“کیا ہوا عیان ۔۔۔۔ حیدر صاحب نے اس کی بدلتی رنگت دیکھ کر کہا ۔۔۔
“بابا ۔۔۔۔اس کی زبان لڑکھڑائی ۔۔۔
“کہو عیان کیا ہوا ۔۔۔۔ بےچینی بےبسی کیا ہوتی ہے اج پتا چلا تھا ۔۔۔
“بابا ایمان کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ٹرک سے ۔۔۔ حیدر صاحب کو شاک ہی لگا پر اصل صدمہ تو اسے لگا جو اہستہ قدم سیڑھیوں سے اتررہی تھی ۔۔۔
اتنا سننا اور انشاء کا پاؤں پھسلا ۔۔۔ایک قیامت سے ابھی یہ لوگ سنبھلے نہ تھے انشاء کا گرنا ایک اور قیامت برپا کرگیا ۔۔۔
@@@@@@
ایمان چند سانسیں بھی نہ لےسکا اور دنیا سے منہ موڑ گیا ۔۔۔ سب کو ساکت ہی تو چھوڑ گیا تھا ۔۔۔ اور اس کی انے والی اولاد بھی اس کے ساتھ اس دنیا سے چلی گئی ۔۔۔
اس دوہرے دکھ نے حیدر صاحب کی کمر ہی توڑدی تھی ۔۔ بیٹا اور اس کی آخری نشانی دونوں نہیں رہی ۔۔۔ کون کس کو سنبھالے یہ سمجھنا ہر کسی کے لیۓ مشکل تھا ۔۔۔ عیان باپ کو کیا سنبھالتا وہ خود درد سے چور تھا بھائی کو کھونا کسی صدمے سے کم نہ تھا ۔۔۔ انشاء نے اپنا سب کچھ کھودیا تھا پر اسے سنبھالنے والا کوئی نہ تھا ۔۔ وہ اپنا سب کچھ گنوا چکی تھی ۔۔۔ کئیں دن ہسپتال رہی زینب بی اس کے ساتھ ہی تھی ۔۔۔ شاید کوئی ایسے الفاظ نہ تھے جو اس کے درد کو کم کرسکتے ۔۔۔
ایسے کڑے وقت میں کئی غیر تھے جنہوں نے اپنوں سے بڑھ کر ساتھ دیا جو ان کاغم بانٹنے اتے رہتے جن میں عمر اور نازیہ نے بھرپور ساتھ دیا مسٹر وحید حیدرصاحب کے گہرے دوست ان کی فیملی نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور ان کا غم بانٹنے کی کوشش کی ۔۔۔ کچھ پڑوسی تھے جنہوں نے پڑوسی ہونے کا حق ادا کرکے ایسے وقت میں ساتھ کھڑے رہے عیان کے ۔۔۔
کوئی کچھ بھی کرلے پر ایمان کی کمی کو پورا کوئی نہ کرسکتا تھا ۔۔۔ سب کے لبوں کو قفل لگ گۓ تھے ایک خاموشی نے سارے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا وحشت سی ہونے لگتی تھی گھر میں رہ کر عیان کو , وہ دیر سے گھر انے لگا تھا ۔۔۔ حیدر صاحب کمرے تک محدود ہوکر رہ گۓ تھے ۔۔
انشاء چپ چاپ کمرے میں پڑی رہتی اس کی عدت کے دن تھے ۔ زینب بی کھانا دیتی تو کھالیتی ورنہ اسے خود سے بھوک پیاس کا احساس ختم ہوگیا تھا ۔۔۔
عیان کا اپنا بزنس ایمان کے ہوتے ہوۓ شروع ہوچکا تھا پر اب کامیابیوں کو چھونے لگا پر وہ جذبہ اور جنوں اس کے اندر تھا وہ ختم ہوگیا تھا ۔۔۔ اب کوئی لمحہ اسے وہ سچی خوشی نہیں دے سکتا تھا جو ایمان کے ہونے سے تھی ۔۔۔
شاید ایک ایمان ہی تھا جو ڈوری کی مانند تھا جس نے سب کو جوڑ کر رکھا تھا اب تو سب موتی بکھر کر رہ گۓ تھے ۔۔۔
ایک چپ ایک خاموشی اور سناٹا سا ہوگیا تھا اس محل نما گھر میں ۔۔۔ ویسے بھی کم مکین رہتے تھے پر زندگی کا احساس سا لگا رہتا تھا زندگی کو بھرپور انداز میں جیتے تھے پر جو زندگی کا احساس اب مفلوج ہوگیا تھا ۔۔۔ کہنے کو تو سب سانس لے رہے تھے پر زندگی کی رمق نہ رہی تھی ۔۔۔
@@@@@@@
” عمر بیٹھ جاؤ اس فائل پر کچھ ڈسکس کرلیتے ہیں ۔۔۔ عیان نے کہا فائل کو بغور دیکھ رہا تھا ۔ عمر نے غصے سے اس ربوٹ نما شخص کو دیکھا ۔۔۔ غصہ تو بہت ارہا تھا پر ضبط کیا اور اس کے ہاتھ سے فائل چھینی جھپٹنے کے انداز میں اور کہا ۔۔۔
“بس یہی رہ گیا ہے زندگی میں عیان ۔۔۔ اس نے فائل کی طرف اشارہ کیا ۔۔
“کیا ۔۔۔ عیان نے سوالیہ پوچھا ۔۔۔ اور فائل لینا چاہی پر وہ اس کی پہنچ سے دور کرچکا تھا ۔۔۔ دونوں ناصرف بہترین دوست بلکہ بزنس پارٹنز بھی تھے ۔۔
“کیا کیا , یہی کہ کام کو ہی تم نے اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے ۔۔۔ تم نے افس کو گھر بنالیا ہے رات کے گیارہ بجے تک بیٹھنے کی کوئی تک ہے بھلا بتاؤ ذرہ ۔۔۔
عمر نے تیز لہجے میں کہا ۔۔۔ اسے عیان جیسے میچور بندے سے اس رویۓ کی توقع نہ تھی ۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کو گھور رہے تھے ۔۔۔
“کیا بتاؤں , فائل دو واپس , ضروری کام ہے ڈسکس کرنا ضروری ہے ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“شٹ اپ مسٹر عیان , کام کی اڑ میں اپنے درد کو چھپانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ میں دوست ہوں تمہارا یار کا حالِ دل نہ سمجھا تو پھر بےکار ہے یہ تعلق ۔۔۔
عمر نے چڑ کر کہا ۔۔۔ گہرے دوست تھے دونوں اندر تک ایک دوسرے کو سمجھتے تھے ۔ ۔
“میں کچھ نہیں چھپا رہا ۔۔۔ عیان نے نظر پھیر کر کہا ۔۔۔
“اچھا , تو پھر تم کب احساس کروگے اپنے باپ کا جس نے ایک بیٹا کھو دیا ہے اور دوسرا بیٹا چھپتا پھر رہا ہے ۔۔۔ کیا مطلب سمجھوں اس بات کا بتاؤ ۔۔۔
عمر نے تند لہجے میں پوچھا ۔۔۔
“بس اتنا سمجھ لو بابا جان نے مجھ سے بولنا کچھ کہنا چھوڑ دیا ہے , گھنٹوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر ہم نے خاموشی کو برقرار رکھا ہوا ہے ۔۔۔ اب ہماری بیچ صرف خاموشی ہی رہ گئی ہے , شاید ایمان ہی ہمارے بولنے کی وجہ تھا ۔۔۔ سب ختم ہوگیا لمحوں میں عمر , ایمان ہماری زندگی میں بسنے والا ایک انسان نہ تھا بلکہ وہ ہماری زندگی جینے کی وجہ تھا , وجہ ختم جینا ختم ۔۔۔۔
عیان کے لہجے کا درد عمر کو مارنے لگا ۔۔۔ پر لمحوں میں خود کو سنبھالا کیونکہ وہ جو اسے سمجھانا چاہتا تھا اس کے لیۓ اتنی مایوسی اچھی نہ تھی ۔۔۔
“چپ کر جاؤ , تم بھی ایسی باتیں کرتے ہو , تم بڑے بیٹے ہو حوصلہ دو , بجاۓ حوصلہ دینے کے تم بھاگ رہے ہو , ایمان کو گۓ چھ مہینے گزر گۓ اور تم لوگوں نے بس وہیں فل اسٹاپ لگادیا ہے ۔۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا ۔۔۔ زندگی کو جینا ہی پڑتا ہے ۔۔۔۔ سب کو زندگی کی طرف تمہیں ہی لانا ہے ۔۔۔
عمر کا انداز دوٹوک تھا ۔۔۔
“اٹھو گھر جاؤ , اج کے بعد جلدی گھر جاؤگے پہلے کی طرح سب ساتھ میں کھانا کھاؤ پھر رات کی گپ شپ لگاؤ ۔۔۔ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنا ہے تم سب کو ۔۔۔ اب یہ مایوسی طاری نہ کرنا خود پر ورنہ انکل کو کون سنبھالے گا ۔۔۔ اگر یہ مایوسی کا ماحول رہا گھر میں تو انکل نہیں جی پائیں گے ۔۔۔
عمر کی بات پر عیان نے سرہلایہ تائیدی انداز میں پر کہا تو بس اتنا۔۔۔
“پر عمر۔۔۔ عمر سمجھ رہا تھا وہ فائل کی بات دوبارہ کرنے لگا ہے پر اسے ٹوک کر عمر نے کہا ۔۔۔
“پرور کچھ نہیں ابھی بہت وقت ہے اس فائل کو کل ڈسکس کرلیں گے ۔۔۔ میرے یار انکل کا بہت خیال رکھنا ان کو اپنے دوسرے بیٹے کی بھی ضرورت ہے ۔۔۔
کچھ یاد انے پر عمر دوبارہ بولا ۔۔۔
” انشاء بہن کو بھی تم سب کی ضرورت ہے ان کابھی خاص خیال کرنا ان کی کل کائنات اجڑگئی ہے ۔۔۔ نازیہ مجھے بتاتی رہتی ان کے بارے میں ۔۔۔
“ہمممم ۔۔۔ عیان سیٹ سے اٹھا اس کی بات پر صرف ہنکارا ۔۔۔۔ وہ اٹھ کر چلا گیا عمر اسے جاتا دیکھتا رہا ۔۔۔
@@@@@@@
عیان رات کے بارہ تک گھر پہنچا ۔۔۔ بابا کے کمرے تک گیا وہ سوچکے تھے ۔۔۔ پر ایک ملازم اس کے لیۓ جاگ رہا تھا جو کھانا گرم کرکے دے سکے ۔۔۔
“صاحب کھانا لگادوں ۔۔۔ رحیم نے کہا ۔۔۔ جو ڈرائیوری بھی کرتا تھا گھر کی اور اس طرح کے کام بھی ۔۔۔
“بابا نے کھانا کھایا ۔۔۔ اس سے پہلے رحیم کچھ کہتا زینب بی لاؤنج میں آئی اور کہا ۔۔۔
“یاد اگئی بابا کی عیان بیٹے ۔۔۔ وہ ان کے طنز کو خوب سمجھ رہا تھا ۔۔۔ رحیم کواٹر کی طرف چلا گیا ۔۔۔ اسے مناسب نہ لگا اب وہان کھڑے ہوکر ان کی گفتگو سننا ۔۔۔
“ہاں پر شکر ہے دیر نہیں ہوئی انے میں ۔۔۔ زینب بی بتائیں انشاء اور بابا نے کھانا کھایا ۔۔۔ عیان نے افسوس سے کہا ۔۔۔
“ہان کھایا دونوں نے پر اپنے کمروں میں , اب ڈائینگ ٹیبل پر رونق نہیں لگتی عیان بیٹے ۔۔۔
انہوں نے دکھ سے کہا ۔۔۔۔
” کل سے میں جلدی آؤں گا پھر مل کر کھانا کھائیں گے , جانتا ہوں ایمان کی کمی کوئی نہیں پوری کرسکتا پر صرف سانس لینے کے لیۓ سب زندہ رہیں , یہ بھی نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔ سب ہو زندگی کہ طرف دوبارہ لوٹنا ہی پڑے گا ۔۔۔ عیان نے ایک عزم سے کہا ۔۔۔
” اچھی بات ہے بیٹا کسی کو تو ہمت کرنی پڑے گی , اس درد سے باہر نکلنے کی ۔۔۔ زینب بی نے دکھ سے کہا ۔۔۔
” کھانا گرم کر دوں ۔۔۔ اس سے پوچھا پر جواب میں عیان نے کہا ۔۔۔
“نہیں کھا کر ایا ہوں ۔۔۔
اتنا کہے کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
“جھوٹ بولنا تم کب سیکھو گے عیان ۔۔۔ تمہیں تو سہی سے جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا۔۔۔
زینب بی نے اسے جاتا دیکھ کر سوچا ۔۔۔۔
@@@@@@@@
اگلے دن سب کو ناشتے پر اکھٹا کیا عیان نے ۔۔۔ زینب بی انشاء کو بلا لائیں ۔۔۔ حیدر صاحب کو زبردستی عیان صبح کی واک پر لے گیا خاموشی ہنوز ان کے بیچ تھی واک کے دوران ۔۔۔
صبح کی تازی ہوا نے حیدرصاحب پر اچھا اثر ڈالا تھا ۔۔۔ اب ناشتے پر بھی عیان زبردستی ان کو ڈائینگ پر لایا اور زینب بی کو انشاء کو بلانے بھیجا ۔۔۔
اس وقت انشاء کو اتا دیکھ عیان کو یقین نہ ایا یہ وہی انشاء ہے جو ایمان کی موجودگی میں چڑیا کی طرح چہکتی تھی اب ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی تھی بےرنگ لباس میں سفید چہرہ زرد ہوکر رہ گیا تھا ۔۔۔ جن ہونٹوں سےہنسی کبھی جدا نہ ہوتی تھی وہ ہونٹ سوکھے سے لگ رہے تھے ۔۔۔ ویران انکھیں درد کی لہر اپنے اندر اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی عیان کو ۔۔۔
چھ مہینوں بعد اج اسے غور سے دیکھا تھا وہ تو اپنے غم میں اس ہستی کو بھول کر ہی رہ گیا تھا ۔۔
“زینب بی انشاء کو ریڈی کجیۓ گا اج شام کو ڈاکٹر کو دکھانا ہے ۔۔۔ اپ بھی ساتھ چلیں گی ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“مجھے کیا ہوا ہے میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ انشاء نے اپنے نام پر چونک کر جلدی سے کہا ۔۔۔
” میں نے تم سے کچھ پوچھا نہیں ہے ۔۔۔ یہ میرا حکم ہے ۔۔۔ عیان نے سرد لہجے میں کہا ۔۔۔
“اور ہان دھیان سے ناشتہ کرو ۔۔۔ عیان کے سرد انداز پر بابا نے بھی چونک کر دیکھا ۔۔۔
عیان نے اس کی پلیٹ بنائی جس میں مناسب غذا ڈالی اور اس کے سامنے رکھی ساتھ میں دودھ کا گلاس ۔۔۔۔
“جلدی ختم کرو سب ۔۔۔کچھ بھی بچنا نہیں چاہیۓ ۔۔ اس نے حکم دیا انشاء کو ۔۔۔ اس کے غصے کے تاثرات دیکھ کر جلدی سے ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔ ویسے بھی کچھ وقت کے لیۓ اس سے ڈرنا چھوڑا تھا ورنہ حقیقت میں وہ اس کے غصے سے بچپن میں بھی ڈرتی تھی ۔۔۔ وہ ڈر اج بھی قائم تھا ۔۔۔۔
زینب بی خوش ہوئی عیان کے اس انداز پر ۔۔۔ کیونکہ وہی ایک تھا جس سے وہ ڈرتی تھی ۔۔۔۔
وہ اس کی کھانے کی رفتار پر مسکرایا پھر ایک دم اپنے لب سکوڑے اور سوچا ۔۔۔
“تم سے اتنا غافل نہیں ہونا چاہیۓ تھا ہم سب کو ۔۔۔۔
سب نے ناشتہ ختم کیا ۔۔۔ انشاء اٹھ کر چلی گئی سب سے پہلے ۔۔۔ سب اسے جاتا دیکھنے لگے ۔۔۔
@@@@@@@
افیس جانے سے پہلے وہ بابا کے کمرے میں ایا ۔۔۔ بابا نے حیرت سے ٹائم دیکھا کہ دس بج گۓ تھے جبکہ وہ نو بجے جاتا تھا ۔۔۔
“بیٹا آج بہت لیٹ کر دی ہے ۔۔۔ انہوں نے جتایا ۔۔۔
“نہیں بابا , لیٹ نہیں پر اب جاکر لائن پر ایا ہوں ۔۔۔ باس ہوں اتنا تو میرا حق ہے ۔۔۔ وہ زبردستی ہی سہی پھیکی ہنسی ہنسا ۔۔۔ شاید اس گھر کے لوگ اصل ہنسی بھول چکے تھے ۔۔
“کیا مطلب ۔۔۔
“مطلب چھوڑیں ۔۔۔ اپ کے ڈاکٹر کی نیکسٹ اپائمینٹ اج ہی ڈاکٹر سے لوں گا کافی وقت ہوگیا ہے اپ نے ڈاکٹر کو دکھایا نہیں ۔۔۔ جبکہ ڈاکٹر نے تین منتھ کا فالواپ چیک اپ کا کہا تھا جبکہ سات مہینے ہوچکے ہیں ہمیں ڈاکٹر کو دکھاۓ ۔۔۔۔ عیان نے کہے کر ان کو یاد دلایا ۔۔۔
حیدر صاحب ہائیپرٹینشن کے پیشینٹ تھے ان کا فالو اپ ضروری ہوتا ہے ایمان کے جانے کے بعد وہ خود سے غافل ہوۓ تھے ۔۔۔
“ٹھیک ہے دکھا دیں گے ۔۔۔۔ انہوں نے کہا ۔۔۔
کچھ یاد آنے پر انہوں نے دوبارہ کہا ” تمہیں انشاء سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے تھی ۔۔۔
” بابا وہ اسی زبان میں سمجھتی ہے اور آپ جانتے ہیں ایمان کے جانے کے بعد وہ ہماری ذمہ داری ہے ۔۔۔ ایمان اس سے کتنی محبت کرتا تھا اور میرے لیۓ وہ ایمان کی نشانی ہے جس کا خیال اب میں خود پر واجب سمجھتا ہوں ۔۔۔
عیان کے لہجے میں کتنا درد تھا اپنے بھائی کے لیۓ ۔۔۔۔
“بابا وہ اپ کی بیٹی بھی تھی اپ کو اس سے اس طرح لاپرواہ نہیں ہونا چاہیۓ تھا ۔۔۔
عیان نے ان کو احساس دلایا کہ وہ کتنا غافل ہوچکے تھے اس سے ۔۔۔ عیان کے لفظوں نے ان کو ان کی لاپرواہی کا احساس دلایا ۔۔۔
“ٹھیک کہے رہے ہو تم ۔۔۔۔ میں اپنی بیٹی سے غافل ہی تو ہوگیا تھا ۔۔۔
“بابا , ایمان کے بعد میں ہوں اپ کے پاس پر ایک دفعہ سوچیں انشاء سے اس کے دوانمول رشتے کھو گۓ ہیں وہ تو بلکل اکیلی تنہا ہوکر رہ گئی ہے ۔۔۔ پھر اپ کیسے بھول گۓ اسے وہ تو اپ کی لاڈلی بیٹی ہے نا , ہم سے بڑھ کر چاہتے تھے اسے اپ ۔۔۔ اب اپ کو اس کا پہلے سے زیادہ خیال ہونا چاہیۓ تھا ۔۔
“عیان تم ٹھیک کہتے ہو , میں تو اپنے بیٹے کے غم میں نڈھال ہوگیا تھا اور بیٹی کو بھول بیٹھا ۔۔۔ اچھا ہوا تم نے مجھے احساس دلایا اس کا ۔۔۔
عیان ان کے گلے لگا , انہوں نے ڈھیروں دعائیں دی اسے ۔۔۔ اور وہ خوش ہوا تھا اپنی اس کوشش پر ۔۔۔ کبھی کبھی انسان خود کو ناکارہ سمجھ کر اپنے غم میں ختم ہونے لگتا ہے پر اگر اس انسان کو یہ احساس دلایا جاۓ کہ وہ ناکارہ نہیں ابھی کئیں کام اس کے ذمے ہیں جسے اسے پورا کرنا ہے تو اس سے اس کے اندر جینے کی امید بڑھ جاتی ہے وہ اسی ذمیداری کے احساس سے زندگی جینا شروع کردیتا ہے ۔۔۔ یہ امید ہی ہے جو انسان کو زندہ رکھتی ہے ۔۔۔
یہی سب سوچ کر عیان نے حیدر صاحب کو ایک مقصد دے دیا جینے کا ورنہ جس طرح کی روٹین ان دنوں انہوں نے اپنائی ہوئی تھی اس سے ان کا بیمار ہونا یقینی تھا پر اب نا صرف حیدر صاحب اپنا سوچین گے بلکہ انشاء کی فکر میں مصروف بھی رہیں گے ۔۔۔ یہ سب انشاء اور حیدر صاحب کے لیۓ ضروری تھا ۔۔۔
“یاد سے انشاء کو دکھانا شام میں ڈاکٹر کو ۔۔۔ بابا نے یاد کروایا اسے ۔۔۔
“جی بابا یاد ہے ۔۔۔ عیان نے اللہ حافظ کہا اور کمرے سے باہر نکلا ۔۔۔
جاتے جاتے زینب بی کو بھی کہا عیان نے ۔۔۔
@@@@@@
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...