کسی کی نرم سرگوشی، ہوا کی سرسراہٹ، نلکے سے ٹپکتے قطرے کی آواز، چڑیا کی چہچہاہٹ، موسیقار کی دھن، بارش کے پتوں پر گرنے کا شور ۔۔۔ ہماری دنیا آوازوں کی خوبصورتی سے لدی پڑی ہے اور سماعت کا یہ معجزہ محض تین چھوٹی سی ہڈیاں، باریک سے مسلز اور لیگامنٹ، نازک سے جھلی اور چند اعصابی خلیات ممکن بناتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کان کے تین حصے ہیں۔ اس کا سب سے باہر والا حصہ سر کی دونوں اطراف پر لگا ہے جس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس کا ڈیزائن کچھ عجیب سا ہے۔ اگر کوئی انجنئیر اسے ڈیزائن کرتا تو کوئی بڑی اور سخت چیز بناتا۔ جیسا کہ سیٹلائیٹ ڈش۔ لیکن کانوں کے یہ گداز چکر گزرتی آوازوں کی لہروں کو پکڑنے میں بہت موثر ہیں۔ اور اس سے زیادہ یہ معلوم کرنے میں کہ آواز آئی کہاں سے ہے تا کہ یہ فیصلہ لیا جا سکے کہ توجہ کہاں دینی ہے۔ اگر کسی محفل میں کہیں پر آپ کا نام لیا جائے تو نہ صرف آپ اس شور میں اسے سن لیتے ہیں بلکہ اپنا سر اس جانب موڑ کر بولنے والے کی ٹھیک شناخت کر لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک کے کان منفرد ہیں۔ ویسے ہی جیسے انگلیوں کے نشان۔ لیکن خواہ کان کی لویں لٹکی ہوں یا ساتھ جڑی ہوئی، کوئی بھی ڈیزائن ہو ۔۔۔ تمام کان ایک ہی طرح فنکشن کرتے ہیں۔
بیرونی کان سے اندر کان کی نالی ہے۔ یہ ایک تنے ہوئے اور سخت ٹشو پر ختم ہوتی ہے جسے tympanic جھلی یا عام زبان میں کان کا پردہ کہا جاتا ہے۔ یہ باہری کان اور درمیانے کان کے درمیان کی سرحد ہے۔ یہاں ہونے والا ارتعاش تین ہڈیوں کو منتقل ہوتا ہے۔ یہ جسم کی سب سے چھوٹی ہڈیاں ہیں اور انہیں مجموعی طور پر ossicles کہا جاتا ہے۔ ان کے انفرادی نام malleus, incus, stapes ہیں۔ یہ ارتقا کے عمل کی ہوشیاری کی زبردست مثال ہیں۔ ارتقا کے عمل میں دستیاب مادہ نت نئی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ یہ قدیم جانداروں میں جبڑے کی ہڈی سے رفتہ رفتہ سفر کرتے اندرونی کان کی جگہ سنبھال لی ہے۔ اپنی تاریخ میں ان ہڈیاں کا سماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ان ہڈیوں کا کام آواز کو بڑھا کر کوکلیا (cochlea) کے ذریعے اندرونی کان تک پہنچانا ہے۔ کوکلیا میں بالوں کی طرح کی 2700 نازک تاریں ہیں جنہیں سٹیریوسیلیا کہتے ہیں۔ جس طرح سمندری گھاس سمندر کی لہروں کے ساتھ لہراتی ہے، ویسے ہی یہ آواز کی لہروں کے ساتھ۔
ان تمام سگنلز کو دماغ اکٹھا کر کے یہ اخذ کرتا ہے کہ اس نے سنا کیا ہے۔ اور یہ بڑی چھوٹے پیمانے پر ہوتا ہے۔ کوکلیا سورج مکھی کے بیج سے بڑا نہیں ہے۔ تینوں ہڈیاں ملا کر قمیض کے بٹن پر پوری آ جائے اور پھر بھی یہ سب زبردست طریقے سے کام کرتا ہے۔ کان کے پردے پر خفیف پریشر ویو ۔۔ جو اسے ایک ایٹم کی چوڑائی سے کم فاصلے تک حرکت دے ۔۔ اوسکلیز کو فعال کر دیتی ہے اور یہ دماغ میں صوتی لہر بن کر پہنچتی ہے اور یہ ہمیں سنائی دی جانے والی آواز ہے۔
اور یہ کام اس سے بہتر طریقے سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ آواز کے ماہر سائنسدان مائیک گولڈسمتھ کہتے ہیں۔ “اگر ہم اس سے زیادہ خفیف آواز سن سکتے تو ہم مسلسل شور کی کیفیت میں رہ رہے ہوتے۔ کیونکہ اس صورت میں ہوا کے مالیکیولز کی رینڈم حرکت سنائی دی جاتیں۔ ہماری سننے کی صلاحیت کا ڈیزائن موجودہ سے بہتر نہیں کیا جا سکتا تھا”۔ ہماری سننے کی رینج بھی وسیع ہے۔ کم سے کم سنائی دی جانے والی آواز سے اونچی آواز میں ایک ہزار ارب گنا کا فرق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت اونچی آواز سے ہونے والے ضرر سے محفوظ رہنے کے لئے ہمارے پاس صوتی ردِ عمل (acoustic reflex) ہے۔ اس میں مسلز جھٹکے سے کوکلیا سے رابطہ منقطع کر دیتے ہیں۔ یعنی کہ بہت اونچی آواز سرکٹ بریکر آن کر دیتی ہے۔ اور ایسا کئی سیکنڈ تک برقرار رہتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ کسی دھماکے کی آواز کے بعد کان بہرے ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے، یہ والا عمل پرفیکٹ نہیں۔ کسی بھی ریفلیکس کی طرف یہ تیزرفتار ہے لیکن کچھ وقت لیتا ہے۔ یہ وقت ایک تہائی سیکنڈ ہے جس میں یہ مسل سکڑتے ہیں اور اس دوران بہت سا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے کان خاموش دنیا کے لئے بنے ہیں۔ اس لئے تو بالکل نہیں کہ ان پر ہیڈفون لگا کر ان سے چند ملی میٹر دور سو ڈیسیبل پر میوزک سنا جائے۔
سٹیریوسیلیا عمر کے ساتھ گھستے جاتے ہیں اور افسوسناک بات ہے کہ یہ واپس نہیں آتے۔ اور ایسا ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں۔ پرندوں میں سٹیریوسیلیا واپس آ جاتے ہیں لیکن ہم میں نہیں۔ ہائی فریکونسی والے سامنے ہوتے ہیں جبکہ کم فریکونسی والے پیچھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آواز کی تمام لہریں زیادہ فریکونسی والے سیلیا سے گزرتی ہیں اور اس بھاری ٹریفک کی وجہ سے یہ جلدی گھِس جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانوں کا ایک اور کام آپ کا توازن قائم رکھنا ہے۔ اور یہ کام کرنے والی نیم گولائی میں بنی نالیوں کی کلکشن ہے جن کے ساتھ دو ننھے سے تھیلے ہیں جنہیں otolith organ کہا جاتا ہے۔ یہ ملکر vestibular سسٹم بناتے ہیں۔ یہ سسٹم وہ کام کرتا ہے جو ہوائی جہاز میں جائیروسکوپ کا ہے۔ لیکن یہ بہت ہی چھوٹے سائز میں ہے۔ اس کی نالیوں کے اندر ایک gel ہے۔ یہ بڑھئی کے لیول کے آلے کے بلبلوں کی طرح کام کرتا ہے۔ اس کی حرکت سائیڈ پر اور اوپر نیچے ہوتی ہے۔ اس کی مدد سے دماغ معلوم کرتا ہے کہ ہم کس سمت میں حرکت کر رہے ہیں۔ (اس وجہ سے ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ لفٹ اوپر جا رہی ہے یا نیچے)۔ جب ہمیں گول گھومنے پر چکر آئیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سر تو رک گیا ہے لیکن gel میں ابھی کچھ حرکت ہے اور اس وجہ سے جسم کچھ دیر کو چکرا جاتا ہے۔ عمر کے ساتھ یہ جیل گاڑھا ہو جاتا ہے اور اتنا اچھا نہیں بہتا۔ یہ وجہ ہے کہ عمررسیدہ افراد عام طور پر اتنی متوازن چال نہیں رکھ پاتے۔ جب توازن میں ہونے والی کمزوری زیادہ ہو یا طویل ہو تو دماغ کو سمجھ نہیں آتا کہ اس کا کیا کرے اور وہ اسے زہرخوانی کی طور پر لیتا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ توازن میں کمزوری کا نتیجہ متلی ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے کام کا ایک اور حصہ جو ہمارے شعور کو اپنا احساس دلاتا رہتا ہے، Eustachian tube ہے۔ یہ ایک طرح درمیانی کان اور ناک کے خلا کے بیچ ہوا کی سرنگ ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ اگر بلندی تیزی سے تبدیل ہو (مثلاً ہوائی جہاز میں لینڈنگ کے وقت) تو کان میں تکلیف دہ احساس ہوتا ہے۔ اس کو Valsalva ایفیکٹ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سر کے اندر کا پریشر باہر کے ساتھ اتنی تیزی سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتا۔ اور ان کو کھولنے کا طریقہ اپنے منہ اور ناک کو بند کر کے ہوا باہر نکالنے کا ہے۔ اس کو بھی Valsalva maneuver کہا جاتا ہے۔ یہ نام اطالوی اناٹومسٹ انتونیو ولسالوا کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کان کی اس ٹیوب کا نام یوسٹاچین ٹیوب انہی سائنسدان ولسالوا نے رکھا تھا۔ اور انہوں نے اپنے ساتھی سائنسدان یوسٹاچی کے نام پر رکھا تھا۔
اور ہاں، بہت زیادہ زور سے blow نہ کریں۔ لوگ اس طرح اپنے کان کے پردوں کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...