کمرہ نیم تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا- ایک نسوانی وجود کرسی پر جکڑا ہوا تھا – کمرہ پرتعیش انداز سے منور تھا – کمرہ دیکھتے ہی کسی فارم ہاؤس کی طرح محسوس ہو رہا تھا – جو نظر پڑتے ہی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا – کمرہ مکمل طور پر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا – اچانک کسی نے کمرے کی خاموشی میں خلل ڈالا اور کمرے میں داخل ہوا – جس کے چہرے سے شیطانیت ٹپک رہی تھی –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
منہل کچن میں دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مگن تھی کہ تبھی فون کی چنگھاڑتی ہوئی گھنٹی بجی – جلدی جلدی اس نے سنک سے ہاتھ دھوئے – جلدی سے وہ فون کی طرف بڑھی اور فون پر نفیسہ بیگم کا نام دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی – اسی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے فون اٹھایا –
” اسلام علیکم !! کیسی ہیں آپ امی جان – – ؟؟ ” مسکراتے ہوئے پوچھا –
” میری جان !! میں بالکل ٹھیک ہوں – – آپ کیسی ہو ؟ اور غزلان بیٹا کا کیا حال ہے ؟ ” لہجے میں نرمی سموتے ہوئے انہوں نے پوچھا –
” جی امی ،، میں اور غزلان بالکل ٹھیک ہیں – وہ اس وقت آفس میں ہیں – بس آنے والے ہیں – ” اپنے اور غزلان کے رشتے کی سچائی کو مخفی رکھتے ہوئے اس نے انہیں بتایا –
” منہل بیٹا ،، زوجین یہ ایک ایسا رشتہ ہے – جس کا پہلا اور بنیادی زینہ یقین و اعتماد ہے – یہ رشتہ اعتماد ، خلوص ، چاہت ، محبت اور احترام کا مجموعہ ہے – ایک دوسرے کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے – آپ کو چاہئے کہ آپ غزلان پر توجہ دو – اسے سمجھنے کی کوشش کرو – سب جانتے ہیں کہ وہ غصے کا زرا تیز ہے مگر دل کا انتہائی نرم ہے – وقت ہر چیز کا مداوا ہے – ” – انہوں نے شفقت سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا –
” جج ،،جی امی !! آپ بالکل وجہ فرما رہی ہیں – میں کوشش کروں گی کہ اس رشتے کو خلوصِ دل سے نبھانے کی کوشش کروں – ” اس نے اعتماد سے جواب دیا – ان سے بات کر کے وہ خود کو کافی پر سکون محسوس کر رہی تھی –
” بیٹا ،، مرد کو جہاں سے محبت ملے وہ اس ہی طرف مائل ہوتا ہے – مرد کبھی بھی بد زبان عورت کو پسند نہیں کرتا اور آپ تو اس کی محرم ہو – آپ دونوں ایک دوسرے کا لباس ہو – ایک دوسرے کے شریک راز ہو – کبھی بھی جلد بازی سے کام مت لینا – خدا کو یہ رشتہ بہت پسند ہے – اسی ہی نے آپ دونوں کا جوڑ ایک دوسرے سے باندھا ہے – یہ رشتہ جتنا مظبوط ہے اتنا ہی کانچ کی طرح نازک بھی ہے – آپ سمجھ رہی ہو نہ منہل بیٹا – – – ؟؟ ” انہوں نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے پوچھا –
” جی امی جان ! آپ بالکل بے فکر رہیں – میں اپنی مکمل کوشش کروں گی کہ آپ کو مایوس نہ کروں – آپ بتائیں بابا جان کیسے ہیں اور باقی سب ؟؟ ” اس نے ان کو یقین کی ڈور تھماتے ہوئے کہا –
” بیٹا ،، الحمدللہ !! یہاں سب بالکل ٹھیک ہیں – ” انہوں نے تسلی سے اسے جواب دیا – اس بات سے انجان کہ ان کے دل کا دوسرا ٹکرا اس وقت کس مصیبت سے دوچار ہے –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
خازن اور اسکے دونوں دوستوں نے یونی میں ہی پہاڑی علاقہ جات گھومنے کا منصوبہ بنا لیا تھا – وہ تینوں اس وقت مکمل تیاری کے ساتھ ہائیوے کراس کر رہے تھے – اپنے سے آگے گزرتے کار میں نہ جانے کیوں اسے گڑبڑ محسوس ہوئی – اس نے نظر انداز کر دیا – وہ شام میں اسی لیے نکلے تھے کہ رات ہونے سے پہلے پہنچ جائیں – مگر ان سے موجود اگلی گاڑی انہیں اپنے راستے میں روکاوٹ محسوس ہو رہی تھی – خازن اس کار کو کراس کر کے آگے بڑھ گیا – مگر جس بات نے اسے چونکایا وہ اس کار میں ” ارحم آفندی” تھا – جس کے چہرے پر ایک الگ ہی چمک دکھ رہی تھی – تبھی ساتھ بیٹھے روحان نے اس کا شانہ ہلایا اور اسے ارحم کے بارے میں بتایا – اس نے سرد تاثرات کے ساتھ سر اثبات میں ہلایا – جیسے کہہ رہا ہو کہ میں اس خبیث کو دیکھ چکا ہوں جو نہ جانے کتنی ہی معصوم لڑکیوں کی عزت کو پامال کر چکا ہے – وہ تینوں بہت اچھے سے جانتے تھے کہ یہ راستہ ارحم کے فارم ہاؤس کی طرف بھی جاتا ہے – لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے فیصلہ کیا اور کار ریورس کر کے ارحم کی کار کے پیچھے لگا دی – شہریار نے حیرانی سے اس کے سرد تاثرات دیکھے اور روحان کی طرف دیکھا جس نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا – کیونکہ وہ دونوں جانتے تھے کہ خازن کو غصہ آتا ہے وہ تب کسی کو بھی نہیں بخشتا –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
منہل کام وغیرہ مکمل کرنے کے بعد شاور لے کر نکلی – نفیسہ بیگم کی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس نے ایک پستہ اور میرون کلر کے امتزاج کا ڈریس نکالا – جس پر ہلکی ہلکی ایمبرائیڈری ہوئی تھی – سنہری گنگھریالے بالوں کو پست پر کھلا چھوڑ دیا – سرخ لالی کو لبوں پر لگایا – اس نے آئینہ میں اپنا سراپا دیکھا – وہ آج پہلی بار استحقاق سے غزلان کیلئے سجی سنوری تھی – لبوں پر ایک پیاری سی مسکراہٹ بکھیر کر وہ نیچے جاتے زینوں کی طرف بڑھی – مگر اس کی مسکراہٹ ایک لمحے میں سمٹ گئی – اس نے سامنے دروازے پر ایستادہ غزلان اور شزا کو دیکھا – جس نے بےباک قسم کا لباس پہنا ہوا تھا – منہل نے شرم سے اپنی نظریں پھیر لی – غزلان نے بہت غور سے اس کے لبوں پر مسکراہٹ کو سمٹتے ہوئے دیکھا تھا – وہ اسے سجا سنورا دیکھ کر ٹھٹک گیا – شزا نے بہت چبھتی ہوئی نظروں سے اس کا ہوش ربا حسن دیکھا – شزا کو ایک نظر منہل نہیں بھاتی تھی – منہل خود کو سنبھالتے ہوئے نیچے آئ اور دونوں کو سلام کیا – غزلان نے سر کے اشارے سے جواب دیا – شزا نے بھی زبردستی مسکراہٹ سجاتے ہوئے سلام کا جواب دیا – منہل نے سوالیہ نگاہوں سے غزلان سے شزا کی بابت کے بارے میں پوچھا –
” شزا کی یہاں میٹنگ تھی – اس کی کار خراب ہو گئی تھی – تو اس نے مجھ سے رابطہ کیا تو میں اپنے ساتھ شزا کو گھر لے آیا – ” منہل کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا –
” منہل،، شزا کو اسکا کمرہ دکھا دو – ” سپاٹ نظروں کے ساتھ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا –
منہل نے شزا کو کمرہ دکھانے کے بعد غزلان کے کمرے کی طرف بڑھی – اجازت لیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی – غزلان واشروم سے فریش ہو کر نکلا تھا – ٹراؤزر پہنے ہوئے ٹاول سے بال خشک کرتا ہوا بغیر کوئی ٹی شرٹ پہنے اس کے سامنے تھا – منہل نے تو اسے دیکھتے ہی جینپ کر اپنی نظریں پھیر لی – منہل کی اس حرکت پر ایک گہری مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی – اس نے استحقاق سے اس پر گہری نظر ڈالی اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے عین اس کے سامنے کھڑا ہو گیا – منہل نے اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر گھبرا کر نظریں جھکا لیں –
” منہل – – ” غزلان نے بہت نرمی سے اسے پکارا –
” جج،، جی کہیے – – ” اس نے دھیرے سے جواب دیا –
” منہل ! تم شزا کے جاگنے سے پہلے ہی اس روم میں شفٹ ہو جاؤ – میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی اس رشتے کے بارے میں کچھ غلط کہے – ہم نے یہی ظاہر کرنا ہے کہ ہم دونوں نے یہ رشتہ دل سے تسلیم کر لیا ہی – ” سنجیدہ انداز میں اسے مخاطب کیا –
” جی ،،جیسا آپ کہیں – ” فرمانبرداری کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا –
غزلان نے بمشکل اپنا قہقہ دبایا –
” کھانا لگاؤ ،، بہت بھوک لگی ہے – ” غزلان نے اپنی مسکراہٹ کو لبوں میں دبائے کہا –
ہمم ،، ٹھیک ہے – ” چہرے پر آئ لٹ کو کان کے پیچھے اڑاتے ہوئے کہا اور گھبراتے ہوئے باہر چلی گئی – غزلان کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
حوریہ کو آہستہ آہستہ ہوش آیا – اس نے دکھتے سر کے ساتھ بمشکل اپنی آنکھیں کھولی – اپنے چاروں اطراف نظر گھما کر دیکھا اور خود کو انجان جگہ پر پایا – اس نے ذہن پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی – اسے یاد آیا کہ کسی نے اس کے چہرے پر رومال رکھ کر بیہوش کر دیا تھا – اب اسکے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے یہ سوچ کر کہ وہ اغواء ہو چکی ہے – کمرے کی خاموشی کو دروازے کی آواز کھلنے نے توڑا اور داخل ہونے والی شخصیت کو دیکھ کر وہ ساکت ہو گئی – ” ارحم آفندی ” اس نے بے جان لبوں کو حرکت دے کر یہ نام ادا کیا – ”
” Oh my dear baby ….. !! ”
” تمہارے دیے گئے تھپڑ کا بدلہ آج میں تم سے سود سمیت لوں گا ” – اس کے منہ کو نوچتے ہوئے کہا –
حوریہ اس کی آنکھوں میں ہوس کی آگ جلتے دیکھ کر کانپ گئی – اس کا سارا خون نچڑ کر چہرے پر آ گیا – وہ چاہے کتنی ہی خود اعتماد کیوں نہ ہو – مگر تھی تو ایک لڑکی – وہ مرنا پسند کر سکتی تھی مگر اپنی عزت کو داغدار ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اسے اس انسان نما حیوان سے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنی تھی – ارحم نے اسے رسیوں سے آزاد کر دیا تھا – اس کے گلے سے ڈوپٹہ کھینچ کر زمین پر پھینک دیا – حوریہ خود کو بچانے کیلئے سر توڑ کوشش کر رہی تھی – دل ہی دل میں اللّٰہ سے مدد کی دعا کر رہی تھی – ارحم نے حوریہ کو بیڈ پر پٹخا – اس سے پہلے کہ وہ حوریہ پر جھکتا کسی نے جلدی سے ارحم کو ایک ہی جست میں پنچ رسید کیا – حوریہ آنے والی شخصیت کو دیکھ کر ساکت ہو گئی –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...