پتھر کیا ہے یا پانی کیا ہے۔ ان کے مالیکیول کیا ہیں اور ایٹم کیا ہیں اور الیکٹرون کیا ہیں۔ یہ سائنس کی جس شاخ کا موضوع ہے، وہ کوانٹم فزکس ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم جاتے ہیں کہ یہ تضادات اور اسرار رکھتی ہے۔ کوانٹم فزکس ایسی دنیا کو بیان کرتی ہے جس میں کسی شے کا بھی مستحکم وجود نہیں۔ ایٹم اور الیکٹرون لہر ہو سکتا ہے یا ذرہ۔ انحصار اس پر ہے کہ اس کو دیکھا کیسے جا سکتا ہے۔ بلیاں بیک وقت زندہ اور مردہ ہو سکتی ہیں۔
یہ سب پاپولر کلچر میں مشہور ہے اور کوانٹم کا لفظ خود ایک geek mystification کا لفظ بن گیا ہے۔ ایسا ہونا ہم جیسے لوگوں کے لئے اچھا نہیں جو اس دنیا کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس اس چیز کا آسان اور سیدھا جواب نہیں کہ پتھر کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں کوانٹم فزکس کی وضاحت کرنے کے لئے کوانٹم مکینکس کی تھیوری ڈویلپ ہوئی۔ یہ سائنس کی زبردست دریافت ہے اور ہمیں ایٹم، ریڈی ایشن، بنیادی پارٹیکل، بنیادی فورسز سے لے کر میٹیریل کی خاصیتوں تک کی وضاحت کرتی ہے۔ اور سائنس کی یہی شاندار دریافت کچھ مشکلات سے بھی دوچار کر دیتی ہے۔ ابتدا سے ہی اس کے موجدین اس بارے میں گہرے اختلافات رکھتے تھے کہ یہ تھیوری ہمیں بتاتی کیا ہے۔ کچھ کو اس پر غصہ تھا۔ کچھ کے لئے یہ نئی قسم کی انقلابی سائنس تھی جس نے نیچر کے بارے میں میٹافزیکل مفروضات کو تہس نہس کر دیا تھا۔
اس کی ابتدا سے ہی کھڑے ہونے والے conceptual مسائل اور بڑی بحثیں ابھی غیرحل شدہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوانٹم مکینکس کے معنی پر بحث کیوں؟ اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟
ایک صدی سے جاری بحث رئیلیٹی کی نیچر پر ہے اور یہ سائنس کی اپنی نیچر پر بھی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے اس کے پسِ پشت دو سوال۔
پہلا یہ کہ کیا نیچرل دنیا ہمارے ذہن سے آزادانہ طور پر اپنا وجود رکھتی ہے؟ یعنی کہ کیا مادہ ہمارے ادراک اور علم سے الگ مستحکم خصوصیات رکھتا ہے؟
دوسرا یہ کہ کیا ان خاصیتوں کو سمجھا اور بیان کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہم نیچر کے قوانین کو اتنا سمجھ سکتے ہیں کہ کائنات کی تاریخ کی وضاحت کر سکیں اور مستقبل کی پیشگوئی کر سکیں؟
ان دو سوالوں کے ہمارے جوابات سائنس کی نیچر اور مقصد کے بارے میں نتائج رکھتے ہیں کہ سائنس کا انسانی پراجیکٹ میں کردار کیا ہے؟ اور یہ سوال reality اور fantasy کی سرحد کا بھی بتاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو لوگ ان دونوں سوالات کے جواب “ہاں” میں دیں، وہ realist کہلاتے ہیں۔ آئن سٹائن رئیلیسٹ تھے۔ ان کا بنیادی یقین یہ تھا کہ ہمارے وجود سے باہر دنیا اصل ہے اور اس کی خاصیتوں کا انحصار ہمارے ادراک اور علم پر نہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ قابلِ فہم ہے اور اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔
اگر آپ رئیلیسٹ ہیں تو آپ یقین رکھتے ہیں کہ سائنس کا پراجیکٹ اس وضاحت تک پہنچے کی ایک طریقے سے تلاش کے لئے ہے۔
اگر ان دونوں سوالات کے بارے میں آپ کا جواب مثبت میں نہیں تو آپ اینٹی رئیلیسٹ ہیں۔
زیادہ تر سائنسدان انسان کے لیول پر روزمرہ کی اشیا کے بارے میں رئیلسٹ ہیں۔ ایسی اشیا جن کو ہم دیکھ سکتے ہیں، اٹھا سکتے ہیں، پھینک سکتے ہیں۔ ایسی اشیا ہر لمحے میں سپیس کی کسی جگہ پر وجود رکھتی ہیں۔ جب یہ حرکت کرتے ہیں تو کسی trajectory پر اور اس کو بتانے کی کوئی ریلیٹو رفتار ہوتی ہے۔ ان کا ماس اور وزن ہوتا ہے۔
جب آپ کسی کو بتاتے ہیں کہ سرخ کتاب دوسرے کمرے میں میز پر رکھی ہے تو یہ انفارمیشن درست یا غلط ہو سکتی ہے لیکن اس کا تعلق کسی کے ادراک سے نہیں ہوتا۔
مادے کی وضاحت جو چھوٹے سکیل سے لے کر سیاروں اور ستاروں تک کام کرتی ہے، کلاسیکل فزکس ہے۔ یہ گلیلیو، کیپلر، نیوٹن کے وقتوں سے چلی آ رہی ہے اور آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹویٹی اس کی شاندار کامیابی ہے۔
لیکن بہت چھوٹے سکیل پر ۔۔۔ جہاں انفرادی ایٹم کی بات ہو ۔۔۔ رئیلسٹ ہونا آسان نہیں۔ اور اس کی وجہ کوانٹم مکینکس ہے۔
کوانٹم مکینکس اس سکیل پر ہماری بہترین تھیوری ہے۔ اور اس کے کئی ایسی خاصیتیں ہیں جو معمہ ہیں۔ ایک عام خیال ہے کہ یہ خاصیتیں رئیلزم کو ناممکن بنا دیتی ہیں۔
زیادہ تر فزسسٹ ایٹم، ریڈی ایشن یا بنیادی ذرات کے بارے میں رئیلسٹ نہیں ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان کو کسی خاص ریڈیکل فلسفانہ پوزیشن کی وجہ سے رئیلزم کو مسترد کر دینے کی خواہش ہے۔ لیکن اگر کوانٹم مکینکس مکمل ہے (جیسا کہ زیادہ تر فزسسٹ یقین رکھتے ہیں) تو پھر رئیلیزم ناممکن ہے۔
اور یہ وہ وجہ تھی جس باعث آئن سٹائن نے کوانٹم مکینکس کو ایک عارضی جگاڑ کہہ کر مسترد کر دیا تھا، جو صرف نتائج بالکل درست دیتی ہے۔
آئن سٹائن (اور دوسرے رئیلسٹ) کا یقین ہے کہ کوانٹم مکینکس نامکمل ہے اور اس کی تکمیل رئیلزم کے ساتھ مطابقت رکھے گی۔
رئیلیزم اور فزکس کے درمیان مطابقت آئن سٹائن کا مشن تھا، جس میں وہ اپنی زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...