وہ بستر سے اٹھی۔ اپنے لانبے سیاہ بالوں کو ہاتھوں سے برابر کرکے ان کا جوڑا بنایا پھر دریچے کی جانب گئی۔ پردہ ہٹا کر باہر جھانکا، جاڑوں کی نرم سنہری دھوپ نے سارے ماحول کو سنہری لباس پہنا دیا تھا۔
نومبر کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ ہلکی سردی تھی۔ اس نے اپنی گہری سبز رنگ کی مخملیں شال کاندھوں پر ڈالی۔ نیچے اتری۔ گھر کے سب لوگ سو رہے تھے۔ برآمدے میں پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کے سامنے سبز لان پھیلا ہوا تھا۔ شبنم آلود سبزہ، پھول، پتے، جھاڑیاں، درختوں کی شاخیں، ٹہنیاں عجیب سی مہک کا جادو جگا رہی تھیں۔ پھر اس کی نظر ننھی منی پھدکتی ہوئی چڑیوں پر پڑی جو گھاس میں اپنی غذا تلاش کررہی تھیں۔
’’کتنی خوش نصیب ہیں یہ چڑیاں۔ نہ کوئی غم، نہ کوئی فکر۔‘‘ ایک تلخ مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی۔
اس نے گردن کو صوفے سے ٹیک دیا۔ اس کی نیم وا آنکھوں کے سامنے کالے رنگ کی وہ فائل آگئی جو َحسن اسے دے گیا تھا۔ اس فائل میں جو کاغذات بند تھے وہ اس کے اور حسن کے زندگی کے درمیانی دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے جارہے تھے۔ اس کے دستخط کرنے کی دیر تھی۔ وقت الٹے قدموں چل کر صدف کو اس ساعت، اس دن اور اس شام تک پہنچا گیا تھا جب اسے پہلی بار پتا چلا تھا کہ اسے تایا ابو نے اپنے بیٹے حسن کے لیے مانگ لیا تھا، اور یہ بات پورے خاندان کو پتا چل گئی تھی کہ اس کی شادی حسن سے ہوگی۔
حسن اس کا تایازاد بھائی ہی نہیں تھا، بلکہ اس کا ہم جولی بھی تھا۔ دونوں ساتھ ہی بڑے ہوئے تھے۔ ہر کام میں ساتھ، ہر کھیل میں ساتھ۔ معمولی سے فرق کے ساتھ کہ بسااوقات وہ بے رحمی اور درشتی کا برتاؤ کرتا، جب کہ صدف ہمیشہ اس کی مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح دیتی۔ کھیل کود میں بھی وہ جان بوجھ کر حسن سے ہار جاتی۔ وہ اس کی ہار کا مذاق اڑاتا، ہر معاملے میں اَپ رہنا چاہتا۔ صدف خود بھی حسن کو اونچے سے اونچا دیکھنا چاہتی تھی۔ شاید وہ حسن کو چاہنے لگی تھی۔
تایا ابو نے جیسے ہی شادی کے لیے کہا بابا راضی ہوگئے۔ یوں بھی بابا جان تایا ابو کی کوئی بات نہیں ٹالتے تھے اور حسن، بابا جان کی پسند بھی تھا۔ حسن، تایا ابو اور تائی امی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ شادی کی دھوم دھام بہت دنوں چلی اور دونوں جانب سے سارے ارمان نکالے گئے۔
شادی شدہ زندگی میں وہ حسن کے ساتھ خوش اور مطمئن تھی۔ سب سے اچھی بات کہ صدف سارے خاندان کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی تھی۔ یہ اور بات حسن کبھی قدردانی کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا۔ شادی سے قبل بھی جب وہ اس کا کوئی کام نمٹا دیتی تو تھینکس کہنے کے بجائے کہتا، ’’تم نہیں کرتیں تو کوئی اور کردیتا۔‘‘ لیکن جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آتا بھی اسی کے پاس۔
ایک دن آیا اور کہنے لگا، ’’میرے ساتھ چلو تحفہ خریدنا ہے سال گرہ کے لیے۔‘‘
’’کس کی سال گرہ ہے؟‘‘ صدف نے پوچھا۔
’’بس تم ایک ٹیچر کی طرح سوال جواب شروع کردیتی ہو۔‘‘ حسن نے چڑنے کے انداز میں کہا۔
صدف کی جانب سے خاموشی دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ اس کی بات بری لگی ہے۔ بولا، ’’مراد (اس کا دوست) کی سال گرہ ہے۔‘‘
تحفہ خریدنے کے بعد بولا، ’’تم نے ایک ذرا سی چیز خریدنے میں کتنی دیر لگا دی۔‘‘
شادی کے تھوڑے دنوں بعد تایا ابو صدف کو اپنے ساتھ آفس لے جانے لگے۔ ساتھ ہی اس نے شام کی شفٹ میں بی بی اے میں داخلہ لے لیا۔ تھوڑے دنوں کے اندر ہی وہ آفس کے معاملات کافی سمجھ گئی تھی۔ تایا ابو بہت خوش تھے، مگر حسن خوش نہیں تھا۔ ایک آدھ بار اس نے کہا بھی، ’’صدف کو ان الجھنوں میں الجھانے سے کیا ملنا ملانا، بالآخر اسے خاتونِ خانہ کے فرائض انجام دینے ہیں۔‘‘ تایا ابو نے اس کے جواب میں ہمیشہ صرف اتنا کہا، ’’ہمیں آفس میں ضرورت ہے۔‘‘
صدف، اس کے تایا ابو اور حسن آفس اور بزنس میں مصروف رہتے۔ بزنس ترقی کررہا تھا۔ صدف، حسن کے ساتھ بزنس کے سلسلے میں پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ بیرونِ ملک لندن، فرانس، امریکا وغیرہ آتی جاتی رہتی۔ حسن بھی اسے آفس کے معاملات میں برداشت کرنے لگا تھا۔ تائی امی نے اپنی پوتی علینہ اور پوتے ریحان کے ساتھ ساتھ پورے گھر کی ذمے داری سنبھالی ہوئی تھی۔ کلثوم اور بانو تائی امی کی مدد کے لیے تھیں۔ گھر سے باہر اور گھر کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ وقت کا پنچھی بغیر آواز اُڑے جارہا تھا۔ کسی کو پتا تک نہ چلا کب علینہ نے گریجویشن اور ریحان نے انٹر پاس کرلیا۔ کاروبار دور و نزدیک پھیلا ہوا تھا، گھر بھی صحیح چل رہا تھا، لیکن ملک کے حالات روز بہ روز بگڑتے جارہے تھے۔ بہ قول تایا ابو، ’’پاکستان بنتے بنتے بگڑ گیا تھا یا بن ہی نہیں پایا تھا۔ مادّی طور پر وہ دو لخت تو ہو ہی چکا تھا، لیکن روحانی طور پر وہ لخت لخت تھا۔ پنجابستان، سندھستان، بلوچستان، پختونستان۔‘‘ پاکستان کے باسیوں کی وفاداریاں بھی لخت لخت تھیں۔ سیاست، سیاسی کشاکش کے محور گنتی کے چند افراد کے اور خاندانوں کے مفادات تھے۔ وطن کے مفادات کو اور وطن کے تصور کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا۔
ان حالات کے تحت فیصلہ کیا اور ریحان کو انگلینڈ (پڑھنے کے لیے) بھیج دیا۔ ملک کے حالات جوان لڑکوں کے لیے سازگار نہیں تھے۔
پھر اچانک تایا ابو بیمار ہوگئے۔ ان کی بیماری روز بہ روز بڑھتی جارہی تھی۔ تایا ابو نے خواہش ظاہر کی کہ علینہ کی شادی کردیں۔ آپی نے اپنے بیٹے ثاقب کے لیے علینہ کو مانگا ہوا تھا۔ امی اور بابا جان جو آپی کے ساتھ امریکا جابسے تھے، ان کی بھی مرضی یہی تھی۔ تایا ابو بھی اس رشتے سے بہت خوش تھے۔ تائی امی اور حسن کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔
رضامندی کا اظہار ہوتے ہی بابا جان، امی اور آپی اپنے پورے خاندان کے ساتھ آئیں اور دھوم دھام سے علینہ کو بیاہ کر امریکا لے گئیں۔ ریحان بھی لندن سے بہن کی شادی میں شرکت کرنے آیا۔
صدف ان مصروفیات کے سبب کافی لمبے عرصے سے آفس نہیں گئی تھی۔ تایا ابو کی علالت، علینہ کی شادی، بہت مصروف وقت گزرا تھا۔ آفس کے سارے کام حسن نے سنبھالے ہوئے تھے۔
ایک دن فرصت پاکر صدف آفس گئی۔ حسن کے کمرے میں روزی بیٹھی ہوئی تھی۔ روزی بابا جان کے ایک دوست کی بیٹی تھی۔ ’’تم یہاں کیا کررہی ہو؟ اور حسن کہاں ہیں؟‘‘ صدف نے روزی سے پوچھا۔
’’میڈم! میں سر کی پی اے ہوں۔ سر کسی کام سے ابھی باہر گئے ہیں۔‘‘ روزی جو صدف کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی تھی، اس نے کہا۔
’’اوہ ہاں! میں بھول گئی تھی، مجھے حسن نے بتایا تھا۔‘‘ صدف نے اپنی لاعلمی اور سبکی کو چھپاتے ہوئے کہا۔
صدف شدید صدمے سے دوچار ہوئی تھی کہ حسن نے اس سے یا تایا ابو سے مشورہ بھی نہیں لیا۔ اس سے پہلے بھی حسن نے کئی بار روزی کو صدف پر ترجیح دی تھی، حسن نے روزی پر ایسی نوازشات کی تھیں جن کی وہ کسی بھی رشتے سے حق دار نہیں تھی۔ صدف نے حسن کے اس رویے کو محسوس بھی کیا تھا۔
کہیں حسن اور روزی۔۔۔۔۔ صدف نے سوچا، پھر خود ہی اپنے خیالات کو جھٹک دیا۔ نہیں نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں، یہ محض میرا وہم ہے۔
ڈنر کے بعد جب صدف اور حسن تنہا رہ گئے تو صدف نے حسن سے پوچھا، ’’آپ نے تایا ابو سے یا مجھ سے مشورہ تک نہیں کیا کہ آپ روزی کو اپنا پی اے بنا رہے ہیں۔‘‘
’’ابو تو بیمار ہیں، ان کو پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا اور تم ایک لمبی نصیحت کرنے بیٹھ جاتیں۔ میں تھک گیا ہوں، مجھے نیند آرہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بیڈ روم کی جانب روانہ ہوگیا۔
صدف کو اس کے اس رویے سے بہت تکلیف ہوئی، لیکن اس نے صبر کیا۔ تایا ابو سے بھی وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔
تایا ابو کی بیماری زور پکڑ گئی۔ علاج کے لیے بیرونِ ملک لے جانا چاہا، مگر ڈاکٹرز نے کہا، کوئی فائدہ نہیں۔ اور پھر ایک دن تایا ابو سب کو چھوڑ کر چلے گئے۔
تایا ابو کے جانے سے خاندان کے ہر فرد پر کچھ نہ کچھ گزر گیا۔ وہ پورے خاندان کا مرکز بھی تھے اور محور بھی، اور تو اور گھر کے ملازموں پر بھی بہت کچھ گزر گیا، لیکن صدف پہ جو گزرا وہ شاید کسی پر نہ گزرا ہو۔ وہ بالکل تنہا ہوگئی تھی۔ تایا ابو اس کے بہت اچھے دوست بھی تھے۔ ہر کام وہ ان کے مشورے سے کرتی، ہر بات ان سے شیئر کرتی تھی۔ ان کے جانے سے صدف کی زندگی میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا تھا۔
سوگ کے دن گزرنے کے بعد صدف نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے آفس کا رخ کرنا چاہا، مگر حسن نے یہ کہہ کر روک دیا تھا، ’’امی بالکل اکیلی ہوگئی ہیں۔ ان کی دل جوئی کی ضرورت ہے۔ تھوڑے دن اور رک جاؤ۔‘‘
حسن کے اسلام آباد کے چکر زیادہ لگنے لگے تھے۔ وہ جہاں جاتا روزی کو اپنے ساتھ لے کر جاتا۔ کراچی میں رہتے ہوئے بھی اکثر رات دیر سے گھر آتا۔ صدف اندر ہی اندر یہ سب محسوس کررہی تھی، لیکن خاموش تھی۔
ایک دن ناشتے کے بعد حسن نے ایک فائل صدف کے سامنے رکھ دی اور بولا، ’’تمھارے دستخطوں کی ضرورت ہے۔ میں آفس جارہا ہوں، تم ان پر سائن کردینا۔‘‘
’’یہ کیسے کاغذات ہیں؟‘‘ صدف نے حسن سے پوچھا۔
حسن جو ناشتے کی میز سے کھڑا ہوگیا تھا، دوسری جانب پلٹا اور نیچی نظریں کرکے بولا، ’’طلاق کے کاغذات ہیں۔‘‘ پھر تیز تیز قدم رکھتا ہوا صدف سے دور سے دور ہوتا چلا گیا۔
یہ سن کر صدف سن ہوگئی، بے جان، ایک مورتی کی طرح۔
’’حسن نے میری اور اپنی زندگی کے بائیس سال کو ان تین لفظوں میں سمیٹ کر پھینک دیا۔‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
میں نے حسن کو ٹوٹ کر چاہا۔ بچپن سے لے کر لمحۂ موجود تک ایک ہم جولی، ایک دوست، ایک چاہنے والی منگیتر، ایک فرماں بردار، مزاج شناس، محبت کرنے والی بیوی جس نے اپنے خاوند کی ہر بے رخی کو نباہا، لیکن پلک جھپکتے میں اس کا سارا ماضی، حال، مستقبل ایک سیاہ فائل کے اندر بند— میرے دستخط کا منتظر، بے بس و لاچار پڑا تھا۔
وہ دن گزر گیا۔ پیر کا دن۔ صبح سے شام ہوئی، وہ اسی طرح بیٹھی رہی۔ سورج آہستہ آہستہ غروب ہوا کسی اور جگہ طلوع ہونے کے لیے۔ لان میں شام کا سماں بندھا۔ پھول، پتے اور نرم ٹہنیاں شام کی مخصوص مہک پھیلا کر نیند کی مستی میں آنے لگے۔ چڑیاں گھونسلوں میں لوٹنے اور ان پر قبضہ جمانے کے لیے لڑنے بھڑنے اور معمول کی چیخ پکار مچا کر چپ ہوگئیں۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے بدن کو کرسی سے جدا کیا اور بوجھل قدموں سے اپنی خواب گاہ میں گئی۔ کالی فائل کو قفل بند کیا۔ بستر کی جانب لوٹی تو دیکھا اس کے بستر پر کالی فائل پڑی ہے۔ ’’اس فائل کو تو میں نے اہم مسودات کی خفیہ دراز میں قفل بند کیا تھا، یہ کس طرح میرے بستر پر آگئی؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ اپنی دونوں آنکھوں کو اچھی طرح ملا اور دیکھا بستر پر تو ہر جانب کالی فائلیں رکھی ہوئی تھیں۔ حسن گھر نہیں لوٹا تھا، بستر کو تو خالی ہونا چاہیے تھا۔ اس پر تو اتنی جگہ بھی نہیں تھی کہ وہ اپنے قدرے لمبے، لیکن پھولوں کی ڈالی جیسے نازک اور لچک دار بدن کو سمٹا سکڑا کر اس میں سما جاتی۔ کچھ دیر وہ کھڑی سوچتی رہی پھر باہر نکل کر وہ اس کمرے میں چلی گئی جو مہمانوں کے لیے مختص تھا۔ دل ہی دل میں اس نے کلثوم بوا کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس گھر کی روایت نباہتے ہوئے کمرے کو صاف ستھرا رکھا تھا۔ بستر کی چادر کو تھوڑا سا جھٹک کر وہ اس پر ڈھیر ہوگئی۔
صبح کو ہونا تھا، ہو ہی گئی۔ اس نے صوفے پر سے سر اٹھایا، اٹھی اور اپنے کمرے میں پہنچی۔ بستر خالی تھا۔ سیاہ فائل یا فائلیں اپنی جگہ پہنچ چکی تھیں۔ حسن نے رات گھر سے باہر گزاری تھی۔ کمرہ کاٹ کھائے جارہا تھا۔ صدف الٹے پاؤں کمرے سے باہر نکلی۔ نیچے سے آوازیں آرہی تھیں۔ تائی امی کی آوازیں، ریحان کی آوازیں۔
یااللہ یہ مجھے کیا ہورہا ہے؟ رات میں بستر پر ڈھیر ساری کالی فائلیں اور صبح سویرے ریحان کی آواز کا دھوکا، بصارت کے ساتھ سماعت بھی ساتھ چھوڑے دے رہی تھی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں سے اپنے کانوں کو بند کیا اور لوبی کی ریلنگ سے لگ کر کھڑی ہوگئی اور نیچے دیکھنے لگی۔ ایک بار پھر ریحان کی آواز گونجی، ’’بات کیا ہے؟ امی آخر نیچے کیوں نہیں آرہی ہیں؟‘‘
صدف اس آواز کو سن کر اپنے آپ کو روک نہ سکی۔ ممکن ہوتا تو وہ ریلنگ سے کود پڑتی۔ وہ ہوا میں اڑتی ہوئی زینے کی طرف لپکی اور زینے کے بیچوں بیچ ماں بیٹے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئے۔ ’’ممی کیسا رہا یہ سرپرائز؟‘‘ ریحان نے کہا۔
’’یو ناٹی بوائے۔‘‘ صدف کے منہ سے نکلا اور ریحان سے لپٹی ہوئی نیچے چلی گئی۔ دونوں تائی امی کے پاس جابیٹھے۔ کلثوم اور بانو بھی ان کی محفل میں شریک ہوگئیں، کیوںکہ ریحان سے ان کا بھی قریبی تعلق تھا۔ ریحان کی پرورش میں ان دونوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔
کچھ وقت اس تجدیدِ محبت میں گزرا پھر سب نے مل کر ناشتا کیا۔ ’’ڈیڈ کہاں ہیں؟ انھوں نے ہمارے ساتھ بریک فاسٹ بھی نہیں کیا ہے۔‘‘
’’حسن نے تو آج ناشتا بھی نہیں کیا۔ جلدی آفس چلا گیا۔‘‘ صدف کے کچھ کہنے سے پہلے تائی امی نے افسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’میں ڈیڈ کو فون پر سلام کرلیتا ہوں۔ ممی آپ ڈیڈ کا فون ملا کر مجھے دے دیں۔ ان کو بھی تو ’سرپرائز‘ ملے۔‘‘
’’اوکے۔‘‘ صدف بولی۔
’’ممی آپ فون نہ ملائیں۔ میں آفس چلا جاتا ہوں۔ وہیں ان سے مل لوں گا اور ساتھ ہی گھر لے آؤں گا لنچ کے لیے۔‘‘ ریحان اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔
’’ریحان گھر کی گاڑی نہیں نکالنا، ٹیکسی میں جانا۔‘‘
’’کیوں ممی؟‘‘ ریحان نے باہر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
’’نو آرگیو منٹ۔ اوکے۔ آرڈر از آرڈر۔‘‘ صدف نے کہا۔
تائی امی ہنسنے لگیں، ’’آرڈر از آرڈر۔‘‘ انھوں نے صدف کا فقرہ اپنے خاص لہجے میں دہرایا اور بولیں، ’’اچھا کیا، بائیں ہاتھ اور دائیں ہاتھ کی ٹریفک کا فرق گاڑی ڈرائیو کرنے میں مشکل پیدا کرسکتا ہے۔‘‘
صدف نے تائی امی کو حسن کی دی ہوئی کالی فائل کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔ وہ مسلسل بیمار رہنے لگیں تھیں۔ ان کا بلڈ پریشر ذرا سی بات پر بہت ہائی ہوجاتا تھا اور شوگر بھی مسلسل بڑھی رہتی۔ ایسی حالت میں ان کو صدمہ پہنچانے کا بوتا اس میں نہ تھا۔ اس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی ماں کو یہ خوش خبری خود ہی سنائے اور ان کے بگڑنے کو خود ہی سنبھالے۔
تائی امی اپنے کمرے میں آرام کرنے چلی گئیں۔ کلثوم اور بانو اپنے کاموں میں لگ گئیں۔ صدف جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھی رہی۔ ریحان اچانک لندن سے آگیا تھا۔ اس کا آنا ایسا تھا جیسے گھپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن۔ اس نے فیصلہ کرلیا، وہ ریحان کو فوری طور پر کالی فائل کے بارے میں کچھ نہیں بتائے گی۔
آفس گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ صدف کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ریحان اس کے سامنے آکھڑا ہوا، لیکن حسن اس کے ساتھ نہیں تھا۔
ریحان صوفے پر نیم دراز ہوگیا۔ ریحان کے چہرے پر پہلی جیسی شادمانی نہیں تھی۔
’’کیا ہوا تمھارے ڈیڈ ساتھ نہیں آئے؟‘‘ صدف نے پوچھا۔
’’ڈیڈ کے آفس میں کوئی ’میٹنگ‘ چل رہی تھی۔ میں نے اندر جاکر اشارے سے ان کو ’ہیلو‘ کہا۔ وہ باہر آئے مجھے ساتھ لے کر، مجھ سے ہاتھ ملایا۔ مجھے لپٹالیا اور بولے، ’ویلکم ہوم! میٹنگ جیسے ہی ختم ہوگی میں گھر رش کروں گا۔ تم گھر جاؤ، گھر پر ہی باتیں ہوں گی۔ سی یو سون۔‘‘
اتنا کہہ کر ریحان خاموش ہوگیا۔ خاصی دیر دونوں ماں بیٹے اپنے اپنے خیالوں میں گم رہے پھر ریحان نے خاموشی کو توڑا، ’’ممی! روزی ڈیڈ کے آفس میں کب سے ہے؟‘‘ ریحان نے پوچھا۔
’’ٹھیک سے تو یاد نہیں، ہوگی چند ایک ماہ سے۔‘‘ صدف نے سرسری جواب دیا۔
’’کیا آپ نے آفس جانا ترک کردیا ہے؟ اور تعجب ہے آپ نے روزی کو اپنے آفس میں کیسے رکھ لیا؟‘‘ ریحان نے صوفے پر سیدھا بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’مصروفیات کی وجہ سے آفس جانا مشکل ہوگیا تھا۔ روزی کو میں نے نہیں تمھارے ڈیڈ نے رکھا ہے۔ ان کو ایک پی اے کی ضرورت تھی، لیکن اس میں تعجب کی کون سی بات ہے؟‘‘ صدف نے پورے انہماک سے بیٹے کا چہرہ پڑھتے ہوئے پوچھا۔
’’او، ممی— ممی! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگ روزی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔‘‘ ریحان کھڑا ہوگیا اور اپنی پرانی عادت کے مطابق حالتِ اضطراب میں پورے دالان کا ایک چکڑ کاٹ کر صدف کے پاس قدموں میں قالین پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا، پھر دوبارہ کھڑا ہوگیا۔
’’کچھ بتاؤ گے بھی یا سسپنس بنائے رکھو گے۔‘‘ صدف نے اس کو دوسری گردش سے روکنے کے لیے کہا۔
وہ رک گیا۔ دوبارہ نیچے بیٹھ گیا پھر ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا، ’’اُف ممی، کیا بتاؤں۔ انکل وقار (روزینہ کے والد) نے اس کو قانونی طور پر اپنے سے غیر متعلق کر رکھا ہے۔ وہ بچ (کتیا) ہے، اس نے لندن میں دو آدمیوں کو اپنا شکار بنایا، ایک انگریز اور ایک انڈین۔ انگریز جیل گیا، انڈین نے خودکشی کرلی۔ اس کا ایک گینگ ہے، ممی۔‘‘
’’یااللہ! یہ میں کیا سن رہی ہوں۔ دیکھنے میں تو وہ ایک عام سی لڑکی لگتی ہے۔‘‘ صدف نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اس کے اندر سے حسن کے لیے تشویش کی ایک موج ابھر آئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حسن، روزی اور اس کے گینگ کے ٹریپ میں پھنس گئے ہیں۔
صدف صوفے سے کھڑی ہونے لگی، ایک بے اختیاری کے عالم میں، اس نے دوڑ کر آفس جانا چاہا حسن کو روزینہ سے بچانے کے لیے۔ پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور صوفے پر ٹک گئی۔
اس کی بات کون مانے گا؟ حسن— جس نے اس کو کالی فائل کی سوغات دی ہے۔
صدف کی بے بسی اور لاچاری نے اس کے اندر کے اٹھتے ہوئے محبت اور ہم دردی کے طوفان کو ابھرنے سے روک دیا، یا پھر نسائی وقار آڑے آگیا، ’’روزینہ— ایک عام سی لڑکی۔‘‘ صدف کے منہ سے نکلا۔
’’ممی! اس کو تو لڑکی بھی نہیں کہہ سکتے۔ وہ عورت نہیں— ناگن ہے، سانپ ہے۔‘‘
ریحان اپنے ہر لفظ پر زور دے دے کر کہہ رہا تھا۔
’’اچھا یہ بتاؤ، تمھاری روزینہ سے ہائی، ہیلو یا کچھ بات ہوئی؟‘‘ صدف نے سوال کیا۔
’’ہائی، ہیلو، بات چیت— ممی جیسے ہی ڈیڈ مجھ سے بات کرکے میٹنگ میں لوٹے میں اس کی طرف پلٹا۔ میں نے دیکھا اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں، ٹانگیں ہی نہیں، وہ سر سے پاؤں تک لرز رہی تھی۔ اس کا چہرہ سپید پڑگیا تھا اور آنکھیں— خود غرض بھوری آنکھیں پھٹی جارہی تھیں۔ اس سے پہلے میں اس سے مخاطب ہوتا، اس نے دائیں ہاتھ میں تھامے ہوئے قلم اور بائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی نوٹ بک قریبی پڑے ہوئے اسٹول پر رکھی اور قریب قریب دوڑتے ہوئے قدموں سے میری نظروں سے غائب ہوگئی۔ میں اس کی جانب دیکھتا ہی رہ گیا۔ ایک دو قدم اس کے پیچھے چلا بھی، اس کی نوک دار ہیل آفس کے فرش پر بڑی دیر تک آواز پیدا کرتی رہی، جو عام حالات میں بے آواز چلتی ہوگی۔ اس کے پیچھے میں بھی آفس سے باہر نکل گیا۔ باہر اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔‘‘
ریحان اس طویل ڈرامائی تصویر کشی کے بعد اپنی ماں کا چہرہ پڑھنے لگا، شاید ردِعمل جاننے کے لیے۔ صدف کا چہرہ جو حسن کے لیے ذہنی اور دلی تشویش کی آماج گاہ بنا ہوا تھا، بیٹے کا بیان سننے کے بعد قدرے تعجب سے بھی آمیز ہوگیا تھا۔
’’ممی! آپ تو اب سمجھ ہی گئی ہوں گی کہ روزی کے حساب سے میں خلافِ توقع قبل از وقت پاکستان آٹپکا تھا، اور آپ یہ بھی جان چکی ہوں گی کہ وہ مجھے دیکھ کر کیوں رفو چکر ہوگئی۔‘‘
صدف کو ریحان کی باتیں سمجھ میں آرہی تھیں اور نہیں بھی۔ وہ خود اپنی حالت کو بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں سکتی تھی۔ ریحان کو کوئی نہ کوئی جواب دینا ضروری ہوگیا تھا۔
’’آگے تم کیا کرنے والے ہو؟ میرا مطلب یہ ہے تم ڈیڈی کو روزینہ کے بارے میں سب کچھ بتاؤ گے؟‘‘
’’تو کیا آپ یہ چاہتی ہیں، میں کچھ نہ بتاؤں؟‘‘
’’ضرور بتاؤ، لیکن ذرا دھیرج سے۔ روزینہ ان کی گڈ بک میں ہے۔‘‘
’’روزینہ تو گئی ممی۔ اس کو تو بھول جائیے۔ جیسے ہی ڈیڈ میٹنگ سے فارغ ہوں گے، اسی کے بارے میں تحقیق کریں گے۔ میٹنگ چھوڑ کر اس کا فرار ہوجانا، کیا وہ اس کو نظر انداز کردیں گے؟‘‘
’’ریحان تمھارے خیال میں اب کیا ہونے والا ہے؟‘‘
’’ممی آپ دیکھتی جائیے۔ میں ڈیڈی سے اس سلسلے میں کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میں لنچ کے بعد ڈیڈی کے ساتھ آفس جاؤں گا۔ پھر دیکھتے ہیں وہاں کیا پیش آتا ہے؟‘‘
’’ریحان بیٹے تم اتنے دنوں سے لندن میں ہو، لیکن ابھی بھی تم بہت اچھی اردو بولتے ہو۔‘‘
’’وہاں پر تو انگریزی بولتے بولتے میرے جبڑے دکھ جاتے ہیں۔ کوئی اردو بولنے والا مل جاتا ہے تو ہم جھٹ سے اردو بول کر اپنے اپنے جبڑوں کو آرام دینے لگتے ہیں۔‘‘ ریحان نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’انگریزی بولنے سے جبڑے دکھنے لگتے ہیں— سنا آپ نے تائی امی۔ آپ کا شریر پوتا کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ صدف تائی امی سے مخاطب ہوئی جو اس دوران ان کے درمیان آکر بیٹھ گئی تھیں۔
’’کیا کہہ رہے ہو ریحان بیٹے؟ ہمیں بھی بتاؤ۔‘‘ تائی امی نے ریحان کو براہِ راست مخاطب کرلیا۔
ریحان جو تائی امی کے آتے ہی ادب سے کھڑا ہوگیا تھا اور ان کے نزدیک چلا گیا تھا، ہنستے ہوئے بولا، ’’کچھ نہیں دادی۔ بس یوں ہی مذاق کررہا تھا۔‘‘
’’صاحب زادے انگریزی بولتے ہیں تو ان کا منہ دُکھنے لگتا ہے۔‘‘ صدف نے تائی امی سے وضاحت کی۔
تائی امی ہنسنے لگیں اور ریحان کو کھینچ کر لپٹا لیا اور بولیں، ’’یہ پڑھائی وڑھائی چھوڑو اور لندن سے بھاگ آؤ۔ کیا کرو گے اتنا سارا پڑھ لکھ کر۔ کاروبار ہی تو سنبھالنا ہے۔ کوئی مدرسہ، کالج تو نہیں چلانا ہے۔‘‘
باتیں چلتی رہیں۔ اسی دوران حسن بھی آگئے۔ صدف کے اشارے پر کلثوم نے ڈائننگ ہال میں لنچ لگا دیا حسن اور ریحان کے لیے، اور صدف نے تائی امی کے ساتھ ان کے کمرے میں کھایا پیا۔ پھر تائی امی قیلولہ کرنے کے لیے لیٹ گئیں۔ صدف تائی امی کے کمرے سے باہر نکلی تو اس نے دیکھا دونوں باپ بیٹے آفس جاچکے ہیں۔ وہ گھر کے اس کمرے میں چلی گئی جو اس کمرے سے لگا ہوا تھا جس میں کالی فائل قبضہ جمائے بیٹھی تھی، لیکن اس سے جدا تھا۔
ریحان اپنے کسی تعلیمی پروجیکٹ کے سلسلے میں پاکستان آیا تھا۔ وہ لندن یونی ورسٹی سے سی اے کرنے کے ساتھ ساتھ بزنس ایڈمنسٹریشن کا کورس بھی کررہا تھا، شاید شام کی شفٹ میں۔ اسی ہفتے وہ انگلستان لوٹ گیا۔ روزینہ، حسن کے آفس واپس نہیں لوٹی۔ ریحان نے حسن کے ساتھ مل کر آفس کے سیٹ اپ میں تبدیلیاں اور تین آفس اسسٹنٹ کو فارغ کیا۔ روزینہ نے ان تینوں کو ساتھ ملا کر جعلی دستاویز تیار کرلی تھیں۔ قریب تھا کہ ایک اٹارنی پاور کے بونڈ پر حسن کے دستخط حاصل کرکے وہ حسن کے سارے مقامی اور بین الاقوامی بزنس کی مالک بن جاتی۔ شادی تو حسن اس سے کرنے ہی والے تھے۔ صدف کو یہ پتا نہ چل سکا کہ شادی والا معاملہ ریحان کے علم میں آیا تھا یا نہیں۔
بیٹے کے جانے کے بعد صدف نے حسن سے ہر طرح کا تعلق ترک کر رکھا تھا۔ البتہ تائی امی کے سامنے وہ حسن سے ایک آدھ بات کرلیتی تھی۔ تائی امی یوں بھی اپنے بیڈ کی ہوکر رہ گئی تھیں۔ کلثوم ان کی خدمت میں جٹ گئی تھی۔
صدف ان کی ہر طرح سے دل جوئی کرتی رہتی۔ پھر یہ ہوا کہ تائی امی نے بات چیت ترک کردی۔ کبھی زبان کھولتی بھی تھیں تو جو کچھ وہ بولتیں، سمجھ میں نہیں آتا۔ اپنی زندگی کے ماضی بعید میں جاچکی تھیں۔ ان کی باتوں کو وہی سمجھ سکتا تھا جو ان کے ساتھ بچپن میں رہا ہو، لیکن قریب و دور کوئی ایسا متنفس موجود نہیں تھا۔ تائی امی بھی زیادہ دن نہ رہ سکیں۔ سب کو اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر چلی گئیں، ماسوا ان کی یاد کے۔ وہ تھیں بھی ہمیشہ ہمیشہ یاد آتے رہنے والی خاتون۔
تائی امی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے دور و نزدیک کے رشتے داروں کے علاوہ بہت سارے غیر لوگ بھی آئے جو ان سے محبت کرتے تھے۔ ریحان صرف تین دن کے لیے آیا، اس کے اہم ترین ٹیسٹ چل رہے تھے۔ حسن نے اپنا آفس چار پانچ روز بند رکھا۔ صدف بابا جان کے ساتھ نیویارک روانہ ہوگئی۔ وہاں اس کے لیے مصروفیات کی کمی نہیں تھی۔ بابا جان نے آپی کے ساتھ ان کے کاروبار میں پیسے لگائے ہوئے تھے اور ’’ڈالر اسٹور‘‘ بھی کھول رکھا تھا۔
حسن نے بابا جان کو فون کیا، بابا جان نے حسن سے بات کی اور پھر فون صدف کو پکڑا دیا۔ صدف فون ہاتھ میں لے کر وہاں سے دور کھسک گئی۔
’’ہیلو۔‘‘ حسن نے کہا۔
صدف خاموش رہی۔ پھر حسن نے کہا، ’’ہیلو ڈیئر! تم ابھی تک مجھ سے ناراض ہو۔‘‘
صدف نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اپنی خاموشی برقرار رکھی۔
کچھ دیر سکوت کے بعد حسن پھر بولا، ’’معافی مل سکے گی؟‘‘
صدف نے نہ تو فون بند کیا اور نہ ہی کچھ بولی۔ بالآخر حسن کو ہی فون بند کرنا پڑا۔
ایک سنڈے حسن اچانک نیویارک پہنچ گیا۔ بابا جان اور آپی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خوب خاطریں کیں۔ صدف نے دکھاوے کے لیے بھی اس سے ’ہوں ہاں‘ نہیں کی۔ ایک دن اس نے تنہائی میں صدف کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے کہا، ’’مسٹر حسن، آپ ایک شریف خاتون کا ہاتھ بغیر اجازت پکڑے ہوئے ہیں۔‘‘
حسن نے ہاتھ چھوڑ دیا۔ حسن کو ایئرپورٹ سی آف کرنے سب لوگ گئے، بابا جان بھی اپنی ضعیفی کے باوجود گئے، وہ ان کے چہیتے بھائی کا بیٹا بھی تھا۔
صدف نہیں گئی۔ ان سب پر حسن کی اور صدف کی علاحدگی راز نہیں رہی تھی۔
ایک دن وہ نیویارک کے ایک بازار میں شاپنگ کررہی تھی، اس کی ملاقات بشارت علی مرزا سے ہوئی۔ وہ کالج میں اس کے ساتھ تھا اور شاید اسے چاہتا بھی تھا۔ اگر خاندان کا دباؤ حائل نہیں ہوجاتا تو صدف اس کی ہوجاتی۔ اس نے انتہائی اخلاق سے کوفی پینے کی دعوت دی، صدف انکار نہیں کرسکی۔ کوفی پینے کے دوران کالج کی اور دوستوں کی باتیں ہوتی رہیں، صدف نے اس کے بیوی بچوں کے بارے میں پوچھا اور یہ معلوم کرکے حیران رہ گئی کہ وہ ابھی تک ’’اَن میرڈ‘‘ تھا۔
صدف نے شادی نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا، ’’فرصت ہی نہیں ملی۔‘‘ پھر ہنس کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’تم جو نہیں ملیں۔‘‘
بشارت علی مرزا کی بات سن کر اس کا چہرہ سرخ ہوگیا، لیکن اس نے چپ سادھ لی۔ جب دونوں جدا ہوئے تو بشارت علی نے جلد ہی ملنے کی توقع ظاہر کی۔ صدف نے کہا، ’’اسی طرح اتفاقی ملاقات اور ممکن ہوا تو کوفی اینڈ سمپتھی۔‘‘
صدف صرف صدف تھی اور صدف ہی رہنا چاہتی تھی، اس فیصلے کے لیے وہ اس کالی فائل کی شکر گزار تھی۔ دائمی طور پر، جس نے ایک رات اس کے اور حسن کے مشترکہ بستر پر قبضہ کرکے اسے کمرہ بدر کردیا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...