حاجی عبدالکریم کے مرنے کی خبر سن کر عورتیں گھروں سے یوں نکلیں جیسے زلزلہ آگیا ہو۔بازار میں گویا لوگوں کی ایک نہر تھی کہ حاجی صاحب کے گھر کی طرف رواں تھی۔بعض عورتیں تو بین کرتی جاتیں۔ میں اس وقت کوئی سات برس کا ہوں گا۔ نہیں کہہ سکتا کہ حاجی صاحب سے میری شناسائی تھی، ہاں مگر صبح سویرے دادی اماں مجھے اٹھاتی کہ چلو مولوی جی سے قرات پڑھ کر آؤ، تو اس وقت مسجد میں میراسامنا پہلے حاجی عبدالکریم سے ہی ہوتا۔ وہ عین پیش امام کے پیچھے کھڑے تھے۔ کئی دفعہ یہ بھی ہوا کہ حاجی صاحب وقت پر نہیں پہنچے تو پیش امام نے انتظار کھینچا اور جماعت میں تاخیر کی۔ بہر حال، میرا ان سے یہی تعارف تھا۔ اس کے علاوہ نہ انہوں نے کبھی مجھے پوچھا نہ میں نزدیک ہوا۔
اب ان کے مرنے پر نہ تو مجھے غم تھانہ خوشی۔ البتہ قدم غیر ارادی طور پر بڑی حویلی کی طرف اٹھ گئے اور اب حویلی کے سامنے لوگوں کے ٹھٹھ میں کھڑا تھا۔ بین اٹھ رہے تھے۔
ارد گرد کے گاؤں میں دوڑا کر اعلان کروا دیے گئے تاکہ سلام دعا والے کندھا دے سکیں۔ ہمارا گاؤں، یا یوں کہیں کہ حاجی صاحب کا گاؤں، کافی بڑا تھا جس کی آبادی پانچ ہزار ہو گی۔ بازار کھلے کھلے اور اونچے درختوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ گاؤں میں چار بڑی برادریاں تھیں، لیکن چودھراہٹ حاجی صاحب کی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی سو گھر کمیوں کا ہو گا۔ حاجی صاحب نے دس حج کئے، نماز روزے کی پابندی ہمیشہ کی۔ بھرواں جسم، لمبا قد اور لمبی سفید داڑھی تھی۔ میں نے ہمیشہ انہیں سفید ململ میں ہی دیکھا۔ہاتھ میں عصا رکھتے۔ گاؤں میں سب سے زیادہ زمین بھی انہیں کی تھی، لہٰذا پنچایت میں مرکزی حیثیت بھی ان کی ہوتی اور جو منھ سے نکل جاتا پتھر پر لکیر ہو تا، کسی کی کیا مجال کہ ان کے آگے دم مارے۔
میں لوگوں کا ہجوم چیر تا ہوا اس چارپائی تک جا پہنچا جہاں عورتوں کے رونے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ رونے والیوں میں اکثر عورتیں کمیوں کی تھیں۔ ایک دو منٹ حاجی صاحب کا منھ دیکھتا رہا جن کی ٹھوڑی کے نیچے سے سفید کپڑا باندھ دیا گیا تھا۔چہرے کا رنگ سیاہی مائل زرد ہو چکا تھا۔جبڑے اندر کو دھنسے ہوئے اور منھ کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی تھیں جنہیں دیکھ کر مجھے خوف آنے لگا اور میں فورا پیچھے ہٹ گیا۔ شاید پہلی بار کسی مردے کو دیکھا تھا اس لئے ڈر گیا۔باہر آ کر کھلی فضا میں کھڑا ہو گیا اور اس وقت حیران رہے گیا جب عورتیں یہ کہتے ہوئے گزریں، ’’بھیناں حاجی صاحب پر آج کوئی روپ آیا۔اللہ بخشے کتنے نیک تھے۔‘‘ میں جلد ہی اپنے گھر چلا آیا اور شانی کے ساتھ گولیاں کھیلنی شروع کر دیں۔ مغرب سے پہلے جنازہ اٹھ گیا۔ لوگ جنازہ گاہ کی طرف بھا گے جا رہے تھے لیکن مجھے ذرادلچسپی نہ تھی۔ رات البتہ سوتے میں ڈرتا ضرور رہا۔
دوسرے دن سویرے مسجد گیا تو مولوی جی نے ہم تمام بچوں سے مخاطب ہو کر کہا، ’’بیٹا،تمہیں پتا ہے کل حاجی عبدالکریم فوت ہو گئے۔ اللہ بخشے گاؤں کے لئے رحمت تھے۔آج گاؤں یتیم ہو گیا۔ کیا مجال تھی حاجی صاحب کے ہوتے کوئی گاؤں پر بری نظر ڈالتا۔ میرے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک تھا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی مولوی صاحب کے آنسو نکل آئے۔
تھوڑی دیر رک کر بولے۔
’’پتر،آج اپنے اپنے سپارے لے کر حاجی صاحب کی قبر پر چلو اور تلاوت کر کے اس کی روح کو ثواب پہنچاؤ۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ وہاں شیرینی بھی ہو گی۔‘‘
شیرینی کے لالچ میں ہم سب حاجی صاحب کی قبر پر آ گئے۔ قبرستان گاؤں کے مشرقی کونے پر پانچ ایکڑ رقبے میں پھیلا ہوا تھا اور گاؤں کے ساتھ جڑا تھا۔ دوسری طرف نہر بہتی تھی لیکن نہر کا کوئی اثر قبرستان پر نہیں تھا۔ چاروں طرف مٹی گارے کی دیواریں تھیں۔ قبرستان کے اندر گنی چنی قبریں تھیں۔ کوئی سایہ دار درخت نہ تھا۔ البتہ جھاڑیاں بکثرت اگی ہوئی تھیں جن میں سانپ اور کیڑے مکوڑے رینگتے پھرتے۔ جگہ جگہ چوہوں نے کھڈیں بنا رکھی تھیں۔ جس کی وجہ سے اکثر قبریں زمین میں دھنس گئی تھیں۔ آوارہ گدھے اور کتے دن رات پھرتے رہتے۔ بوسیدہ ہڈیاں ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا کہ چڑیلوں کا یہی ٹھکانہ ہے۔
جب ہم قبرستان پہنچے تو حاجی عبدالکریم کا بڑا بیٹا حاجی سیف الرحمن اور چند دوسرے لوگ وہاں پہلے سے موجود تھے۔ ہم سب بڑے ادب سے قبر کے گرد بیٹھ گئے اور تلاوت شروع کر دی۔ قبر قبرستان کے درمیان میں تھی۔ تلاوت کے بعد مولوی جی نے ختم پڑھا اور شیرینی تقسیم کی گئی۔ ہماری اس مصروفیت کے دوران دینے گورکن نے ایک جامن کا پودا قبر کے بالیں کی طرف لگا کر اسے پانی دے دیا،جس پر سیف الرحمن نے خوش ہو کر دینے کو دس روپے کا نوٹ دیا۔ نوٹ لے کر دینا سیف الرحمن کو دعائیں دینے لگا۔رخصت کے وقت مولوی جی نے حاجی سیف الرحمن کے گلے مل کر اسے دلاسا بھی دیا۔ پھر ہم چل دیے۔ دوچار ہی قدم چل کر اچانک رک گئے اور سیف الرحمن کی طرف منہ کر کے کہنے لگے:
’’بیٹاسیف الرحمن !ایسا کر حاجی صاحب کی قبر کے گرد چھوٹی سی دیوار بنا دے اور قبر بھی پکی کر دے تاکہ بارش اور کتے بلے نقصان نہ پہنچائیں۔ ‘‘ سیف الرحمن نے مولوی کی بات سن کر سر ہلا دیا۔ دینا گورکن بھی غور سے سن رہا تھا۔اس کے بعد ہم اپنے گھروں کو چلے آئے اور کھیل دھندوں میں لگ گئے۔ تیسرے دن مسجد میں قل ہوئے اور ساتویں کو ساتہ، جس میں پھل اور مٹھائیاں خوب تقسیم ہوئیں اور ہماری موجیں ہوئیں۔ میں نے دل میں سوچا، کاش روز کوئی اسی طرح مرتا رہے۔
اس کے بعد ایک ماہ تک مکمل سکوت رہا۔ایسا لگا جیسے مولوی جی خود بھی حاجی صاحب کو بھول گئے ہوں۔ لیکن ایک دن اچانک مولوی جی نے ہمیں فرمایا، ’’بیٹا، آج پھر حاجی صاحب کی قبر پر قرآن خوانی کرائی ہے کیوں کہ آج حاجی صاحب کا چالیسواں ہے۔‘‘ پچھلی بار کی شیرینی ہمیں یاد تھی لہٰذا ہم خوشی خوشی چل دیے۔ لیکن اس بار حاجی صاحب کا بیٹا وہاں موجو د نہ تھا اور نہ ہمیں وہاں کہیں مٹھائی دکھائی دی۔ ہم سب بد دل ہو گئے اور دل ہی دل میں مولوی کو کو سنے لگے۔ فقط دینا گورکن کھڑا تھا۔اس نے قبر پر تازہ چھڑکاؤ بھی کیا اور گلاب کی پتیاں بکھیر کر اگر بتیاں سلگارکھی تھیں جن کا خوشبودار دھواں ہمیں اچھا لگ رہا تھا۔سب سے الگ چیز جو نظر آئی وہ یہ کہ قبر کے گرد کافی کھلا صحن چھوڑ کے چھوٹی کچی دیوار کھڑی کر دی گئی۔ جامن کا پودا بھی ہرا ہرا لہلہا رہا تھا۔
گورکن نے آگے بڑھ کر مولوی صاحب کو سلام کیا جس کا مولوی صاحب نے بے نیازی سے جواب دیا۔کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد گورکن بڑے فخر سے بولا، ’’مولوی صاحب !پچھلی دفعہ آپ نے جو مشورہ دیا اسے حاجی سیف الرحمن نے میرے ذمہ لگا دیا تھا، کیوں کہ ان کو تو اور بھی سوکام ہوتے ہیں، اور پھر حاجی صاحب کون سے بیگانے تھے۔ مجھے بھی اپنا بیٹا سمجھتے تھے۔ کچی اینٹیں پڑی تھیں، میں نے سوچا قبر تو پکی میں بنا نہیں سکتا۔ چلو اس کے گرد کچی دیوار ہی کر دوں۔ حاجی صاحب نیک آدمی ہیں، مجھے بھی ثواب ہو گا۔‘‘ پھر آہستہ سے مولوی جی کے نزدیک ہو کر بولا، ’’مولوی صاحب، یہ صحن میں نے اس لئے کھلا رکھ دیا ہے کہ حاجی کی بیوی بیچاری بوڑھی ہو گئی ہے۔ اللہ نہ کرے، اونچ نیچ ہو جاتی ہے، اس کی قبر بھی حاجی صاحب کے ساتھ بن جائے گی۔ حاجی حاجن پھر اکٹھے ہو جائیں گے۔ ‘‘
مولوی نے یہ سن کر گورکن کو تھپکی دی اور حاجی صاحب کی قبر کے متعلق دو تین مشورے مزید دیے۔ اس کے بعد ہمیں قرآن خوانی کا حکم دیا۔ابھی قرآن خوانی کر ہی رہے تھے کہ حاجی سیف الرحمن اپنے نوکر کے ساتھ شیرینی لے کر آ پہنچا جسے دیکھ کر ہمارے چہروں پر ایک رونق سی آ گئی اور ہم نے زور شور سے قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔جتنی دیر ہم قرآن خوانی کرتے رہے، حاجی سیف الرحمن مولوی جی اور گورکن آپس میں باتیں کر تے رہے جو قرآن پڑھنے کے شور کی وجہ سے ہمیں سنائی نہ دیں۔
جب رخصت ہونے لگے تو میں نے دیکھا حاجی سیف الرحمن نے مولوی جی اور گورکن کو ایک ایک سو روپیہ دیا۔پھر ہم سب واپس چلے آئے اور حاجی عبدالکریم، جس سے میری پہلے بھی کوئی دلچسپی نہ تھی، میرے لئے ایک خواب ہو گیا۔اب گاؤں میں شاید ہی کوئی ہو گا جس نے کبھی حاجی صاحب کا ذکر کیا ہو۔ حتی کہ ایک سال گزر گیا۔پھر مزید کچھ ماہ بعد میں نے مولوی جی سے قرات پڑھنا بھی چھوڑ دیا اور مکمل طور پر اپنے کھیل اور اسکول کی طرف متوجہ ہو گیا۔
گاؤں کے بوڑھے مرتے رہے لیکن پھر نہ تو میں نے کسی کا جنازہ پڑھا اور نہ قبرستان کی راہ دیکھی۔ البتہ ایک دفعہ عید کی نماز پر جب مولوی صاحب نے گاؤں والوں کو قبرستان کی خستہ حالی پر شرم دلائی تو انہوں نے پکی چار دیواری کرنے کا ارادہ کیا جس میں تمام گاؤں نے بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا اور چار دیواری کھڑی کر دی۔ اس کے علاوہ مجھے کچھ پتا نہیں۔ یہاں تک کہ میں میٹرک میں جا پہنچا اور عمر کے پندرہویں سال میں۔ پھر ایک دن اچانک چودھری خوشی محمد کے مرنے کا اعلان ہوا۔ میں زیادہ غور نہ کرتا لیکن چونکہ چودھری کا چھوٹا بیٹا امجد میرا کلاس فیلو تھا اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑا۔ کندھا دیا،جنازہ پڑھا، حتی کہ دفنانے تک شریک ہوا اور قبرستان میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آٹھ سال بعد نقشہ ہی بد لا ہوا ہے۔حاجی صاحب کی قبر پر ایک بڑے جامن کے درخت کے علاوہ اور بہت سے درخت قبرستان میں اگے ہوئے ہیں۔ اکثر قبریں پکی ہو چکی ہیں اور بہت سوں کے گرد کھلی چار دیواریاں، جن کے احاطے پانچ پانچ مرلے تک کھلے تھے اور قبروں پر نام نسب کے کتبے الگ۔ حاجی عبدالکریم کی قبر پر تو ایک گنبد بھی بن چکا تھا جس کے نیچے اب حاجی کی بیوی بھی دفن ہو چکی تھی جو دوسال پہلے فوت ہوئی۔ یہ گنبد غالباً اسی وقت بنایا گیا تھا۔لیکن قبرستان میں ابھی بہت سی جگہ خالی تھی۔ مجھے یاد ہے چودھری خوشی محمد کی قبر کی تیاری کے وقت بھی میں امجد کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ہمارے جانے سے پہلے ہی دینے گورکن نے قبر ایک کھلی جگہ پر کھودی اور ارد گرد کی قریباً پانچ مرلے جگہ جھاڑجھنکارسے صاف کر دی جسے دیکھ ہم داد دیے بغیر نہ رہ سکے، بلکہ امجد نے دوسو روپے انعام بھی دیاجس پر دینے نے چودھری خوشی محمد کی تعریف کی اور کہا،’’چودھری صاحب، میں نے سوچا ہمارے چودھری خوشی محمد بڑے اچھے آدمی تھے۔قبر ذرا کھلی جگہ پر بنا دوں، تاکہ فاتحہ کہنے میں آسانی رہے۔ جگہ میں نے صاف کر دی ہے۔ اب چودھری جی، کل پکی اینٹوں کی دیوار کروا دیں تاکہ یہ جگہ گھیرے میں آ جائے اور محفوظ ہو جائے۔ ‘‘
میٹرک کرنے کے بعد میں شہر چلا آیا تاکہ مزید پڑھ لوں۔ گاؤں میں ہمارا ایک ہی گھر تھا جو یوپی سے مہاجر ہو کر آیا تھا اور نہ جانے کن حالات میں اس گاؤں میں آ بیٹھا۔عزیز و اقارب لاہور اور کراچی جابسے۔ اس لئے ہماری یہاں کوئی برادری نہیں تھی جبکہ گاؤں کی باقی آبادی مقامی تھی۔لہٰذا اثر رسوخ نہ ہونے کی بنا پر ہمارا شمار بھی کمیوں میں آتا۔
شہر میں میں نے ایک میڈیکل اسٹور پر رات کی نوکری کر لی جو دو بجے تک جاری رہتی۔ اڑھائی بجے سو جاتا۔ صبح نو بجے کالج نکل جاتا۔ اس طرح گاؤں میں میرے چکر ہفتے کی بجائے مہینے پر جا ٹھہرے۔ شہر میں کافی دوست بھی نکل آئے،لہٰذا گاؤں جاتا تو اگلے ہی دن واپس چلا آتا۔ یوں مدت تک قبرستان کی طرف گزر نہ ہوا اور شہر میں آئے چھ سال ہو گئے۔ اس عرصے میں محکمہ ڈاک میں کلر کی کرنے لگا اور ماہ بہ ماہ تنخواہ لے کر چلا جاتا۔ بلکہ اب کبھی کبھی تو ہفتے بعد ہی نکل جاتا کیوں کہ دادی اماں کی طبیعت اب ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ایک دن دفتر میں ڈاک سیل کر رہا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ نے آواز دی۔ پاس گیا تو اس نے ریسیور ہاتھ میں دے دیا۔ فون سن کر چکرا گیا۔والد صاحب نے دادی اماں کی موت کی خبر سنائی۔ دادی اماں سے میری جس قدر محبت تھی اس کا پہلا رد عمل تو یہ ہوا کہ میں پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ وہ مصیبتوں کی ماری جب سے انڈیا سے آئی، افلاس اور نکبت نے ساتھ نہ چھوڑا۔ دادا میاں آتے ہی چل بسے۔ ترکاریاں بیچیں، سوت کاتے۔ خود بھوکوں جئی اور چھ اولادوں کو پالا۔ اب جو یہ موت کا پیغام آیا تو مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔ خدا جانتا ہے آج تک اس سے تہجد قضا نہ ہوئی۔ مجلس کی استطاعت نہ تھی مگر گھر میں ائمہ طاہرین کی چھوٹی موٹی نیازیں دلوانا نہ بھولی۔
میں نے سپرنٹنڈنٹ سے چھٹی لی، کام چھوڑا، بھاگم بھاگ اڈے پر آیا،بس پکڑی اور شام سے پہلے گاؤں جا پہنچا اور اماں کی لاش سے خوب لپٹ کر رویا۔ اندھیرا چھا چکا تھا۔اماں کو نہلایا گیا اور کفن دے دیا۔ عشا ہو گئی لیکن میت نہ اٹھی پھر آٹھ بج گئے۔ نو بج گئے۔ جاڑے میں نو بھی آدھی رات جا بجتے ہیں ہمارے گھر میں رونے دھونے کے علاوہ چہ میگوئیاں بھی جاری تھی اور ابا میاں کچھ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔
میں نے پوچھا،’’ابا جی، اماں کی میت نہیں اٹھی۔ اب کس کا انتظار ہے ؟‘‘
بولے، ’’انتظار تو کسی کا نہیں، بس قبر کی دیر ہے۔‘‘
میں نے کہا،’’شام سے اب تک قبر کیوں نہ بنی؟‘‘
بولے، ’’قبرستان میں جگہ نہیں۔ ‘‘
میں نے کہا،’’یہ کیا ہوا!اتنا بڑا قبرستان ہے۔ ابھی کل کی بات ہے اڑھائی قبریں تھیں۔ ‘‘
بولے،’’لیکن اب جگہ نہیں رہی۔‘‘
اتنا سننا تھا کہ میں بھاگا قبرستان آیا۔ گورکن کے گھر کا دروازہ پیٹا جو قبرستان کے اندر ایک کونے میں تھا اور اب سارے کا سارا پکا ہو چکا تھا۔
گورکن باہر نکلا تو میں نے پوچھا،’’چاچا، کیا بات ہے قبر نہیں بناتے ؟اماں باہر پڑی ہے۔‘‘
کہنے لگا، ’’بھائی، کتنی دفعہ کہہ چکا ہوں، بڑھیا کا کہیں اور بندوبست کرو۔قبرستان میں جگہ نہیں۔ ‘‘
میں نے کہا، ’’چل دیکھتے ہیں جگہ کیسے نہیں ؟۔‘‘
بولا، ’’تیرے باپ کا نوکر ہوں آدھی رات قبریں پھلانگتا پھروں اورسانپ ڈسوالوں۔ ‘‘
میں نے کہا،’’چل نہیں تو نہ سہی،میں خود جگہ ڈھونڈ لوں گا۔‘‘
جیسے ہی واپس مڑا اور قبرستان میں داخل ہو ا تواس نے پیچھے سے پھر آواز دی۔’’خبر دار اگر کسی دوسرے زمیندار کی قبروں کے احاطے میں جگہ بنائی، ورنہ صبح مردہ باہر نکال پھینکیں گے۔ پھر نہ کہنا یہ کیا ہوا۔‘‘
بہر حال جب میں قبرستان کے اندر آیا، جاڑے کی چاندنی رات تھی،گویا دودھ برس رہا تھا۔پورے قبرستان میں احاطے ہی احاطے تھے اور اندر دو دو تین تین قبریں، باقی جگہ خالی۔ دو تین جگہ مجھے بڑے گنبد بھی نظر آئے۔ حیران کہ اب کیا کروں اور اماں کو کہاں دفن کریں، کہ اتنے میں دور قبرستان کی آخری نکڑ پر لالٹین کی ہلکی روشنی دکھائی دی۔قریب گیا۔دیکھا تو میرے چچا زاد قبر کھود رہے تھے۔انہوں نے تھوڑی دیر پہلے ہی چار دیواری کے ساتھ ایک لا وارث جگہ ڈھونڈ نکالی تھی اور اب وہ قبر بنا رہے تھے۔
خیر، رات دو بجے اماں کو دفن کیا۔جنازے میں کوئی پندرہ لوگ تھے۔مولوی جاڑے کے ڈر سے نہ آسکے۔جنازہ باوا جان نے پڑھا۔
اگلے دن صبح نو بجے چوکیدار نے ابا کو آواز دی کہ حاجی سیف الرحمن یاد کرتے ہیں۔ بابا نے مجھے ساتھ لیا۔ حویلی پہنچے تو کوئی سوآدمی بیٹھے تھے۔جس میں تمام برادریوں کے لوگ موجود تھے۔دینا گورکن بھی وہاں تھا۔مجھے دیکھتے ہی تیوری چڑھائی۔ ہم سلام کر کے بیٹھ گئے۔ ابا میاں حیران کہ خیر ہو، خدا جانے کیا بات ہے۔
جب سب بیٹھ گئے تو سیف الرحمن کی گرجدار آواز نے سکوت توڑا۔
’’میاں تقی محمد، رات تیرے چھوکرے نے دینے سے بد تمیزی کی۔ آدھی رات بڑھیا کی قبر بنواتا پھرتا تھا۔اور تمہیں پتا بھی ہے کمیوں کے لئے مزید جگہ نہیں۔ رات کی بات تو ہم نے پی لی، مگر آئندہ کے لئے سارے کمی اپنا بندوبست کرو۔ قبرستان صرف ان کے لئے ہے جن کی گاؤں میں زمین ہے۔ آج تک کمیوں کی جو قبریں بن گئیں بن گئیں، وہ بھی ہمارا احسان سمجھو۔اور سنو، دینے گورکن نے تمہارا کمیوں کا کوئی ٹھیکہ نہیں لیا کہ قبریں کھودتا پھرے۔ میرا پنچایت بلانے کا آج صرف یہی مقصد تھا۔‘‘
یہ کہہ کر حاجی سیف الرحمن اٹھ گیا۔کس کی مجال کہ دم مارے۔ ہم بھی اپنے گھر چلے آئے۔
دوسرے دن شام کمیوں نے خادم تیلی کے گھر اکٹھ کیا اور فیصلہ کیا کہ کمی برادری دو کنال جگہ قبرستان کے لئے الگ لے۔ ہر گھر کو اڑھائی سو روپیہ لگا دیا۔ پانچ دن میں پچیس ہزار روپیہ اکٹھا ہو ا اور گاؤں سے دو کلو میٹر دور رواؤ عبد الشکور سے دو کنال جگہ خرید لی گئی۔ اگر چہ شور زدہ تھی لیکن انہوں نے کون سا فصل بونا تھی۔ہاں البتہ کچھ دور تھی۔
اب جو کمی مرتا اس کے وارث خود قبر بنا لیتے، لہٰذا گورکن کی بھی ضرورت نہ رہی۔اور مولوی کی کمی اس لئے محسوس نہ ہوئی کہ ابا میاں جنازہ پڑھ دیتے۔
ادھر زمینداروں کا گورکن دینا تھا جس نے قبرستان کو جنت نشان بنا دیا۔پکی قبریں اور جگہ جگہ گنبد، ہر طرف سایہ دار درخت، پانی کی کمی درمیان سے گزرنے والا نالا پوری کرتا۔ اب قبرستان میں زمینداروں کے لئے کافی جگہ تھی جو مدتوں کام آتی اور ختم نہ ہوسکتی تھی کہ قبرستان میں ہر ایک نے اپنا قبضہ کر رکھا تھا۔
میں اب کبھی کبھار گاؤں جاتا تو اماں کی قبر پر ضرور جاتا اور ہر طرف سفید مرمریں قبریں دیکھتا۔ یوں دس سال اور بیت گئے۔ کوئی مسئلہ نہ بنا۔ میں نے دیکھا کہ دینا اب بوڑھا ہو چکا تھا مگر قبروں کی دیکھ بھال اسی محنت سے کرتا۔
اگلی دفعہ چھ ماہ بعد گاؤں گیا تو پتا چلا کہ آج صبح دینا گورکن مرگیا۔ میں نے یہ خبر فقط سن لی تھی،زیادہ دلچسپی نہ لی۔ حتیٰ کہ شام تک ویسے ہی بھول گیا۔دوسرے دن دس بجے اپنے گھر میں باوا جان کے ساتھ بیٹھا تھا۔گرمیوں کے دن اور سخت دھوپ چڑھ آئی تھی۔اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ میں اٹھ کے باہر آیا تو سامنے چوکیدار تھا۔
کہنے لگا، حاجی صاحب حویلی بلاتے ہیں۔ میں باوا جان کو بتائے بغیر حویلی چلا آیا۔سامنے دیکھا تو حاجی صاحب بڑے موڈھے پر بیٹھے تھے۔ دوسرے لوگ اور کمی چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔
مجھے دیکھ کر حاجی صاحب نے کہا، ’’میاں تقی نہیں آیا؟‘‘
میں نے کہا،’’چودھری صاحب، وہ ذرا بیمار ہیں۔ آپ حکم کریں۔ میں آگیا ہو ں۔ ‘‘
کچھ دیر حقہ گڑ گڑا نے کے بعد بولے:
’’تمہیں پتا ہے، کل دینا گور کن مرگیا اور لاش ابھی تک پڑی ہے۔ کفن دفن کسی نے نہیں دیا۔ گرمیوں کے دن ہیں اور دینے کی لاش بد بو چھوڑنے لگی ہے۔ تمہارا کمی بھائی تھا لیکن تمہیں ذرا خیال نہیں آیا۔ جاؤ اس کا بندوبست کرو۔‘‘ اچھے کمہار کی طرف دیکھتے ہوئے: ’’اچھے، تم قبر کھودو، اور طیفے، تو دینے کوغسل دے۔ کفن کابندوبست کر دیا ہے۔ ‘‘ اور میری طرف مخاطب ہو کر :’’علی حسین تو پڑھا لکھا ہے، ذرا جنازہ پڑھ دینا۔ مولوی آج فارغ نہیں۔ ‘‘
اتنا کہہ کر حاجی صاحب کھڑے ہو گئے اور مڑتے ہوئے پھر رکے،
’’اور ہاں، گاؤں کے قبرستان میں جگہ نہیں، ادھر اپنی طرف ہی لے جانا۔‘‘