البیرکامو(Albert Camus) کے چند ابتدائی مضامین میں سے ایک Essay on Music (1932)کے عنوان سے موسیقی کے بارے میں بھی ہے گو کہ مشرق و مغرب کی اقوام اور تہذیبوں کے الگ الگ ادوار میں موسیقی کی اہمیت و غایت اور اسی مناسبت سے وہاں کے فنون لطیفہ میں اس کا درجہ بھی مختلف رہا ہے مگر اس تفصیل میں جائے بغیر یہاں صرف یہ دیکھنا مقصود ہے کہ کامو نے جو ذہنی اور جذباتی طور پر بیک وقت افریقی اور یورپین دونوں تمدنوں سے جڑا ہوا تھا اپنے ادبی کریئر کے اس ابتدائی مضمون میں موسیقی کا کیا تصور پیش کیا ہے۔ نیز یہ کہ اس سلسلہ میں اس کی سوچ پر کون سی فکری روایتیں اثر انداز ہوئی ہیں۔
کامو نے اپنے اس مضمون کا آغاز اس انتہائی سادہ جملے سے کیا ہے کہ موسیقی چونکہ تمام فنون لطیفہ میں اعلیٰ ترین اور خود اپنے آپ میں تکمیل کو پہونچا ہوا فن ہے اس لئے یہ سمجھنے کی نہیں بلکہ محسوس کئے جانے کی متقاضی ہے۔موسیقی پر مزید اظہار خیال کرنے سے پہلے وہ آرٹ کے تصور سے متعلق دو بنیادی نظریوں RealismاورIdealismسے بحث کرتے ہوئے اول الذکر کو یہ کہہ کر رد کر دیتا ہے کہ اگر آرٹ کا نصب العین محض فطرت کی عکاسی مان لیا جائے تو وہ اسے اتنا محدود اور ارضی بنا دیتا ہے کہ اس میں انسانی تصورات و تخیلات کیلئے کچھ زیادہ گنجائش نہیں رہ جاتی۔آرٹ کے Idealisticنظر یے سے بھی وہ مطمئن نہیں جس کے مطابق آرٹ کی افادیت قدرت کے حسن ناتمام کی تکمیل میں مضمر ہے۔کامو کے مطابق آرٹ نہ محض فطرت کا عکاس ہے نہ ہی اس کا رول قدرت کے نامکمل حسن کی تکمیل کرنا ہے۔اس کے نزدیک آرٹ سیدھے سادے الفاظ میں انسان کیلئے اس کے ldealsکے اظہار کا وسیلہ کہا جا سکتا ہے۔
کامو موسیقی پر اپنی گفتگو آرٹ کے اسی تصور کے حوالے سے آگے بڑھاتا ہے مگر اس سے قبل اس ضمن میں وہ افلاطون ، شوپنہار اور نیٹشے کی جمالیات سے بھی مختصراً بحث کرنا اس لئے ناگزیر سمجھتا ہے کہ اس کے خیال میں شوپنہار نے افلاطون سے اور نیٹشے نے شوپنہار سے اس باب میں کافی کچھ اخذ کیا ہے۔
شوپنہار کی جمالیات میں اس کے نظریہ ارادیت (Will)کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کامو کے خیال میں شوپنہار کے فکری تصورات پر بدھ ازم Buddismکا بھی خاصا اثر رہا ہے۔اگرLeibnizکے مطابق تمام کائنات ایک تصور یا خیال سے عبارت ہے (عالم تمام حلقہ دام خیال ہے۔غالب) تو شوپنہار کے نزدیک اس کا وجود اور کارکر دگی دونوں ایک غیر شخصی ارادے کے تابع ہیں جب کہ تصور یا خیال اتفاقی یا اضافی اوصاف ہیں جن کا تعلق ساری کائنات سے نہ ہو کر صرف اشرف المخلوقات سے ہے۔اس ارادے یا willکو وہ Extra intellectualکہتا ہے جس کی واضح تعریف منطقی دلائل کی مدد سے دشوار ہے۔
شوپنہار کا حیات انسانی سے متعلق نظریہ بھی مجموعی اعتبار سے قنوطی ہی سمجھا جاتا ہے۔جیسے اس کا یہ خیال کہ زندگی اس قابل نہیں کہ اسے جینے کی زحمت اٹھائی جائے۔مسرت و لذت کا بھی اس کے نزدیک کوئی حقیقی اور پائیدار وجود نہیں۔ اگر ہے بھی توپوری طرح منفی کیونکہ یہ سبھی انسان کے قابو سے باہر کسی غیر شخصی ارادے کے تابع ہیں۔ چنانچہ ایک ارادے کی تکمیل کے بعد دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے اور اس لئے یہ سبھی ایک لمحاتی تجربے کی طرح نا پائیدار اور جلد ختم ہو جانے والے ہیں جب کہ ارادے کی قوتیں آفاقی ازلی اور ابدی ہیں۔اس طرح وہ انسان کی تمام تر تخلیقی صلاحیتوں کو بھی لاحاصل اور اتفاقی قرار دیتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں انسان صرف وہی کچھ کر سکتا ہے جو ارادے کی پوری طرح غیر شخصی قوتوں کو اس سے کروانا مقصود ہوتا ہے۔شوپنہار کے نزدیک آرٹ بھی ارادے (will)کو معروضیانے کے عمل کا نام ہے Art is only the objectification of will ۔ ان بنیادی افکار کے پس منظر میں اگر شوپنہار کی جمالیات پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ بیشتر مغربی مفکرین کی طرح وہ بھی آرٹ کی تعریف افلاطون کی بنیادی مابعد اطبیعاتی جمالیات کے حوالے سے ہی کرتا ہے یعنی کہ آرٹ وہ مخصوص علم یا فن ہے جو ہمیں اس مابعد اطبیعاتی دنیا کا ادراک بخشا ہے جسے افلاطون دنیائے تصور و خیال کہتا ہے۔یہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعے ذہن انسانی ارادے کی تابع زندگی کے جبر کے باوجود آزاد محسوس کر سکتا ہے۔ یہ چیزوں کو ان کی زمانی مکانی حد بندیوں سے آزاد کر کے انہیں کائنات کے اس عظیم ترین ’’ کل‘‘ کا حصہ بنا دیتا ہے جو لازوال ولا محدود ہے اس طرح شوپنہار کے مطابق بھی عقلیت کی راہ سے حسن کا ادراک ممکن نہیں کہ یہ سمجھنے کی نہیں محسوس کیے جانے کی چیز ہے۔ اس کے مطابق آرٹ یا خوبصورتی کے تاثرات مجتمع ہو کر دنیائے حقیقت اور ہمارے اس دنیا کے شعور کے درمیان ایک اسکرین کا کام کرتے ہیں اور یوں احساس کی سطح پر آرٹ کی دنیا کو حقیقی دنیا سے الگ کر دیتے ہیں۔تصور کی دنیا کا حقیقتوں کی مادی دنیا سے الگ کر دیئے جانے کے اس عمل کو ہی وہ آرٹسٹک عمل کہتا ہے جس کے وقوع پذیر ہونے اور جس کا حصہ بن کر ہم ایک طرح کی جمالیاتی نجات کے تجربے سے ہمکنار ہوتے ہیں۔
شوپنہار کی جمالیات پراپنے مختصر تبصرے کے آخر میں کامو یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فلسفہ بحیثیت مجموعی قنوطی ہونے کے باوجود آرٹ کے انسانی زندگی میں ایک مثبت رول ادا کرنے کا تصور پیش کرتا ہے۔ آرٹ کے اس رول کا وہ موسیقی سے انتہائی مضبوط اور گہرا رشتہ محسوس کرتا ہے۔کامو کے مطابق تمام فنون لطیفہ میں صرف موسیقی ہی آرٹ کے اس تصور کے عین مطابق پائی جاتی ہے۔شاید یہی وجہ ہو گی کہ فنون کی عمومی درجہ بندی سے پرے اس کا ایک الگ مقام الگ زبان اور الگ ہی دنیا ہے۔یہ اپنے حسن کی ترسیل کیلئے کسی مادی میڈیم یہاں تک کہ الفاظ کی بھی محتاج نہیں۔یہ سریلی نغمگی کی ایک ایسی دنیا کی تشکیل کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے جس میں داخل ہونے کیلئے ہوش مندی و فرزانگی کے بجائے وجدان و ویوانگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے انسان کیلئے حقیقی دنیا کا ایک عمدہ متبادل بھی کہا جا سکتا ہے۔
شوپنہار کے بعد کامواس کے حقیقی ومعنوی شاگردنٹیشے کی جمالیات پربھی مختصراً نظر ڈالتا ہے اور اس کے یہاں موسیقی کی تعریف وتصور کا تعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔گوکہ شاعرانہ ابہام اور استعاراتی اسلوب اظہار کے باعث نیٹشے کی جمالیات کوقطعی انداز میں سمجھنے کا دعوا نہیں کیاجاسکتا مگراس سلسلے میں ان اصولوں سے ضرور مددلی جاسکتی ہے جن پر عام طور پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔کامو کے مطابق نیٹشے نے یوں توابتداء میں شوپنہار کی فلسفیانہ بصیرت کو ہی اپنا رہنما بنایامگرآگے چل کر نہ صرف یہ کہ وہ مختلف راستے پر چل پڑا بلکہ کہیں کہیں تو شوپنہار کی بساط فکری کو پوری طرح الٹ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
Neitzsche was strongly inspired by Shopenhauer setting out from the same point, he none the less worked out a complete reversal of his values. Both take suffering as their base but where as Shopenhauer worked out a democratic ethics, Neitzsche arrived at an ethics of aristocracy, that of superman, where as Shopenhauer came to sterile pessimism, Neitzsche reached an optimism based upon the rapture of suffering (essay on music-A. Camus)
وہ خصوصی طور پر نیٹشے کی تصنیف The birth of Tragedyکے حوالے سے اس کی فلسفیانہ جمالیات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ نیٹشے نے AppolonismاورDionysismجیسی اصطلاحات کی مدد سے قدیم یونان کے اسی تصور حسن کی تجدید کی بات کی ہے جس کا مزاج غنائیہ Lyricalاور المیہ Tragicرہا ہے۔ اس کے خیال میں بعد میں آنے والے سقراط کے قبیلے کے ایک کے بعد ایک عقلیت پسند Rationalistالمیہ کے زوال کے باعث بنے۔شاید اسی لئے نیٹشے اپنے دور میں عقلیت پسندی کو رد کرنے والوں میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔اس کے نزدیک موسیقی دور جدید میں انتہائی اہمیت کی حامل ہو گئی ہے کہ یہی آج کی بڑھتی ہوئی عقلیت پسندی کا توڑ بن سکتی ہے اور یوں ایک بار پھر روح انسان کو غنائی المیہ کی وہ حرارت بخش بالیدگی عطا کر سکتی ہے جو وہ کھو چکی ہے اس امکانی صورت حال کو وہ موسیقی کے ایک اور نشاۃ انشانیہ سے تعبیر کرتا ہے۔
کامو نیٹشے سے اتفاق کرتے ہوئے مزید آگے جا کر موسیقی اور اساطیر Mythکو انسان کی فلسفیانہ نجات کی دو صورتیں قرار دیتا ہے۔
what then was music to be ? Music and Myth are twin forms of philosophical redemption (Essay on music-A. Camus)
کامو کے خیال میں شوپنہار اور نیٹشے کی موسیقی کے بارے میں سوچ کے بنیادی عناصر اس حد تک یکساں ہیں کہ دونوں اسے عقل و منطق سے پرے احساس کی ایک ما بعد اطبیعاتی اور آئیڈیل دنیا کے حصول کا ذریعہ مانتے ہیں مگر نیٹشے دوسری جگہوں پر شوپنہار کی سوچ سے کہیں آگے جاتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔جیسے کہ اس کے مضمون On music and the wordسے ظاہر ہوتا ہے۔
if we enjoyed music because of feeling it inspired in us, the visual images it suggested to our mind, then we ran the risk of not understanding music at all. In order to enjoy music purely one had to appreciate its very essence, one had above all to enter into the analysis of harmony itself
مگر کامو نیٹشے کے اس خیال سے متفق نہیں۔وہ اسے محض اس کی فکر کا ایک تضاد تصور کرتا ہے۔ اس کے بموجب اس قسم کے تجربے میں اس سرمستی اور سرشاری کیلئے کچھ گنجائش نہیں دکھائی دیتی جو موسیقی کا خاص وصف ہے۔
موسیقی سے متعلق نیٹشے کے تصورات میں وقفہ وقفہ سے در آئے یہی تضادات و تغیرات اس کے اور 19ویں صدی کے جرمنی کے سب سے بڑے موسیقار Richard Wagnerکے تعلقات میں مد و جزر کا سبب بنے۔ Tristan and Isoldeجیسے ویگنر کے غنائی ڈراموں کو جرمنی کی عظمت کی بازیافت کا ذریعہ ماننے والا نیٹشے اس کے مسیحیت قبول کرتے ہی نہ صرف اس کے فن کی عظمت سے منحرف ہو گیا بلکہ اسے لعن طعن کا نشانہ بنانے سے بھی احتراز نہ کر سکا۔گوکہ ماضی کی اپنی تحریروں میں خود اسی نے اسے جرمنی کا مسیحا قرار دیا تھا۔
شوپنہار اور نیٹشے کے تصور موسیقی سے بحث کا مقصد کامو کے لئے اپنے اس مضمون میں خود اپنے تصور موسیقی کے تعلق سے کسی نتیجہ پرپہونچنا تھا جس کا اظہار وہ اختصار کے ساتھ یوں کرتا ہے۔
Music can, in short, be considered as an expression of an unknowable world, a world of spiritual essence expressed in an ideal manner. There is nothing indeed more ideal than music. It is the perfect expression of an ideal world which communicates itself to us by means of harmony. This world unwinds not below or above the real world but parallel to it (Essay of music -A. Camus)
یعنی کہ موسیقی ہمیں روحانی بصیرتوں سے معمور ایک ان دیکھی دنیا کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔اس مثالی اور متبادل دنیا کا ادراک یہ ہمیں سروں کی نغمگی سے بخشتی ہے۔ اس سے بہتر اور مثالی اور کیا چیز ہو سکتی ہے کہ یہ سروں کے خوبصورت اتصال کے ذریعے ہمارے حواس سے ہمکلام ہوتی ہے۔
کامو کے نزدیک موسیقی اس لئے بھی دوسرے فنون لطیفہ سے ممتاز ہے کہ ان کی طرح فن کی بلندیوں تک اس کی پرواز میں کوئی مادی میڈیم حائل نہیں یہاں تک کہ الفاظ بھی نہیں۔اس کی مزید امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ دوسرے فنون اپنے بلند ترین منازل پر پہونچ کر جمالیاتی تناسب کے جس مثالی درجے کے حصول کی جستجو کرتے ہیں موسیقی کی تشکیل و ترسیل میں وہ ابتداء سے ہی موجود ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ تمام فنون میں سب سے اعلیٰ اور اپنے آپ میں اس درجہ تک مکمل ہے کہ اس میں مزید کسی طرح کی کمی بیشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موسیقی پر اپنے اس انشایئے کے ذریعے کا مو یہ پیغام بھی دینا چاہتا تھا کہ عصر حاضر میں شاید موسیقی ہی ہمیں روحانی زوال سے بچانے کا ذریعہ بن سکتی ہے اور ہماری کم وقعت اور پست زندگیوں کو پر وقار اور پاک وصاف بنانے میں ایک اہم رول ادا کر سکتی ہے۔
(کامو کا Essay on musicکے عنوان سے لکھا گیا مضمون پیرس سے شائع ہونے والے جریدے Sudمیں جون 1932ء میں شائع ہوا تھا۔)
٭٭٭