حیدر عباس کی وفات کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ وہ ہر وقت گم صم رہنے لگی تھی۔ سارا بیگم تو دوہری پریشانی میں تھی۔ ایک طرف جان سے عزیز شوہر کی موت اور دوسری طرف لاڈلی اکلوتی بیٹی کی ایسی حالت نے تو ان کے حواس ہی سلب کر لئے تھے۔ان کے جس چھوٹے سے آشیانے میں انکی لاڈلی کی ہنسی کی آواز گونجا کرتی تھی اب وہاں موت کے سناٹے پهيلے ہوئے تھے۔ابھی بھی وہ انکی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی۔
“دعا بیٹا اب مزید کتنی چھٹیاں کریں گی آپ آپکے کالج سے تین دفعہ کال آ چکی ہے۔ آپ کے امتحان شروع ہونے والے ہیں۔ اٹھ کے بیگ تیار کریں اپنا صبح کالج جانا ہے آپکو ۔” وہ آج سوچ چکی تھیں کہ آج ہر حال میں اسکو منائیں گی وہ کالج کے لئے۔
“نہیں ماما پلیز مجھے اب نہیں جانا کالج نہ ہی آپ مجھے بار بار کہئے گا۔” کالج کا نام سن کر وہ تو ہتھے سے ہی اکھڑ گئی تھی۔
“دیکھو دعا تمھارے بابا تمہیں بہت پڑھانا چاھتے تھے اور تمہارا ایڈمشن بھی اپنے پسند کے کالج میں کروایا انہوں نے تو کیا تم اپنے بابا کی خواہش کو پورا نہیں کرو گی ؟”
وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اسے بہت نرمی اور پیار سے سمجھا رہی تھیں۔
اور انہوں نے وجہ ہی ایسی بیان کر دی تھی کہ وہ انکار ہ نہ کر پائی اور اپنے باپ کو پھر سے یاد کر کے اپنی ماں کی گود میں منہ چھپا کر رو دی۔
سارا بیگم اسکو زندگی کی طرف واپس لانا چاہتی تھیں۔وہ جانتی تھیں کہ یہ مشکل ضرور ہے پر نا ممکن نہیں۔
°°°°°°
وہ آج بہت خوش تھی۔ آج اسے تنخواہ ملی تھی اور بونس بھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آج امی کو دوبارہ ڈاکٹر کے پاس لے جاۓ گی۔ انکی طبیعت اسے کل رات سے خراب لگ رہی تھی پر اسکے پوچھنے پر وہ ٹال مٹول کر رہی تھیں۔
حریم نے جلدی سے اپنا سامان سمیٹا اور اور آفس سے نکلی۔ وہ سڑک پر کھڑی رکشے کا انتظار کر رہی تھی جب مستقیم سر کی گاڑی اسکے پاس آ رکی۔
“مس حریم آئیں میں آپکو ڈراپ کر دوں۔ اس وقت ویسے بھی آپکو جلدی کوئی کنوینس نہیں ملے گی۔”
وہ گاڑی کے شیشے سے سر باہر نکال کر اس سے مخاطب ہوا۔
“نہیں سر اٹس اوکے میں چلی جاؤں گی۔”
وہ جھجک کر بولی۔
“مس حریم بحث نہیں کریں اور آئیں بیٹھیں آپ۔ نو مور آرگیومنٹس!”
وہ اسکے لئے پیسنجر سیٹ کا دروازہ کھول کر حتمی لہجے میں بولا تو ناچار اسے بیٹھنا پڑا۔ اسکے بیٹھتے ہی مستقیم نے گاڑی آگے بڑھائی۔
گاڑی میں دو لوگوں کے ہونے کے باوجود خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
“مس حریم آپ کی والدہ کیسی ہیں اب؟ ”
وہ اسکی طرف سر گھماتا بولا۔
حریم نے کچھ دن پہلے ہی لیو لی تھی یہ کہہ کر کہ اسکی امی بیمار ہیں۔ وہ اس لئے انکی خیریت دريافت کرنے لگا۔
“جی سر الحمداللہ بہتر ہیں وہ اب۔کل سے طبیت تھوڑی داؤن ہے انکی آج کل پھر ڈاکٹر کی پاس لے کر جاؤں گی اب۔”
“اللّه شفا دے انھیں۔ امین!”
مستقیم نے گاڑی حریم کے گھر کے آگے روکی تو لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر دونوں ہی پریشان ہو گئے۔
“پریشان نہ ہوں حریم آپ سب ٹھیک ہوگا۔”
وہ اسے دلاسا دلاسہ دیتے ہوئے بولا پر اندر سے وہ خود بھی پریشان ہو چکا تھا۔
وہ گاڑی سے نکل کر تیزی سے اندر کی طرف بڑھی تو وہ بھی اسکے پیچھے لپکا۔
وہ جیسے ہی اندر آئ اور سامنے کر منظر پر اسکی نظر پڑی تو اسکا دل بند ہونے لگا۔ اندر صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ اسکے سر کا سائیبان چھن چکا تھا۔ اسکی ماں اپنی ساکت سانسوں اور بند آنکھوں کے ساتھ سفید چادر اوڑھے ابدی نیند سو چکی تھی۔
حریم اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی۔ مستقیم نے جیسے ہی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ اسکی باہوں میں جھول گئی۔
°°°°°°°
اسے ہوش آیا تو وہ کچھ دیر پہلے کا منظر یاد کر کے جلدی سے باہر لپکی۔ مستقیم نے سارے انتظامات سمبھالے ہوئے تھے۔اسکی ماں کو غسل دیا جا رہا تھا۔ اسکی ہمسائی اسکو دلاسا دینے اسکے قریب آئ تو حریم اسکے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
باپ کے بعد ایک ماں کا ہی تو سہارا تھا اسے۔ ماں کے جانے کے بعد تو اسکی پوری دنیا ہی لٹ چکی تھی۔
وہ کیسے نہ روتی۔ کیسے نہ كرلاتی۔ وہ تو سہی معنی میں آج یتیم ہوئی تھی۔
جب اسکی ماں کی میت اٹھی تو وہ چیختی چلاتی اپنی ماں کو واپسی کے واسطے دیتی وہاں موجود ہر آنکھ کو نم کر گئی۔ مستقیم اسکی حالت دیکھتا خود کو سخت بے بس محسوس کر رہا تھا۔
جنازہ اٹھنے کی دیر تھی کہ سب رشتہ دار اور جاننے والے ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے۔
اسکی دور کی خالہ نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی جسے وہ اسی وقت بڑی سہولت سے ٹھکرا گئی۔
سارا گھر خالی ہو چکا تھا۔ مستقیم سارے معملات نمٹا کر گھر کے اندر آیا تو وہ نیچے دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھی۔ خشک آنکھوں اور سپاٹ چہرے کے ساتھ وہ اسے نئے سرے سے دکھی کر گئی۔ وہ اسکے پاس آیا اور ایک گھٹنا زمین پر ٹکا کر اسکے روبرو بیٹھ گیا۔
“حریم!” اسنے اپنی بھاری گھمبیر آواز میں اسے پکارا تو وہ خالی خالی نظروں کے ساتھ اسکی جانب دیکھنے لگی۔
“حریم وہ اللّه کی امانت تھیں نا اسنے واپس لے لی۔ وہ یہاں کتنی تکلیف میں تھیں اب وہ سکوں میں ہوں گی۔ آپ اس طرح رو کر انھیں اور تکلیف دے رہی ہیں۔ آپ رو کر انکی روح کو تکلیف نہ دیں بلکہ انکی بخشش کے لئے دعا کریں۔”
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا بہت نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا۔
وہ ایک دم اسکے کندھے پر سر ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ مستقیم نے اپنا بھاری ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا اور اسکا سر تھپتھپانے لگا۔ اس نے حریم کو چپ نہیں کرایا کیوں کہ وہ چاہتا تھا کہ وہ آخری دفعہ جی بھر کر رو لے۔
وہ بہت سا رو چکنے کے بعد پیچھے ہوئی تو اسکی سرخ روئی روئی آنکھیں دیکھ کر مستقیم کا دل پھر سے بے اختیار ہونے لگا۔ اس نے نرمی سے اسکی آنکھیں صاف کیں اور اسے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا۔ وہ نظریں جھکا کر اسکے سامنے کھڑی ہو گئی۔
“حریم آپ اکیلی سروائیو نہیں کر پائیں گی ۔ آپ میرے ساتھ میرے گھر جا سکتی ہیں۔”
نہیں سر پلیز مجھے یہاں سے کہیں نہیں جانا میرے ماں باپ کی خوشبو ہے یہاں میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی ۔”
وہ حتمی لہجے میں بولی تو وہ سر ہلا گیا۔
وہ جاتے جاتے اسے تاکید کر گیا تھا کہ کوئی بھی مسئلہ ہو یا کوئی بھی ضرورت ہو تو وہ فوراً اسے کال کرے۔ وہ ضرورت کا سارا سامان بھی گھر میں ركهوا چکا تھا۔ اسکے جانے کے بعد وہ دروازہ بند کر کے اپنی ماں کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ دن تو ماں کے بغیر گزر گیا تھا پر رات ابھی باقی تھی۔
°°°°°°°
وہ جسے ہی کالج میں داخل ہوئی تو امايا اسے دیکھتے ہی تیزی سے اس کی جانب بڑھی اور اسکے گلے لگ گئی۔وہ اسکے والد کی وفات کے بعد سے کافی دفعہ اسکے گھر بھی جا چکی تھی۔ وہ واقعی دعا کے کے ایک مخلص دوست ثابت ہوئی تھی۔ مخلص اور سچے دوست واقعی اللّه کا خاص تحفہ ہوتے ہیں۔
وہ اسے اپنے ساتھ کلاس روم میں لے گئی۔دعا کا دل کر رہا تھا یہاں سے اس سب سے دور چلی جاۓ پر اسکے باپ کی خواہش اسکے پاؤوں میں زنجیریں ڈال رہی تھی۔ وہ امايا کے ساتھ چپ چاپ جا کر لاسٹ ڈیسک پر بیٹھ گئی۔
سب کلاس فیلوز اور ٹیچر اس سے اسکے والد کی وفات کی تعزیت کر رہے تھے اور وہ بہت مشکل سے اپنے اشکوں پے بند باندھے بیٹھی تھی۔
فاتح نے بھی اس سے افسوس کیا تھا۔ اسے جب سٹوڈنٹس سے اس کے والد کی وفات کا پتا چلا تو اسے بہت دکھ ہوا تھا اسکی تکلیف کا سن کر۔
وہ ننھی سی جان اتنی سی عمر میں کتنے بڑے دکھ سے گزر گئی تھی۔ وہ اپنی طبیعت کے برخلاف بہت نرمی سے بات کر رہا تھا ۔
“رول نمبر ٹین آپ کی اسٹڈیز کا کافی لوس ہو چکا ہے۔ ایگزامز بھی نزدیک ہیں۔ ہم ایسا کرتے ہیں کے چھٹی کے بعد ایک ایکسٹرا کلاس رکھ لیتے ہیں کچھ دن تا کہ آپ پچھلا سلیبس کور کر لیں۔ اوکے ؟”
وہ اس سے پوچھنے لگا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی کہ فزکس اسے واقعی مشکل لگتی تھی۔وہ اسکے جواب پر ایک نرم مسکراہٹ اسکی طرف اچھالتا وائٹ بورڈ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
°°°°°°°°
وہ دو دن سے اکیلی گھر پر تھی۔سنسان گھر اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔مستقیم اسے دن میں تین دفعہ کال کر چکا تھا اسکی خیریت پوچھنے کے لئے۔
ابھی وہ سوچوں میں گم تھی جب باہر کا دروازہ کھٹکا۔ وہ دوپٹہ گلے میں ڈال کر دروازہ کھولنے باہر کی طرف بڑھ گئی۔اسے لگا ساتھ والی خالہ کھانا لے کرآئ ہوں گی۔وہ کچھ دیر پہلے ہی کہہ کر گئی تھیں کہ کچھ دیر میں کھانا لے کر آئیں گی۔
اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی بشیر کھڑا دانت نکوس رہا تھا۔ اس نے دروازہ بند کرنا چاہا پر وہ اسے دھکیل کر اندر کرتا اپنے پیچھے دروازہ بند کر گیا اور اسے گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا۔
وہ چیختی چلاتی اسکی پکڑ سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔”
“چھوڑو مجھے کمینے ذلیل انسان۔ اللّه کا قہر نازل ہو تم پر۔”
وہ اسے بددعائیں دیتی اسکا ہاتھ نوچ رہی تھی۔
اس نے اسے لا کر بیڈ پر پهينكا تو وہ منہ کے بل بیڈ پر گری ۔ اسکے بال بکھر کر کندھے پر پهيل گئے۔ دوپٹہ باہر ہی کہیں گر چکا تھا۔
وہ حوس بھری نظروں سے اسکے دلکش سراپے کو تاڑ رہا تھا۔
“آج کیسے بچے گی مجھ سے تو میری رانی۔”
وہ اپنے گندے پیلے دانتوں کی نمائش کرتا مکروہ ہنسی ہنسنے لگا۔حریم بیڈ پر پیچھے ہونے لگی تو ایک ڈیکوریشن پیس اسکے ہاتھ لگا۔ اس نے وہی ڈیکوریشن پیس کھینچ کر اسکے ماتھے پر مارا تو وہ درد سے بلبلاتا ماتھے پر ہاتھ رکھ کر جھک گیا۔
حریم موقع جان کر جلدی سے باہر دروازے کی طرف لپکی۔
وہ تیزی سے دروازہ کھول کر باہر بھاگی تو سامنے سے آتے وجود سے ٹکرا گئی۔
°°°°°°
وہ آج کالج کے بعد فاتح سر کے ساتھ فزکس کی ایکسٹرا کلاس لینے کے لئے رکی تھی۔ اس نے امايا کو بھی بولا تھا رکنے کو پر وہ کالج سے جانے کے بعد بچوں کو ٹیوشن دیتی تھی۔ اس لئے پھر دعا نے اسے زیادہ زور بھی نہیں دیا۔
وہ ابھی فاتح کے آفس کے باہر کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اندر جاۓ یا نہ جاۓ جب اسے فاتح کی آواز سنائی دی۔
“رول نمبر ٹین جسٹ کم ان ناؤ””
اسکی بھاری آواز میں یہ پیغام سن کر وہ سٹپٹا گئی۔ اسے کیسے پتا چلا کہ وہ باہر کھڑی ہے۔اس نے دروازہ نوک کیا۔
“یس !” اجازت ملنے پر وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔
“بیٹھیں آپ پلیز!”
وہ اسے سامنے پڑے صوفے کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا تو وہ صوفے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر دعا کی طرف بڑھا اور صوفے کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔
دعا اس کے یوں نزدیک بیٹھنے پر کنفیوز ہو گئی۔ حالاں کہ وہ اس سے مناسب فاصلے پر بیٹھا تھا۔
فاتح نے بک کھول کر اسے پڑھائی کی طرف متوجہ کیا تو اس نے بھی اپنا دھیان کتاب پر لگا دیا۔
فاتح اسے نمریکل سمجھا چکا تھا اور وہ اب بیٹھ کر ایک دفعہ اسکی پریکٹس کر رہی تھی۔ فاتح اپنا لپپٹوپ سامنے کھولے کام کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو کہ دعا کے ہوتے ہوئے بلکل بھی ممکن نہیں لگ رہا تھا کیوں کہ وہ لاکھ اسے اگنور کرنے کی کوشش کرتا پر نظریں بار بار بھٹک کر اس معصوم پری کے چہرے پر جا رہی تھیں اور وہ اس سب سے انجان اپنے کام میں مشغول تھی۔اسکی بے خبری پر فاتح نے سر جھٹکا اور اپنا دیہان لپپٹوپ کی طرف لگا دیا۔
°°°°°°°
وہ تیزی سے دروازہ کھول کر بھر بھاگی تو سامنے سے آتے وجود سے ٹکرا گئی۔اسنے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھائیں تو سامنے مستقیم کو دیکھ کر اسکے بازو سے چپک کر رو دی۔ اسکی ٹوٹی بکھری حالت دیکھ کر مستقیم کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔
بکھرے بال،روئی روئی سوجی ہوئی لال آنکھیں، جوتے سے بے نیاز پاؤں اور دوپٹے سے بے پرواہ وجود لئے وہ مستقیم کا دل بند کرنے کے در پے تھی۔
مستم رات کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے کمرے میں آ گیا تھا پر طبیعت پر ایک عجیب سا بوجھل پن طاری ہو رہا تھا۔ اسکا دل بہت گھبرا رہا تھا۔ اس نے حریم کی خیریت جاننے کے لئے اسکا نمبر ملایا تو اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔ اس نے سوچا کے شاید سو گئی ہو۔
وہ گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔ بے مقصد سڑکیں ناپتا وہ بے خودی میں ہی گاڑی حریم کے گھر کی طرف موڑ گیا۔ وہ گاڑی اسکے گھر کے پاس پارک کرتا حریم کے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا جب وہ ایک دم آ کر اس سے ٹکرائی ۔
وہ اسکے بازو سے لگی رونے لگی ۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ پوچھتا بکتا جھکتا بشیر حریم کے پیچھے نکل آیا۔
اسے دیکھتے ہی وہ خوفزدہ ہو کر مستقیم کے پیچھے چھپ گئی۔بشیر کو یوں سامنے دیکھ کر اور حریم کی حالت دیکھتا وہ ایک سیکنڈ میں سارا معملہ سمجھا تھا۔ غصے سے اسکی رگیں تن گئیں۔
وہ حریم کے گرفت سے اپنی شرٹ چھڑواتا جنونی انداز میں میں بشیر کی طرف لپكا اور اس پر پل پڑا۔ حریم کی خوف سے چیخ نکل گئی۔مستقیم نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ بے رحمی سے اس پہ لاتوں اور مکوں کی برسات کر دی۔ پہلے وہ دھمکییاں دیتا رہا پر اسکی مار سے بے حال ہوتا پھر اسکی منتوں پر اتر آیا کہ ایک آخری دفعہ اسے معاف کر دے۔
“سس۔۔۔سر پلیز ۔۔۔چھ ۔۔چھوڑ دیں اس۔ ۔۔اسے ۔۔وہ مر ۔۔مر جاۓ گا۔” اسکے جنونی روپ سے مار کھا کر ادھ موا ہوتے بشیر کو دیکھ کر وہ ہچکیياں لیتی اسے روک گئی۔
مستقیم نے غصے سے آخری دفعہ پاؤں زور سے اسکے منہ پہ مارا تو وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔ مستقیم نے پولیس کو کال کی اور کال ختم ہونے کے بعد اسکی طرف بڑھا۔اپنی جیکٹ اتار کر اسکی طرف بڑھائی تو وہ روتے ہوئے اسکی جیکٹ تھام کر پہن گئی۔
“اب بھی آپ یہاں اس گھر میں اکیلی رہنا چاہتی ہیں؟ میں کوئی بات نہیں سنوں گا اب ۔ آپ کے پاس صرف دس منٹ ہیں اگر اپنا کوئی ضروری سامان یا اپنے ماں باپ سے وابستہ کوئی یادیں سمیٹنا چاہتی ہیں تو۔”
وہ سخت برہم تھا پر اسکی حالت دیکھتا نرمی برت رہا تھا۔
آج ابھی جو کچھ بھی ہوا تھا اس کے بعد وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ اکیلی یہاں نہیں رہ سکتی۔
یہ ہمارے معاشرے کا کڑوا سچ ہے کہ ایک اکیلی عورت یا لڑکی زندگی سکوں سے بسر نہیں کر سکتی۔ انسان کی چمڑی میں موجود گدھ ہر وقت اکیلی لڑکی کو نوچنے اور نگلنے کو تیار رہتے ہیں۔انسان نما بھیڑیے ہر وقت اکیلی کمزور عورت کی تاک میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی اسکی عزت کو تار تار کرنے میں کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔
مستقیم اسے بازو سے پکڑ کر اندر لایا کچن میں جا کر پانی کا گلاس لے کر آیا اور حریم کو پکڑا کر باہر بڑھ گیا۔
وہ اسے تھوڑا وقت دے رہا تھا تا کے وہ خود کو ذہنی طور پر آمادہ کر لے اس گھر کو چھوڑ کر جانے کے لئے جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا تھا اور اپنے والدین کے ساتھ یادیں بنائی تھیں۔
کچھ دیر بعد گاڑی حریم کی گلی سے نکلتی چلی گئی تو اس نے مڑ کر ایک اداس الوداعیہ نگاہ اپنے گھر پر ڈالی اور اپنے ہاتھ کے پوروں سے آنکھوں میں موجود نمی سمیٹ کر گاڑی کی سیٹ سے اپنا سر جوڑ کر آنکھیں موند لیں۔
°°°°°°
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...