مولوی ثناء اللہ ایک اونچے تخت پر فرو کش تھے اور وعظ فرما رہے تھے۔ بہت سارے لوگ ان کے گرد حلقہ باندھے ہمہ تن گوش تھے۔ انہی لوگوں میں صدر الدین بھی تھا۔
’’ہمارے کاندھوں پر بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ ہم دنیا کے لہو و لعب میں گرفتار ہو کر فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہم دوسری قوموں کی طرح سگِ دنیا نہیں کہ اس کے حصول کی چاہت میں رال ٹپکاتے پھریں۔ ہم ہدایت یافتہ قوم ہیں۔ ہمیں دوسری قوموں سے افضل و برتر بنایا گیا ہے۔ ہمیں اس جہاں کی خلافت تفویض کی گئی ہے تاکہ ہم اس کے گوشے گوشے میں رب العالمین کی وحدانیت کا اعلان کریں اور دوسری قوموں کو اس کا مطیع و فرمانبردار بنائیں۔ ہمیں سخت ہدایتیں ہیں کہ اس سرزمین پر جو منکر و ملحد ہیں یا جو اس کی ذاتِ واحد میں کسی اور کو شریک کرتے ہیں، ان کے خلاف جہاد کریں اور اس وقت تک جہاد جاری رکھیں جب تک کہ سارے جہاں میں اس کا غلبہ، اس کا تسلط قائم نہ ہو جائے۔ ہمارے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ ہے۔ ہمیں ان نافرمانوں اور غاصبوں کو نیست و نابود کرنے کا حکم ہے جو اس کی زمینوں پر اپنی مملکتیں قائم کر لیتے ہیں اور اس کی دی گئی ہدایتوں کے خلاف عمل کرتے ہیں۔‘‘
’’ہم وہ منتخب و معزز قوم ہیں جسے صدیوں قبل وہ بڑی کتاب تفویض کر دی گئی جو تمام علوم و فنون اور قاعدے قانون کا منبع ہے اور صرف ہمیں ہی اس کے اسرار و رموز کی تفسیر وت شریح کی فہم و فراست بخشی گئی۔ ہماری تفسیر و تشریح کے دائرے سے باہر کوئی علم نظر آئے تو وہ شیطانی علم ہے جس کے حصول سے نہ صرف خود کو روکنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روکنے کی حتی المقدور سعی کرنی ہے۔ ہمیں غیر نافع اور ممنوعہ علوم حاصل کر کے ایسی ایجادات و انکشافات کی اجازت نہیں جن سے رب کی وحدانیت اور ربوبیت میں ذرہ برابر بھی شبہ پیدا ہو۔، ،
مولوی ثناء اللہ نے خاموش ہو کر اپنے لمبے اور نفیس جبے کے دامن کو ذرا سمیٹا اور سر پر بندھی دستار کو درست کیا۔ ان کی آواز میں غضب کی نرمی اور کشش تھی۔ گرچہ ان کے لہجے میں قطعیت تھی لیکن کسی تلخی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس بار انہوں نے خطاب شروع کیا تو ان کے اندازِ تخاطب میں تھوڑی سی تبدیلی تھی۔
’’آپ کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ آپ کی زندگی رب کی عطا کردہ ہے اور رب نے آپ کے کاندھوں پر بڑا بوجھ ڈالا ہے۔ آپ اس بوجھ سے کنارہ کش ہو کر اس کی نافرمانی نہیں کر سکتے۔ وہ رحیم و کریم ہے تو جبار و قہار بھی ہے۔ اس کی جانب سے واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ یہ زندگی اصل زندگی نہیں بلکہ اس اصل اور دائمی زندگی کا پرتو ہے جواس کے فنا ہونے کے بعد حاصل ہو گی۔ آپ کے کاندھے پر جو بوجھ رکھا گیا ہے اگر اسے آپ نے اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے صحیح مقام تک پہنچا دیا اور اس کے بعد والی اصل اور دائمی زندگی میں بھرپور اجر دیا جائے گا۔ اس دنیائے فانی میں ایسی کون سی شے ہے جو آپ کے قلب و نظر کو اسیر کر کے آپ کو راہِ حق سے بھٹکا دے۔۔
کیا رشتے اور محبتیں؟ لیکن دنیا کے تمام رشتے اور محبتیں فانی اور ناپائدار ہیں۔ آپ کے مرتے ہی ان کا وجود ختم ہو جائے گا۔ ایک رب کی ہی ذات ہے جو باقی رہنے والی ہے اور اس کی رحمتیں اور محبتیں مرنے کے بعد بھی آپ کے لیے جاری رہنے والی ہیں۔
کیا اس دنیا کے سبزہ زار اور مرغزار، اس کے دلفریب مناظر آپ کے دل کو کھینچتے ہیں؟ لیکن ان کی دلفریبی کب تک؟ موسمِ خزاں کا ایک جھونکا ان کے تمام حسن کو زائل کر دے گا۔ ان کے مقابلے میں جنت کے ان باغوں کو کیوں نہ ترجیح دی جائے جو ہمیشہ سرسبز اور شاداب ہوں گے۔ سایہ دار اشجار میں منفرد اور خوش ذائقہ ثمر ہوں گے۔ دلپذیر خوشبوؤں والے خوش رنگ پھولوں کے پودے ہوں گے۔ شیریں چشمے ہوں گے۔ دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی جن سے جنتی ہمیشہ لطف و حظ اٹھاتے رہیں گے۔
کیا پھر اس دنیا میں خوبصورت اور جوان عورتیں آپ کے دلوں پر قابض ہیں؟ ان کے گداز جسموں سے جنسی تلذذ حاصل کرنے میں باؤلے ہوئے جاتے ہیں؟ لیکن ان عورتوں کی خوبصورتی اور جوانی کب تک؟ اور پھر ان کے جسموں سے لذتیں کشید کرنے کی آپ کی طاقت اور توانائی کب تک؟ وقت کے سمندر میں ہر شے فنا ہونے والی ہے۔ لیکن ذرا تصور کیجئے ان بہشتی حوروں کا جن کے حسن و شباب پر وقت کی کوئی گرد نہیں بیٹھتی اور جو آپ کے لیے مختص ہیں۔ وہاں آپ کی پر جوش جوانی اور بے پناہ طاقت دائمی ہو گی۔ جنسی تلذذ کے لمحات صدیوں میں پھیلے ہوئے ہوں گے۔ کیا ان کا عشر عشیر بھی ان دنیاوی لذتوں میں حاصل ہو سکتا ہے؟
لیکن یہ تمام نعمتیں اور لذتیں صرف انہیں ہی حاصل ہو سکتی ہیں جورب کے احکامات کی پابندی کریں گے اور اس کی تعمیل میں اپنی جان بھی قربان کر دینے سے گریز نہیں کریں گے۔ اس کی راہ میں جان دینے والا شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہو گا۔ انہیں جنت کی تمام نعمتوں کے ساتھ بہتر (72 )۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں بہتر حوریں عطا کی جائیں گی اور اس کی سفارش سے ان کے ستر عزیز و اقارب بخش دیئے جائیں گے۔ اس دنیا میں آپ اپنے عزیز و اقارب کے لیے کیا اور کتنا کر سکتے ہیں؟ لیکن شہید ہو کر ان کی اصل زندگی کو ہمیشہ کے لیے پر لطف اور پر آسائش بنا سکتے ہیں‘‘
مولوی ثناء اللہ رکے۔ ہمہ تن گوش افراد پر گہری نگاہیں ڈالیں اور اس کے چہرے پر اطمینان کا عکس لہرایا۔ قدرے توقف کے بعد وہ گویا ہوئے۔
’’آپ کے کاندھوں پر اس قدر بھاری بوجھ ہے لیکن تعجب ہے کہ آپ کو قطعی احساس نہیں۔ آپ کے کاندھوں پر بوجھ ڈالنے والا آپ کا رب آپ کا نگراں ہے۔ آپ کے ہر قدم پر اس کی نگاہ ہے۔ آپ ثابت قدم رہے اور استقامت کے ساتھ اس کی پسندیدہ راہوں پر چلتے ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچے تو انعام و اکرام کے مستحق ٹھہریں گے بصورت دیگر دوزخ کی بھانک آگ میں ہمیشہ کیلیے جلتے اور تڑپتے رہیں گے‘‘
وعظ ختم کر کے مولوی ثناء اللہ اپنے تخت سے اٹھے۔ اس کے ساتھ تمام افراد اٹھ کھڑے ہوئے۔ سبھی آہستہ آہستہ باہر نکلنے لگے۔ سب سے آخر میں صدر الدین نکلا۔ وہ ایک معصوم اور سادہ لوح نوجوان تھا اور پہلی مرتبہ اس وعظ کی مجلس میں لایا گیا تھا۔ اس نے بڑے ہی غور سے مولوی صاحب کی باتیں سنی تھیں اور اس کا ایک ایک لفظ اس کی سماعتوں سے گزر کر اس کے دل میں نقش کرتا گیا تھا۔ وہ ان کی باتوں سے بے حد متاثر تو ہوا تھا لیکن متعجب بھی کم نہ تھا۔ مولوی صاحب بار بار کاندھوں کے بوجھ کا تذکرہ کر رہے تھے۔ اس نے اپنے کاندھے کا جائزہ لیا تھا اور اسے خالی پا کر گہرے تذبذب میں پڑ گیا تھا۔ اس نے چاہا تھا کہ مولوی صاحب سے اس کے متعلق استفسار کرے لیکن ان کے چہرے پر ایسا رعب اور تقدس تھا کہ ہمت نہ ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس قوم کے سبھی افراد کے کاندھوں پر بھاری بوجھ ہے۔ مولوی صاحب بڑے ہی عالم اور عبادت گزار شخص تھے۔ ان سے دروغ گوئی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ تو کیا وہ اس قوم کا فرد نہیں تھا جسے تمام اقوام میں افضل و برتر بنایا گیا ہے۔ لیکن نہیں۔ اس نے اس خیال کی نفی کی۔ اس کا نام صدر الدین تھا، باپ کا نام بدر الدین تھا۔ اس کے تمام انداز و اطوار اسی قوم سے مطابقت رکھتے تھے۔ وہ بھی انہی کی طرح عبادتیں کرتا تھا اور اسہی کے جیسے عقیدوں کے ساتھ زندگی گزارتا تھا۔ لیکن پھر اس کے کاندھے پر وہ بوجھ کیوں نہیں جس کا مولوی صاحب نے ذکرکیا تھا۔ وہ اسی غور و فگر میں غلطاں چلا جا رہا تھا کہ کسی کے آواز دینے پر چونک کر رکا۔ اس نے آواز کی سمت دیکھا تو راستے میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے ایک شخص بیٹھا ہوا دکھائی دیا۔ عجیب سا حلیہ تھا اس کا۔ جسم پر قدیم طرز کی ڈھیلی ڈھالی عبا تھی اور سر پر بڑا سا عمامہ۔ چہرہ داڑھی مونچھوں میں اس طرح پوشیدہ تھا کہ صرف آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں۔ بالکل کسی داستان کا سوداگر معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے قریب زمین پر ڈھیر ساری گٹھریاں رکھی تھیں۔ اس کی چمکیلی اور متجسس نگاہیں اسی پر ٹکی تھیں۔ وہ اس کے قریب چلا آیا تو اس نے استفسار کیا۔
’’کیا بات ہے؟ کس سوچ میں غرق جا رہے ہو؟’’
صدر الدین نے انتہائی سادہ لوحی سے اپنی پریشانی بیان کی۔ اس کی پریشانی کا سبب جان کر اس شخص کے نیم پوشیدہ ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے جذب کے عالم میں کہا۔
’’تم عرصۂ تلاش میں ہو۔۔۔۔۔۔ اور یہ منزل تک پہنچنے کا پہلا مرحلہ ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟’’ صدر الدین چکرایا۔
’’تم اپنے کاندھے کا وہ بوجھ دھونڈ رہے ہو جو تمہارے رب نے تمہارے سپرد کیا تھا۔ یہ بوجھ تمہاری قوم کے ہر بشر پر ڈالا گیا ہے لیکن زندگی کی بھاگم بھاگ اور دنیا کے اژدہام میں یہ بوجھ بیشتر کے کاندھوں سے گر گئے اور اسے یہ احساس تک نہ ہوا۔ چند ہی افراد ایسے ہیں جو اس افراتفری میں بھی ثابت قدم رہے اور اس بوجھ کو کاندھے پر رکھے ہوئے منزل کی جانب بڑھتے رہے۔‘‘
’’تو کیا میرا بوجھ بھی کہیں گر گیا؟‘‘ وہ گہرے تاسف میں بڑبڑایا۔ ’’لیکن تم کون ہو اور تمہیں یہ سب کیسے معلوم؟
’’میں قافلۂ حیات کے عقب میں چلنے والا خاکروب۔۔۔۔۔ میں گرے ہوئے بوجھوں کو اٹھا کر محفوظ رکھتا ہوں۔ کوئی تلاش کرتا ہوا آ جائے اور اس کا بوجھ اس کے حوالے کر دیتا ہوں۔‘‘
’’تو کیا میرے کاندھے کا بوجھ بھی تمہارے پاس ہے؟‘‘ اس نے سرعت سے پوچھا اور اس نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! اسے بھی میں نے ہی اٹھایا ہے۔ اگر تمہارے کاندھے اب بھی مضبوط ہیں اور تم اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے تیار ہو تو یہ رہا تمہارا بوجھ۔۔۔۔‘‘ اس نے اپنے سامنے رکھی گٹھریوں میں ایک کی طرف اشارہ کیا۔ وہ لپک کر اس گٹھری کے پاس آیا اور اسے انگلیوں سے پکڑ کر اٹھانا چاہا۔ لیکن یہ کیا۔۔۔؟ بظاہر چھوٹی سی نظر آنے والی گٹھری اس قدر وزنی تھی کہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
’’سنبھل کر۔۔۔ جلد بازی نہ کرو‘‘ اس شخص نے تنبیہ کی ’’رکو۔۔ میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔‘‘
وہ اٹھ کر اس کے قریب آیا اور گٹھری اٹھانے میں اس کی مدد کی۔ گٹھری اس کے کاندھے پر رکھی گئی اور اسے محسوس ہوا کہ کاندھا ٹوٹ جائے گا۔ وہ کراہا۔ ’’کافی بھاری ہے۔‘‘
’’سو تو ہے! ‘‘ اس شخص نے تائید کی۔ ’’لیکن سوچو! اگر اسے اپنے رب کی ہدایت اور منشا کے مطابق منزل تک پہنچا دو گے تو کیسے انعام و اکرام سے نوازے جاؤ گے۔ حسین ترین حوریں۔۔۔۔ بہترین شرابیں۔۔۔۔۔۔ لذتیں ہی لذتیں۔۔۔‘‘
صدر الدین ایک مفلوک الحال اور نا آسودہ نوجوان تھا۔ اس کی حسرت زدہ آنکھوں میں وہ ساری نعمتیں تیر گئیں جن کی تفصیل مولوی صاحب نے بتائی تھی۔ ان کے حصول کی تمنا سے اس کے جسم میں توانائی سی بھر گئی اور وہ چلنے کو تیار ہو گیا۔
’’تمہیں راستے معلوم ہیں نا؟’’ اس شخص نے استفسار کیا اور اس نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔
’’ہاں! مولوی صاحب نے جو راستے بتائے ہیں وہ مجھے ازبر ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے! جاؤ۔ لیکن دھیان رہے۔ اس بوجھ کو بیچ راستے میں چھوڑ نہ دینا۔ ‘‘ نہریں۔ بلکہ سزا کے طور پر دوزخ میں آگ کے ایندھن بنو گے‘‘
صدر الدین نے اس شخص کو یقین دلایا کہ وہ ثابت قدم رہے گا۔ اپنی منزل پر پہنچ کر ہی کاندھے کا بوجھ اتارے گا۔ وہ گٹھری سنبھالتا ہوا چل پڑا۔ فرلانگ بھرکا ہی راستہ طے ہوا ہو گا کہ کچھ لوگ اس کے راستے میں آ کھڑے ہوئے۔ اس نے انہیں دیکھا اور شناخت کیا۔ وہ سبھی اس کے عزیز اور رشتے دار تھے۔ ضعیف ماں باپ تھے، جوان بہن تھی، خوبصورت بیوی تھی۔ سب کے ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی گٹھریاں تھیں۔ ممتا کی، محبتوں کی، وفاؤں کی۔ سبھی نے دہائی دی۔ کاندھے کا بوجھ اتار کر اپنی گٹھریوں کو لادنے کی التجائیں کیں۔ تھوڑی دیر کے لیے اس کے قدم ٹھٹکے۔ اس نے ان کی غمزدہ آنکھوں کو دیکھا جو بڑی امید و حسرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ یکایک اس کی سماعتوں میں مولوی صاحب کی پر اثر آواز ابھری۔
’’تمام رشتے اور محبتیں فانی اور نا پائیدار ہیں۔ ایک رب کی ہی ذات ہے جو باقی رہے گی اور مرنے کے بعد بھی اس کی رحمتیں اور محبتیں جاری رہیں گی۔‘‘
اور وہ سنبھل گیا۔ اس نے ان عزیز رشتہ داروں کی طرف سے منھ پھیرا، ان کی التجاؤں کو ٹھوکر ماری اور انہیں راستے سے ہٹاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
سفر میں دشواریاں ملتی ہیں تو راحتیں بھی نصیب ہوتی ہیں۔ طویل راستے کی دشواریوں کو عبور کرتے ہوئے وہ ایسے مرغزار میں پہنچا جو بے حد نظر فریب اور راحت بخش تھا۔ یخ ٹھنڈا اور شیریں پانی کی جھیل تھی۔ خوش ذائقہ ثمرات سے بھرے سایہ دار اشجار تھے۔ دلفریب خوشبوؤں والے حسین پھولوں کے پودے تھے۔ بہت ہی دلکش نظارہ تھا۔ یکلخت خواہش ہوئی کہ یہیں قیام کر لے۔ اس سے بہتر اور کون سی جگہ ہو گی۔ معاً اس کے ذہن میں مولوی صاحب کا خطاب گونجا۔
’’موسمِ خزاں کا ایک جھونکا ان کے تمام حسن کو زائل کر دے گا جبکہ باغِ بہشت ہمیشہ سر سبز اور شاداب ہو گا۔‘‘
اور اس نے اپنی اس حقیر اور فانی خواہش پر نفریں بھیجی۔ آگے سفر کے لیے قدم بڑھائے ہی تھے کہ جھیل کی سطح میں ارتعاش پیدا ہوا اور دو بے حد حسین دوشیزائیں سطح آب پر ابھر آئیں،
وہ مبہوت و مسحور ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔ سنگ مرمر سے تراشے ہوئے ان کے متناسب برہنہ بدنوں کے دودھیا نشیب و فراز پر پانی کی شفاف بوندیں شیشے کی طرح چمک رہی تھیں۔ ان کے نیم وا گلابی ہونٹوں سے جیسے شہد ٹپک رہے تھے اور اس کی غزالوں جیسی آنکھوں میں مکمل خود سپردگی کے عکس تھے۔ دونوں دوشیزائیں جھیل سے باہر نکلیں اور ناز و ادا سے چلتی ہوئیں کنارے کے مخملیں سبزے پر لیٹ گئیں۔ وہ سحر بزدگی کے عالم میں ان کی طرف بڑھتا گیا۔۔ قریب پہنچا تو ایک دوشیزہ نے حلاوت آمیز لہجے میں کہا۔
’’اپنے کاندھے کی گٹھری اتارو اور ہمارے درمیان لیٹ جاؤ۔‘‘
ممکن تھا کہ وہ ان کی پیشکش کو قبول کر لیتا کہ اچانک کانوں میں مولوی صاحب کی سخت تنبیہ کوندی۔
’’ذرا تصور کیجئیے ان بہشتی حوروں کا جن کے حسن و شباب پر وقت کی کوئی گرد نہیں بٹھتی اور جو آپ کے لیے مختص ہیں۔‘‘ اور وہ ان کے قیامت خیز اور شہوت انگیز منظر کی گرفت سے باہر آ گیا۔
نہیں! وہ ان فانی حسیناؤں کے سحر میں گرفتار نہ ہو گا۔ باغِ بہشت میں اس کی موعودہ حوریں اس کے انتظار میں بیٹھی ہوں گی۔ اس نے کاندھے پر
رکھی ہوئی گٹھری سنبھالی۔ ان حسین دوشیزاؤں کے برہنہ جسموں سے نظریں ہٹائیں اور آگے کی طرف روانہ ہو گیا۔
مولوی صاحب کے بتائے ہوئے راستے پر اس کے قدم بڑھتے رے۔ کتنی ہی مشکلات راہ میں حائل ہوئیں۔ کتنی ہی دلچسپیوں نے دامنِ حرص و ہوس کو کھینچا لیکن وہ ان سبھی سے خود کو بچاتا ہوا اپنی منزل کی سمت گامزن رہا۔ بہت طویل سفر طے کرنے کے بعد وہ ایک ایسے شہر میں داخل ہوا جو اس کے دیکھے ہوئے شہروں سے یکسر مختلف اور عظیم الشان تھا۔ بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں، کشادہ اور پختہ شاہراہیں، تیز گام گاڑیوں کے قافلے اور ہر جگہ مرد و زن کے اژدہام۔۔۔۔ تعجب خیز امر یہ کہ بے پردہ اور نیم برہنہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کاروبار دنیا میں مشغول۔
اس نے ایک معقول سے نظر آنے والے شخص کو روکا اور اس شہر کا نام پوچھا۔ اس نے جو نام بتایا وہ اس کے لیے بے حد مشکل اور نا مانوس تھا۔ اس نے دوسرا سوال کیا۔
’’تمہارے ملک کا بادشاہ کون ہے۔؟‘‘
’’بادشاہ!‘‘ اس شخص نے صدر الدین کو اس طرح دیکھا جیسے وہ کسی جنگل سے آیا ہو۔‘‘تو کس زمانے کی بات کر رہا ہے؟ یہاں بادشاہ نہیں ہوتا۔ یہاں تو جمہوری حکومت قائم ہے جو تمام عوام کے ذریعہ منتخب کی گئی ہے۔ اس وقت اس جمہوری حکومت کی سربراہ ایک خاتون ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹ پڑیں۔ یہ کیسے راہ راست سے بھٹکے ہوئے بزدل لوگ ہیں جو ایک عورت کی حکمرانی میں رہ رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ اس شیطانی حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کرتے؟ لیکن نہیں۔ اس شخص نے تو کہا ہے کہ تمام لوگوں نے اس عورت کو حکمرانی کے لیے منتخب کیا ہے پھر بغاوت کا کیا جواز؟ قدرے توقف کے بعد اس نے پوچھا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’میرا نام عبد الرحمان ہے۔‘‘
اس شخص نے اپنا نام بتایا تو صدر الدین نے حیرانی سے اس کے سراپے کا جائزہ لیا۔ داڑھی مونچھ سے بے نیاز حسین چہرہ، دراز قد، چھریرا جسم جس پر نفیس لیکن عجیب طرز کا لباس، گلے میں کپڑے کی پٹی سی بندھی ہوئی جس کے چھوتے بڑے سرے سینے پر جھول رہے تھے۔ نام سے اور اسی کی قوم کا فرد جان پڑتا تھا لیکن اس کا حلیہ۔۔۔
اس نے پھر استفسار کیا۔
’’تم یہاں کیا کام کرتے ہو؟‘‘
’’میں ماہرِ موسمیات ہوں۔ سرکاری محکمے میں کام کرتا ہوں۔ کب بارش ہونے والی ہے؟ کہاں طوفان آنے والا ہے؟ سردی گرمی کتنی پڑے گی؟ ان سب کا سائنسی آلات کی مدد سے پتہ لگاتا ہوں۔ پھر عوام کو سرکاری نشریے کے ذریعہ ان معلومات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔‘‘
’’کیا کفریہ کلام کہتے ہو؟ بارش اور طوفان کے بارے میں سوائے رب العالمین کے اور کون جان سکتا ہے۔؟‘‘ اس کا جواب سن کر وہ خاصے اشتعال میں آ گیا۔
’’لگتا ہے تم کسی انتہائی پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقے سے آئے ہو۔ سائنسی علوم نے بہت ترقی کر لی ہے اور روز افزوں ان میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ تمہاری طرح ہم بھی رب کی عبادت کرتے ہیں لیکن اسی کے حکم کے مطابق غور و فکر بھی کرتے ہیں۔‘‘
اس شخص نے نرمی سے مدلل انداز میں اسے قائل کرنے کی کوشش کی تو ایک بار پھر اس کی سماعتوں میں مولوی صاحب کی ہدایتیں گونجیں۔
’’ہمیں غیر نافع اور ممنوعہ علوم حاصل کر کے ایسی ایجادات اور انکشافات کرنے کی اجازت نہیں جن سے رب کی وحدانیت اور ربوبیت میں ذرہ برابر بھی شبہ پیدا ہو۔ ہماری بڑی کتاب تمام علوم و فنون کا منبع ہے جس کی تفسیر و تشریح صرف ہمی کر سکتے ہیں۔ ہماری تفسیر و تشریح سے ہٹ کر کوئی علم نظر آئے تو وہ شیطانی علم ہے جس کے حصول سے نہ صرف خود کو روکنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روکنے کی حتی المقدور سعی کرنی ہے۔‘‘
اس نے عبدالرحمان کو غور سے دیکھا۔ وہ رب کی حکم عدولی کرنے کلا مجرم تھا۔ اس نے ایسا شیطانی علم حاصل کیا تھا جس کے ذریعہ کارخانۂ قدرت میں تصرف کرنے کا دعوے دار تھا۔ اس نے چہار سمت نگاہیں دوڑائیں۔ ہرسوکفرو شرک کے نظارے تھے۔ شاہراہوں پر جگہ بہ جگہ انسانی مجسمے ایستادہ تھے جن کے گلے میں پھولوں کی مالائیں تھیں۔ گزرتی ہوئی کاروں کے اندر سے موسیقی کی تیز دھنیں سنائی دے رہی تھیں۔ لڑکیاں لڑکوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جانے کس شیطانی منزل کی راہ پر گامزن تھیں۔ ان کے لباسوں سے عریانیت جھلکتی تھی۔ یہاں عبد الرحمان کی طرح شاید کچھ اور لوگ بھی اس کی قوم سے تعلق رکھتے ہوں لیکن اس غول بیابانی میں ان کی شناخت مشکل تھی۔ صرف ان کے ناموں سے ہی ان کی قومیت اور مذہب کا پتہ چل سکتا تھا اور اس پر مستزاد کہ علم بھی شیطانی حاصل کر رہے تھے اور مالک حقیقی کی مملکت میں در اندازی کر رہے تھے۔
مولوی صاحب کی ہدایت کے بموجب انہیں بزور قوت روکنا تھا، نیست و نابود کر دینا تھا کہ اس زمین پر رب کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس جہد میں اس کی جان چلی جائے تو وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہو جائے گا۔۔۔۔۔ اور پھر باغ بہشت میں حوریں، شرابیں ،۔۔ لذتیں ہی لذتیں۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ایک مقدس جہاد کے لیے اپنے بازوؤں کو تولا اور کاندھے کے بوجھ کو زمین پر پٹخا۔۔۔۔
دھڑا۔۔۔۔۔ م۔۔۔۔! ۔ خوفناک دھماکہ ہوا تھا۔ عبد الرحمان کا جسم زمین سے بیسوں گز اوپر اچھل گیا تھا۔ راہ چلتے لوگوں کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ ثابت و سالم انسان گوشت کے چھوٹے بڑے لوتھڑوں میں تبدیل ہو کر چاروں طرف بکھر گئے تھے۔ سامنے سے گزرنے والی ایک کار ہوا میں اچھلی تھی اور پھر دھڑام سے نیچے گر پڑی تھی۔ گرتے ہی اس میں آگ لگ گئی تھی اور اسے ڈرائیو کرنے والی گوری چٹی لڑکی جھلس کر کوئلہ ہو گئی تھی۔ آس پاس کی عمارتوں کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے تھے۔۔۔ چاروں سمت خون ہی خون۔۔۔۔۔ چیخیں۔۔۔۔ اور کراہیں۔۔۔۔۔۔
جہاں گٹھری پٹخی گئی تھی اس زمین پر کنویں کی طرح گہرا گڈھا بن گیا تھا۔ صدر الدین کا جسم دھماکے سے اچھل کر اسی گڈھے میں گرا تھا اور تیز شعلوں میں گھر گیا تھا۔ اس کے جسم کا ہر عضو اس کے جسم سے جدا ہو کر الگ الگ تڑپ رہا تھا۔ ایسی بھیانک اذیتیں تھیں کہ اس کا مردہ ہوتا جا رہا لہولہان وجود چیخ پڑا تھا۔ مکمل بے جان ہونے سے ثانیہ بھر پہلے بھڑکتے شعلوں کے درمیان بے پناہ کرب و الم میں تڑپتے ہوئے اس کے حیران ذہن میں ایک سوال کوندا۔۔۔۔۔
کیا باغِ بہشت کاراستہ جہنم سے ہو کر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...