وہ رات کا سماں تھا کالی اندھیری رات کا سماں ہر طرف ہوکاعالم چھایا ہوا تھا ایسے میں وہ اس ویران سڑک پر بھاگا جارہا تھا دھونکنی کی طرح چلتی سانسوں اور بوجھل ہوتے وجود کے ساتھ کچھ دیر بعد وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا تھا۔
اسے لگتا تھا اندھیرے اسکے تعاقب میں ہیں اور اسے نگل لیں گے
واپس پلٹنے پر وہ اور تیز بھاگنے لگتا پھر اچانک سے اسے ٹھوکر لگی اور وہ سڑک کے ساتھ بنے ایک گڑھے میں جاگرا
آہ آہ
اسے چوٹیں آئی تھیں اسے لگ رہا تھا اسکے ہاتھ پاؤں جیسے بے جان ہورہے ہیں وہ کھڑا نہیں ہو پائے گا اپنی طرف سے بہت ہاتھ پیر چلانے کے بعد اندھیرے غالب آجانے کے خوف سے اس نے رونا اور چلانا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔
بچاؤ
بچاؤ مجھے نکالو یہاں سے پلیز نکالو مجھے
اماں بابا بھایا جی
وہ روتے ہوئے چلاتا جارہا تھا۔
نجانے وہ کتنی ہی دیر وہاں روتا چلاتا رہا مدد کو کوئی نہیں آیا اب وہ تھکنے لگا تھا تو زبان خود بخود پکاری
اللہ
اللہ اللہ میرے
اندھیرے اسکے وجود کو نگلنے لگے تھے ختم ہوتی ہمت کے ساتھ وہ گڑھے میں ایک جانب بیٹھ گیا اور اندھیروں کو خود پر غالب ہونے دیا۔
علی
علی خان
او میرے میسی بلوچ
اس سے پہلے کے اندھیرے اسے ہمیشہ کے لیے نگل جاتے گڑھے کے سرے پر اسے روشنی سی محسوس ہوئی تھی ۔
اور اپنے نام کی بازگشت بھی
کون تھا یہ جو اسے
اوئے میرے میسی
شاہو
ذہن نے فوراً سے نام کلک کیا اور اس نے دیوانہ وار وہ نام پکارنا شروع کردیا تھا
شاہ
شاہو بھائی بچاؤ
شاہو بچا لو مجھے
اس نے چلاتے ہوئے اوپر دیکھا تو سامنے ہی میجر شاہنواز خان اسکا شاہو بھائی روشنیوں کا استعارہ بنے کھڑا مسکرا رہا تھا ۔
کیا ابے دو نمبر میسی بچوں کی طرح چلا رہا ہے بلوچوں کے نام کو بٹہ لگانے کا ارادہ ہے کیا شاہنواز مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔
شاہو وہ میں گرا گیا تھا اماں بابا کو اتنی آوازیں دیں بھایا جی کو بھی بلایا کوئی آیا ہی نہیں پھر مجھے ڈر لگ رہا تھا دیکھو کتنا اندھیرا ہے اسوقت وہ چھوٹا سا بچہ بنا ہوا تھا۔
اور کسے بلایا؟ شاہنواز کا لہجہ متبسم تھا
اور علی سوچ میں پڑ گیا
اور اللہ کو اللہ کو بلایا تھا میں نے
شاہنواز کھل کر ہنس دیا
ہاہاہاہاہا او میرا کملا ویر
چل لا مجھے ہاتھ دے
علی سبحان کی طرف روشنیوں نے سفر کیا تھا اس نے جھٹ سے روشنیوں بھرا ہاتھ پکڑا لیا گویا شاہنواز کا وجود ہمیشہ سے اسکے لیے روشنی کا منبع ہی تو تھا۔
شاہنواز نے اسے اندھیروں سے کھینچ نکالا پھر مسکراتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئے تھے۔
شاہو تم پہلے کیوں نہیں آئے؟ علی سبحان نے کسی چھوٹے بچے کی طرح منہ پھلا کر کہا
کیونکہ تم نے مجھے پہلے بلایا ہی نہیں۔
تو اب بھی تو ؟
علی کی بات بیچ میں رہ گئی تھی جب شاہنواز بولا
اب بھی تم نے مجھے نہیں بلایا لیکن
تم نے اللہ کو بلایا تھا نا؟
علی نے اثبات میں سر ہلایا
تو بیٹا جی مجھے اللہ میاں نے بھیجا ہے
شاہنواز نے ہنستے ہوئے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا ۔۔
علی سبحان نے ناسمجھی سے سر پھیرا پھر جب آس پاس دیکھا تو چونک گیا یہ وہی راستہ تھا جو کچھ دیر پہلے تنہا اندھیرے میں ڈوبا تھا اور اب شاہنواز کے ساتھ نے ہر سو روشنیاں بکھیر دی تھیں ۔
پھر تو ثابت ہوا نا کہ ہماری زندگی میں کسی نا کسی کا وجود روشنیاں لانے کا باعث بنتا ہے پھر چاہے وہ کوئی ولی کامل ہو نیک ہمسفر ہو یا شاہنواز خان جیسا بڑا بھائی دوست ہو پہلے قدم پر وہ رہنما بنتا ہے اور اسکے بعد ہم تاریکی کو پچھاڑتے روشنی کے سفر پر چل پڑتے ہیں۔۔۔
شاہو
علی نے اسکے ساتھ چلتے ہوئے یونہی اسے مخاطب کیا تھا۔
جی کرے شاہو
شاہنواز کے جواب میں ہمیشہ کی طرح شفقت تھی۔۔
مجھے لگا میں اکیلا ہوں میں بہت ڈر گیا تھا یار
علی خان اکیلے ہوجانے سے ڈرنا نہیں چاہئے یار بے شک ہمیں سب اکیلا چھوڑ دیں لیکن وہ جو رب کی ذات ہے نا وہ ہمیں کبھی کسی قیمت پر اکیلے نہیں چھوڑتی یہ تو ہم ہوتے ہیں کم عقل نا سمجھ جو اسے چھوڑ دیتے ہیں
شاہنواز نے بہت نرمی سے اسےسمجھایا تھا
پھر یار اگر تم نا آتے تو
علی پے اب تک اندھیروں کا خوف غالب تھا۔
وہ چل ہن بس کردے بھئی
ویسے میں آتا کیوں نہیں؟
بس ایویں ہی
ہاہاہاہاہ او کملے بس ایویں ہی علی سبحان کے کہنے پر شاینواز کھل کر مسکرایا تھا
تم جب جب بلاؤ گے تو آجاؤ گا۔
اب جاؤ گھر شاہنواز اسے بچوں کی طرح پچکارتے آگے بڑھنے لگا تھا جہاں دھند پھیلی تھی۔
تم میری اتنی ہیلپ کرتے ہو جب تم کہو گے تو میں بھی تمہاری ہیلپ کروں گا ٹھیک ہے نا بلکہ ابھی بتاؤ میں کیا کروں؟
علی نے اسکے ساتھ تقریباً بھاگتے ہوئے آفر کی تھی۔
شاہنواز کے چہرے نے رنگ بدلہ تھا روشنیاں ماند پڑ گئیں تھیں اور چہرے پر سختی سی جھلکی تھی لیکن وہ رکا نہیں
بتاؤ شاہو میں کیا کروں تمہارے لیے وہ شاہ کے تاثرات سے بے نیاز بولے جا رہا تھا۔
علی تم ایسا کرنا میرے بعد میری چیزوں کا خیال رکھنا
شاہنواز کی آواز کسی گہری کھائی سے آئی تھی
علی کا اور اسکا فاصلہ بڑھتا جارہا تھا۔
کیا مطلب تمہارے کہاں جانے کے بعد؟
اور تمہاری چیزوں کا دھیان میں کیوں رکھوں گا بھلا؟
تمہاری کون کون سی چیزیں شاہو؟
علی نے ایک سانس میں بہت سے سوال کر ڈالے تھے شاہنواز اب دھند میں گم ہونے لگا تھا۔
مطلب جب میں نہیں ہوؤں گا تو میری چیزوں کا دھیان رکھنا پاگل گدھے
اس لیے کہ تم مجھ سے زیادہ بہتر طریقے سے انکا دھیان رکھ سکو گے
میری ساری چیزیں جو مجھے عزیز ہیں مجھے جن کی چاہ ہے میرے بعد وہ سب تمہاری ہونگی علی انکا دھیان رکھنا۔
میری چیزوں کا دھیان رکھنا علی
اچھا شاہ بھائی
علی نے اسے بڑے لاڈ سے آواز دی تھی لیکن جواب نہیں آیا تھا
اسکے آس پاس ہرطرف دھند چھائی تھی ۔
شاہ وہ زور سے چلایا تھا۔
شاہو یار
یار شاہو
ایک جھٹکے سے اسکی آنکھ کھلی تھی صبح صادق کا وقت تھا اور وہ پسینے میں تر بتر تھا۔
نرس اسے زلیخا کے ہوش میں آجانے کا بتا رہی تھی۔
زلیخا کل دوپہر سے بے ہوش تھی بابا اور علی اسے ایمرجنسی ہسپتال لے آئے تھے اماں احمد کے پاس رکی تھیں ربنواز صاحب رات بھر اسکے ساتھ ہی رکے تھے اب شاید تہجد کے لیے گئے تھے جب علی کی آنکھ لگی تھی۔۔۔
یہ خواب پیچھلے پانچ سالوں سے اسے کئی بار آیا تھا اور ہر بار اسکی شدت پہلے سے زیادہ ہوتی تھی۔
پہلے پہل وہ اس خواب کو اپنے ایکسیڈنٹ اور اسکت بعد ہونے والی ڈپریشن سے جوڑتا تھا کیونکہ شاہنواز ہی کی وجہ سے وہ زندگی کی طرف لوٹا تھا لیکن پھر اس خواب کے تسلسل نے اسے پاکستان آنے پر مجبور کیا تھا ۔
اور یہاں آکر زلیخا کا سامنا کرتے اسے خواب شاہنواز کی خواہش کی سمجھ آگئی تھی ۔
لیکن ایک گھتی اسکا ذہن سلجھانے سے قاصر تھا
کیا شاہنواز کو معلوم ہوگیا تھا کہ میں جس لڑکی کو چاہتا ہوں وہ زلیخا ہے؟
ربنواز صاحب کو پرئیر حال سے اپنی طرف آتا دیکھ کر اس نے خود کو سنبھالہ اور اٹھ کر انکی طرف بڑھ گیا ۔۔
——————————
ڈاکٹرز نے زلیخا کو شام تک رکنے کا کہا تھا احمد اور اماں صبح ہی آگئے تھے ۔
زلیخا چپ چاپ تھی احمد کی شرارتوں پر. بھی اسکے ہونٹ مسکرا نہیں رہے تھے ۔
جب سے زلیخا کو ہوش آیا تھا وہ اس کے سامنے نہیں گیا تھا ۔۔
دوپہر کو ڈاکٹرز راؤنڈ پر آئے تو وہ اماں اور احمد کو کیفے لے آیا تھا پھر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اماں گھر جانے کے لیے تیار ہوگئیں تاکہ زلی کے لیے کچھ بنا سکیں ۔۔
اماں کو گھر بھیج کر وہ پھر سے زلی کے روم کے باہر آکھڑا ہوا تھا ۔
دل عجیب سے اندیشوں میں گھرا تھا وہ فیصلہ نہیں، کر پارہا تھا کہ زلی کا سامنا کیسے کرے گا۔
اس نے ایک بات تو خود سے طے کی تھی کہ وہ اب کسی قیمت پر اس ربنواز صاحب اور باقی لوگوں کو چھوڑ کر واپس نہیں جائے گا۔۔
اور یہ کہ وہ شاہنواز کی عزیز چیزوں کا خیال رکھے گا انہیں اپنائے گا
انہی سوچوں میں گھرا وہ دروازے تک پہنچا تھا جب زلی کی روئی روئی آواز اسکے کانوں، میں پڑی وہ ربنواز صاھب سے کہہ رپی تھی ۔
بابا آپ کو پتا تھا نا؟
پھر آپ نے ان سے کہا کیوں نہیں؟
مجھے بھائی کریم نے ساری بات بتا دی تھی زلی پتر اور مجھے اپنے زلی خان پر بھائی کریم سے بھی زیادہ بھروسہ تھا ہے اور رہے گا۔
اور تمہاری دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ مجھے پہلے تمہارے اور شاہ پتر کے درمیان ہوئی کسی بات کا علم نہیں تھا ۔
لیکن جس دن تم بے ہوش ہوئیں اس دن میرے دل میں کچھ بہت غلط ہونے کا احساس ہوا تھا اسکے بعد میں نے شاہو سے بات کرنے کی بہت کوشش کی لین قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا زلی
میں جانتا ہوں تم بے قصور ہو علی بے قصور ہے میرا شاہو بھی بے قصور تھا زلی بس کبھی کبھی ہمارے دکھ اور ازیت ہماری جلدبازی ہماری ناشکری کا بھگتان ہوتا ہے۔۔
زلی کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا اسے اپنی ناشکری یاد آئی تھی کیسے شاہنواز جیسا جیدار دلدار ہمسفر پاکر بھی وہ ناشکری کرتی رہی تھی اپنے رب کی اس رب کے عطاء کی گئی نعمت کی
اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے
بابا بہت اندھیرا ہے مجھے کچھ نظر نہیں آتا بابا شاہ میرے ساتھ اچھا نہیں کرکے گئے ۔۔۔
یہ مبہم سی باتیں علی سبحان کے سر پر سے گزر رہی تھیں جب میں ربنواز صاحب کہ آواز اسکے کانوں میں پڑی
اندھیرا ہمارے اندر ہوتا ہے زلی بچے
علی سبحان اچانک سے مسکرا دیا تھا کتنی ملتی جلتی باتیں کرتے تھے دونوں باپ بیٹا ہمت بندھاتی باتیں دل کو جیت لینے والی باتیں وہیں کھڑے کھڑے وہ انگلینڈ کے اس پرائیویٹ ہسپتال کے کمرے میں پہنچ گیا تھا جہاں اس نے اور شاہنواز نے آخری رات ایک ساتھ گزاری تھی ۔
———————
اسے یاد آیا کہ اسکی اچانک آنکھ کھلی تھی دل گھبرانے کے ساتھ شدید پیاس کا احساس ہوا تھا۔۔
گردن گھما کر دیکھا تو پانی سائیڈ ٹیبل پر پڑا تھا لیکن وہ خود سے ہل نہیں سکتا تھا ۔
اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو سامنے سنگل صوفہ پر شاہنواز غیر آرام دہ حالت میں آڑھا ترچھا سو رہا تھا۔۔
علی سبحان کو بے اختیار اس پر پیار آیا جبھی اتنی وحشت کے عالم بھی ہونٹ ہلکی سی مسکان میں ڈھلے تھے
ہاہ ہائے
اپنی نئی نویلی بیوی اور آرام دہ بیڈروم چھوڑ کر یہاں دیار غیر میں میری تیمارداری کے لیے بیٹھے ہیں۔
بلکہ بیٹھے سوئے ہیں
جناب شاہو صاحب ہی ہی ہی
اس سوچ کے آتے ہی علی سبحان کے ہونٹوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ آئی تھی لیکن وہ ہنسی دبا گیا تھا
مبادہ ہلکی سی آواز پر ہی شاہو کی آنکھ نا کھل جائے ۔
اس نے اتنے دنوں میں پہلی بار شاہو کو یوں بےسدھ سوتے دیکھا تھا ورنہ تو وہ اسکے ساتھ ہی خجل خوار ہورہا تھا ۔۔
میجر شاہنواز خان بلوچ صاحب
صدقے اپنے بھایا کے وہ زیر لب بڑبڑایا تھا۔
شاہنواز کے ہونے کے خیال نے پیاس کا اثر ختم تو نہیں لیکن کم ضرور کردیا تھا جبھی وہ شاہو کو ڈسٹرب کرنے کے بجائے خود کو پرسکون کرنے لگا جس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوگیا تھا کیونکہ اگلے کچھ منٹ بعد وہ پھر سے سو چکا تھا۔
سوتے ہی اسے پہلی بار وہ خواب آیا تھا اور ہڑبڑا کر شاہو شاہو کہتا اٹھا تھا۔
شاہو
ہا ہاں علی کیا ہوا یار
شاہو ایک دم سے اسکے پاس آیا تھا ۔
تم مجھے چھوڑ کر جارہے تھے شاہو
علی سبحان نے شکوہ کیا تھا
جبکہ شاہنواز فلحال خواب سے ناواقف تھا جبھی بولا
اب تم بلکل سٹیبل ہو علی کل تمہارے آپریشن کے فوراً بعد کی میری فلائیٹ ہے تمہاری رضامندی سے ہی ٹکٹ کروائی تھی یار
پر سبحان چپ رہا تھا
شاہنواز پھر سے گویا ہوا
مجھے فوارً حاضر ہوکر رپورٹ کرنی ہے حالات بہت خراب ہیں وعدہ یار جیسے ہی حالات بہتر ہوئے سیدھا پہنچ جاؤں گا؟
اور اگر حالات بہتر نا ہوئے تو؟ علی نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا؟
ہاہاہاہا تو میری جان تم پہنچ جانا سلامی دینے اور آخری دیدار کرنے
شاہنواز کے کہنے پر عکی سبحان کے اندر سناٹا سا چھا گیا تھا اسے خواب یاد آیا کہ شاہ اسے اندھیروں سے نکال کر خود غائب ہوگیا تھا ۔
بکواس نہیں کرو شاہ
میں خواب کی بات کر رہا تھا یار تم مجھے خواب میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
او خدا دے بندے سمجھ معاف کردے پلیز اگر یہاں کوئی سن لے نا کہ پروفیسر میسی صاحب ایسی دقیانوسی باتیں کرتے ہیں تو ؟
شاہنواز نہیں بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
شاہو ،،، شاہنواز کو سیریس نا پاکر علی نے اپنے تکیہ کلام سے اسے بلایا تھا۔
جی کرے شاہو
ممکن ہی نہیں تھا کہ شاہ سیریس نا ہوتا۔
شاہو بڑا اندھیرا تھا یار کچھ نظر نہیں آرہا تھا ہر طرف اندھیرا تھا شاہو علی سبحان اسوقت بیماری اور معذوری کی ڈپریشن میں تھا شاہنواز اسکی حالت اچھے سے سمجھ رہا تھا جبھی سمجھاتے ہوئے بولا تھا
علی خان عرف دو نمبر میسی
یہ باہر کا اندھیرا کچھ نہیں ہوتا یار اصل اندھیرا تو ہمارے اندر ہوتا ہے گناہوں کا اندھیرا تکبر کا اندھیرا خوف کا اندھیرا نا اُمیدی کا اندھیرا اکیلے پن کا اندھیرا اور ہم ان سب اندھیروں کے اتنے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ روشنی کی خواہش کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔
جب کبھی ہماری روح اندھیرے سے گھبرا کر روشنی تلاشنا چاہتی ہے تو کبھی خواہشات کی لمبی فہرست تو کبھی ہوچکے گناہوں کا بوجھ کبھی اپنے افضل ہونے کا زعم اور کبھی کبھی اکیلے ہوجانے کا خوف ہمارا راستہ کاٹ لیتے ہیں اور ہم چپ چاپ پھر سے اپنے اندھیروں کے ساتھ جیتے چلے جاتے ہیں ۔
تو پھر ایسی حالت میں کیا کرنا چاہئے شاہو خان
علی کو آج شاہ پر کچھ زیادہ ہی پیار آرہا تھا
شاہنواز نے اس گھوری سے نوازتے بات جاری رہے رکھی
تو بیٹا جی جب بھی ہمارا اندر چہارسو پھیلے اندھیرے سے گھبرا کر روشنی کی خواہش کرے
سب کام چھوڑ کر سب سے پہلے امید کے دیے روشن کرنے چاہئے ان میں توبہ کا ندامت کا تیل ڈالنا چاہئے تکبر چھوڑ کر مٹی ہوجانا چاہئے
پھر؟
علی کسی ٹرانس میں بولا تھا
پھر ندامت اور امید کے دیوں کے بعد دعا کے چراغ جلانے چاہیئے
پھر اس سے کیا ہوگا علی جیسے سب آج ہی جان لینا چاہتا تھا ۔۔
پھر بھی تمہارے لیے ایسی رحمت اترے گی کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں گے ۔۔
شاہو میرے ویر میں ٹھیک ہوجاؤں گا نا؟
ایک عجیب سے خدشے کہ تحت علی سبحان کے منہ سے نکلا تھا۔
الحمداللہ تم ٹھیک ہو اور دیکھنا ایک دن اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ گے
اور جس دن تم اپنے پیروں سے چل کر مجھ تک آو گے میں اپنے میسی بلوچ کو اسکی پسند کا تحفہ دوں گا۔
سر سر
وہ وارڈ بوائے کے پکارنے پر خیالوں سے نکلا تھا
ہاں؟
سر آپکے ہیشنٹ کی ڈسچارج سلپ فل کردیں آکر تاکہ پیشنٹ کو ڈسچارج کیا جاسکے۔
وارڈ بوائے اکتائے ہوئے لہجے میں کہتا واپس چلا گیا تھا ۔
جبکہ وارڈ بوائے کے پیچھے چلتے اسکے قدم زلیخا کے کیے گئے انکشاف پر برف ہوئے تھے ۔
بابا علی ہی وہ انسان ہیں جنکی وجہ سے شاہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے
یونی میں ہونے والی ایک غلط فہمی کو کسی نے غلط رنگ دے کر شاہ کو وہ تصویریں بھیجیں تھیں
جنکو بنیاد بنا کر شاہنواز مجھ سے بدگمان ہوئے تھے۔
ہسپتال کا کوریڈور علی سبحان کی نظروں کے سامنے گھومنے لگا تھا ۔
پاس ہی شاہو کی آواز گونجی تھی
میری عزیز چیزوں کا خیال رکھنا علی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...