زندگی پوری رفتار کے ساتھ محوِسفر تھی۔ہر چیز تیزی سے اپنے اختتام کی جانب گامزن تھی۔اور ناواقف تھی۔سڑکیں،عمارتیں،دفاتر غرض یہ کہ ہر وجود اس وقت کام کاج میں مصروف نظر آتا تھا۔اور جونہیں نظر آتے تھے۔وہ بھی دوسروں کو کام کرتے دیکھنے میں مصروف نظر آتے تھے۔یا پھر ان کے کام میں نقص نکالنے والا عظیم کام کرنا تو ان پہ گویا فرض تھا۔سو وہ بھی وہ بغیر ماتھے پہ شِکن لائے کر رہے تھے۔کل ملا کر یہ بات ہی حقیقت تھی۔کہ وہاں ہر کوئی کام کر رہا تھا۔چاہے کام کوئی بھی تھا۔کام تو کام ہوتا ہے ناں۔۔۔
اگر اس وقت ایک نظر اسفند اکرام کے کمرے کی کھڑکی کے نیلے شیشے کے پار سے کمرے میں ڈالی جائے۔تو یہ دیکھ کر بالکل بھی حیرت نہیں ہوگی۔کہ وہ بھی اس وقت کام کام اور کام کی تصویر بنا ۔دائیں ہاتھ سے کاغذات پہ دستخط کرنے کے ساتھ ساتھ بائیں ہاتھ سے فون کو کان سے لگائے ،دوسری جانب جاتی بیل کو سن رہا تھا۔باہر سے آنے والا کبھی اس کے چہرے کے تاثرات نہیں پڑھ سکتا تھا۔
نتاشا اس وقت ایک بوتیک میں کھڑی سیاہ سرخ اور مونگیاں رنگ فراک ساتھ لگائے زرناب اور نوین سے داد وصول کرنے میں مصروف تھی۔کہ سچ میں مونگیا اور سیاہ رنگ اس پہ خوب جچ رہا تھا۔جب ہاتھ میں پکڑا اس کا فون گنگنا اُٹھا۔
کس کا فون ہے؟نوین جو کچھ فاصلے پہ کھڑی تھی۔اور اس کے چہرے کے بگڑتے تاثرات دیکھ کر فون کرنے والی شخصیت کا نام جان چکی تھی ۔مگر پھر بھی اس نے پوچھ لینا مناسب سمجھا۔
مینڈک کا۔۔۔کال کاٹ کر اس نے خاصے کڑوے لہجے میں کہا تو زرناب اور نوین ہنس دیں۔
غرور تو دیکھو مادام کا۔۔۔مادام اس وقت سے ڈرو جب اسی مینڈک کی تمہیں مینڈکی بننا پڑے گا۔۔۔اور
مجھے وہ وقت نظر آ رہا ہے۔زرناب نے نوین کی بات کاٹ کر خلا میں دیکھتے ہوئے کہا۔تو جواب میں نتاشا نے اس کے بازو پہ چٹکی کاٹی تھی۔وہ ضبط سے محض بازوسہلا کر رہ گئی۔
میں۔۔۔؟منہ دھو رکھو۔۔۔ذریت سے ملنے کے بعد میرے اندر اتنی ہمت آہی چکی ہے۔کہ میں ڈیڈ سے اس کے لئے لڑ سکوں۔نتاشا کے جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے خواب اس وقت فضا میں تیر رہے تھے۔اور وہ خلا میں انہیں اُڑتا دیکھ کر شادمان تھی۔
او مادام واپس آؤ۔۔۔اور حال کی بات کرؤ۔۔۔بلکہ حال سے بات کرو۔۔۔اب کی بار پھر سے کچھ وقفے بعد فون کی گھنٹی بجی تھی۔تو زرناب نے پھر سے اس کا ریکاڈ لگا ڈالا۔کبھی کبھی تو موقع ملتا تھا۔وہ احمق نہیں تھی۔جو جانے دیتی۔۔۔
مائی فُٹ۔۔۔یہ انسان کبھی میرا حال یا پھر مستقبل نہیں ہو سکتا۔لہجے میں تفاخر لئے اس نے ایک بار پھر سے کہا تو نوین اور زرناب بھی مسکرا دیں۔یہی اس کا غرور تو سب کو مار ڈالتا تھا۔کوئی ایسا ہو ۔جو اس کے غرور کو مات دے۔تو میں کہوں گی کہ ہاں تھا۔۔۔تھا ایک انسان شہزادوں کی سی آن بان شان والا۔جس کو نتاشا نے اس کے غرور کے بدلے میں مارا۔۔۔آذر وہ یونی کا واحد انسان تھا۔جس کے سامنے جا کر نتاشا کو خود جھکنا پڑا اور تب تک جھکنا پڑا جب تک۔
اس نے اپنی خوبصورتی کا زہر اس کے اندر نہ اُتار دیا۔اور جس دن اس نے دیکھا کہ آذر اس زہر سے نیلا ہو چکا ہے۔اسی دن اس نے اسے کھائی میں دھکا دے دیا۔کہ اگر زہر سے بچ بھی جائے تو گہرائی کی ایسی چوٹ لگے ۔کہ پھر وہ دوبارہ سانس نہ لے سکے۔اور اس نے ایسا ہی کیا تھا۔اور کیا خوب کیا تھا۔وہ جانتی تھی۔وہ اس بات سے بہت پہلے سے واقف تھی۔بلکہ تب بھی واقف تھی۔جب وہ ہاتھ میں کانچ کی زہر بھری بوتل لئے کھڑا تھا۔اس نے مرنے سے پہلے اسے کال کی تھی۔نتاشا سب جانتی تھی۔مگر اسے پروا نہ تھی۔اس نے تو نہیں اسے کہا تھا۔کہ وہ خودکشی کرے۔تو وہ پھر کیوں پروا کرتی۔اس نے سب کی زندگی کا ٹھیکا تو نہیں اُٹھا رکھا تھا ناں۔
نتاشا۔۔۔سوچو اگر یہ مینڈک شہزادہ نکلا۔۔۔تب؟ کیا تب بھی تم اس کے بارے میں یہی بولو گی۔نوین دور کی کوڑی لائی تھی۔
ہاااا۔وہ مینڈک سے مینڈہ تو ہو سکتا ہے۔مگر شہزادہ نہیں۔اور وہ چاہے کسی سلطنت کا مالک ہی کیوں ناں بن آئے۔وہ میرے ذریت کی جگہ نہیں لے سکتا۔۔۔
او ہووو۔۔۔مادام تو ذریت صاحب کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکی ہیں۔
قسم سے۔۔۔نوین کی بات نے اسے مزہ دیا تھا۔
دیکھتے ہیں۔تاشو تمہارا یہ عشق تمہیں ڈبوتا ہے۔یا تیراتا ہے۔زرناب نے بھی مسکرا کر کہا تو نوین کو اس کی بات پہ اتفاق ہوا تھا۔ہاں۔۔۔
بے فکر رہو۔۔۔میں نہیں ڈوبتی۔لہجہ خوب متکبر تھا۔
تیر کر تو میں جاؤں گی ہی۔آج مجھے ذریت نے کا ل کر کے خود ڈنر پہ انوائٹ کیا ہے۔اور تم جانتی ہو ۔آج وہ مجھے پرپوز بھی کر دے گا۔میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لئے دیوانگی دیکھی ہے۔وہ بھی میری طرح ہی کے احساسات میں گرفتار ہے۔یہ ممکن نہیں ہے۔کہ اب میں ڈوب جاؤں۔وہ سچ بول رہی تھی۔وہ آج کے ڈنر کے لئے ہی شاپنگ کرنے تو آئی تھی۔وہ آج کی شام کو ذریت اور اپنے لئے یادگار بنا دینا چاہتی تھی۔اس لئے خوب دل لگا کر اس نے شاپنگ کی تھی۔
یار پلیز اپنے مینڈک کا بھی فون اُٹھا لو۔۔۔ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔آخر یہ سکون کیوں نہیں کرتا۔زرناب نے نخوست سے سر جھٹک کر کہا تو۔وہ اثبات میں سر ہلاکر کال اُٹھا گئی۔
دوسری جانب آٹھویں کال پک ہونے پہ بے اختیار وہ کرسی کی پشت چھوڑ کر سیدھا ہوا۔۔۔
ہائے بے بی۔۔۔لہجہ یکدم بدلا تھا۔وہ بہت زبردست ایکٹرس تھی۔
کہاں ہو؟کب سے کال کر رہا ہوں۔تم ہو کے کاٹے جارہی ہو۔اسے شکایت ہوئی ۔تو وہ کہہ بھی گیا۔نتاشا کے ماتھے پہ بہت سے ناگواریت کے تاثرات ظاہر ہوئے۔وہ محض کھول کر رہ گئی۔
بے بی بزی تھی۔۔۔
کہاں؟
بس فرنڈز کے ساتھ۔
کونسی فرنڈز؟نتاشا کا دل چاہا یہیں اسے جھاڑ دے۔مگر وہ کیا کرتی۔کہ ڈیڈ کی وجہ سے بس مجبور تھی۔جنہوں نے اسے دھمکی دی تھی۔کہ اگر اس نے اس رشتے کے ساتھ ذرا سی بھی چھیڑ چھاڑ کی تو اسے چین چاچو کے پاس بھیج دیں گے۔اور پھر واپس بھی نہیں بلائیں گے۔وہ بھی کوئی ماں باپ کی محبت میں ماری گئی لڑکی نہیں تھی۔کہ ان کی محبت میں وہ رکی ہو۔وہ بس ذریت کی وجہ سے خاموش تھی۔وہ نہیں چاہتی تھی۔کہ ذریت کو اس سب کی بھنک بھی پڑے اور وہ اس کے سامنے تماشا بنے۔اس سے شادی تک وہ بس خاموش رہنا چاہتی تھی۔
نوین اور زرناب اور کون۔۔۔تم بھی ناں اسفی۔۔۔
اوکے۔۔۔
کال کیوں کی؟اب وہ سیدھی پوائنٹ پہ آئی ۔
آج شام میں ریڈی رہنا۔تم اور میں باہر شاندار سا کینڈل لائٹ ڈنر کریں گے۔اس کا لہجہ شوخ ہوا تھا۔نتاشا کا ہلق تک کڑوا ہو گیا۔
سوری بے بی۔۔۔آج رات تو بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔بتایا تو ابھی کہ میں فرنڈز کے ساتھ بزی۔شام میں ہم سینما مووی بھی دیکھنے جارہے۔تو آج رات تو بالکل بھی پاسبل نہیں۔
کونسی مووی؟وہ ایک بار پھر سے پوچھ گیا۔
تم نہیں جانتے نئی آئی ہے۔وہ جانتی تھی۔کہ وہ فلمیں کم ہی دیکھتا تھا۔
پھر بھی۔۔۔ہے کونسی اگر اچھی لگی تو میں بھی دیکھ لوں گا۔
انڈین ہے۔وہ انڈین موویز خاص طور پہ نہیں دیکھتا تھا۔
اوکے۔۔۔اور؟
اور کیا؟۔۔۔بس ابھی ہم شوپنگ پہ ہیں۔تو۔۔۔میں رات میں فری ہو کر بات کروں گی۔اسے جلدی اس سے جان چھڑوانی تھی،سو جھٹ کہہ دیا۔اسفند اکرام مسکرا کر رہ گیا۔
جیسے تمہاری مرضی۔۔۔اب اور کیا میں بول سکتا ہوں۔لہجے میں بلا کی شرینی۔آنکھوں میں محبت کی چمک ، سنہری چمکتی پیشانی۔۔۔وہ تو گویا شہزادہ ہی تھا۔آسمانی رنگ سوٹ میں ملبوس وہ خوب بھلا دکھ رہا تھا۔نتاشا اس کے قابل نہیں تھی۔مگر یہ اس کی سادگی اور خوبصورتی تھی۔کہ وہ جانتا نہ تھاشائد۔۔۔
اوکے دین بائے۔۔۔کہہ کر نتاشا نے تیزی سے فون رکھ دیا ۔کہ کچھ بول ہی نہ دے۔بمشکل جان چھڑوائی تھی اس نے۔
چھچھورا۔۔۔فون رکھتے ہی اس نے تبصرا کیا تھا۔اور پھر نخوست سے سر ہلاتی۔بیگ اُٹھاتی ۔۔۔ان دونو کے ساتھ باہر کی جانب بڑھ گئی۔
::::::::::::::::::::
دادی اپنے پوتے کی نئی کرتوت سُنیں۔۔۔کل اس نے ماہ نور کو لنچ پہ لے جا کر بوجھیں کیا کہا۔۔۔دادی کے سامنے صوفے پہ پاؤں چڑھائے وہ اس وقت چاول چُننے کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھیں۔
بس تم اب ہو جاؤ بھائی کی شکائتیں پڑھنی شروع۔سگھا بھائی ہے تمہارا۔اپنے رویے کو نرم رکھا کرو بچے۔
بس دادی آپ کی یہی عادت میری سمجھ سے باہر ہے۔بات سُن لیں پہلے ۔بلکہ اس سے بھی پہلے ماہ نور کے گھر فون کریں اور ان سے دن رکھنے کی بات کریں۔جتنی جلدی شادی ہو اتنا بہتر ہے۔کہنے کے ساتھ انہوں نے چاولوں والی ٹرے سامنے کی ٹیبل پہ رکھی۔اور پھر تیزی سے اُٹھ کر نمبر ملانے لگیں۔وہ آج بھائی کو رات کہ کھانے پہ خوشخبری ضرور سنانا چاہتی تھیں۔دادی ہیں ہیں ہی کرتی رہ گئیں ۔اور وہ نمبر ملا کر اب باتوں میں مصروف تھیں۔پوتی کی یہی تیزی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔
بری (بڑی)نانو۔۔۔احمد جسے وہ سیب کی چھوٹی چھوٹی کاشیں کھلانے میں مصروف تھیں۔ان کا یوں خیال بھٹکتا دیکھ کر ہاتھ ہلا گیا۔
جی وہ انکل دادی جان کو آپ سے بات کرنی تھی۔حال احوال جاننے کے بعد انہوں نے فون دادی کی جانب بڑھایا تو وہ محض گھور کر رہ گئیں۔
اسلامُ علیکم بھائی صاحب۔۔۔ان کا لہجہ وہی حلاوت لئے ہوئے تھا۔
وعلیکم اسلام۔۔۔کہئے بہن جی کیسی ہیں آپ؟ابتسام صاحب بھی لہجے میں نرمی لئے ہوئے تھے۔
جی اللہ کا بہت بہت شکر۔آپ بتائیں۔بچے کیسے ہیں؟اور اب آپ کی صحت کا کیا حال ہے۔
ہاں جی سب ٹھیک ۔صحت بھی اچھی ہے۔خریت مریم بیٹی بتا رہی تھی۔کہ آپ کو بات کرنی ہے۔سب ٹھیک تو ہے؟انہیں پریشانی ہوئی تھی۔
ہاں جی!سب ٹھیک ہے۔اللہ رحم کرے۔بس میں چاہتی تھی۔کہ ایک دو دن دیکھ کر شادی کی تاریخ رکھ دی جائے۔مریم کو واپس جانا ہے۔اور میری خواہش ہے کہ میں اپنی پری سی بیٹی کو جلد سے جلد گھر لے آؤں ۔ابھی تو مریم آئی ہے۔ساتھ احمد ہے۔تو دونو خوب رونک لگائے رکھتے ہیں۔مگر جب یہ نہیں ہوتے۔تو خالی گھر جان کو آتا ہے۔اب اگر آپ مناسب سمجھیں تو۔۔۔کوئی تاریخ رکھ لی جائے۔دادی نے بہت مناسب انداز میں بات کی تھی۔دوسری جانب ابتسام صاحب مسکرائے۔آخر بیٹی کی ودائی کا دن آنے کو تھا۔
ہاں جی!آپ آئیں کسی دن مل بیٹھ کر دیکھ لیتے ہیں۔کوئی دن دیکھ کر رکھ لیتے ہیں۔
بہت شکریہ۔۔۔بے حد شکریہ۔آپ نے تو میری بہت بڑی خواہشی کا مان رکھ لیا۔بے حد شکریہ۔۔۔دادی کا دل باغ باغ ہو اُٹھا تھا۔
اسی طرح کی کچھ گفتگو کے بعد دونو جانب سے فون رکھ دیا گیا تھا۔دونو گھروں میں یک دم شادی کی خوشیوں نے آبسیرا کیا تھا۔
یہ کیا بدتمیزی تھی مریم۔عجیب جلد باز لڑکی ہو۔پتہ نہیں تمہارا شوہر بیچارا کیسے برداشت کرتا ہے۔دادی نے لاڈلی پوتی کو گھورا تھا۔جو اب پُرسکون ہو کر واپس اپنی جگہ جا بیٹھی تھی۔اور واپس کام کو لگ گئی ۔۔۔
اب بولو گی بھی۔کہ کیا کر دیا میرے معصوم بچے نے؟جس کی وجہ سے اس سے پوچھے بغیر ہی فیصلہ کر لیا۔جب پانچ منٹ بعدبھی وہ نہ بولیں تو آخر انہیں خود ہی پوچھنا پڑا۔
معصوم۔۔۔ہنہ معصوم تو وہ بالکل نہیں ہے۔وہ اب بچہ نہیں رہا۔اسے اب تو لوگوں کے دل توڑنے آگئے ہیں۔اب تو وہ اتنا بڑا ہو گیا ہے ،اتنا اُونچا ہو گیا ہے کہ باقی سب اسے کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔پوتی کے منہ سے اتنے بڑے بڑے الفاظ وہ بھی اپنے لاڈلے پوتے کے بارے میں سُن کران کا منہ کُھل گیا تھا۔
مریم بول بھی چکو اب۔کیوں بوڑھی دادی کی جان لینا چاہتی ہو۔عجیب مسخرا پن ہے۔اب کی بار ان کے ماتھے پہ واضح ناگوارے کے تاثرات دیکھے اور پڑھے جاسکتے تھے۔
سن لیں اپنے معصوم پوتے کی حرکت۔۔۔کل پرسوں جب میں ماہ نور کو ساتھ مارکیٹ لے کر گئی تھی۔۔۔وہ اب آہستہ آہستہ ساری بات ان کے گوشِ گُزار کرتی جا رہی تھیں۔جسے سن کر ان کا منہ کھلتا جا رہا تھا۔افسوس اور صدمے سے ان کا حال بُرا ہوتا جا رہا تھا۔انہیں اپنی تربیت پہ افسوس ہوا ۔ساری بات سن کر ان کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔اپنے پوتے سے انہیں اس حرکت کی ہر گز اُمید نہیں تھی۔
مریم آپی بھی دادی کو دیکھ کر غمگین ہو گئیں ۔
::::::::::::::::
ذریت بچے اپنا فون ٹیبل پہ رکھو۔وہ اس وقت کافی عرصے بعد شام کا ٹوک شو دیکھنے میں مصرورف تھا۔جب کھانا لگنے پہ اُٹھا تھا۔لیکن دادی جو ٹیبل پہ احمد کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ان کے اگلے حکم پہ مسکرا کر رہ گیا۔اور اثبات میں سر ہلاتافون وہیں ٹیبل پہ چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔
ماموں۔۔۔رات آپ مجھے کہانی شُنائیں (سُنائیں)گے؟روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دادی جان کے ہاتھ سے کھاتے احمد نے اپنے ماموں جان سے فرمائش کی تھی۔ذریت ہنس دیا۔اور بڑھ کر بیٹھنے سے پہلے اس کے گورے گورے گالوں پہ پیار کر کے چھوڑ دیا۔
کیوں نہیں۔آج آپ میرے ساتھ سونا پھر میں آپ کو سٹوری بھی سُناؤں گا۔اور آپ اور میں ،ہم مل کر کارٹونز بھی دیکھیں گے۔ذریت کو اس سے بات کرنے میں مزہ آ رہا تھا۔تبھی دادی سے لے اسے اپنی گود میں بیٹھا لیا ۔اور خود کھلانے لگا۔
ماموں کی بات میں لفظ کارٹونز ایسا قابلِ اُنس تھا۔کہ اس نے تیزی سے اثبات میں سرہلایا تھا۔مریم آپی جو چاولوں سے بھری ٹرے لئے آ رہی تھیں۔مسکرا کر ان دونو کو دیکھنے لگیں۔ذریت احمد سے باتیں کرتا بالکل بچہ بنا ہوا تھا۔دادی نے بہت دِنوں بعد اسے مسکراتے دیکھا تھا۔
ماموں آپ کو پتہ ہے۔بیٹ مین۔۔۔ایشے۔۔ایشے اُرتا۔میں بھی ویسے اُروں گا۔ ماموں میں اُروں گا ناں؟ذریت کی گود میں بیٹھا وہ اپنے پسندیدہ ٹوپک کو ڈسکس کرتا خوب پُر جوش ہو رہا تھا۔
ہاں ہاں میرے پرنس چارمنگ کیوں نہیں۔۔۔
ماموں آپ کو پتہ ہے بیٹ مین سب کی ہیلپ کرتا ہے۔وہ کبھی نہیں روتا۔آپ کی طرح۔
ذریت اس کی بات پہ خوب محظوظ ہوا تھا۔
اچھاااا۔واہ کیا بات ہے آپ کے بیٹ مین کی۔
اوکے! احمد بیٹے اب آپ لاؤنج میں جاؤ۔ماموں کھانا کھانے لگے ہیں۔احمد ماں کا اشارہ پا کر تیزی سے ذریت کی گود سے اُترا اور کودتا لاؤنج کی طرف بھاگ گیا ۔وہ خاصا ایکٹو بچہ تھا۔
ذریت میں اور مریم نیکسٹ ویک تمہاری شادی کی ڈیٹ فکس کرنے جارہے ہیں،ہم نے سوچا ہے۔کہ جلد از جلد تمہارے فرض سے بھی سبکدوش ہو جاؤں۔تمہارا کیا خیال ہے؟
دادی نے جو اسے کہا تھا۔اس کا منہ کُھل گیا تھا۔اس نے تو اس شادی کو روکنے کا تازہ پلین بنایا تھا۔وہ اس چھٹانک بھر کی بد تمیز لڑکی کے ساتھ اپنی زندگی تباہ نہیں کر سکتا تھا۔ابھی تو نتاشا والا معملہ بھی نہیں حل ہوا تھا۔اور اب یہ نیا مسلہ۔اس شادی سے اس کا سارا پلین ملیامیٹ ہو سکتا تھا۔یہ اسے نظر آ رہا تھا۔
دادی آپ اس سے کیا پوچھ رہی ہیں۔بھلا ذریت کو کیا عتراض۔کیوں ذریت میں صحیح کہہ رہی ہوں ناں؟۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی عتراض اُٹھاتا،آپی نے فوراً سے پیشتر بات کاٹ کر کہا تھا۔وہ وہی بولیں جو وہ سننا چاہتی تھیں۔جو ان کے حسبِ منشا تھا ۔اس نے ایک نظر دادی کو دیکھا۔اور پھر گہری سانس لے کر اثبات میں سر ہلا گیا۔انکار کی گنجائش تو انہوں نے چھوڑی ہی نہیں تھی۔اسے تو ہر صورت ہاں ہی بولنا تھا۔سو وہ بول کر رہ گیا۔اور پھر کھانا کھانے لگا۔اس وقت وہ اپنے الگے اقدام سوچ رہا تھا۔دادی کو وہ انکار نہیں کر سکتا تھا۔اور نہ آپی اسے ایساکر نے دیتی ۔اس لئے اگلے وقت کا اسے سوچنا تھا۔
آپی اور دادی کو اس کا بغیر بحث کے مان جانا حیرت میں مبتلا کر گیا تھا۔مگر وہ خاموش ہی رہیں۔
::::::::::::::::
آج صبح کا آغاز ہر صبح کی طرح ہی ہوا تھا۔کچھ ایسا نیا نہیں تھا۔ہاں بس ایک چیز میں تبدیلی آئی تھی۔کہ آج وہ کل سے کچھ زیادہ اُداس تھی۔آج وہ کل کی طرح تروتازہ نہیں جاگی تھی۔آج صبح اس کے لئے اپنے ساتھ ایک پریشانی بھی لائی تھی۔
سورج کی نئی نئی کرنیں بہت سوں کے لئے اُمید لے کر آئی آئی تھیں۔اور بہت سوں کے لئے خوف۔۔۔اس کے لئے یہ صبح خوف لائی تھی۔کل رات میں اسی لڑکے کا فون ایک بار پھر آیا تھا۔وہ اسے ماہ نور کی شادی پہ آنے کو بول رہا تھا۔یہ دوسری بار اس کی اس سے بات تھی۔ما ہ نورکی شادی کی دیٹ دو روز پہلے ہی رکھی گئی تھی۔اس نے اسی روز اسے بتایا تھا۔اور ساتھ آنے کی دعوت بھی دی تھی۔اور کہا تھا۔کہ اگر وہ نہ آئی تو وہ ناراض ہو جائے گی۔لیکن اس نے انکار کر دیا۔کہ وہ جانتی تھی۔امی جی کسی صورت نہ مانتیں۔۔۔بابا کو منانا تو الگ۔اس لئے اس نے ان تک بات جانے سے پہلے ہی انکار کر دیا تھا۔اور ماہ نور اس سے خاصی ناراض بھی ہوئی تھی۔لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی۔کہ یہ بندہ کون ہے۔جو ماہ نور کی شادی تک کے بارے میں جانتا ہے۔ اور جو جانبوجھ کر اسے بلیک میل کر کے شادی پہ آنے کو بول رہا تھا۔وہ کون ہو سکتا تھا۔یہ تو نہیں جانتی تھی۔لیکن اس کا اس سب کے پیچھے مقصد کیا تھا۔یہ اس کو ضرور سمجھ آ رہا تھا۔
فرح خان بندہ اتنا بُرا نہیں ہے۔ایک بار سامنے آ کر دیکھ لو۔اس نے اسے کیا کہا تھا۔وہ سن کر اس قدر خوف زدہ ہوئی تھی۔کہ فوراً سے پیشتر کال کاٹ دی تھی۔نہ تو وہ فون پھینکنے کے قابل تھی اور نہ ہی کسی کو کچھ بتا
سکتی تھی۔ادھر پھوپھو کی شادی بھی اگلے ماہ تک ہونا پا چکی تھی۔ایسے میں وہ انہیں تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی۔اور ویسے بھی وہ اس کے لئے کر بھی کیا سکتی تھیں۔اس لئے اب مناسب یہی تھا۔کہ وہ ماہ نور کے پاس شادی پہ جاتی۔اور وہاں جا کر گھر والوں کو اس قصے کے بارے میں بھنک لگنے سے پہلے ہی ختم کر دیتی۔مگر مصیبت یہ تھی ۔کہ وہ کہے کسے جو امی جی اور بابا کو وہاں جانے کے لئے منا لے۔کم ازکم اس کے کہنے پہ تو وہ کسی صورت نہ مانتے۔کچھ پل سوچ کر وہ لان سے گھر کے رہائشی حصے کی جانب بڑھ گئی۔اب اسے کچھ کرنا تھا۔اس سے پہلے کہ اس کی عزت پہ بات آتی۔
وہ بجائے سامنے کے رستے سے گھر کے پیچھلے دروازے سے اندر آئی تھی۔اس نے تیزی سے دروازہ کھولا اور ابھی اندر کی جانب قدم رکھا ہی تھا۔جب سامنے سے آتے بھاری وجود سے اس کا بُرا ٹکراؤ ہوا۔وہ گرتے گرتے بچی ۔وہ بھی اس شخص کے تفیل جس نے اسے گِرتا دیکھ کر فوراً سہارا دیا تھا۔ورنہ سر کے بل سیدھی زمین پہ جاتی۔
فرح کو لگا اس کا سر کسی پہاڑ سے ٹکرایا ہو۔وہ چکرا کر رہ گئی۔اور بہت اُلجھن سے اس انسان کو دیکھا ۔تو نظر پڑتے ہی گویا سیٹی گُم ہوگئی۔وہ چاچو کے بڑے بیٹے کا ٹیچر اور بابا لوگو ں کے پھوپھو کا چھوٹا بیٹا کاشف تھا۔وہ آج اتنی صبح ادھر کیا کر رہا تھا۔وہ تو شام میں آتا تھا ناں۔ابھی دو چار روز پہلے ہی تو چچی جان کے کہنے پہ چاچو جی نے کاشف سے کہا تھا۔کہ وہ ان کے بڑے بیٹے کو پڑھا جایا کرے۔تو اب اس وقت؟وہ اُلجھی تھی۔اور خاص طور پہ شرمندہ بھی ہوئی۔
آپ ادھر؟
جی !وہ کام تھا بھابھی سے کچھ۔۔۔وہ نہ جانے کیوں اسے گھورتا محسوس ہوا۔وہ پزل ہوئی۔
نہیں میرا مطلب خریت آپ دوسری طرف سے چلے جاتے۔اس طرف سے۔۔۔دانستہ اس نے جملہ آدھا چھوڑ بھی دیا۔
بس پتہ نہیں کیوں میرا دل چاہا ادھر سے گُز روں۔ادھر سے جا رہا تھا۔اب سمجھ آئی کہ کیوں چاہ رہا تھا۔۔۔دل
جی؟اسے اس کی بات کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھ آیا تھا۔ہاں البتہ نظریں اس کی اسے خاصی چبھتی ہوئی محسوس ہوئی ۔تبھی ماتھے پہ بہت سے بل نمودار ہوئے ۔کاشف مسکرا دیا گویا اس کے اندر کا حال جانتا ہو۔
کچھ نہیں۔۔۔میری بات پہ مت جائیں۔۔۔میں تو ایسے ہی بکواس ۔۔۔چچی جان کی آواز پس منظر میں گونجی تو وہ جملہ چھوڑ کر فرح کی پشت کی جانب دیکھنے لگا۔ایکسیڈنٹ کی وجہ سے فرح کی رخ بدل گیا تھا۔
کاشف تم گئے نہیں؟چچی جان کی آوازاپنی پشت پہ سنائی دی تو۔وہ مُڑی۔۔۔لیکن مُڑنے پہ چچی جان کی آنکھوں میں جو اسے دیکھنے کو ملا تھا۔اس نے اس کا خون خشک کر دیا تھا جس سے اسے یکدم اپنا جسم سرد پڑتا محسوس ہوا۔
جی بس جا ہی رہا تھا۔کاشف کا لہجہ مسکراتا تھا۔
تم ادھر فرح سب خریت؟ان کی آنکھیں اسی پہ تھیں۔اسے ان کا لہجہ خود پہ ہنستا محسوس ہوا۔وہ نظر جھکا کر تیزی سے وہاں سے گُز گئی۔اسے و ہاں رکنا مناسب نہیں لگا ۔جاتے ہوئے ۔چار آنکھیں خود پہ جمی محسوس ہوئی تھیں۔یہ چچی جان اتنی عجیب کیوں ہیں؟وہ سوچ کر رہ گئی۔
:::::::::::::::::::::
آپ لوگوں نے شادی کی تیاری کا کیا سوچا کب تک شروع کر رہے ہو؟بڑے خان(فرح کے والد)نے پوچھا تو کھانے کی میز پہ خاموشی کا وقفہ ہواتھا۔
ایک دو دن میں کپڑوں کی تیاری شروع کرتے ہیں۔چچی جان نے کہا توانہوں نے اثبات میں سر ہلا کر ایک نظر اپنی بیگم صاحبہ کو دیکھا۔اور پھر کھانے میں مصروف ہو گئے ۔وہ اپنی عورت کو سمجھانے میں ناکام رہے تھے۔اب وہ کیا کہتے۔
آج دوپہر میں چچی آ رہی ہیں۔کھانے کا خاص خیال رکھنا۔ان کا رخ ذہرہ پھوپھو کی طرف تھا۔اور مخاطب بھی انہی سے تھے۔
جی بہتر۔۔۔وہ سر ہلا گئیں۔اندر سے انہیں بہت خوشی ہوئی تھی۔
وہ آئیں گی تو ساتھ ہزاروں شکوے شکایتیں بھی لائیں گی۔کہ ذہرہ کی شادی کی تاریخ بھی رکھ دی اور ان کو بتانا کسی نے مناسب ہی نہ سمجھا۔بلانا تو دور کی بات۔۔۔چچی تھوڑی منہ پھٹ تصور ہوئی تھیں۔سب نے ایک ناگوار نظر ان پہ ڈالی مگر بولا کوئی نہیں۔
چُپ کر کے کھانا کھاؤ۔چاچو نے جواب میں جھڑکا تو چچی کا منہ بن گیا۔مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھیں۔منہ میں ہی بڑ بڑاتی ہیں۔
بھابھی بیگم آپ کچھ بتا دیں کیا بناؤں۔مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔پھوپھو ذہرہ کو نہ جانے کیا سوجھا کہ اپنی بڑی بھابھی کو مخاطب کر بیٹھیں۔حلانکہ وہ ذہرہ کو خاص پسند نہ کرتی تھیں۔
میں کیا بتاؤں۔جو مرضی بناؤ۔بے تاثر کہہ کر انہو ں نے کہا تو انہیں مایوسی ہوئی ۔مگر پھر خوش اخلاقی سے سر ہلا گئیں۔
کھانے کے بعد سب مرد حضرات اُٹھ گئے ۔تو دونو بڑی خواتین بھی ساتھ ہی اپنے اپنے کاموں کو نبٹانے کو اُٹھ کھڑی ہوئی ۔کام جو تھے۔کام بھی کیا کام تھے۔بڑی بیگم کو اپنی بھابھی سے ہر روز اس وقت بات کرنا ہوتی تھی۔جبکہ چھوٹی بیگم کو ڈرامہ دیکھنا ہوتا۔اس کے بعد بڑی بیگم فرح پہ نظر رکھنے کو لاؤنج میں بیٹھ جاتیں۔کہ چچی کے منہ سے وہ کچھ ایسے الفاظ سُن چکی تھیں۔جس کی بعد ایک لمحہ وہ اسے ذہرہ کے پاس نہ چھوڑتیں مگر افسوس وہ اب اتنے سال بعد ایسا کوئی حق سمجھتی نہ تھیں۔اور چھوٹی چچی اس وقت اپنی بہن سے گفتگو فرماتیں۔اورتب تک اس کام کو جاری رکھتیں جب تک ان کے بچے سکول سے آ نہ جاتے۔اس کے بعد سونے جاتیں۔اور تب اُٹھتیں جب ان کے بچوں کو ٹیچر پڑھانے کو آتا۔یہ روز کی روٹین تھی۔وہ دونو خواتین بس کبھی کبھی کچن میں آتی تھیں۔سارا کچن ذہرہ پھوپھو سنبھالتی تھیں۔مگر پھر بھی وہ دونو خواتین انہیں کچھ خاص پسند نہ کرتی تھیں۔ایک کے پاس وجہ تھی۔کہ اس نے ان کی بیٹی کو ان سے چھینا۔جبکہ دوسری کو اپنے بھائی کے ٹھکرائے جانے نے دو منہ کر رکھا تھا۔اور اس سب سے الگ ذہرہ تھیں۔جو سمجھدار تو انتہا کی تھیں۔مگر معصوم بھی تھیں۔اسی لئے بھابیوں سے خوب بنا کر رکھنے کی کوشش کرتیں۔مگر ناکام ہی رہتیں۔
فرح اور پھوپھو ۔۔۔لان میں بیٹھی تھیں۔
پھوپو مجھے ہر صورت ماہ نور کی شادی پہ جانا ہے۔پلیز کچھ کریں۔فرح کو وہاں جا کر ہی اس مصیبت سے جان چھڑانے کا طریقہ سوجھا تھا۔اب وہ ہر صورت وہاں جا کر اس فون کال والے سے حساب برابر کر نا
چاہتی تھی۔جس کی وجہ سے اسے سخت پریشانی اُٹھانی پڑی تھی۔
اچھا صبر کرو۔کچھ سوچتی ہوں۔
ہاں پلیز۔۔۔لیکن آپ بات کس سے کریں گی؟میرا مطلب امی جی سے یا بابا سے؟
ماں تمہاری کو تم سے کوئی غرض نہیں۔۔۔باپ تمہارا ویسے بڑا مصروف۔تو میں جس سے بھی بات کروں گی۔تم بس تیاری پکڑو ۔اور اس سب کو بھول جاؤ۔پھوپھو کے الفاظ نے اسے دکھ دیا تھا۔مگر وہ خاموش ہی رہی۔
پھر بھی کس سے کریں گی۔؟وہ پھر سے پوچھ گئی۔
او ہو۔۔۔فری کیا پرابلم ہے۔بولا تو کہ چپ ہو جاؤ۔کچھ سوچ کر ہی کہا ہے۔کیوں بار بار تنگ کر رہی ہو۔ایک دم پھوپھو کے غصہ کرنے پہ وہ گڑبڑا کر انہیں دیکھنے لگی۔مگر پھوپھو اس وقت کچھ سوچ رہی تھیں۔اور خاصی پریشان دکھتی تھیں۔وہ گہرا سانس لے کر رہ گئی۔وہ اس سے کبھی ایسے بات نہیں کرتی تھیں۔
پھوپھو کیا ہوا؟آپ پریشان ہیں؟فرح کی آواز پہ پھوپھو چونکیں۔
ہاں تھوڑی۔۔۔گہری سانس لی کر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تو فر ح ان کی طرف گھومی۔وہ دونو اس وقت بینچ پہ بیٹھی تھیں۔
کیوں ؟کیا ہوا؟مجھے بتائیں۔وہ اپنی پھوپھو کو کسی صورت پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی۔
ہاں۔۔۔بس فری بن ماں کی ہوں ۔تو پریشانیاں تو اُٹھانی ہی ہیں۔کوئی ایک ہوتو بتاؤں۔پھوپھو کے لہجے میں گہرا دکھ ہلکورے لے رہا تھا۔
کیا ہوا پھوپھو؟بتائیں تو سہی ۔ہو سکتا ہے میں کچھ کر سکوں۔اس کی تو جان پہ بن آئی تھی۔
ہلکی ہوا چل رہی تھی۔آسمان کی فضا میں چیل کی آواز سخت منھوس لگ رہی تھی۔ان کی نظریں بے اختیار آسمان کی جانب اُٹھیں۔اور پھر سورج کی آسمان پہ پھیلی تیز کرنوں کی وجہ سے واپس نیچے کر لیں۔
چھوڑو کچھ نہیں۔میں چچی سے بات کروں گی۔وہ منا لیں گی بڑے بھائی کو۔انہوں نے بات پلٹنا چاہی تھی۔فرح نے انہیں گھور کو دیکھا۔اور پھر ہاتھ بڑھا کر ان کا ہاتھ تھام لیا۔
پھوپھو بتائیں مجھے۔کیا ہوا ہے؟میرے سے شئیر کریں،ہو سکتا ہے۔میں آپ کے لئے کچھ کر سکوں۔فرح نے محبت اور نرمی سے کہا۔تو ذہرہ نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ا سکی آنکھوں میں محبت کی نرمی اور چمک تھی۔وہ اس کی آنکھوں دیکھتی رہیں۔یہاں تک کہ ماضی کے بہت سے عکس اس کی آنکھ میں بننے بگڑنے لگے۔اور ساتھ ہی بیک گراؤنڈ میوزک میں مانوس سی آوازیں بجنے لگیں۔
ذہرہ کا کردار اچھا نہیں ہے۔اس کو جلدی رخصت کر دو۔تمہاری بیٹی کا مستقبل خطرے میں ہے۔یہ آواز بوا کی تھی۔تصویر میں بڑی بھابھی بیگم بھی واضح دکھ رہی تھیں۔جن کے چہرے پہ اس کے لئے ناپسندیدگی واضح تھی۔
تمہاری بہن نے پہلے خود میرے بھائی کو ورغلایا۔۔۔اور اب جب وہ رشتہ لے کر آیا ۔تو اسے بے عزت کر کے نکال دیا۔میں پوچھتی ہو۔کاہے کو اسے اتنی چھوٹ دے رکھی۔ایسی بداعمال لڑکی کو تو گھر بیٹھا ناہی نہیں چاہے۔چھوٹی بھابھی کی آوازیں بھی واضح تھیں۔جبکہ چھوٹے لالہ خاموش بیٹھے غصہ دبا رہے تھے۔
پھو پھو۔۔۔پھوپھو۔۔۔فرح نے کندھا ہلایا ۔تو وہ ماضی سے یکدم حال میں لوٹ آئیں۔ہاں ؟کیا ہے؟
کہاں گم ہو گئی تھیں۔میں نے آپ سے کچھ پوچھا تھا۔بتائیں مجھے کسی نے کچھ کہا تو نہیں؟وہ ان کے چہرے پہ کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
کچھ نہیں میری ماں۔بس کچھ سوچ رہی تھی۔آؤ اندر چلیں۔وہ اسے کچھ نہیں بتانا چاہتی تھیں۔
نہیں بتائیں گی پھر؟
جب کچھ ہو گا ۔تو ضرور بتاؤں گی۔ابھی چلو۔مسکرا کر اسے گھسیٹتی وہ اندر لے گیں ۔اس کا منہ بنا ہوا تھا۔یہ پھوپھو کبھی مجھ سے کچھ شئیر نہیں کرتیں۔۔۔
:::::::::::::::::::::
لاہور شہر اس وقت روشنیوں میں ڈوبا ہوا ۔خوب آنکھوں کو خِیرہ کر رہا تھا۔اس سب میں نتاشا کی چھب ہی نرالی تھی۔لمبے سرخ سیاہ اور مونگیا رنگ ٹخنوں تک آتے فرک میں ،ہائی ہیلز کے ساتھ۔۔۔سہج سہج کرچلتی وہ ہوٹل میں موجود بہت سوں کے دلوں پہ بجلیاں گِرا رہی تھی۔اس کے خوبصورت ہونٹوں پہ لگی سرخ رنگ لپسٹک کے ساتھ ہلکے میک اَپ نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دئے تھے۔لوگوں کی نظروں کو خود پہ اٹھتا دیکھ کر اس کی گردن فخر سے تن گئی۔اور آنکھوں میں ایک مان ایک بھروسہ سا اُمڈ آیا۔چاہے جانے کے احساس نے اسے مغرور بنا دیا تھا۔
ریزروڈ ٹیبل کو خوبصورت انداز میں پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔۔اسے یقین تھا۔کہ یہ ایک خوبصورت کینڈل لائٹ ڈنر ہوگا۔ کرسی گھسیٹی گئی جس پہ وہ ایک ادا سے بیٹھ گئی ۔ اس نے ایک نظر سارے ہوٹل کے ہال کو دیکھا۔اور پھر فون کا کیمرہ آن کے اپنا عکس کیمرے میں دیکھنے لگی۔ملازم اسے بیٹھا کر خود جا چکا تھا۔اگر چہ وہاں موجود لوگوں کی نظروں نے اسے سمجھا دیا تھا۔کہ وہ کیسی دِکھ رہی ہے۔مگر پھر بھی اس نے دیکھنا ضروری سمجھا۔
وہ ہلکی نروس بھی تھی۔دل کی ڈھڑکن دھیرے دھیرے اس کے کانوں میں رِدھم بنا رہی تھی۔آج ذریت اس سے اظہارِ محبت کرنے والاتھا۔وہ جسے چاہتی تھی۔وہ اسے ملنے والا تھا۔اس بات نے اسے بے انتہا خوش کر رکھا تھا۔اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی ناں تھا۔۔۔
ذریت کب آؤ گے۔۔۔پندرہ منٹ تک انتظار کے بعد اکتا کر اس نے خود سے سوچا۔اور فون آن کر کے سوچنے لگی۔کہ آیا کے اسے میسج کرے یا رہنے دے۔اور پھر فیصلہ یہ ہوا ۔کہ وہ اسے میسج کر کے ہرگز ظاہر نہیں کرے گی۔کہ وہ اس کے انتظار میں سولی پہ لٹکی ہے۔اب وہ ذریت کو تڑپانا چاہتی تھی۔
دس منٹ اور گُزے۔۔۔پھرجب گھڑی پہ بیس منٹ اور بھی گُز گئے۔ تو نتاشا کو پریشانی ہونے لگی ۔
نوین وہ ابھی تک نہیں آیا۔ ضبط سے چہرہ سرخیاں جھلکا رہا تھا۔اس نے اکتا کر نوین کو ہی میسج کر دیا تھا۔
نہیں آیا؟کیوں تم نے پوچھا نہیں؟فوراً جواب موصول ہوا۔
نہیں۔۔۔
پاگل اسے میسج کر کے پوچھ لو۔اب کیا ساری رات ادھر رکو گی۔ہوسکتا ہے نہ آئے۔نوین کا میسج سکرین پہ چمکا۔
نہیں وہ آئے گا۔ایسے بھی بھلا ہوتا ہے۔اور ویسے بھی اس نے مجھے خود انوائٹ کیا تھا۔فوراً صفائی پیش کی۔وہ اب اندر سے خاصی پریشان تھی۔اسے اب تک آ جانا چاہے تھا۔
ہاں تو کرو میسج۔۔۔کر کے بتانا مجھے۔نوین کی بات بھی صحیح تھی۔آخر وہ کب تک بیٹھتی اور۔۔۔اس نے اثبات میں سر ہلا کر ذریت کا نمبر ملایا۔۔۔کال جارہی تھی۔مگر کوئی اُٹھا نہیں رہا تھا۔دس منٹ تک مسلسل کال کرنے کے بعد جب اسے یقین ہو گیا۔کہ اب وہ کال نہیں اُٹھائے گا۔تو اس نے اس کے لئے میسج چھوڑ دیا ۔مارے ضبط اور غصے کی انتہا کے اس کا بُرا حال تھا۔وہ جو اتنا تیار ہو کر خوشی سے یہاں جس کی خاطر آئی بیٹھی تھی۔وہ آیا ہی نہ ۔۔۔اور اب فون بھی نہ جانے کدھر رکھ کر بھول بیٹھا تھا۔لوگ جو کچھ دیر پہلے اسے ستائش سے دیکھ رہے تھے۔اب انہیں نظروں میں اس کے لئے شرارت اور طنز تھا۔پہلی بار نتاشا کو احساس ہو رہا تھا۔کہ دل ٹوٹنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔اور آج پہلی بار ذریت نے آذر کی تکلیف کا کچھ حساب برابر کیا تھا۔کھیل تو ابھی جاری تھا۔بساط تو بِچھ چکی تھی۔جلد اُمید تھی کہ بازی گر اپنی بازی جیت کر ہی نکلے گا۔
ہاں میرے شیر کام ہوا؟ذریت نے اکمل کو میسج کیا ۔تو جھٹ جواب آیا۔
ہاں بس ہو گیا۔میں اسے بتا چکا ہوں۔جا رہا ہے وہ۔اکمل کے ہونٹ لکھتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔کمرے کی نیم روشنی میں اس کے چہرے پہ فخر تھا۔
تم کہاں ہو؟میسج اسفند کی جانب تھا۔وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
میں ادھر سے نکل چکا ہوں۔بھابھی ادھر بیٹھی تھیں۔تو مجھے لگا۔تم بھی ساتھ ہو گے۔اسی لئے میں نے تم سے پوچھا تھا۔
ہاں بس میں جانے والا تھا۔ بس گاڑی کا پرابلم ہو گیا ۔میں اسے بتاچکا ہوں۔اسفند کے جواب پہ بلکہ صفائی پہ اکمل نے ہنس کر بات انجوائے کی تھی۔اور پھرخُدا حافظ بول کر فون رکھ دیا۔
طوطا مینا۔۔۔وہ بڑبڑایا اور پھر آنکھیں موند لیں۔
نتاشا کا دل چاہ رہا تھا۔ہوٹل کی ہر چیز توڑ دے۔کوئی چیز نہ چھوڑے۔وہاں موجود لوگوں کے چہرے بگاڑ دے۔
نتاشا تم ادھر؟سامنے سے آتے اسفند کی آواز پہ نتاشا نے چونک کر سر اُٹھایا ۔اور نہایت غصے سے اسے دیکھا۔اب ایک اسی کی کمی باقی تھی۔ایک ناگوار سی نظر اسفند اکرام پہ ڈال کر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔وہ نظر اسفند کے اندر کو کاٹ کر گئی تھی۔اسفند اکرام کی آنکھوں میں کوئی تاثر تھا ۔جو آہستہ آہستہ بننے بگڑنے لگا تھا۔جب کچھ پل گُزرنے کے بعد بھی اسنے اسے بیٹھنے کا نہ کہا۔تو وہ خود ہی کرسی گھسیٹتا ویٹر کو اشارہ کرتا براجمان ہو گیا۔نتاشا نے ایک نخوست سے نظر اس پہ ڈالی جو شلوار قمیض میں تھا۔اور اب خاصا اس کے وجود سے بے پروا دکھتا تھا۔
تم نے بتایا نہیں تم یہاں کیسے؟پہلے کا پوچھا سوال ایک بار پھر سے اسنے دُھرایا تو نتاشا کا چار ونچار وہاں سے اُٹھنا ہی پڑا۔
اسفند میں تم سے کل بات کروں پلیز۔ابھی میری طعبیت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔میں گھر جا کر ریسٹ کروں گی۔وہ بنا دیکھے اسے کہہ گئی اور ساتھ ہی ساتھ اپنا بیگ اور فون بھی اُٹھایا۔اس کے انداز سے صاف لگتا تھا۔کہ اسے جانے کے لئے اسفند کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
کھانا؟
نہیں۔۔۔نہیں کھانا نہیں بس گھر۔اللہ حافظ۔کہہ کر اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتا۔وہ میز سے جگہ بناتی جارہی تھی۔
شیور۔۔۔وہ خود کلامی میں کہہ گیا۔اس کے جانے کے بعد وہاں رکنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔وہ بھی واپس آ گیا ۔لیکن اس کے دماغ ایک کہانی تھی۔جو جنم لے ہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔کرداروں کو سمجھے کیسے۔
::::::::::::::::::::::::
فری بیٹا تمہا را منہ کیوں اتنا سا نکل آیا؟کیا کھاتی نہیں ہو دھیان سے۔اب تو تمہیں آئے ہوئے بھی کئی ماہ ہوگئے۔چھوٹی دادی اپنے سارے رعب اور زعم کے ساتھ وہاں موجود سب کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں۔وہ سوات سے ابھی کچھ منٹ پہلے پہنچی تھیں۔ان کے آتے ہی مرد حضرات بھی گھر آ چکے تھے۔اب سب ان کے گرد بیٹھے خوشی سے ان کا حال احوال پوچھ رہے تھے۔
نہ ۔۔۔نہیں دادی مجھے کیا ہونا۔میں تو سیٹ ہوں بالکل۔دادی کے تفتیشی انداز پہ وہ یک دم گڑبڑا گئی۔
آئے ہائے۔۔۔لڑکی کا منہ تو دیکھو کتنا سا نکل آیا۔بڑی دادی کے بعد چھوٹی دادی تھیں ۔جو فرح سے بے حد محبت کرتی تھیں۔وہ ان کے دل میں خاص جگہ رکھتی تھی۔
کھانا لگ چکا ہے۔چھوٹی دادی کھانا کالیں۔صفوراں مائی کی چھوٹی بیٹھی جو شیفٹنگ کے دوران سوات سے ان کے ساتھ ہی پشاور آئی تھی۔کھانے کا بتا رہی تھی۔
طیبہ بچی کیسی ہو؟تم تو ہم سے ملی ہی نہیں۔دادی کا پیار سب کے لئے یکساں ہی تھا۔خواہ وہ مرد ہوں عورتیں ہوں،بچے ہوں یا پھر ملازمین۔۔۔وہ سب کے دلوں پہ راج کرتی تھیں۔اور سب کے لئے بہت نرم دل مشہور تھیں۔
جی دادی بس آپ کی دُعا ہے۔ہاتھ مسل کر مسکرا کر جھکے سر کے ساتھ کہا تو دادی مسکرا دیں۔تمہاری ماں کیسی ہے۔شام میں لانا اسے۔۔۔میں
دادی کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا۔چچی نے بیچ راہ میں ان کی بات کاٹ کر کہا۔تو جہاں چھوٹی دادی کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے تھے۔وہیں باقی سب بھی گڑبڑا گئے۔ بڑوں کی بات کاٹنا ان کے خاندان میں سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔
بہو تمیز کو کس صندوق میں رکھ آئی ہو۔یاد کرو اور لے آؤ۔دادی نے ناگواری سے کہا۔تو چچی گڑبڑا کر سر جھکا گئیں۔جبکہ ساتھ بیٹھے چاچو نے سخت ناگواری سے اپنی بیوی کو دیکھا تھا۔
آ جائیں دادی جان میز پہ چلتے ہیں۔کھانا آپ کا منتظر ہے۔اب کی بار بات پلٹنے کو ذہرہ پھوپھو نے کہا ۔تو وہ سر ہلاتیں گھٹوں پہ زور ڈالتی اُٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ساتھ ہی باقی سب بھی اُٹھ کر ان کی میت میں ڈائینگ حال میں داخل ہوئے۔
بابا صاحب مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔کھانا سرو کیا جاچکا تھا۔سب کھانے کی طرف متوجہ تھے۔جب فرح نے ہمت کر کے بات شروع کی۔
ہم م م ۔۔۔سُن رہا ہوں۔سر ہلا کر اُنہوں نے اجازت دی۔تو وہ تھوک نگلتی۔۔۔گہرا سانس لیتی۔سب کو ایک نظر دیکھتی کہنے لگی۔۔۔
وہ بابا صاحب میری ایک دوست ہے لاہور میں ماہ نور۔۔۔اگلے ہفتے اس کی شادی ہے۔۔۔میں ۔۔۔میرا مطلب ہے۔اس نے ہمیں شادی پہ بلایا ہے۔اور خاص طور پہ اسرار بھی کیا۔کہ ہم ضرور آئیں۔
منع کر دو،۔۔۔اس سے پہلے کہ بابا صاحب کچھ کہتے امی جی بول پڑیں ۔اس کا منہ لٹک گیا۔چھوٹی دادی بس خاموشی سے دیکھ رہی تھیں۔
میں نے منع کیا تھا۔لیکن۔۔۔لیکن وہ ضد پہ اڑی رہی۔کہنے لگی۔کہ اگر تم نہیں آؤ گی ۔تو میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی۔
جاؤ گی کس کے ساتھ۔بابا صاحب کے سوال پہ جہاں وہ خوش ہوئی تھی۔وہیں امی جی ناگوار
وہ۔۔۔اسے سمجھ نہیں آئی کیا کہے۔کسے لے کر جاتی۔
اس کے چپ رہنے پہ انہوں نے اسے ایک نظر دیکھا۔اور پھر واپس کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے۔اگر کوئی ساتھ جاتا ہے۔تو دو دن کے لئے چلی جاؤ۔ورنہ رہنے دو۔۔۔
میں چلے چلتی ہوں۔اپنی مانو بلی کے ساتھ۔۔۔دادی کے مان جانے سے اسے بہت خوشی ہوئی تھی۔وہ مسکرا کر سر ہلا گئی۔اور ایک آنکھ بچا کر پھوپھو کو بھی دیکھ لیا۔جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔اور مسکرا رہی تھیں۔میز کے دوسری جانب بیٹھی بڑی بیگم کے ماتھے پہ ناگواری کے واضح بل تھے۔اسی طر ح کے کچھ تاثرات چچی کے چہرے پہ بھی تھے۔وہ دادی کی گُڈ بُک میں تھی ۔یہ بات انہیں پسند نہ تھی۔
:::::::::::::::
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...