سرد اداس موسم میں رات جلد اتر آتی ہے۔ سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں آرام کے لیے جا چکے ہیں اور میں رائٹینگ ٹیبل پر بیٹھی ہاتھ میں قلم تھامے اپنی یادوں کی ڈائری کھولے بیٹھے ہوں۔ میرے ارد گرد کئی کاغذ بکھرے پڑے ہیں۔ لفظ کے معنی اور مفہوم کی کھوج نے مجھے لکھنے کی ایسی عادت ڈالی کہ میں حروف سے الفاظ جوڑتی رہتی ہوں۔ دنیا میرے لیے ایک رنگین پہیلی ہے جو فلک سے زمین تک کسی پینٹینگ کی صورت میں اپنا دامن پھیلائے آویزاں ہے۔ میں نے اپنے اردگرد بکھرے کبھی نہ ختم ہونے والے سکوت میں بستیاں، دریا، پہاڑ، وادیاں، پھول، چشمے اور خوبصورت پرندے دیکھ کر سوچتی ہوں کہ یہ سب رنگ جب کلام کرتے ہوں گے تو کیسی آوازیں آتی ہوں گی ؟ جب جھرنا گرتا ہے، دریا ٹھاٹھیں مارتا ہے اور تیز ہوا میں بسی پتوں کی خوشبو ہمیں چھو کر گزرتی ہے تو سرگوشیوں کا سماں بھی بندھتا ہو گا؟ جب لوگ کسی دھن پر سر دھنتے ہیں تو ان کے اندر آخر کونسی تحریک ارتعاش پیدا کرتی ہے۔
باہر سے نامراد ہو کر میں نے اپنے اندر جھانک کر اندرونی آوازوں کو سننے کی کوشش کی تو بارہا مجھے ایسا لگا گویا باریک ریشم کے کئی تار آپس میں الجھ گئے ہیں اور میں انہیں سلجھانے کے جتن کر رہی ہوں کبھی کبھار یہ تار پھیل کر ایک چادر سی تان لیتے ہیں تو کبھی الجھنیں ہی الجھنیں حواس پر چھا جاتی ہیں۔
جب ہوش سنبھالا تو اپنے چاروں طرف ماں کو پایا۔ بن کہے جاننے والی ماں کے لیے میرا وجود کئی آزمائشوں سے بڑھ کر تھا۔ لوگوں کی ہمدردی اور تاسف بھری نظریں وہ پہلی تحریر تھی جو میں نے چہروں پر لکھی پڑھی۔ کئی بار افسردہ ہو کر ماں کو رات کے آخری پہر سجدے میں روتے گرگڑاتے دیکھا۔ ان کا خیال تھا کہ شاید اس طرح ان کے آنسو مجھ سے پوشیدہ رہیں گے مگر ایسا نہ تھا۔ میں ماں کو اس کی خوشبو سے پہچانتی تھی اور جس پل بھی وہ خوشبو مجھ سے دور ہوتی یا پریشان ہوتی تو مجھے علم ہو جاتا۔ ہاں مگر تب مجھے یہ بات سمجھ میں نہ آتی کہ آخر میں نے ایسا کیا کر دیا ہے جو ماں چھپ چھپ کر روتی ہے۔ اگر کسی پل ماں کی توجہ دوسری جانب ہوتی تو میں آ آ آؤ کی صورت آوازیں دینا شروع کر دیتی۔
میری پیدائشی طور پر سماعت اور نتیجتا گویائی سے محرومی نے میرے والدین کو جس دباؤ کا شکار کیا اس نے مجھے بہت حساس بنا دیا۔ میں نے بہت جلد لوگوں کے چہرے پڑھنا سیکھ لیے۔ لبوں کی جنبش سے لے کر آنکھوں کے کنارے تک ابھر آنے والی ہر لکیر میرے لیے پیغام رسانی کا کام کرتی۔ مسکراہٹ، غصہ، بیزاری، ہمدردی، نفرت یا محبت سب کی تحریر چہرے کے زاویوں اور آنکھوں میں الگ خطوط میں نمایاں ہوتیں۔ تاثرات کے رسم الخط میں لکھی یہ تحریریں اکثر اوقات بہت تکلیف دہ ہوتیں۔ کیونکہ جب بھی میں جواباً کچھ کہنے کی یا بتانے کی کوشش کرتی تو میری آ آؤ نما آوازوں سے دوسروں کے چہروں پر پیدا ہوئی بیزاری مجھے مزید کوئی آواز بلند کرنے سے روک دیتی۔ اس لیے خاموشی سے اپنے ماحول اور دنیا کے ساتھ مطابقت کو سیکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ کچھ ہی برسوں میں میں اپنے کئی چھوٹے موٹے کام خود سرانجام دینا سیکھ رہی تھی مگر میری سماجی نشو و نما بہت سست رہی۔ ہر وقت صرف ماں یا باپ کے آگے پیچھے پھرنا اور ہر کام ہر ادھوری بات پر صرف انہی پر انحصار کرنا میری مجبوری تھا۔ دوسرے لوگوں یا ہم عمر بچوں کے ساتھ کمیونیکیشن گیپ ایک بڑا مسئلہ تھا۔
کچھ برسوں بعد مجھ سے چھوٹے جڑواں بھائیوں کی آمد سے ماں کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئیں مگر گھڑی کی پھسلتی سوئیوں سے بھی زیادہ مصروف ماں کی پہلی ترجیح میری ذات ہی رہی۔ اسی دوران میری تعلیم و تربیت کے لیے مناسب اسکول کی تلاش شروع ہوئی تو مجھے معذور بچوں کے سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ سپیشل ایجوکیشن اسکول میں جو پہلا مثبت احساس ملا وہ یہ تھا میں اس مشکل میں اکیلی نہیں ہو بلکہ دنیا میں ایسی لاتعداد کہانیاں بکھری پڑی ہیں اور اب مجھے اپنی محرومی پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے اپنے اندر الجھی ریشم کی ڈوریوں کو سلجھانا ہے۔ سائین لینگویج سیکھنے کے ساتھ پڑھنا لکھنا شروع کیا تو مجھے اس بات کا ادراک ہوا کہ میں خود پر بھروسہ کر سکتی ہوں۔ خود پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے محسوسات کی ترسیل کے لیے میرا سب سے پہلا رشتہ پنسل رنگ اور برش سے جڑا۔
مجھے اپنے چھوٹے بھائیوں سے بے پناہ محبت شاید فطرت میں ودیعت ہوئی تھی۔ ماں کے ساتھ ان کے چھوٹے موٹے کام کرتی میں پھولی نہ سماتی۔ جب وہ میرے بالوں میں بنی ننھی پونیاں کھینچتے تو بجائے کوفت کے مجھے ان پر پیار آتا۔ میرا دل چاہتا کہ کہیں کسی پہاڑ کے دامن میں چشموں کے قریب ہم تینوں بہن بھائی سبز گھاس کے مخملی فرش پر اپنا چھوٹا سا گھر بنائیں اس میں دھواں اگلنے والی چمنی ہو، چھت کے کھپروں پر برف جمی ہو یا کسی درخت کے اوپر پیارا سا ٹری ہاؤس ہو اور اس ٹری ہاؤس میں بیٹھ کر میں گھنٹوں پرندوں اور بادلوں سے خامشی کی زبان میں ہم کلام رہوں۔ سب نظاروں سے رنگ چرا کر اپنی پینٹینگ میں بھر دوں۔ جہاں آبشاریں چشمے اور بارش کا پانی ہر روز پھولوں کا چہرہ دھو ڈالیں اور گھاس کی ایک ایک پتی کی نوک تک سنوار دیں۔ شبنم کے قطرے ہیروں کی مانند پنکھڑیوں کا زیور بنے رہیں۔ سورج شام کے ان نظاروں کو خدا حافظ کہنے لگے تو مہندی کا رنگ افق کے ہاتھوں پر پھیلا دے۔ مہندی سے یاد آیا مجھے مہندی بہت پسند ہے اس کی خوشبو مجھ سے ہم کلام ہوتی ہے اور چیڑ کے درختوں کی بھینی مہک مجھے کسی اور دنیا کی کہانی سناتی ہے۔ ہر مہک کی اپنی زبان میں الگ پیغام دیتی ہے۔
جلد ہی مجھے اپنے دونوں جڑواں بھائیوں کی ہر ادھوری بات سمجھ آنے لگی تھی اور وہ بھی باتیں کرنا سیکھنے کے علاوہ سائین لینگویج بھی سمجھنے لگے۔ ماں ان دونوں کو آیا کے پاس چھوڑ کر اسی طرح میرے ساتھ سائین لینگویج سیکھتی اور سپیچ تھیراپی سنٹر میں گھن چکر بنی رہتی۔ سماعت سے مکمل محرومی سپیچ تھیراپی میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ سائیں لینگویج سے حروف اور الفاظ کی پہچان کے بعد میں پڑھنا سیکھ گئی تھی مگر میرے والدین کی بڑی شدید خواہش تھی کہ میں کچھ ضروری اور اہم الفاظ کو ادا کرنا بھی سیکھ لوں۔ مگر کئی ماہ کی سپیچ تھیراپی کے بعد بھی میرے ٹوٹے حروف الفاظ کا روپ نہ دھار سکے۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ کتنے ہی الفاظ میرے ذہن کی غلام گردشوں میں گلا گھٹ جانے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ کئی الفاظ کونوں کھدروں میں چھپے، مفہوم ادا کرنے کی سعی لا حاصل کرتے حیراں لب بستہ، ڈرے سہمے ادھ موئے رہ جاتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کیا یہ کبھی کلمہ بننے کا شرف حاصل کر پائیں گے یا مہمل ہی رہیں گے ؟
بے معنی الفاظ کی محرومی کو تصاویر اور پینٹینگ میں ڈھالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ کم سنی میں ہی قلم اور برش میری زباں بن گئے۔ جہاں تخیل کی سبز مخملی گھاس پر میرے خواب پرندوں کی صورت محو پرواز رہتے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ سبز مخملیں گھاس میں کنکھجورے رینگتے ہوئے داخل ہوئے اور میری تصوراتی دنیا کی خوبصورت تصویر میں پہلی سنگین بد صورتی سرسرانے لگی۔ یہ سکول بس کے کنڈیکٹر کا ہاتھ تھا جو سب سے نظریں بچا کر میری فراک کے اندر رینگتا رانوں تک چلا گیا۔ مجھے شدید الجھن ہونے لگی۔ میرا دل چاہا کہ میں چلا کر کسی سے کہوں یا اس کے ہاتھ پر کوئی کیڑے مار زہر انڈیل دوں اور یہ کنکھجورے جیسے ہاتھ پھر کبھی میرے جسم پر رینگنے کی کوشش نہ کریں۔ میں کچھ نہ کر پائی اور کسی کو بتا تو سکتی نہیں تھی مگر اس واقعے کے اثرات اس طرح نمایاں ہوئے کہ میں نے اجنبی لوگوں سے جھجکنا اور کترانا شروع کر دیا۔ سکول بس میں کھڑکی کی طرف سمٹ کر بیٹھتی اور کسی بھی محفل میں سب سے الگ گم سم بیٹھی رہتی۔ میرا ہاتھوں کی مدد سے شور شرابا اور چیخنا چلانا اپنی ہم جماعت لڑکیوں اور گھر والوں تک محدود ہو گیا تھا۔ میں نے سیکھ لیا کہ مجھے اپنی کمزوریوں کے ساتھ سمجھوتا کرنا ہے۔ اور لوگوں سے اپنی اس محرومی کو چھپانا بھی ہے۔
اس طرح میں نے آ آ آ اووو جیسے واولز میں چلانا چھوڑ دیا۔ اور سنجیدگی سے ساری توجہ اپنی پڑھائی کی جانب مرکوز کر دی۔ میں نے ہزاروں الفاظ پڑھنا سیکھے ان کا مفہوم سمجھا۔ بہت جلد میں یہ جان گئی تھی کہ اپنی زندگی کو کسی مثبت رخ سے سنوارنے کے لیے یہ حروف جو بامعنی الفاظ کو جنم دیتے ہیں، کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ٹین ایج میں پہنچ کر مہمل الفاظ کا کرب اور زیادہ بڑھ گیا۔ بڑی ہونے کے ساتھ جہاں مجھ سے وابستہ توقعات اور ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا وہیں کئی جسمانی تبدیلیاں بھی چپکے چپکے آتی گئیں۔ لوگوں کے چہرے پر نئی طرز کی تحریر ابھرنے لگی۔ کئی آنکھیں ایکسرے مشین کی مانند میرے نمو پاتے جسم کا اسکین کرنے لگیں۔ وہی لوگ وہی راستے مگر راہگزر میں بیٹھا ہر شخص مجھے مشکوک نظروں سے گھورتا نظر آتا۔ میرے اڑوس پڑوس میں کئی انکل جو کبھی مجھے ایک گڑیا سمجھا کرتے تھے ان کی نظریں چوری چھپے میرے خدوخال کا جائزہ لیتیں تو میرا دل چاہتا کہ کوئی تو محرم راز ہو جسے یہ سب بتا سکوں۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو آپ اپنے ہم عمر دوستوں سے تو بانٹ سکتے ہیں مگر اپنے والدین سے نہیں۔ اس عمر میں ایسا لگتا ہے کہ ماں یا باپ ہماری بات نہیں سمجھیں گے یا انہیں ہماری مشکلات کا صحیح ادراک نہیں ہو پائے گا اس لیے انہیں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہمارے گھر میں مہمانوں کو خدا کی رحمت سمجھا جاتا تھا۔ کوئی دن ایسا نہ ہوتا کہ گھر میں کوئی عزیز رشتہ دار، امی کی سہیلیاں یا ابو کے دوست نہ آتے۔ باورچی خانے میں گہما گہمی جاری رہتی۔ بڑھوتری کی اس عمر میں مجھے مہمانوں سے جھجھک ہونے لگی تھی۔ اس کی وجہ میرے جسم کے زاویوں میں تبدیلی نہیں تھی جیسا کہ سب لوگ یہی لکھتے ہیں۔ بلکہ اس کی اصل وجہ لوگوں کے چہروں پر ابھرتی تحریر میں تبدیلی تھی۔ یہ تبدیلی مجھے سینکڑوں پاؤں کے ساتھ رینگتے کیڑے کی مانند لگتی جیسے ایک دن کنڈیکٹر کا ہاتھ کنکھجورا بن گیا تھا۔ اسی دوران میری دوبارہ سے شروع ہونے والی سپیچ تھیراپی کو جاری ہوئے کئی ماہ گزر چکے تھے۔ ساتھ ساتھ سیکنڈری سکول کے امتحانات کی تیاری بھی کر رہی تھی۔ ماں نے مجھے خود انحصاری سکھانے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ مجھے کسی منزل تک پہنچانے کا جنون ان کی زندگی کا سب سے بڑا جذبہ تھا۔ دوسری بار سپیچ تھیراپی سے گزرتے وقت میں نے اپنے اندر کی سب توانائیوں کو سمیٹ کر ایک نقطے پر مرکوز کر لیا تھا۔ سپیچ تھیراپسٹ کے مطابق میرے حروف آ آ آو سے آں اور مآ تک ڈھل چکے تھے۔ تب ماں کی آنکھوں میں آس چمکتی تھی کہ میں جلد ہی حروف سے الفاظ ترتیب دے کر انہیں ادا کر سکوں گی۔
ایک دن جب ماں سو رہی تھیں گھر میں والد کے ایک مہمان آئے جنہیں ملازمہ ڈرائینگ روم میں بٹھا کر چلی گئی تھی۔ میں جو رات دیر گئے تک بھائیوں کی شرارتوں اور کھینچا تانی سے بچنے کے لیے ڈرائینگ روم میں اپنی واٹر کلر کی پینٹینگ مکمل کرتی رہی تھی، مہمان کی موجودگی سے لاعلم اس پینٹینگ کو لینے کے لیے وہاں چلی گئی۔ اچانک مجھے سامنے پا کر وہ شخص کھڑا ہو گیا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور بتایا کہ والد گھر پر موجود نہیں ہیں۔ اس شخص نے بڑی دلچسپی سے مجھے دیکھا اور مجھ سے اشاروں میں بات کی۔
میری کچھ حسیات بہت تیز ہیں اور انہیں میں سے کوئی حس سائرن بجانے لگی تھی۔ مگر مجھے فوراً سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہونے والا ہے۔ اچانک اس شخص نے شفقت کا چولا اتارا اور سر پر پھرنے والا ہاتھ میرے بدن پر رینگنے لگا۔ اور پھر وہ کنکھجورا ایک عفریت کی شکل میں ڈھلنے لگا۔ میرے سارے بدن میں خوف کی سرد لہر سرایت کرتی چلی گئی۔
میں کیا کروں ؟
کیسے خود کو اس شخص کی گرفت سے آزاد کراؤ؟
یہ ملازمہ اسے اندر کیوں بلا لائی۔ اور اب وہ خود کہاں چلی گئی؟ ماں سو رہی ہے اسے کیسے علم ہو گا کہ اپنے ہی گھر میں اس کی بیٹی کو کوئی ہراساں کر رہا ہے۔ پھر نجانے میرے اندر کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ خود کو اس عفریت کی گرفت سے آزاد کراتے اسے ایک زور دار دھکا دیا اور چلا کر اونچی آواز میں کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آں مآ مآ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماما۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماما۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ عفریت دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
وہ مہمل شخص تو اپنے خبیث ارادے میں ناکام ہو کر باہر نکل گیا مگر اس دوران اپنا دفاع کرتے وقت میں نے اپنے اندر کی تمام تر توانائی کو سمیٹ کر مہمل سے ایک بامعنی کلمے کا سفر کیا تھا جس میں کئی ماہ کی سپیچ تھیراپی کی کوششیں بھی شامل تھیں۔ تب مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ سماعت کو بصارت پر فوقیت کیوں حاصل ہے۔ نابینا کتنی آسانی سے بول سکتے ہیں اور سیکھ سمجھ لیتے ہیں۔ مگر میرے لیے حروف جو کتابوں پر الفاظ کی صورت جگمگاتے ہیں ایک پہیلی کیوں بنے رہتے ہیں۔ کاغذ پر لکھے اس لفظ کا یہ مطلب ہے ؟ اتنی سی بات سیکھنے میں مجھے کتنی مشقت اٹھانا پڑتی رہی اور سننے والے کیسے آرام سے وہ سب الفاظ اپنی زبان سے ادا کر دیتے ہیں۔ جہاں میں ایک چھوٹا سا لفظ، جو دن رات میری ہر طرح کی ضرورت پوری کرتی مشکلیں سہتی، حوصلہ بڑھاتی ماں کے وجود کا اظہار کر رہا تھا۔
“ماما۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماما۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
کس کرب سے گزر کر ادا کر پائی گویا اس لفظ کو میں نے اپنے شعور کی کوکھ سے خود جنم دیا ہو۔
اور ماں یہ لفظ سن کر خوشی سے سرشاری سے کتنا روئی تھی۔ کہ میں فوری طور پر خود پر گزری بات بھی نہ بتا پائی۔
اس حادثے کے بعد بجائے خوف زدہ ہونے کے میں نے ہمت اور جرأت سے حالات اور لوگوں کا سامنا کرنا سیکھا۔ زبان ہوتے ہوئے بھی زبان بریدہ ہونے کا احساس تو باقی رہا لیکن اسے اپنی رکاوٹ نہ بننے دیا مسلسل کوشش اور محنت سے تعلیمی مدارج طے کرتی چلی گئی۔ اپنی ہر محرومی اور اندرونی دباؤ کے مرتبان پر ایک ڈھکن رکھ دیا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک ایک ادارے میں مجھے جاب مل گئی۔ یوں اپنی ذات کے ادراک کے سفر میں کئی اچھے برے دنوں سے گزرتی اعلی تعلیم کے دوران اور پھر نوکری پر اپنے بیرونی اور اندرونی دباؤ کے خلاف ڈٹی رہی ہوں۔
محبت شادی اپنا گھر بار یہ سب ابھی تک میرے لیے پہیلیاں ہی ہیں۔ شاید کسی دن یہ پہیلیاں بھی سلجھ جائیں یا شاید ہمیشہ الجھی رہیں۔ تنہائیاں کبھی کبھی عذاب بن جاتی ہیں۔ طاقت گفتار نہ ہو تو اپنا معمولی درد بھی بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ماں بن کہے ہی سب سمجھ جاتی تھی مگر اسے جانے کی جلدی تھی وہ مجھے بہت جلد چھوڑ گئی۔ پھر یہ عالم ہوا کہ نوکری کے ساتھ اپنے کام کاج کرتے کبھی تھکن کا گلہ بھی نہ کر سکی۔ کسی کو یہ نہیں بتا سکی کہ سر میں درد بھی ہے۔ میری خواہش کیا ہے یا میں سوچ کیا رہی ہوں میرے بھی کچھ خواب ہیں۔ تنہائی سی تنہائی ہے۔ بھائی اور اسی سال گھر میں آنے والی بھابھیاں اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے جا چکے ہیں۔ اور منجمد کر دینے والے سرد موسم میں گیس ہیٹر جلائے میں اپنی یادوں کی پٹاری کھولے حروف سے الفاظ بن کر انہیں رقم کر رہی ہوں۔ یہ الفاظ ہی میری آواز ہیں۔ یہ اب مہمل نہیں رہے، کلمہ بن کر خاموشی کی زبان مین دیر تک مجھ سے گفتگو کرتے ہیں۔ یہی اب میرے سچے ساتھی ہیں۔
٭٭٭