ایک دن بندہ چھاؤنی کابٹی کا تماشا دیکھنے گیا۔ قبریں انگریزوں کی دیکھ کر سخت ملول ہوا کہ یہ لوگ کس قدرراہ دور و دراز سے بامید بہبود یہاں آئے ہوں گے۔ کامیاب ہوکرارادہ پھرنے ملک اپنے کا رکھتے ہوں گے مگر صیادِ اجل نے مہلت نہ دی، وطن جانے کی نوبت نہ آئی۔ اسی حال میں دوست لندن کے یاد آئے، آنسو بے اختیار بہے۔ بعد ایک ساعت کے خیال آیا کہ اس رنج و غم سے فائدہ کیا۔ بہتر یہ ہے کہ دوا دلِ غمگین کی کروں اور طبیعت کو بہلاؤں۔ قریب چھاؤنی کے جا کر ایک بوتل شراب وین کی خرید کی اور بھر کر سامنے رکھ لیا۔ اپنا چپک مصری، دوستوں کو یاد کر کے کئی پیالے شراب وین کے پیے۔ بعد اس کے چپک پینے میں مشغول ہو کرغم دل سے دور کیے۔ بقول حافظ شیراز، بیت:
اے نورچشم! من سخنے ہست گوش کن
تا ساغرت پرست بنوشاں ونوش کن
دو چار گھڑی اسی چین اور خوشی میں اوقات گزاری کی۔ پھراسی کیفیت و سرور میں گھوڑے پر سوار ہو کر باگ اس کی ڈھیلی کی۔ سوجھائی نہیں دیتا کہ گھوڑا کدھر جاتا۔ اُس نے چلتے چلتے ایک پھسلنے پتھر پر پاؤں رکھا اور پھسل پڑا۔ میں بھی اُس پر سے گر کرزخمی ہوا۔ تھوڑی ون وہیں زخم میں پلا کر خوب مضبوط باندھا۔ پھر گھوڑے پر سوار ہو کرسٹک کو چلا۔ وہاں سے نو کوس تھا۔ اثنائے راہ میں بہ سبب نہ برسنے مینہ کے حال آدمیوں اور جانوروں کا پریشان پایا۔ کنویں سوکھ گئے تھے، اس سبب سے راہ میں پانی کہیں نہ ملتا۔ اکثر جانور پرند نظر آئے کہ شدّت پیاس سے درخت پر سے گر کر مر گئے۔ میں نے جیوں تیوں سٹک میں پہنچ کر مقام کیا۔
دوسرے دن گیارہ کوس چل ڈونگر تال میں آیا۔ راہ میں سارا جنگل اور پہاڑ تھا۔ وہاں ایک جانور بصورت شیر گھانس میں چھپا نظر آیا۔ گھوڑے سے اُتر کر گھوڑا نوکر کے حوالے کیا۔ آپ پیدل ہو کر پہاڑ پر ایک پتھر مشبک کی آڑ میں بیٹھا، بندوق کو گولی سے بھرا، پتھر کے سوراخ سے مونھ بندوق کا نکالا،تاک کراس جانور کا شکار کیا۔حسب اتفاق گولی کا زخم کاری لگا۔ جانوراچھل کرگرا مگر میں خوف سے قریب اُس کے نہ گیا۔ ایک اور گولی ماری، یہاں تک کہ سرد ہوا۔ تب پاس اس کے جا کر دیکھا، چیتا تھا۔ قد و قامت میں بہت بڑا۔ اُس کو ساتھ اپنے ڈونگرتال لوا لایا اور ایک رو پیہ مزدوری دے کے چمڑا اُس کا نکلوا لیا۔
دوسرے دن ڈونگر تال سے دسں کوس آگے چلا۔ موضع کڑھے میں آ کر ٹہرا۔ اُس دن مینہ خوب برسا تھا۔ راہ بھرعجب حال دیکھا۔ لاش ہندؤوں کی جا بجا پڑی۔ کوئی تڑپ رہا، کسی کی جان نکلی۔ گوشت بدن اُن کے کا گیدڑ اور جانور کھا گئے۔ کوئی شفیق نہ تھا کہ اُن کے حال پررحم کرے۔
ایک شخص ان میں سے ہوش و حواس بجا رکھتا۔ میں نے اُس سے استفسارِ حال کیا۔ اُس نے کہا: ہم لوگ ہندو ہیں۔ رامیشر سے تیرت کر کے آتے ہیں۔ اپنے قافلہ کے ساتھ کاشی جی جاتے تھے۔ یہاں آ کر بیمار ہوئے۔ ساتھی ہمارے ہم کو اس حال میں چھوڑ کر چلے گئے۔ اب ہم اس عذاب و مصیبت میں گرفتار ہیں۔ زندگی سے بیزار ہیں۔ بہتیرے پڑے پڑے بسبب بھوک و پیاس کے مر گئے۔ بہتوں کو جانور درندے ہلاک کر گئے۔ گوشت بدن کا کچھ کھایا، کچھ چھوڑ گئے۔ ہڈیوں کو بھی توڑ گئے۔ بعضے مانند میرے حالت نزع میں تڑپ رہے ہیں، موت آنے کی راہ دیکھتے ہیں۔ مجھ کو دل میں رنج آیا کہ افسوس اس حالت میں کوئی نہیں اُن کا پوچھنے والا۔ با وجود یہ کہ ہندوؤں کے غول تیرت کیے ہوئے اُس راہ سے نکلتے تھے اور وہ گرفتاران مصیبت حال اپنا کہہ کر رام و لچھمن کا واسطہ دلاتے تھے۔ مگر کوئی متوجّہ حال نہ ہوا اور کسو نے اُن کے حال پر رحم نہ کیا۔ بندہ اُن ہندوؤں کی سخت دلی سے متحیر ہوا کہ باوجود بھگتی اور تیرت رامیشر کے اپنی ہم قوموں کا حال نہ پوچھا۔ رامیشر اور کاشی جانے سے کیا فائدہ، جو دل میں اُس سے سختی آئی زیادہ۔ چاہیے تھا کہ اگردل سخت پتھرسا ہوتا، تیرت سے موم ساملائم ہو جاتا۔ یہاں برعکس ہویدا ہوا کہ تیرت سے اور زیادہ کڑا ہوا۔
صاحبانِ انصاف ملاحظہ کریں کہ ایسے امور بے رحمی اور شقاوت کس مذہب میں جائز ہیں۔ ان سے زیادہ سخت دل اور نالائق کون ہوگا کہ اپنے ہم مذہب اور ساتھیوں پر اتنا ظلم روا رکھا۔ میں نے بہت ملکوں میں پھر کر بے رحمی میں بدویون عرب کو مستثنیٰ کیا تھا، مگر حال ہندوؤں کا دیکھ کر ہندوستانیوں پر ختم بے مروتی کا کیا۔ اس سے زیادہ یہ ماجرا کہ جس کو کچھ مقدور ہوا، کمینہ ہو یا اشراف، شریف ہو یا اجلاف، ہندی نزاد اُس کی خوشامد کہہ کر دماغ اُس کا آسمان پر پہنچاتے ہیں، شرافت اور کمینگی کا ہرگز پاس نہیں کرتے ہیں۔ سامنے خداوند پیرمرشد کہتے ہیں، غائبانہ ہزاروں گالیاں دیتے ہیں۔ زبان سے وہ قال ومقال ہے، دل میں یہ خیال ہے۔ انھی حرکات سے خداتعالیٰ نے ان پر غضب نازل کیا، سلطنت ہندوستان کی بیچ قبضہ وتصرف انگریزوں کے لایا۔ یہ ملک وسیع ایسا نہ تھا کہ بآسانی جماعت قلیل سے انگریزوں کے ہاتھ لگتا مگر ان کی طرف بہ سبب نیک طینتی کے تائید الٰہی ہے اور ان پر حرکاتِ ظلم ان کے سے تباہی آئی۔ کوئی کسی سے موافقت نہیں رکھتا ہے، بھائی بھائی سے کنائی کاٹتا ہے۔ ظاہر میں اپنے تئیں بھگت اور پرہیز گار بناتے ہیں، باطن میں ہر رشتہ نفس سے دام فریب بنتے ہیں۔ یہ پرہیزگاری ظاہرنمائی کی آخرت میں کیا فائدہ دے گی۔ بموجب مثل ہندی “دیا دھرم نہیں تورے من میں، کیا دیکھے تو مکھ درپن میں”۔ زیادہ اس سے لکھنا فضول ہے، کلام طویل کرنا عاقلوں کے سامنے نامقبول ہے۔
خلاصہ یہ کہ دس کوس راہ طے کر کے مو ضع کرہی سے سنہی میں آیا۔ یہاں سے عمل راجوں کا تھا۔ خلقت یہاں کی نرالی اور انداز نیا ہے۔ بے زجر اور تنبیہ کے کام نہیں نکلتا ہے۔ راہ میں مَیں نے کنوؤں پر جا کر لوگوں سے بہ خوشامد پانی مانگا، کسو نے ازراہ بد ذاتی گھونٹ بھرپانی نہ پلایا۔ بلکہ ٹرہ پن سے جواب سخت دیا۔ بنیوں کی دکانوں پر جا کر نرمی اور لجاجت سے رات بھراُتر رہنے کی اجازت چاہی، اُنھوں نے بھی میرا کہنا خیال میں نہ لا کر انکار کی۔ جب میں نے دیکھا کہ آشتی سے کام نہیں چلتا، انگریزی کپڑے پہن کر اپنے تئیں صوبے دار فوج انگریزی کا ظاہر کیا۔ جہاں کہیں جاتا، اہل حرفہ کو گالیاں دیتا بلکہ جوتیاں مارتا؛ کوئی سرتابی نہ کر سکتا۔ سب موم کی طرح پگھل کر فرمانبرداری کرتے، دل و جان سے اطاعت میں مشغول رہتے۔ اسی طرح تلنگے انگریزی جس گانوں میں جاتے ہیں، بیگاری پکڑ کر اس پر اسباب اپنا لاد کرمنزل تک لے جاتے ہیں، ایک کوڑی بھی مزدوری نہیں دیتے ہیں۔ جب دکان پر بنیوں کی پہو نچتے ہیں گالیاں بے سبب دے کر قرارواقعی تنبیہ اُن کی کرتے ہیں۔ آٹا بہ نسبت اور خریداروں کے ارزاں مول لیتے ہیں، چلتے وقت انعام میں گالیاں دے جاتے ہیں، میرے نزدیک بہت اچھا کرتے ہیں۔ وہ نالائق، بد ذات بغیر اس کے نہیں مانتے ہیں۔ سابق بندہ بدزبانی اور بے رحمی انگریزوں سے ہندوستان میں شاکی تھا۔ رودادِ سفر اور سابقے اُن لوگوں سے ثابت ہوا کہ بغیر بد زبانی اور بے رحمی کے کام نہیں نکلتا ہے۔ اگر کوئی صد ہا روپیہ خرچ کرے ویساہرگز اجرائے کار نہیں ہوتا ہے۔ غریب مسافر جو ٹٹوؤں پر سوار آتے تھے، محافظانِ راہ زیادہ قیمت ٹٹو سے محصول لیتے پھر بھی نجات نہ دیتے۔ ایک شخص نے میرے سامنے تین روپے کا ایک چھوٹا ٹٹو مول لیا تھا، چوکیداروں نے چارروپیہ اس کا محصول لیا۔ آخر اُس بچارے نے حیران ہوکرٹٹو کو ایک طرف چھوڑ دیا کہ اس آفتِ جان سے میں در گزرا۔ جابجا مجھ سے بھی چوکیداروں سے تکرار ہوئی مگر میں وضع ہندوستان سے بخوبی آگاہ تھا، اس سے اُن ظالموں سے نجات پائی۔ اگر کوئی اپنی بی بی ان راہوں میں ساتھ لے جاوے، سخت خرابی میں گرفتار ہووے۔ اگر گھوڑے ٹٹو پر سوار چلے، دونا قیمت سے محصول دے۔ اگر کوئی عورت اکیلی اس راہ سے سفر کرے، ممکن نہیں کہ گزر سکے۔ غرض کہ ہر منزل میں محافظ مثل منکرنکیر تھے، مسافراُن کی ایذارسانی سے دلگیر تھے۔ راجہ ہائے ہندوستان شامت اعمال اپنے سے محکوم انگریزوں کے ہوئے۔ ورنہ کیا مجال کہ ایسا ملک فسیح الفضا انگریز فوجِ قلیل سے لے سکتے۔ یقین کے انھی حرکتوں سے ہمیشہ فرماں روا اوروں کے رہیں، ظلم و جبرغیروں کے اپنے اوپر سہیں۔