کہ تمھارے لیے اتنی جلدی پرانے رشتے کو بھلانا آسان نہیں ہو گا۔ آسان تو میرے لیے بھی نہیں ہے۔ تمھیں خود کو سنبھالنے کے لیے جتنا وقت چاہیے، لے سکتی ہو۔ میری طرف سے تم پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔” اپنی سنا کر، اس کی سنے بغیر وہ کمرے سے ملحقہ اپنی لائبریری میں چلا گیا تھا۔ وہ جن آنسوؤں پہ بند بانھے بیٹھی تھی بے ساختہ سب آنسو چہرے پر بہتے چلے گئے تھے۔
“میری تو کوئی خواہش یا مرضی ہے ہی نہیں، میرے جذبات بھی مر چکے ہیں۔” روتے ہوئے اس نے سارا زیور اتار کر تقریباً پھینکا ہی تھا۔ اور پھر وہیں سنگھار میز کے کونے پہ سر ٹکا کر بےتحاشا روئے چلی گئی تھی۔
“میرا کیا قصور تھا؟” اس کا دل یہی سوال کیے جا رہا تھا۔ اس وقت اگر عدی وہاں آ جاتا تو جان ہی لیتا کہ وہ خود کو اس نئے رشتے کے لیے تیار کرکے ہی اس کمرے میں آئی تھی۔ لیکن کچھ بھی وقت سے پہلے نہیں ملتا، ہر بات کا، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ اور ان دونوں کی ہی زندگی میں وہ وقت ابھی نہیں آیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
شادی کے بعد بھی عدی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ اب بھی صبح نماز کے بعد ناشتہ خود بنا کر چلا جایا کرتا تھا۔ البتہ رات کا کھانا اب چاروں اکٹھے ہی کھا لیتے، اگر اسے کوئی ایمرجینسی پیش نہ آتی۔ کبھی کبھی شام میں جلدی آ جاتا اور موتیا کو کہیں ساتھ لے جانے کا ضرور کہہ دیا کرتا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ اس کہنے میں پیچھے محرک سعدیہ ہی ہوتی تھیں۔
“اسے خوش رکھا کرو عدی!” سعدیہ اکثر و بیشتر اسے سمجھایا کرتی تھیں۔ وہ محسوس کر سکتی تھیں کہ دونوں کے درمیان زیادہ بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ عجیب سا تناؤ تھا جو دونوں کے درمیان حائل تھا۔
“ماما جان۔! کچھ وقت تو لگے گا۔ اپنی مقدور بھر کوشش تو کر ہی رہا ہوں۔” وہ چپ ہو جایا کرتیں اس سے زیادہ کیا کہتیں۔
“انھیں کیا خوش رکھوں جب وہ مجھ سے خوش رہنا ہی نہیں چاہتے۔” صوفیہ نے بھی جب اسے یہ کہا تھا تو وہ یہ سب سوچ کر ہی رہ گئی تھی۔
“وہ پہلے سے ہی سب طے کرکے بیٹھے ہیں تو میرے دل کا حال کیسے سمجھیں گے؟”
“مجھے سمجھ نہیں آتی صوفیہ! آخر کب تک چلے گا یہ سب؟ میں اب کھل کر بات کرتی بھی اچھی نہیں لگتی، آج کل کی اولاد کا کیا بھروسہ؟ جتنی بھی با مروت اور لحاظ والی ہو، خدشہ ہی رہتا ہے کہ کہیں پلٹ کر یہ نہ کہہ دے کہ ہماری ذاتیات میں دخل نہ دیں۔” سعدیہ فون پہ ان سے بات کر رہی تھیں۔
“لیکن نہ عدی کا مزاج ایسا ہے اور نہ موتیا کا کہ یوں آگے سے جواب دے۔” صوفیہ نے کہا۔
“لیکن جو بھی ہے اس معاملے میں عورت کو تھوڑا جھکنا ہی پڑتا ہے، ازل سے جو ریت چلی آ رہی ہے۔” انھوں نے مزید کہا تھا۔
“نہیں صوفیہ! عدی اور موتیا کے درمیان دوری کی وجہ صرف گزشتہ رشتہ ہے اور کچھ نہیں۔ عدی نے کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ عورت کو جھکنا چاہیے۔” سعدیہ نے غیر محسوس سے انداز میں بیٹے کی وکالت کی تھی۔
“لیکن پھر بھی تم موتیا کو سمجھانا، کہ عدی کے قریب ہونے کی کوشش کرے، اس کے چھوٹے چھوٹے کام خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرے۔” وہ اب گر کی باتیں بتا رہی تھیں۔
“کام اس نے کبھی مجھ سے نہیں کروائے، کبھی موقع ہی نہیں دیا۔” سعدیہ ہنس کر بتا رہی تھیں۔
“تم ماں ہو، تمھارا لحاظ بھی کرتا ہو گا۔ لیکن بیوی کا تعلق اور ہوتا ہے۔ بیوی شوہر کے چھوٹے چھوٹے کام کرے تو اسے اچھا لگتا ہے، مرد بھلے کتنا ہی خود مختار کیوں نہ ہو اور یہ چیز دونوں کو ایک دوسرے کے قریب بھی لاتی ہے۔”صوفیہ اپنے تجربے کے تحت بیان کر رہی تھیں۔
“تم سمجھانا موتیا کو، اب اتنی دور سے فون پر کیا سمجھاؤں گی۔” پھر انھوں نے باتوں باتوں میں موتیا کو کئی باتیں سمجھائی تھیں۔
“وہ شروع سے ہی بورڈنگ میں، ہاسٹلز میں رہنے کی وجہ سے اپنے کام خود کرنے کا عادی ہو گیا ہے۔ میں اس کا کام نہیں کر پاتی تھی تو کبھی نہیں کہا تھا کہ کیوں نہیں کیا لیکن جب کوئی کام کرتی تب ضرور کہتا کہ کیوں کیا؟” وہ جو پاس بیٹھی اضطراری کیفیت میں انگلیاں مروڑ رہی تھی۔ سوچنے لگی کہ” کیسے؟ کس طرح؟ وہ قریب آنے کا موقع دے تب نا!” سعدیہ نے اس کے ہاتھ پہ ہلکا سا دباؤ دیا۔
“اس کے قریب ہونے کی کوشش کرو موتیا! میرا بیٹا بند کتاب جیسا ضرور ہے لیکن دل کا بہت اچھا ہے۔ کچھ ہماری لاپروائی کہ وہ بالکل ہی اپنے آپ میں سمٹ گیا۔ میں اب لاکھ کوشش کروں وہ ایک حد سے زیادہ نہیں کھلتا۔ لیکن تم اس کی بیوی ہو، میاں بیوی کے رشتے میں اعتماد اور محبت پنپ جائے تو اس رشتے کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اور تم دیکھنا کہ تم ایک قدم بڑھاؤ گی وہ دس قدم بڑھے گا۔” وہ خود بھی اپنے اور عدی کے درمیان یہ فاصلے ختم کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
اس نے ایک قدم بڑھائے کا فیصلہ اگلی صبح ہی سے کیا تھا۔ عدی نماز کے بعد گھر آ کر، ناشتہ کرنے سے پہلے تک کا وقت اپنی لائبریری میں ہی گزارتا تھا۔
آج وہ ناشتہ بنانے کچن میں آیا تو معتداء کو وہاں دیکھ کر ٹھٹک گیا تھا۔
“معتداء!؟ آپ اتنی صبح یہاں؟” اس سے پوچھ کر وہ ریفریجریٹر کھولنے لگا تاکہ ناشتے کے لیے چیزیں نکال سکے۔
“ناشتہ کر لیجیے!” وہ جھٹکے سے مڑا تھا۔ حیرت سے اسے دیکھا، جو اب میز پہ ناشتہ لگا رہی تھی۔
“تمھاری طبیعت ٹھیک ہے؟” عدی کے اندر کا ڈاکٹر جاگا۔ اس نے موتیا کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کر درجہ حرارت دیکھنا چاہا۔ وہ اپنی جگہ لرز کر رہ گئی تھی۔
“بخار تو نہیں لگ رہا، پھر اتنی جلدی ناشتہ کرنے کی وجہ؟” اسے لگا تھا کہ وہ اپنے لیے ناشتہ بنانے آئی ہو گی تو اسے بھی پیشکش کر دی تھی۔ وہ میز پہ رکھے ناشتے کے لوازمات دیکھنے لگا۔ پراٹھا، آملیٹ اور چائے۔ رات کا سالن بھی تھا۔
“یہ ناشتہ میں نے آپ کے لیے بنایا ہے۔”اس نے اطلاع بہم پہنچائی۔ اب عدی اسے کیا بتاتا کہ پچھلے سالوں میں اتنا بھاری ناشتہ اس نے کبھی نہیں کیا تھا۔ جرمنی جا کر تو وہ پراٹھا بھول ہی گیا تھا۔ اور نہ وہ چائے ہی پیتا تھا۔
“بیٹھو۔!” عدی نے ایک کرسی اسے پیش کی اور دوسری پہ خود بیٹھا۔
“میں اگر اکیلے ہی ناشتہ کروں گا تو یہ احسان فراموشی ہو گی۔” وہ جھجھک گئی، اتنی صبح ناشتہ۔۔ حلق سے نیچے ہی کب اترتا تھا۔
“میں چائے بنا لوں۔” اس نے بہانہ تراشا۔
“ہم یہی بانٹ لیتے ہیں۔ تم بس کپ لے آؤ۔” عدی نے اس کا اعتراض رد کیا۔ اب کوئی چارا نہیں تھا۔ وہ کپ لے آئی۔
“کافی سے محبت کرنے والے چائے میں شراکت شوق سے برداشت کر لیتے ہیں۔” عدی نے آدھی چائے اس کے کپ میں منتقل کی تھی۔ دو پراٹھوں میں سے ایک اس کی پلیٹ میں رکھا۔ اور تھوڑا سا آملیٹ لے کر باقی اسے دیا۔
“ناشتہ اچھا بنا تھا۔” وہ ناشتے میں پراٹھا پسند نہیں کرتا تھا لیکن معتداء نے بنایا تھا تو اس نے منع کرکے اس کا دل نہیں توڑا تھا۔
موتیا اتنی صبح ناشتہ کرنے کی عادی نہیں تھی لیکن عدی نے کہا تھا تو وہ انکار نہیں کر پائی تھی۔ دونوں ہی نے غیر محسوس انداز میں ایک دوسرے کی خواہش اور خوشی کا احترام کیا تھا۔ لیکن عدی کو یہ پہلی خوشی ہی مہنگی پڑ گئی تھی۔ شام کو گھر آیا تو سیدھا کچن ہی میں چلا آیا۔ جہاں موتیا سبزی بنانے میں مصروف تھی۔ اسے دیکھ کر چونکی۔
“آپ آج جلدی۔۔!” سبزی کی ٹوکری ایک طرف کرتے ہوئے اس نے عدی کو پانی دینے کے لیے گلاس اٹھایا لیکن اس نے منع کر دیا
“پانی نہیں، مجھے ایک کپ کافی چاہیے تھی۔ تم اپنا کام کرو میں بنا لیتا ہوں۔” وہ خود ہی آگے بڑھا۔
“آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟” موتیا نے پوچھا۔ کافی میکر کے فلٹر میں کافی ڈالتے وہ مسکرایا:
“صبح کا بدلہ اتار رہی ہو۔؟”
“لو بھلا۔۔! مجھے کیا ضرورت ہے بدلے اتاروں۔” وہ بولی اور سر جھٹک کر دوبارہ سبزی بنانے لگی تھی۔
“تھوڑی سی گرانی محسوس کر رہا ہوں۔” وہ بتانے لگا:
“دراصل صبح کسی نے خلوص اور محنت سے بہت بھاری ناشتہ کروا دیا تھا۔” اس نے محبت کی بجائے محنت کا لفظ دانستہ استعمال کیا تھا۔ چھری سے آلو چھیلتے اس کے ہاتھ تھم گئے، عدی نے ہلکا سا سر موڑ کر اسے دیکھا اور مسکرا کر مزید گویا ہوا۔
“پانچ چھ سال ہوئے پراٹھا کھانا چھوڑ چکا ہوں، تو معدہ اتنا بھاری بھرکم کھانا کھانے کا عادی نہیں رہا نا۔! بس اس لیے۔” کافی میکر کا الارم بجا تھا اس نے سوئچ بند کیا۔
“تو آپ منع کر دیتے۔” اس نے بے ساختہ کہا تھا۔
“عادت تو تمھیں بھی نہیں تھی اتنی صبح ناشتہ کرنے کی۔ منع کیوں نہیں کیا؟ عدی اب مگ میں کافی انڈیل رہا تھا۔ اس کا جواب سنے بغیر بولا:
“کسی کے خلوص سے کی گئی پہلی کوشش کو میں ایک انکار سے رائیگاں نہیں کر سکتا تھا۔” کافی میں ایک چمچ چینی اور مکھن ڈال کر اس نے چمچ ہلانا شروع کیا
“کیسے پیتے ہیں یہ کالی سیاہ کافی۔!” موتیا نے برا سا منھ بناتے دل ہی دل میں سوچا تھا۔ عدی اس کے چہرے کے سب اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا۔
“ایسے۔!” اس نے کپ ہونٹوں سے لگا کر ایک گھونٹ بھرا اور بولا:
“صبح میں ناشتہ خود بنا لوں گا۔” اسے حیران چھوڑ کر وہاں سے چلا آیا تھا۔
“جب ماما جان سے ان کے ناشتے کا وقت پوچھ سکتی تھی تو کیا تھا اگر یہ بھی پوچھ لیتی کہ وہ ناشتے میں کیا لیتے ہیں؟” دماغ اسے سرزنش کر رہا تھا۔ لیکن وہ تو اس کے آخری جملے پہ الجھ گئی تھی۔
“اب اتنا غصہ کہ میرے ہاتھ کا ناشتہ بھی نہیں کریں گے یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ موتیا میں ناشتے میں یہ لیتا ہوں وہی بنا دینا۔”سبزی چھوڑ کر وہ وہیں رونے بیٹھ گئی۔
“اب رونے سے مسائل حل ہوتے ہیں کیا!؟” اس نے خود سے پوچھا اور جواب نفی میں ملا تو آنسو رگڑے۔
“میں ابھی جا کر ان سے بات کرتی ہوں۔” وہ اٹھنے لگی۔
“میں کیوں کروں؟ کیا سوچیں گے وہ؟ کہ خود سے ان کے قریب آنا چاہ رہی ہوں۔” وہ دوبارہ بیٹھ رہی۔
“پھر ایسے ہی بیٹھی، اکیلی روتی رہو۔” دل نے ڈانٹا۔ وہ کچن میں دائیں بائیں چکرانے لگی تھی۔ وہ خود اب تنگ آ گئی تھی اس اجنبیت سے، اس دوری سے۔ اب وہ عدی اور اپنے درمیان کے اس فاصلے کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ اور فاصلہ کم کرنے کے لیے کسی ایک کو تو بات شروع کرنی ہی تھی۔ وہ تو جیسے اسے وقت دے کر واپس لینا ہی بھول گیا تھا۔ لیکن اسے لگا کہ آج وقت آ ہی گیا تھا کہ وہ اس سے بات کرےاور اس کا دیا وقت اسے واپس کرے۔ یہ سوچ کر وہ کمرے کی طرف بڑھی تھی یہ الگ بات کہ دل بے طرح دھڑک رہا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...