سر ہفتے کو آپ کو مری جانا ہے۔۔ وہاں ریسٹورنٹ کے لیے زمین دیکھینی ہے۔۔ وہ اپنے آفس میں بیٹھا اگلے پوری ہفتے کی ڈیٹیلز مانگ رہا تھا۔۔
اور واصف ہاتھ میں اپنا ورکنگ پیڈ پکڑے ایک ایک بات بتا رہا تھا۔۔
ہمم ٹھیک ہے۔۔ ٹکٹ کنفرم کروا دی تم نے؟؟
پہلی انگلی اور انگوٹھے کو پیشانی پہ مسلتا وہ پوچھ رہا تھا۔۔
نہیں سر۔۔ میں نے سوچا ایک دو دن پہلے کروا دوں گا۔۔ واصف نے تابعداری سے جواب دیا۔۔ نظریں جھکی تھی کیونکہ اسے اہنے باس کو دیکھنے کی جرات نہ تھی۔۔
چلو ٹھیک ہے۔۔ اب جا سکتےہو تم۔۔ اس کے حکم کرتے ہی وہ بوتل کے جن کی طرح غائب ہوا۔۔
جبکہ وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر چھت کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ تنگ آ گیا تھا اپنی اس بے رنگ زندگی سے۔۔ لیکن اس کے مزاج کی سنجیدگی اسے اس سب سے نکلنے بھی نہ دیتی تھی۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھا۔۔ اس بات سے بے خبر کہ اگلے دنوں میں اس کی زندگی نہ صرف بدلنے والی تھی بلکہ بے شمار رنگ بھی آنے والے تھے۔۔
وہ ابھی مری پہنچے تھے۔۔ ظہر کی اذانیں فضا میں گونج رہی تھئ جب وہ دونوں نیچے اتریں۔۔ برفباری تو نہیں ہو رہی تھی پر موسم ویسے ہی بہت سرد تھا۔۔
بس سے اترنے کے بعد اب وہ دونوں سامان کے اترنے کا انتظار کر رہی تھی۔۔ کیونکہ بس ہوٹل سے کافی دور کھڑی تھی اور انہیں اتنا پیدل چل کر جانا تھا۔۔
اففف یار یہاں چلنا کتنا مشکل ہے۔۔ بھاری بیگز اوپر سے چڑھائی کا راستہ دونوں کی وجہ سے ان کو چلنا دشوار ہو رہا تھا۔۔
ہمت عورتاں مدد خدا میری جان۔۔ ہمت کرو۔۔ اب سب ایسے ہی جا رہے تو کوئی آئے گا تو نہیں ہماری مدد کرنے۔۔ نیلم کی بھی حالت اس جیسی ہی تھی۔۔
ہیلو لیڈیز۔۔ لائیں میں پکڑ لیتا ہوں۔۔ نومی کی آواز پہ وہ دونوں مڑی۔۔
آفر تو اچھی تھی۔۔ روشم ایکسپٹ بھی خر لیتی لیکن پھر بلکل اسی کے پیچھے عرش میر کو دیکھ کر اس کا ارادہ پل میں بدلا تھا۔۔
نہیں بہت شکریہ۔۔ ہم کمزور ضرور ہیں پر کسی مدد کی ضرورت نہیں ہمیں۔۔ سخت لہجے میں کہہ کر وہ نیلم کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھی جو شاید اس آفر کو قبول کرنے کے چکر میں تھی۔۔
یہ کیا کیا روشم۔ اللہ اللہ کر کے تو کوئی مدد کو آیا تھا۔۔ نیلم تو اسکے تیور دیکھ کر حیران تھی۔ اب اسے کیا پتہ کہ کچھ دن پہلے ان دونوں کے درمیان کیا ہوا تھا۔۔
تم بس چپ کر کے چلو۔۔ ذیادہ سوال جوال کیے تو اپنا سامان بھی تمہیں پکڑا دوں گی۔۔
مال روڈ پہ وہ پائوں اتنے زور سے رکھ کر چل۔رہی تھی کہ نیلم کو اندازہ ہو رہا تھا کہ اس وقت اسے بلانا آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔۔ اس لیے وہ بھی چپ کر کے اس کے ساتھ چل پڑی۔۔
***
نہیں قبول کی آفر۔۔ آنکھوں پہ سن گکاسز لگائے وہ سامنے دیکھ کرہا تھا ۔۔ نومی کے پاس آنے پہ اس سے پوچھا۔۔
نہیں۔۔ یک لفظی جواب دے کر اس نے عرش میر سے اپنا بیگ لیا جو اس نے اپنے کندھے پہ لٹکایا تھا۔۔
ہمم۔۔ گلا کھنکھار کر وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔۔
اس نے ان دونوں کی باتین سن لی تھی اس لیے اس نے ہی نومی کو بھیجا تھا۔۔ اسے شرمندگی تھی جو بھی اس نے کیا ۔۔ لیکن اس کی انا اس کو خود سے مخاطب کرنے سے روک رہی تھی۔۔
اب اگر اس نے نومی کو جس انداز سے انکار کیا تھا اس سے عرش میر کو اندازہ تھا کہ وہ اس سے اتنی نفرت کرتی ہے کہ اس سے جڑے کسی بھی شخص کی مدد لینے سے بہتر وہ خود تکلیف کیں رہنا پسند کرئے گی۔۔
ایک گہرا سانس اس نے ہوا کیں خارج کیا۔۔ اب یہ سب شاید یونہی چلنا تھا۔۔
***
ابان وہ تم سے ملنا چاہتا ہے۔۔ ذیشان کی بات پہ وہ مسکرایا ۔۔ یہی تو وہ چاہتا تھا کہ وہ خود آئے۔۔
ان دونوں نے پورا ہفتہ دن رات محنت کی تھی۔۔ کچچ جس لڑکی سے اس نے حالیہ ذیادتی کی تھی اس کی فورینزک رپورٹ پھر کچھ دلائل کے بعد انہوں نے ان خے والدین کو بھی راضی کر ہی لیا تھا۔۔
کل ہی انہوں نے چند ایک ثبوت اس کو پارسل کیے تھے ساتھ وارننگ کا بھی کہا تھا۔۔
اور آج ہی ذیشان خوشخبری لے کر آیا تھا کہ وہ ان سے ملناچاہتا ہے ۔
اب آگے کا کیا پلان ہے۔۔ مطلب کیا کہنا ہے اسے۔۔ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر وہ پوچھ رہا تھا۔۔
کرنا کیا ہے۔۔ کہے گئے کہ سدھر جائو۔۔ آئندہ کوئی رپورٹ نہ ملے۔۔
تجھے لگتا ہے وہ مان جائے گا۔۔ ذیشان حیران ہوا۔۔
نہیں مانے گا تو خبر شائع کر دیں گئے۔۔ ابان نے کندھے اچکائے۔۔
دیکھ میرے بھائئ بات سن۔۔ سب اتنا آسان نہیں ہے جتنا تو سوچ رہا ہے۔۔ وہ وڈیرا ہے۔۔ ہمیں بلوا کر بے شک مار دے۔۔ اور ہمارا تو نام و نشان بھی پتہ نہیں چلے گا۔۔
ذیشان نے اسے تحمل سے معاملے کی نزاکت کو سمجھایا۔۔
ذیشان تم نے مجھے اتنا بے وقوف سمجھ رکھا ہے۔۔ پہلی بات ہم اس سے ملنے نہیں جائئں گئے۔۔ وہ ہم سے ملنے آئے گا۔۔ اور دوسری بات میں ساتھ گن رکھوں گا۔۔ اگر وہ کوئی کام کرے گا تو ری ایکشن ہماری طرف سے بھی ہو گا۔۔
ابان تو سارے معاملات تے کر کے بیٹھا تھا۔۔
چلو پھر کب کا ٹائم دوں اسے۔۔ فون ہاتھ میں لیے اس سے پوچھ رہا تھا۔۔
اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔ ایک دو دن تک دیتے اسے ٹائم۔۔ تھوڑا اسے بھی تڑپنے دو۔۔
آج تو ابان کی مسکراہٹ ہی نہیں تھم رہی تھی ۔۔ اور کیوں نہ مسکراتا وہ ۔۔ آج وہ کامیابی کی پہلی سیڑھی چڑھا تھا۔۔
***
اففف کہاں لے آئی ہو تم مجھے۔۔ چلنا دشوار ہو رہا ہے میرا۔۔ نیلم اس وقت سخت بیزار تھی۔۔
تو تمہیں کس نے کہا تھا ہیلز شوز پہن کر نکلو۔۔ کہا بھی تھا سادے شوز پہنو۔۔ اب بھگتو۔۔ اس کے بیزایت کی پروا کیے بغیر اس نے اسے اچھی خاصی سنا دی تھی۔۔
اب پہن لیے ہیں تو تم نے بھی سوچا آج اس سے پوری دنیا کا چکر۔۔ آہ۔۔ وہ جو غصے سے چلتی ہوئی بول رہی تھی اچانک پائوں مڑنے پہ وہی بیٹھتی چلی گئی۔۔
کیا ہوا نیلم۔۔ روشم اس سے دو قدم آگے تھے اس کے درد سے کراہنے پہ فورا اس کے پاس آئی۔۔
پائوں مڑ گیا ہے۔۔ اففف۔۔ درد ہو رہا ہے بہت۔۔ جوتے اتار کر اس نے پائوں ہاتھ میں پکڑا تھا۔۔ درد کی شدت سے ایک آدھ آنسو بھی نکل آیا تھا۔۔
لا ئو ادھر دکھائو پائوں۔۔ اس کا پائوں ہاتھ میں پکڑے وو جائزہ لے رہی تھی۔۔
اففف یہ تو سوجھ گیا ہے۔۔ اب کیا کرے۔۔ اس وقت وہ جس روڈ سے جا رہی تھی وہ بلکل سنسان تھی۔۔ دور دور تک کوئی ذی نفس نظر نہیں آ رہا تھا۔۔
اور ایسی جگہوں پہ لے کر آئو تم مجھے۔۔ کہا بھی تھا کہ نیلوفر اور اقصی کو ساتھ لے جاتے ہیں۔۔ پر نہیں تم پہ تو اکیلے جانے کا بھوت سوار تھا۔۔
اپنے غصے اور درد میں اس نے اچھی خاصی سنا دی تھی اسے۔۔
سائنس کہتی ہے انسان چپ کر کے برداشت کرے تق درد کم ہو جاتی جبکہ بولنے سے ذیادہ ہو جاتی ہے۔۔ لہذا تم بھی اپنا منہ بند رکھ خر برداشت کرو۔۔
وہ بھی روشم تھی کہاں کسی کی سننے والی تھی بلکہ الٹا اسے سنا دیا تھا۔۔
اچھا بس کر دو اب۔۔ نیلم جانتی تھی کہ جو عرش میر جیسے بندے کو ناک و چنے چبوا سکتی ہے وہ تو پھر اسے کے سامنے کچھ نہیں۔۔ لہذا چپ کر کے سر نیچے کر لیا۔۔
***
اس وقت وہ سب سے کٹ کر اکیلا باہر نکلا تھا۔۔ موبائل فون بھی ہوٹل میں رکھ کر آیا تھا تا کہ واصف اسے غلطی سے بھی کال نہ کرے۔۔
اس وقت وہ اپنی تنہائی میں کسی کی مداخلت نہیں چاہتا تھا۔۔ چلتے چلتے اس نے کشمیر روڈ کی طرف جانے واکے رستے کو چنا تھا شاید اس لیے کہ وہ حصہ سنسان رہتا تھا۔۔
وہ اپنی ہی سیدھ میں دوسری طرف چل رہا تھا جب اسے دو لڑکیوں کے لڑنے کی آوازیں آئئ۔۔ اس کی سماعت کی حس اچھی تھی اس کیے اتنے فاصلے پہ بھی وہ سن سکتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔۔
مدد کے خیال سے وہ سڑکے کے دوسرے کنارے سے ادھر آیا۔۔ جہاں ایک لڑکی سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔ جبکہ دوسری لڑکی کی اس کی جانب پشت تھی یقینا وہ کسی لفٹ کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔
از دیئر اینی پرابلم۔۔ ان کے قریب آ کر وہ بولا۔۔
اس سنسان جگہ پہ انہیں وجدان گیلانی کی آواز کسی نعمت سے کم نہ لگی تھی۔۔
یس آف کورس۔۔ میری فرینڈ کا پائوں مڑ گیا ہے۔۔ ہمارے پاس موبائل بھی نہیں ہے نا کوئی مک رہا ہے جس سے مدد مانگ سکے۔۔ کیا پلیز آپ ہماری مدد کر دیں گئے۔۔
روشم نے تو است الف سے لے کر یے تک ساری رودار سنا دی تھی اسے شکل سے وہ ایک معقول انسان لگا تھا۔۔ روشم کی بات سن کر وہ بیٹھی ہوئئ لڑکی کے قریب آیا۔۔
مے آئی۔۔ نیلم جو سر نیچے کیے اہنے کب کاٹ رہی تھی اس کے پوچھنے پہ سر اثبات میں ہلا کر اپنا پائوں آگے کر دیا۔۔
اس کا پائوں پکڑ کر پہلے اس نے جائزہ لیا۔۔ پھر اس سے پہکے وہ ایک جھٹکا دیتا۔۔ نیلم فورا چیخی۔۔
نہیں نہیں نہیں۔۔ پلیز یہ کام نہیں۔۔ اپنا پائوں وہ اس کے ہاتھ سے کھینچ رہی تھی۔۔
ٹھیک ہے اگر آپ یہ نہیں کرنا چاہتی تو پھر مجھے آپ کو اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑے گا کیونکہ اس وقت موبائل میرے پاس بھی نہیں ہے۔۔
اپنے سر کو کھجاتا وہ معذرت خواہ انداز میں بولا۔۔ عجیب تھا نا۔۔ وجدان گیلانی اور معزرت خواہ انداز؟؟۔۔ دو متضاد چیزیں۔۔ لیکن اس وقت ایسا ہوا تھا۔۔
چلے ٹھیک ہے پھر آپ اسے اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس ہی لے جائیں۔۔ روشم نے فورا جواب دیا۔۔ موبادہ وہ مدد کرنے سے انکار ہی نہ کر دے۔۔
روشم کی بات پہ نیلم نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وجدان اس کے قریب آیا۔۔
ود یور پرمیشن لیڈی؟؟۔۔ اسے اٹھانے سے ہہلے اس نے نیلم کی طرف دیکھا۔۔ اور بس ایک لمحے کو نیلم نے اس کی آنکھوں میں دیخھا تھا اور دل نے کہا کہ وہ اس پر اعتبار کر سکتی ہے۔۔
اس کا سر بلکل میکانکی انداز میں اثبات میں ہلا تھا۔۔ اور وجدان نے اسے اپنے بازوئوں میں اٹھا لیا۔۔ روشم اس کی جوتا پکڑے اس کے پیچھے چل رہی تھی۔۔
اور نیلم۔۔ اس کی تو عجیب حالت تھی۔۔ پہلی بار وہ کسی مرد کے اتنے قریب تھی۔۔ اس کے کپڑوں سے اٹھتی اس کے کلون کی خوشبو اسے مدہوش کر رہی تھی۔۔ پائوں کا درد بلکک بھول چکا تھا ۔۔ ذہن میں تھی تو بس اس کی خوشبو۔۔۔
نیلم آنکھیں بند کر کے لمبے لمبےسانس لے رہی تھی۔۔ وہ ذیادہ سے ذیادہ اس خوشبو کو ان ہیل کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسے کبھی دوبارہ نہیں سونگھ پائے گی۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...