شرعی دلیل بھی آپ کو سمجھا دوں سمجھ میں آ جائے گا آپ غور کریں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
اِنَّمَا الْمَسِیحُ عِیسَى ابْنُ مَرْیمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ
(سورت النساء 4 آیت 171)
’یہ اللہ کا کلمہ ہیں۔‘ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے کلمہ کے کیا معنی؟ کَلِمَۃُ اللہ جو ہے وہ لفظ کُنْ ہے اور کوئی کلمہ نہیں ہے، یاد رکھیں۔ چونکہ یہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے کوئی ظاہری سبب نہیں تھا اس لئے ان کی طرف کُنْ کی نسبت کی گئی اس خصوصیت کی بناء پر ان کو ’کَلِمَۃُ اللہ‘ کہا گیا۔ لیکن حقیقت ’کَلِمَۃُ اللہ‘ کی یہ ہے کہ ہر وہ شئے جو منجانب اللہ ہو وہ ’کَلِمَۃُ اللہ‘ ہے جیسے الٓمّٓ، ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیبَ (سورت البقرۃ 2 آیتان 2، 1)
یہ من جانب اللہ ہے، لہذا یہ ’کَلِمَۃُ اللہ‘ ہے، معجزہ ’کَلِمَۃُ اللہ‘ ہے، ہر نبی ’کَلِمَۃُ اللہ‘ ہے یہ سب منجانب اللہ ہے۔ ان کو مخصوص طور پر اس لئے کہا گیا کہ ان کے باپ نہیں تھے اس لئے ان کے لئے یہ لفظ شریعت کی زبان میں شامل ہو گیا ورنہ حقیقت میں کَلِمَۃُ اللہ کے معنی منجانب اللہ ہیں، ہر وہ شئے جو منجانب اللہ ہے کَلِمَۃُ اللہ ہے۔ یہ بات سمجھ میں آ گئی؟
اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ وَہَبْنَا لَہٗۤ اِسْحٰقَ وَ یعْقُوْبَ کُلًّا ہَدَینَا وَ نُوْحًا ہَدَینَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیمٰنَ وَ اَیوْبَ وَ یوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ ہٰرُوْنَ وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ (84) وَ زَکَرِیا وَ یحْیٰى وَ عِیسٰى وَ اِلْیاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِینَ (85) وَ اِسْمٰعِیلَ وَ الْیسَعَ وَ یوْنُسَ وَ لُوْطًا وَ کُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِینَ
(سورت الانعام 6 آیت 86)
یہ سولہ نبی ہیں نو علیہ السلام کو لگایئے سترہ (17) ہوئے۔ اس رکوع میں سولہ (16) سترہ نبیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان نبیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
اُولٰٓىٕکَ الَّذِینَ ہَدَى اللّٰہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ
(الانعام 6 آیت 90)
’یہ وہ حضرات انبیاء علیہم السلام ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی ہے، یہ اللہ سے ہدایت پائے ہوئے ہیں اللہ کے ہدایت یافتہ ہیں۔‘ ان کا معلم اور اُستاد اور ہدایت کنندہ صرف اللہ ہے، یہ وہ حضرات ہیں۔ آگے اللہ فرماتا ہے: اقْتَدِہْ اے نبی! ’تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔ ان کی ہدایت کی اتباع و اقتداء کرو۔‘ یہ خاتم النبین ہیں تمام شریعتوں کے یہ ناسخ ہیں، یہ ان نبیوں کی کیا اتباع کریں گے؟ اگر اتباع کریں گے عقائد میں تو مقلد ہو جائیں گے، اگر شریعت کی اقتداء کریں گے تو ناسخ نہیں رہ سکیں گے۔ اقتداء کس چیز میں کریں گے؟ کیا اتباع کریں گے؟ لہذا شرائع مراد نہیں ہو سکتے، عقائد مراد نہیں ہو سکتے، اعمال و افعال یہ تو قطعی مراد نہیں ہیں کہ وہ اتباع کر سکتے، وہ ناسخ نہیں ہونے کے تمام شریعتیں منسوخ ہو چکیں۔ پھر کس چیز کی اتباع کریں گے؟ ہر ہر نبی میں جو کمالات ہیں ان میں ایک ایک کمال ایسا ہے جو ہر نبی کے ساتھ مخصوص ہے ایک فعل ایسا ہے وہ اخلاقِ حسنہ، اخلاقِ جمیلہ میں سے ایک ایک نبی متخلق ہے، کمالات جتنے بھی تھے وہ انبیاء علیہم السلام میں علیحدہ اور متفرق طور پر تھے۔ تو اے نبی! ان میں جو اخلاق اور کمالات ہیں متفرق طریقہ پر وہ سب تم میں ہونے چاہئیں تم جامع کمالاتِ انبیاء ہو اور وہ جو کمالِ خاص ہے وہ سب منجانب اللہ ہے۔ تو ہر نبی تو “کلمۃ رب “ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو جامع کمالاتِ انبیاء ہیں یہ جامعِ کمالات ہیں یعنی یہ کلماتِ رب ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کلماتِ رب، نوح کلمۃُ الرَّب، موسیٰ کلمۃُ الرَّب، عیسیٰ کلمۃُ الرَّب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کلمۃُ الرَّب نہیں بلکہ کلماتُ الرَّب یہ کلمے ہیں، وہ کلمہ ہیں۔
قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّی وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا
(سورت الکہف 18 آیت 109)
’کہہ کہ اگر بحر کو روشنائی قرار دے دیا جائے کلماتُ الرَّب کو رقم کرنے کے لئے اور اوصاف کو بیان کرنے لے لئے ختم ہو جائے گا بحر کلماتُ الرَّب رقم ہونے سے پہلے۔ بحر میں صلاحیت ہی نہیں ہے کہ جو کلماتُ الرَّب کو رقم کر سکے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم الرسول اللہ کلماتُ الرَّب ہیں اور کلماتُ الرَّب ناقابلِ رقم ہیں۔ تو محمد الرسول اللہ ناقابلِ بیان، کون بیان کر سکتا ہے؟ جو بیان کرے گا وہ یا تو جھوٹا ہو گا یا اس کے اپنے خیال کے مطابق ہو گا کوئی نہیں بیان کر سکتا۔ کوئی ہو، ولی ہو، ابدال ہو، قطب ہو، صدیق ہو، رئیس الصدیق ہو، کیسا ہی قدسی اعظم ہو وہ گھٹ کر فاسق ہو سکتا ہے کیسا ہی فاسق ہو وہ ترقی کر کے وہ بڑھ کر قطب ہو سکتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کتنا ہی کم کر دیا جائے وہ ابو بکر نہیں ہو سکتے۔ نبوت کا تجزیہ کرتے کرتے کتنا ہی ننھا سا جز نکال لیجئے وہ صدیقین سے افضل رہے گا، اور جو بڑے سے بڑا نیک اُمتی ہے اس کا آپ تجزیہ کریں گے وہ فِسق پر آ کر ٹھہر جائے گا۔ اور فسق میں اگر رحمت خدا کی شامل ہو کوئی چور، ڈاکو، زانی وہ قطب، ولی اور ابدال بن جائے گا، مگر نبی میں یہ بات نہیں تمام جہان کے اولیاء جتنے ہیں وہ سب مل کر بھی اس درجہ پر پہنچ ہی نہیں سکتے، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف کرنا محال اور نا ممکن ہے۔
یہاں تو ایک سمندر ہے، یہی مضمون دوسری آیت میں ہے
وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ
(سورت لقمان 31 آیت 27)
اس آیت میں سات (7) سمندر ہیں اور بحر کو مدد دینے کے لئے اور بحر لایا جائے یہاں تک کہ خدا لا انتہا بحر لا سکتا ہے پھر بھی رقم نہیں ہو سکتا اور محمد الرسول اللہ کلماتُ الرَّب ہیں، لہذا کلماتُ الرَّب جو ہیں وہ ناقابل رقم ہیں۔ محمد الرسول کے اوصاف اور صفات جو ہیں وہ ناقابلِ رقم ہیں کوئی انسان نہیں بیان کر سکتا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یا علی رضی اللہ عنہ یہ آ جائیں اور کُل انسان یہ سب مل کر بیان کریں یا ملائکہ کوئی نہیں کر سکتا نہ ان کے علم کا نہ عمل کا حال بیان کر سکتے ہیں۔ آپ کیا بیان کر سکتے ہیں؟ ازل سے ابد تک کے انسان مل کر خلائق بیان نہیں کر سکتے۔ ہاں بیشک اللہ قادر ہے وہ بیان کرتا ہے ٹھیک ہے وہ بیان کر سکتا ہے اور کوئی نہیں بیان کر سکتا۔ مگر اس کے سمجھنے کے لئے بھی تو کچھ چاہیئے نا؟ بچہ کو آپ کتنا ہی بلوغ کی کیفیات سمجھا دیں بیان سچ ہو گا، حق ہو گا مگر کبھی بھی وہ سمجھ کر نہیں دے گا۔ نہیں آیا سمجھ میں؟ جو نابالغ ہے وہ کیسے بلوغ کی کیفیات سمجھ سکتا ہے؟ خدا تعالیٰ کا بیان قطعی سچا ہے وہ صحیح تعریف بیان کرے گا لیکن آپ سمجھ نہیں سکیں گے نہ قرآن کو، نہ حدیث کو صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح نابالغانِ معرفت جو ہیں وہ عرفاء کے صحیح حالات کو نہیں سمجھ سکتے، کیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف کردار ہے؟ میں آپ سے کیا بیان کروں؟ نا ممکن اور محال ہے۔ تم چاہو تو میں اپنی عقل کے مطابق کچھ بیان کر دوں، وہ تو جتنا میرا علم ہے اس کو بیان کر رہا ہوں، جو مجھ سے زیادہ جانتا ہے وہ اس سے زیادہ بیان کر دے گا۔ مجھے تو اتنا ضرور پتہ چل گیا کہ کچھ پتہ نہیں چلا، بس اس سے زیادہ نہیں معلوم ہو سکتا۔ بس اتنا ہی بیان کر سکتے ہیں، ہم کچھ نہیں بیان کر سکتے۔
٭٭٭