اگلے روز کمال صاحب کو سیمل کے جانے کی خبر ملی تھی۔ وہ لمحہ ان کا لیے بہت سخت تھا۔ جوان بیٹی ایسے گھر سے نکل گئی تھی رات کے اندھیرے میں۔ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ سنی سے کوئی بات نہیں کی تھی کہ وہ بچہ تھا۔ اس روز وہ کام پر بھی نا جاسکے ۔ البتہ اپنے کسی آدمی سے سیمل کا پتا لگوانے کا کہہ دیا مگر سب کام رازداری سے کرنے کو کہا۔
کئی گھنٹے انہوں نے لانج میں بیٹھ کر گزار دیے اس امید پر کہ ان کا آدمی کوئی خبر دے گا مگر مایوسی ہی رہی۔
جمال صاحب اور بھابھی جی تیار کھڑے تھے بچوں کی منگنی کرنے کو اور یہ لڑکی کیسے موقع پر گھر سے بھاگ گئی تھی۔
شاید اسکے ایسا کرنے میں ان کی بھی غلطی تھی۔ انہیں اپنی مرضی اس پر مسلط نہیں کرنی چاہیے تھی مگر اس وقت یہ سوچنا زیادہ ضروری تھا کہ وہ سیمل کہاں گئی ہے۔
□□□
(عائشہ اور حمزہ کی شادی کے ایک ماہ بعد۔)
” داود ۔کہاں کھوئے ہوئے ہو تم” ۔
صبحانی محل میں صبح کے اس وقت تمام افراد ناشتے کے لیے بیٹھے تھے۔ میز پر عنواں اقسام کے کھانے چنے گئے تھے مگر داود حمدانی کسی چیز پر بھی دیھان دیے بنا خالی پلیٹ میں چمچہ چلا رہا تھا۔ جب بی جان نے اس ٹوکا
” بس کام کی کچھ ٹینشن ہے بی جان ۔ بہت سے لوگ مقابلے پر آئے ہوئیں ہیں ۔ لیکن میں ہر ایک کو دیکھ لوں گا جیسے پہلے بھی سنبھالتا آیا ہوں۔”
وہ سیدھا ہوتا ہوا سنجیدگی سے بولا۔
” تم ہمیشہ بزنس کی فکر کرتے رہتے ہو ۔ تمھاری ایک فیملی بھی داود ۔ اس طرف تمھاری توجہ کیوں نہیں ہے۔ ” بی جان بہت دنوں سے بات کرنے کا سوچ رہیں تھیں مگر موقع آج ملا تھا ۔
” تو تم نے بی جان سے میری شکایت کردی۔ تمہے جو مسئلہ ہے وہ مجھ سے ڈسکس کرو ۔ بی جان کو درمیان میں کیوں لا رہی ہو ۔ ” پہلو بدل کر رامین کی طرف گھوما اور کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا ۔
” داود تم میرے سامنے اپنی بیوی سے اس طرح بات نہیں کر سکتے ” بی جان نے اس رعب سے کہا۔
” میں جو بات کرتا ہوں سب کے سامنے کرتا ہوں۔ پیٹھ پیچھے شکوے نہیں کرتا اسکی طرح ” وہ مسلسل غصیل نگاہیں رامین پر گاڑھے ہوئے تھا۔
” رامین نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ میں بھی اس گھر میں رہتی ہوں اور سوج بوجھ رکھتی ہوں ۔کیا مجھے نہیں دکھ رہا کہ تم رامین کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو۔ شادی سے لیکر اب تک تم نے کبھی رامین سے ڈھنگ سے بات نہیں کی ہے۔ کیا وہ تم پر کوئی حق نہیں رکھتی۔۔۔!”
” ہاں نہیں رکھتی ہے ” وہ میز پر زور سے ہاتھ مار کر بولا تھا۔ چہرے اور گردن کی رگیں تن چکی تھیں۔
” یہ عورت مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتی ہے۔ یہ صرف اس گھر اس خاندان کا حصہ صرف آپکی وجہ سے ہے۔ عائشہ کے رشتے سے انکار کرنے کے بعد آپ ضد میں اسے اس گھر میں لائیں تھیں ۔ میری مرضی سے نہیں آئی اور یہ مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتی۔ میں نے کبھی بھی آپکی نواسی رامین ہمایوں کو تسلیم نہیں کیا اور اگر آپ کو یا اس کو اس بات سے مسئلہ ہے تو سن لیں میں بہت جلد اسے اس رشتے سے آزاد کردوں گا۔ ( رامین کی نظروں کے سامنے اندھیرا چھایا)” وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔ میز پر جھکے رامین کی طرف دیکھا
” تمھارے اس گھر میں کم ہی دن رہ گئے ہیں ۔ بہتر ہے کہ اچھے سے گزار لو اور میرا بیٹا میرے ساتھ ہی رہے گا۔ اسے اپنے ساتھ لے جانے کا سوچنا بھی مت ” تیز آواز میں تنبیہ دیتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
ملازم اسکا بریف کیس اور کوٹ لیکر کھڑا تھا۔ کوٹ ملازم سے جھپٹ کر آگے بڑھ گیا تو ملازم پیچھے دھوڑا ۔
اسکے نکلتے ہی رامین جو اتنی دیر سے سب کچھ برداشت کر رہی تھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بی جان نے فورا اسے گلے سے لگایا۔
” میری بچی بس کر دو۔ وہ غصے میں سب کہہ گیا ہے۔ وہ کبھی تمہے نہیں چھوڑے گا ۔ وہ کبھی اپنی اولاد کو ماں سے دور نہیں کرے گا۔ ” وہ اسے تسلیاں دینے لگی تھیں۔
” نہیں بی جان ۔وہ سچ کہہ گیا ہے ۔ میں اس پر واقعی حق نہیں رکھتی ہوں۔ میں اسکے قابل نہیں ہوں ۔ اسکے قابل صرف عائشہ جیسی لڑکی تھی۔
عائشہ نے آخر اس رشتے سے منع کیوں کیا تھا ۔” رامین نے اپنی بھیگی سولیہ نظریں اٹھائیں۔
بی جان کچھ بھی کہے بغیر خاموشی سے کھڑی رہیں ۔
“بتائیں نا بی جان ” وہ زور دے کر بولی
” میں نہیں جانتی میری بچی ” وہ آہستگی سے بول کر رامین سے نظریں چراتی ہوئیں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں
رامیں داود نے بے بسی سے میز کی طرف دیکھا ۔ ادھورے ناشتے ۔ادھوری زندگی۔
□□□
وہ رات کے وقت اسلام آباد پہنچا تھا ۔ ہوٹل میں چیک ان کرکے وہ ساری رات اس نے لیپ ٹاپ پر کام کرتے گزاری تھی۔ وقفے وقفے سے اٹھ کر کافی بناکر پی لیتا ۔ پھر کبھی ایک طائرانہ نگاہ ہوٹل روم پر ڈال لیتا ۔
وہ فجر سے کچھ دیر پہلے کا وقت تھا جب وہ بلکونی میں آکر کھڑا ہوگیا اور آزاد فضا کو خود میں سمو نے دیا ۔
اس شہر میں اسنے زندگی کے کئی سال گزارے تھے۔ وہ سارا دورانیہ جب وہ بوڑدنگ میں رہا تھا ۔ تب زندگی کس قدر مہربان تھی۔ جب سب سے بڑی فکر اس بات کی ہوتی تھی کہ کیسے زیادہ سے زیادہ محنت کر کے دوسروں سے اچھے گڑیڈز لینے ہیں۔ جب صرف ٹیچرز اور پروفیسرز کی ڈانٹ ہوتی تھی۔ جب صرف دوست اور ان کے گزارا ہوا وقت سب سے قیمتی لگتا تھا۔ وہ دور جب زندگی واقعی حسین لگتی تھی۔
موسی جہانگیر نے بھی اپنی زندگی کا یہ دور بہت اچھے سے گزارا تھا ۔ مگر زندگی کو شاید کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ ایک لمحے میں ہی کیسے ہستی مسکراتی زندگی رونے لگی تھی۔ کیسے اس پر زانی ہونے کا گھٹیا الزام لگا دیا گیا محض آٹھرا سال کی عمر میں۔ وہ آوازیں وہ طعنے وہ آج بھی اس کی سماعتوں میں گھومتی تھیں۔ آج بھی وہ سب بلکل نئے جیسا دکھتا تھا ۔ آج بھی اس وقعے کی نشان اس کی کنپٹی پر موجود تھے۔
گرل پر ہاتھ رکھے اسنے نظروں کو ہر سمت گھمایا ۔ اسی شہر میں یوسف سکندر بھی رہتا تھا ۔ اسی شہر میں داود حمدانی بھی مقیم تھا ۔
فجر کی اذان شروع ہو چکی تھی۔ موذن کی آواز کو ہوا اپنے دوش پر اٹھائے چہار سو پھیلا رہی تھی۔ فضا میں سکون سا در آیا تھا۔
سورج نکل چکا تھا ۔ اپنی روشنی پھیلائے وہ ایک نئے دن کا آغاز کر چکا تھا۔
جب روشنی اچھی طرح سے پھیل گئی تب وہ اندر کی طرف پلٹ گیا ۔
سامنے بیڈ پر پڑے لاپ ٹاپ کی سکرین پر کچھ جگمگ رہا تھا ۔
اس نے انٹرویو کے لیے اپلائی کیا تھا ۔ سکرین پر کھلی ای میل اس بات کی تصدیق کر رہی تھی اس کی درخوست منظور کرلی گئی ہے اور آج اس کا انٹرویو لیا جائے گا ۔
موسی نے مزید دو چار کیز دبا کر لاپ ٹاپ بند کر دیا ۔
آج اسے صبحانی ڈیلرز کے آفس جانا تھا ۔ صبحانی فیملی جہاں سیاست میں مقام رکھتی تھی وہیں اسکے کچھ سائڈ بزنس بھی تھے۔ جن میں سے ایک گولڈ دیلنگ کا بھی کاروبار تھا۔
□□□
باربی کیو پاڑتی کے لیے یوسف نے سیمل مایا اور سنی کو سیمل کے گھر سے پک کیا تھا۔ یہ اسکی طرف سے شرط ہارنے کی ٹریٹ تھی۔
” ہیلو انکل۔ ” دروازہ کھولتے ہوئے سنی بولا۔
” کیا کہا تم نے ۔۔۔۔انکل۔۔۔!” یوسف نے سنی کو ایسے دیکھا جیسے وہ کوئی انوکھی بات کہہ گیا ہو ۔
” میں تمہے کہاں سے انکل نظر آتا ہوں ۔ کیا میرے سر پر سفید بال ہیں۔ کیا مجھے موٹے شیشوں والا چشمہ لگا ہے ۔ کیا میں بات کرتے ہوئے کھانستا ہوں۔ کیا میری کمر جھکی ہوئی ہے ۔۔۔۔ نہیں نا تو آئندہ کبھی مجھے انکل نا کہنا۔ سمجھ آئی ۔ میرا نام یوسف ہے ( Ucef )۔ تم مجھے یو سی بلا سکتے ہو ” سنی کا کندھا جھنجھور کر اطلاع دی۔
” تم آتے ساتھ ہی میرے بھائی کو تنگ کرنا شروع ہو گئے ہو ۔ اسے تو کم سے کم بخش دو ۔ ” باہر آتے ہوئے سیمل بولی تھی۔
” تمھارا بھائی بڑا پیارا ہے۔ میرا بھائی اگر ایسا ہوتا نا تو قسم سے اسے تو میں کھا ہی جاتا۔ کیوں بھالو۔” ہاتھ مار کر سنی کا ہیئر سٹائل بگاڑ دیا تو وہ گھور کر اسے دیکھنے لگ گیا۔
” میں بھالو نہیں ہوں۔ آپ ضرور جوکر ہیں۔” منہ چرا کر باہر بھاگ گیا تو سب ہسنے لگے۔
□□□
” کیا ضرورت تھی تمہے اسکی بات ماننے کہ اور زبردستی مجھے بھی گھسیٹ لائی ہو ۔ ” فارم ہاوس پہنچ کر مایا سیمل سے خفا خفا کہہ رہی تھی۔
” تم یوسف کو اتنا ناپسد کیوں کرتی ہو۔ ” سیمل نے سوال کیا ۔ اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی یوسف کی آواز کانوں میں پڑی۔
” لڑکیوں ادھر ہی کھڑی رہو گی یا میری مدد بھی کرو گی۔ ” یوسف باربی کیو کے لیے گرل سیٹ کر چکا تھا۔ اسکی آواز پر وہ دونوں اسکی طرف بڑھ گئیں۔ سنی وہیں قریب رکھے فٹبال سے کھیلنے لگا۔
باربی کیو بن گیا تو سیمل اور سنی نے مل کر پلیٹس سیٹ کر دیں۔
” یہ بہت ٹیسٹی ہے۔ ” سیمل نے تعریفا کہا۔ ” تمہے کوکنگ آتی ہے ۔” باربی کیو کی بوٹی ٹوڑتے ہوئے بولی۔
” ہاں کیوں نہیں۔ بہت اچھے سے ۔ ماما سے سب کچھ سیکھا ہے میں نے ۔”
” مجھے موقع نہیں ملا اپنی ماں سے کچھ سیکھنے کو۔ ” وہ ایک دم اداس ہو گئی تھی۔ پھر جلد ہی سنبھل گئی۔
باہر موسم اچھا تھا اسلیے وہ لوگ لان میں ہی میٹ بچھا کر بیٹھ گئے تھے۔
” میں برتن سمیٹ دیتی ہوں۔ ” بعد میں جان پوچھ کر سنی کے ساتھ کچن میں چلی گئی۔ وہ کوشش کرتی تھی کم سے کم یوسف سے سامنا ہو۔ فارغ ہو کر واپس آئی تو سامنے کا منظر دیکھ کر چونک گئی۔ فورا دیوار کی اوٹ میں ہوئی اور کوئی آواز نا ہو اس لیے منہ پر ہاتھ رکھا۔
وہ ایک درخت تھا۔ درخت کے ساتھ سیمل کمر ٹکائے کھڑی تھی۔ یوسف اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا ۔ ہاتھ میں ایک پھول بھی تھا اور کچھ کہہ رہا تھا۔ جبکہ سیمل منہ پر ہاتھ رکھ ہنس رہی تھی۔
وہ مزید نہیں دیکھ سکی بھاگ کر فارم ہاوس کے اندر چلی آئی۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر رونے کی آواز دبائی ۔
سارے اندازے غلط ہوگئے تھے۔ وہ جو سوچ بیٹھی تھی کہ یوسف اس سے محبت کرتا ہے وہ صرف غلط فہمی تھی۔ بھلا وہ سیمل جیسی خوبصورت لڑکی کے ہوتے ہوئے اس سے محبت کیوں کرے گا۔ اس روز جب بارش ہوئی اور یوسف سب کو چھوڑ کر اسکے پاس آیا تھا تب وہ خود کو بہت اہم اور خاص لگی تھی۔ وہ اسکے گھر پر تھی اور پاوں پر چوٹ لگی تھی۔ تب اسنے خود سے زیادہ تکلیف یوسف کے چہرے پر دیکھی تھی۔ گیٹ سے نکلتے ہوئے اسنے یوسف کو گلدان باہر پھینکتے دیکھا تھا۔
وہ ہر بار اسکے بارے میں پوچھتا تھا ۔ سیمل اسے بتاتی ۔ ” تم نہیں آئی تھی یوسف بار بار پوچھ رہا تھا۔ تمہے دیکھے بغیر اسکا دل نہیں لگتا۔ ” سیمل شرارت سے کہا کرتی۔
وہ کوشش کرتی کہ خود کو یوسف سے دور ہی رکھے۔ اس سے کم ہی بات ہو مگر محبت میں ضروری نہیں کوئی آپکے قریب ہو یا آپ سے بات کرے تو محبت ہو گی ۔مایا اعوان کو یوسف سکندر سے محبت ہو گئی تھی خاموش محبت۔
وہ اظہار سے گھبراتی تھی۔ بچپن سے ہی وہ اپنے کزن حیدر کو پسند کرتی تھی ۔ حیدر اس خاندان کے لڑکوں میں سب سے خوبصورت تھا یہی وجہ تھی کہ اسکی بہت سی کزن اس پر فدا تھیں۔اور ان میں ایک وہ بھی تھی۔ اس روز وہ حیدر سے اپنی محبت کا اظہار کر بیٹھی اور بدلے میں حیدر کی کم ذہنیت کا پتا لگا تھا۔
وہ اسے بری طرح اسکی رنگت پر طعنہ دے رہا تھا۔ اور کوئی بھی خوبی یا خامی دیکھے بغیر صرف وہ اسکے رنگ پر طنز کر رہا تھا۔
اس روز وہ بہت روئی تھی۔ اپنی سانولی رنگت پر اللہ سے کتنے گلے بھی کیے تھے۔
یوسف سے ملنے کے بعد وہ اسکے لیے احساسات رکھنے لگی تھی۔ جلد ہی اس پر اس بات کا انکشاف ہوا تھا اسے حیدر سے محبت نہیں تھی۔ وہ محض ایک پسند تھا۔ اسے لگتا تھا حیدر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکے گی لیکن حیدر کا اسے انکار کرنے کے بعد ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ بس اسے حیدر کے اسکے رنگ پر طنز کرنے کا دکھ ہوا تھا۔
وہ یوسف سے کچھ کہنے سے درتی تھی۔ کہیں ایسا نا ہو وہ بھی حیدر کی طرح انکار کردے۔ وہ بھی حیدر کی طرح اسے بے عزت کردے ۔ مگر آج اس پر یہ بات کھل چکی تھی وہ جیسا سوچ رہی تھی ویسا نہیں تھا ۔ اسکے نصیب میں طارق ہی تھا ۔ اسے ابا سے طارق کے رشتے کے لیے ہاں کر دینی چاہیے ۔ بہت سے آنسو ایک ساتھ اندر اتارے تھے۔
□□□
” مجھے اس لڑکی کے بارے میں معلوم کرکے دو” داود نے عمر کو ایک تصویر واٹس ایپ کی تھی اور ساتھ میں حکم دیا تھا۔ وہ دوپہر میں ہی آفس سے نکل گیا تھا۔ صبح ناشتے کی میز پر ہوا تمام واقعہ اسے ٹینس کر رہا تھا۔ وہ سیدھا ایک فائیو سٹار ریسٹورنٹ میں آیا ۔کافی پیتے ہوئے اچانک اسکے زہن میں وہ لڑکی آئی تھی۔ داود نے اسے عائشہ کی شادی میں دیکھا تھا۔ وہ لڑکی عائشہ سے بہت مشابہت رکھتی تھی۔
” سر کون ہے یہ لڑکی۔” جوابا عمر نے کہا۔
” اگر میں جانتا تو تمہے کیوں کہتا۔سٹوپڈ ” وہ سارا غصہ اس پر اتارتے ہوئے بولا۔
” اوکے سر اوکے سر۔” ہربرا کر کہتا عمر فون بند کرکے اٹھ گیا۔
□□□
پورے نو بجے موسی جہانگیر اس پر تعیش آفس کے سامنے کھڑا تھا۔ ریسپشنسٹ نے اسے انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔
” میڈم میٹنگ میں بزی ہیں آپ ویٹ کریں۔” منہ پر مصنوئی مسکراہت سجا کر وہ بے بی کٹ والی لڑکی بولی تھی۔
” سر آپ اندر جا سکتے ہیں۔” پندرہ منٹ بعد اجازت دے دی گئی۔
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو پاور سیٹ پر عائشہ صبحانی بیٹھی نظر آئی۔ وہ سامنے رکھے لاپ ٹاپ پر مسلسل انگیاں چلا رہی تھی۔ گھنگھریالے بال ایک طرف ڈال رکھے تھے۔ مغربی طرز کا لباس پہنے وہ گہرے بھورے رنگ کی آنکھوں والی سانوالی رنگت کی مالک تھی۔ وہ چھبس سالہ لڑکی تھی اور صبحانی ڈیلرز کی مالکن تھی۔
” بیٹھیے ” وہ نظریں لاپ ٹاپ پر گاڑھے بولی تھی۔
موسی کے بیٹھتے ہی اسکی طرف اشارہ کرکے اسکی سی وی مانگی۔ موسی نے ہاتھ میں پکڑی فائل اسے تھمائی۔ عائشہ نے ایک نگاہ اس پر ڈالی
” ہوں تو کس جاب کے لیے اپلائی کیا تھا ۔؟” پروفیشنل لہجے میں پہلا سوال آیا۔
” اکونٹنٹ کی جاب”
” پہلے کہیں پر جاب کی ہے۔؟ ” دوسرا سوال ۔
” ہاں ”
“تمھاری سی وی تو ۔۔۔!” کچھ کہتے ہوئے اٹکی۔
” تم نے سکولنگ بوڑڈنگ سے کی ہے ؟”
” جی ”
” صحیح ” پھر اسبات میں سر ہلایا۔
” مسٹر حارب جہانگیر آپ کو اس کمپنی میں کام کرنے کے لیے کچھ رولز فالو کرنے پڑیں گے۔ ظاہر ہے کہ ہر کمپنی میں ہوتے ہیں مگر میں آپکو صرف اسی صورت ہی جاب پر رکھ سکتی ہوں جب آپ اس پوسٹ کے لیے قابلیت ظاہر کریں گے۔ میں صرف سی وی یا پھر زبانی وعدوں پر ہی جاب نہیں دیتی۔ ایک ہفتے تک آپ کے کام کو چیک کرکے ہی اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ آپ اس کے اہل ہے یا نہیں۔” دونوں ہاتھ باہم پھنسائے وہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔
” میں آپ کے معیار پر اترنے کی کوشش کروں گا۔ آپکو مایوسی کا موقع نہیں دوں گا۔ اس وقت میں ایسی کوئی بھی بات نہیں کروں گا کیونکہ میں بھی زبانی وعدوں کے حق میں نہیں ہوں۔ منہ سے بولنے میں اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔” وہ بھی آگے سے پختگی سے بولا تھا۔
” ایٹس اوکے ڈین” کہہ کر واپس لاپ ٹاپ کی طرف پلٹ گئی۔ یہ اسے جانے کا ایک اشارہ تھا۔
وہاں سے وہ سیدھا وکیل شجاعت صاحب کے آفس پہنچا تھا۔ پہلے سے اپائنمنٹ لے چکا تھا اسلیے ملاقات ممکن ہوگئی تھی۔
وہ بلیک کوٹ میں ملبوس آنکھوں پر موٹا فریم لگائے موسی کی دی ہوئی فائل کو چیک کر رہے تھے۔
” ہاں یہ بلکل سچ ہے۔ تمھارے دادا جہانگیر احمد نے مجھ سے وصیت لکھوائی تھی۔۔” آنکھوں سے چشمہ اتارتے ہوئے وہ یاد دہانی کرتے ہوئے بولے۔
” اس وصیت کے مطابق انکی ساری جائیداد تمھارے نام ہو جائے گی۔”
” میں چاہتا ہوں آپ جلد سے جلد اس وصیت پر عمل کرکے قانونی کاروائی مکمل کریں۔” موسی نے اپنا مدعا بیاں کیا ۔
” ہوں ۔ کچھ قانونی کاروائیوں اور اصولوں کے بعد تمھارے دادا کی پڑاپڑٹی تمھارے نام ہوگی۔” سر اثبات میں ہلا کر کھڑے ہوگئے۔ انہیں کہیں پہنچا تھا ۔ انکے نکلتے ہی موسی بھی نکل پڑا۔
وہ آفس سے نکل کر راہ داری سے گزر رہا تھا جب سامنے سے آتے فائل پر جھکے مرد سے ٹکر ہو گئی۔
” آئی ایم سوری” موسی معزرت کرتے ہوئے بولا۔
” موسی ۔۔!” حمزہ شجاعت اسے پہچانتے ہوئے بولا۔
” ناہید آنٹی کا بھتیجا ۔ایم آئی رائٹ۔”
” ہاں۔” اثبات میں سر ہلا کر تاقید کی۔
” تم تو پشاور چلے گئے تھے۔ یہاں خیریت سے۔” حمزہ نے راہداری میں آگے بڑھتے ہوئے پوچھا
” پڑاپڑٹی ایشو ۔ اور اب یہیں پر سیٹل بھی ہو جاوں گا۔ ” ساتھ چلتے ہوئے موسی نے بتایا ۔
” گڈ ۔ کوئی جاب یا بزنس؟ ”
” صبحانی ڈیلرز میں آج دیا ہے انٹرویو ۔”
” واو دیٹس گریٹ۔ میں صبحانی خاندان کا فیملی لائر ہوں ۔ یعنی ہم ان ٹچ رہیں گے۔ اچھا لگا تم سے مل کر ۔ابھی مجھے جانا ہے پھر کبھی بیٹھ کر فرصت سے بات کریں گے۔” عجلت میں بولتا مصافحہ کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
آج حمزہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ جلد ہی یوسف اور داود سے بھی ہو جائے گی۔
□□□
سروت نے سامنے صوفے پر بیٹھی حیا کو دیکھا جو تکلیف دہ مسکراہت چہرے پر سجائے ہوئے تھی۔
” تم ٹھیک تو ہو۔ ” وہ بے چینی سے پوچھنے لگیں۔
” شاید ہاں ” وہ بے خیالی میں بولی۔
” آج یوسف کے گھر کوڑٹ نوٹس چلا جائے گا۔ جلد ہی وہ عدالتی کٹھگڑھے میں ہوگا ۔ جلد ہی اسے اسکے کیے کہ سزا مل جائے گی۔” وہ آنسو چھپاتی ہوئی قہقہہ لگا کر بولی تھی۔
” آخر اس نے ایسا کیا کیا تھا۔” سروت نے دو سالوں میں پہلی بار اس سے یہ سوال پوچھا تھا۔
” اس روز یونیوڑسٹی میں کوئی فنکشن تھا۔۔۔۔”
□□□
اسلام آباد کی اس یونی میں اس روز فن فیئر کا فنکشن تھا۔ ایگیمز کے بعد کی ریلکسیشن ۔
بہت سے طلبہ نے ڈانس ، سنگنگ اور اور دوسرے کیٹیگریز میں پرفارمنس کر رہے تھے۔
سیمل اور مایا اس وقت سٹیج کے قریب ہی کھڑی تھیں۔ جب یوسف سٹیج پر چڑھا۔ آج بلیک جینز کے اوپر کوپر کلر کی فل بازوں والی ہائی نیک پہن رکھی تھی۔ بالوں کے اسپائکس نہیں بلکہ پیچھے کی طرف کرکے سیٹ کیے ہوئے تھے۔
اس کے ہاتھ میں ایک گٹار تھا ۔
” ڈس ون فار مائی لو” مائک کے قریب منہ کرکے بولا مایا کو آنکھوں کے حصار میں لے کر بولا۔ مایا کو لگا اسنے سیمل کو دیکھا کر کہا ہے۔
یوسف نے گانا شروع کیا ۔ وہ کوئی مشہور ترقی گانا گا رہا تھا۔
” اٹینشن پلیز ! ” گانے ختم کرکے وہ مائک پر انگلی بجاتے ہوئے بولا۔
” آج میں آپ سب کے سامنے کسی سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ آج میں سب کے سامنے اس لڑکی کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اس سے کتنی محبت کرتا ہوں۔ آج میں اسے بتانا چاہتا ہوں کہ اسکا تصور کرکے میرا دل دھڑکتا ہے۔ میں یوسف سکندر جس لڑکی سے بے تحاشہ محبت کرتا ہوں وہ لڑکی ہے۔۔۔۔” وہ نظریں مایا پر مرکوز کیے اعتراف کر رہا تھا۔ مایا کا دل زور سے دھڑکا ۔
اس میں ہمت نہیں تھی یوسف کے منہ سے سیمل کا نام سننے کی۔ عائشہ اور حمزہ کی شادی میں جب سیمل اور وہ ڈانس کر رہے تھے تب پہلی بار اسے سیمل سے حسد محسوس ہوئی تھی۔ پہلی بار جلن کا احساس ہوا تھا۔
یوسف نے دیکھا مایا آنکھ کا کنارا صاف کرتی ہوئی بلڈنگ کی طرف بھاگی تھی۔ وہ بھی فورا اسکے پیچھے بھاگا ۔ پوری یونی یہ تماشہ دیکھ رہی تھی۔
وہ اندر آیا تو کیفے ٹیریا کی ایک خالی ٹیبل پر اسے وہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔
” کیا ہوا ۔ تم ایسے بھاگ کر کیوں آگئی ۔” وہ پاس آتے ہوئے فکر مندی سے بولا۔
” میں برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی تمھارے منہ سے سیمل کا نام سننے کی ” گیلی سانس اندر کھینچتے ہوئے سر نفی میں ہلا کر بولی۔
” میں سیمل کا نام کیوں لوں گا ” وہ نا سمجھی سے کہتا اسکے سامنے بیٹھا۔
” کیونکہ تم اس سے محبت کرتے ہو۔”
” کیا ” وہ حیرت زدہ ہوا
” تمہے غلط فہمی ہوئی ہے ۔ میں سیمل سے نہیں تم سے محبت کرتا ہوں۔ ” اسنے مایا کو حقیقت سے آگاہ کیا۔
” مگر ” بے یقینی سے الفاظ اسکے حلق میں اٹکے
” اس روز فارم ہاوس پر تم۔۔۔۔”
” اوہ ! وہ تو میں سیمل سے پوچھ رہا تھا کہ ( فارم ہاوس کے لان میں درخت کے ساتھ سیمل کھڑی تھی۔ سامنے پھول لےکر بیٹھا یوسف کوفت سے سر جھٹک کر کھڑا ہوا ۔
” نہیں۔ یہ نہیں۔ یہ اولڈ فیشن ہے۔ مجھے اس طرح اسے پرپوز نہیں کرنا ہے۔ کچھ اور آئیدیا بتاو ” دونوں ہاتھ پہلو پر جمائے بولا۔
سیمل کچھ بھی بولے بنا دبا دبا سا ہنسی۔
” تم ہنس کیوں رہی ہوں۔”
” اس لیے کہ تم ایک محبت کا اعتراف کرنے کے لیے اتنے نخرے کر رہے ہو۔ اگر تمھاری جگہ میں ہوتی اور سامنے موسی تو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر اس سے محبت کا اعتراف کر دیتی ۔ یوں نخرے نا کرتی۔” وہ حسرت سے بولی تھی۔ یوسف کچھ لمحے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھتا رہا ۔
” ابھی اپنا مسئلہ چھوڑو ۔میرا حل کرو ” مٹھی بند کرکے ہونٹوں پر رکھی ۔ انداز سوچنے والا تھا۔
” ہاں ۔ ایگزیمز کے بعد فنکشن ہے یونی میں۔ میں وہاں سب کے سامنے مایا کو پرپوز کروں گا۔ میں سب کو بتا دوں کہ میں اس سے کتنی۔۔۔۔۔” )
” تم واقعی مجھ سے محبت کرتے ہو ” مایا اسکی بات کاٹتے ہوئے بولی۔ وہ ابھی تک بے یقین تھی ۔
” کیا تم کرتی ہو مجھ سے محبت ” یوسف نے الٹا سوال کیا اور بہت مشکل سوال کر لیا۔ مایا کا گلہ رندھ گیا۔
” میں۔۔۔” وہ بامشکل بول پائی۔
” اب اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ دو ماہ بعد میرا نکاح ہے۔ ” وہ بہت سے آنسو اندر اتارتے ہوئے بولی۔
” واٹ ” یوسف کو اس بات کی ہر گز تواقع نہیں تھی۔
” میں نے تم سے پوچھا کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔” وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا زور دے کر بولا۔
” مم۔۔۔مم۔۔۔میں اگر انکار کردوں تو کیا کرو گے ۔ ” یوسف کی آنکھوں کی تیزی اسے ڈسٹرب کر رہی تھی۔
” تو میں خاموشی سے تمھاری زندگی سے نکل جاوں گا۔ چھ ماہ بعد میرے فائنل ہیں۔ اسکے بعد اس یونی میں تمہے نظر نہیں آوں گا۔ مگر میں جانتا ہوں تم جھوٹ بول رہی ہو ” مایا نے تڑپ سے اس دیکھا۔
” میرے منع کرنے پر کیا تم ضد میں آکر مجھے کوئی نقصان تو نہیں پہنچاو گے۔ ” مایا بغور اسکا چہرا دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
پہلے تو یوسف کچھ دیر ساکت اسے دیکھتا رہا پھر زور دار قہقہہ لگایا۔
” میں نے تم سے محبت کی ہے ضد نہیں اور تم جو بھی جواب دو مجھے منظور ہوگا۔ تمھارے ہر فیصلے کی میں عزت کرو گا اگر میں کبھی بھی تمہے تکلیف دوں تو چاہے جو سزا دینی ہو دے دینا مجھے قبول گا۔ ۔۔” وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا ۔۔۔۔
□□□
” مگر اس نے اپنا وعدہ نبھایا نہیں ۔” سروت کے سامنے بیٹھی لڑکی کہہ رہی تھی۔
” میں نے اس سے کہا وہ مجھے بھول جائے۔ میرا رشتہ طارق کے ساتھ طے ہو چکا ہے ۔ دو ماہ بعد نکاح ہے مگر میں شاید اسکی محبت نہیں ضد ہی تھی۔ جبھی عین نکاح والے دن اس نے مجھے اغواہ کر والیا۔ مجھے ناجانے کتنے عرصہ قید میں رکھا ۔ مجھ پر دباو ڈالا۔ اور جانتی ہیں اس سب سے زیادہ تکلیف مجھے اس بات کی ہوئی کہ یوسف نے میرے ساتھ ایسا کیا۔ آج تک میں اپنے گھر والوں کی نظر میں گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی ہوں۔ میری عزت میرے گھر والوں کے سامنے اس شخص کی وجہ سے برباد ہوگئی۔ اگر آج میں اپنے گھر واپس جاوں تو وہ کبھی میرا یقین نہیں کریں گے۔ کسی طرح میں فرار ہونے میں کامیاب تو ہوگئی مگر لگتا ہے آج تک اسکی قید میں ہوں اسنے کہا تھا وہ مجھے تکلیف دے گا تو میں اسکو جو چاہے سزا دوں۔ اور آج یوسف سکندر شاہ کی سزا شروع ہونے کا پہلا دن ہے۔” ساری تفصیل بتا کر آخر میں مضبوط لہجے میں کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دروازے تک جا کر واپس پلٹی اور اطلاع دینے والے انداز میں۔کہا۔
” اور میرا نام مایا اعوان ہے۔ مجھے خوشی ہوگی اگر آپ مجھے اس نام سے بلائیں۔” کہہ کر دروازہ پار کر گئی۔
سروت پور سوچ انداز میں صوفے پر بیٹھیں رہیں ۔ یوسف نام کا کوئی شخص ان کے حافظے میں تھا تو مگر یاد نہیں آرہا تھا کون تھا۔
□□□
” سر میرے ہاتھ ایک کمال کی چیز لگی ہے ” داود نک سک سے تیار ہوا ڈیزائنر سوٹ میں ملبوس ۔ پرفیوم کا احاطہ کیے ہوئے آفس کی راہ داری میں آگے بڑھ رہا تھا جب عمر نے ساتھ چلتے ہوئے جوش سے بتایا۔
” ہوں کیا معلوم ہوا اس لڑکی کے بارے میں۔” وہ عجلت میں بولا۔
” نہیں سر ۔لڑکی نہیں۔ لڑکے کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ ” نفی میں سر ہلاتے وہ معنی خیزی سے بول۔
” کیا مطلب” آفس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتے ہوئے آبرو اچکائے۔
” یہ دیکھیں سر ” عمر نے فورا یو ایس بی لاپ ٹاپ میں لگا کر ایک ویڈیو چلائی ۔
داود شیشے کی ٹیبل پر جھکا سکرین پر چلتے مناظر کو دیکھنے لگا ۔ دفعتا اسکے چہرے پر شاطرانہ مسکان آکر ٹھہری۔
سکرین میں چلتے مناظر یوسف سکندر کے ریڈ لائٹ ایریا کے راستوں میں موجودگی کی عکاسی کر رہے تھے۔ اگلا منظر کوٹھے کی پچھلی طرف سے یوسف کا بوکھلائے ہوئے انداز میں نکلنے کا تھا۔ سب کچھ سی سی ٹی وی سے ریکاڑڈ کیا گیا تھا۔
” گڈ جاب عمر ” ستائشی انداز میں کہا۔
پھر موبائل پر کچھ نمبر ملاتے ہوئے باہر کی جانب بڑھا ۔ اسے اب اس ویڈیو کو عائشہ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف استعمال کرنا تھا۔
” ایک بات اور سر میں نے لڑکی کا ایڈریس پتا کرلیا ہے ۔” پیچھے سے عمر نے دوسری اطلاع دی۔
” اٹھوالو ” دو لفظی حکم دے کر آگے بڑھ گیا۔
□□□
” یوسف سکندر گھر پر ہے ” دو پولیس آفیسر دروازے پر کھڑے شاہانہ سکندر سے پوچھ رہے تھے۔
” نہیں۔ ”
” دیکھیں آپ انہیں بچانے کی کوشش نہیں کر سکتیں۔ انکی گرفتاری کا آڈر کورٹ سے آیا ہے ۔” ایک افیسر نے سخت لہجے میں تنبیہ کی۔
” یوسف سکندر اس گھر میں نہیں رہتا ۔ دو سال پہلے وہ اس گھر سے جا چکا ہے ۔ اب اس کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ” شاہانہ نے بظاہر مضبوط لہجے میں اگاہ کرکے دروازہ بند کردیا۔ مگر دروازہ بند ہوتے ہی بے اختیار سینے پر ہاتھ رکھا ۔
” میڈم دروازہ کھولیں ۔ہمیں چیکنگ کرنی ہے۔ ” دروازہ پیٹتے ہوئے آفیسر بولا۔
” دیکھ لو ۔ آخر مجھے کیا پڑی اسے چھپانے کی۔ میں تو خود چاہتی ہوں اس تلاش کیا جائے ” دروازہ کھول کر انہیں اندر آنے کی اجازت دی ۔
دونوں آفیسرز نے گھر کا چپا چپا چھان مارا پھر مایوسی سے واپس چلے گئے۔
شاہانہ سکندر کتنی ہی دیر بے دم سی دروازے کے ساتھ کھڑی رہیں۔
□□□
” مگر! کیا تمہے پورا یقین ہے۔ ” عائشہ صبحانی اپنے آفس کی کھڑکی کے ساتھ کھڑی تھی۔ کھڑکی پر بلائنڈرز پڑے ہوئے تھے ۔ عائشہ کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔
” بہت عرصے سے صبحانی ڈیلرز کے اکونٹس میں پرابلم چل رہی ہے۔ پیپر ورک پوری طرح سا غلط ہے ” سامنے کھڑا موسی مزید آگاہ کر رہا تھا ۔
” ہر مہینے کثیر تعداد میں کمپنی کے بجٹ سے رقم استعمال ہورہی ہے مگر اسکا کوئی ریکاڑد موجود نہیں ہے۔ ”
“مگر !” عائشہ نے گردن اسکی طرف موڑی اور الجھن سے بولی۔ کانوں میں پہنے گول چوری کے سائز کے آویزے بھی گردن کے ساتھ گھومے ۔
” میں تو خود سب چیک کرتی تھی ۔ مجھ سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہوسکتی ہے ۔”
“آپ کے پاس فائنل ریکاڑد آتا تھا ۔ شاید دکھایا ہی وہی جاتا تھا جسے دکھانے کا حکم تھا ۔ پہلے جو اکونٹنٹ تھا کیا وہ آپکے اعتبار کا تھا۔ ” موسی کو شبہ ہوا ۔
” ولی ۔ ہاں پہلے وہی تھا۔ ہر ماہ وہ ہی فائئنینشییل ریکاڑڈ چیک کرواتا تھا ” عائشہ یاد کرتے ہوئے بولی۔
” کیا وہ آپکے اعتبار کا تھا ۔ جاب سے پہلے اسے ٹیسٹ کیا تھا ۔ ” موسی نے دوبارہ زور دے کر سوال دہرایا۔
” نہیں ۔ میں نے اسے داود کے کہنے پر رکھا تھا۔ ” کہتے ساتھ خود عائشہ کے دماغ نے بھی کچھ غلط ہونے کی نشاندہی کی تھی۔
” داود حمدانی ” وہ زیر لب بولا ۔
موسی کو یقین ہو چکا تھا۔ سب مسئلے کے پیچھے داود حمدانی کا ہی ہاتھ تھا ۔
“تمھاری جاب آج سے پرماننٹ ہے ۔ جلد سے جلد حقیقت پتا لگواو ۔ میں جلد اس مسئلے کا حل چاہتی ہوں۔ جلد قصور وار سلاخوں کے پیچھے ہونگے۔ ”
واپس گردن بلائنڈرز کی طرف موڑتے ہوئے تحکم سے بولی اور ہاتھ جھلاکر جانے کا اشارہ کیا۔
موسی سر اثبات میں ہلاکر نکل گیا ۔
جس نہج پر موسی سوچ رہا تھا عائشہ بھی اسی نہج پر سوچ رہی تھی۔ اگر واقعی ایسا ہے تو وہ اسکو ایک دھوکا سمجھے گی ۔ اور عائشہ صبحانی کو ایک دھوکے باز سے کوئی تعلق نہیں رکھنا تھا۔
□□□
موسی کے فلیٹ کے باہر سیمل دروازہ کھلنے کے انتظار میں کھڑی تھی۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہلکی ہورہی تھیں۔
دروازہ کھلا اور ایک لڑکی سامنے آئی ۔ اسکی گوڈ میں ایک چھوٹی بچی تھی۔ لڑکی دوسری طرف دیکھ کر کہہ رہی تھی۔
” حارب پری کو بہت تیز بخار ہے ۔ میں اسے ڈاکٹر کے لے کر جارہی ہوں ۔ آپ چلیں گے ساتھ ۔” پیچھے کھڑے حارب سے پوچھا۔
” نہیں تم لے جاو ۔مجھے بہت کام ہے ۔” اور سیمل نے اتنے سالوں کے بعد موسی جہانگیر کی آواز سنی۔
” آپ کون ۔” لڑکی کے دریافت کرنے پر وہ چونک گئی۔ لڑکی زرا سائڈ پر ہوئی تو اسے موسی کا نیم رخ نظر آیا۔
وہ بتس سالہ خوش شکل ہینڈسم مرد تھا۔ جیسا وہ اسے تصور کرتی تھی اس سے کئی زیادہ خوبصورت ۔ سیاہ بال جو اکثر گہرے بھورے رنگ کے لگتے تھے۔ عنابی ہونٹ ۔ چمکدار سنہری آنکھیں۔ چھ فٹ کے قد کا وہ مرد سیمل کی موجودگی سے بے خبر باذوں کے کف ٹھیک کرہا تھا ۔
” کون ہے باہر ” چہرا دراوزے کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا۔
” ایک لڑکی تھی۔ میرے پوچھنے پر کہا کوئی نہیں اور میرے ہاتھ میں کچھ تھماکر چلی گئی۔ ” لڑکی نے بتایا۔ ساتھ ساتھ وہ گود میں اٹھائی بچی کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی مگر بخار کی وجہ سے وہ چڑچڑی ہو رہی تھی۔ ( عجیب لڑکی تھی )
” میری ٹیبل پر رکھ دو میں آکر دیکھتا ہوں۔” وہ جلدی میں تھا اسلیے کہہ کر فورا باہر بڑھ گیا۔
□□□
وہ بےجان قدموں کے ساتھ نیچے اتری ۔ پہلے کا سفر امید کا تھا اور اب کا مایوسی کا۔ اسکا اندیشہ ٹھیک ہوا تھا ۔ موسی اسے بھول چکا تھا۔ وہ اپنی ایک فیملی بنا چکا تھا اور شاید بہت خوش بھی تھا۔ اسکی بیوی اور بیٹی دونوں بہت پیارے تھے۔ وہ اسے بھول کر خوش تھا۔ ایک بار بھی اسے اسکی موجودگی کا احساس نہیں ہوا ۔ اگر وہ ایسے خوش تھا تو اسے بھی خاموشی سے اسکی زندگی سے نکل جانا چاہیے اور موسی جہانگیر آخر کیونکر اسے یاد رکھتا۔ سیمل کمال سے اسکی زندگی کی نہایت تلخ یاد جڑی تھی۔ اگر موسی کبھی اس کو سوچتا بھی ہوگا تو محض نفرت سے۔
لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اسنے ہوٹل کی لابی عبور کی۔ مین گیٹ سے نکلتے ہوئے ایک نظر اپنے ہاتھ پر ڈالی۔
خالی نگاہ۔ خالی ہاتھ۔ خالی دل۔ خالی زندگی۔ خالی وجود۔ ۔۔۔۔۔۔
□□□
” یو آر انڈر اڑیسٹ۔ ” دو پولیس آفیسر نے یوسف سکندر کے ہاتھ جھپٹ کر ان میں ہٹھکری ڈالی تھی۔ وہ سپوڑٹنگ سٹیک کے سہارے چلتا ہوا آفس پارکنگ میں آیا تھا جب پلک جھپکنے میں وہ سب ہوا۔
اگلے ہی لمحے وہ آفیسر اسے پولیس موبائل میں بیٹھا چکے تھے۔
دو سال پہلے کا رینا قتل کیس دوبارہ کھل چکا تھا مگر وہ غلط سوچ رہا تھا ۔ اس بار وہ کسی اور معاملے میں گرفتار ہوا تھا۔
□□□