انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے جس سے مراد ایسے جملے، خیال یا فنی عناصر ہیں جو بکثرت استعمال ہونے کی بنا پر اپنے اصل معنی سے دور ہو جائیں یا کثرت استعمال سے فرسودہ سمجھے جانے لگیں اور اپنی کشش کھو بیٹھیں۔ عموماً ایسے فرسودہ جملے ابتدا میں انتہائی بامعنی، جدید یا نازک سمجھے جاتے ہیں۔
مثلاً کسی عاشق کا اپنی معشوقہ سے یہ کہنا کہ “میں تمہارے لیے آسمان سے ستارے توڑ لاؤں گا” کسی زمانے میں انتہائی بامعنی اور حساس جملہ ہوگا لیکن اب ایک فرسودہ جملہ بن چکا ہے۔ ادب و تحریر میں نوآموز یا متوسط مہارت کے حامل افراد ایسے جملوں کا بکثرت استعمال کرتے ہیں البتہ کہنہ مشق اور اساتذہ کی تحریریں عموماً ان سے پاک ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسے جملے ہمیشہ جھوٹ ہوں، یہ سچائی اور خلوص پر بھی مبنی ہو سکتے ہیں لیکن سامعین یا قارئین کے لیے ایسے فرسودہ جملوں میں کوئی کشش نہیں رہتی۔
انگریزی کا یہ لفظ فرانسیسی زبان سے ماخوذ ہے۔ لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ کسی زبان ميں اس لفظ کی اصل نہیں ہے۔ جب چھاپا خانے میں کاغذ پر طباعت کی ابتدا ہوئی تو ڈھل تختی پر لوہے کے حروف سے ایک ایک حرف کو جوڑ کر جملہ بنائے جاتے اور بعد ازاں ہزاروں صفحات چھاپے جاتے تھے۔ لوہے کے حروف سے جملے بنانے میں “كلیشے” کے مشابہ آواز نکلتی تھی۔ اس وجہ سے دنیائے علم و فن میں اس لفظ کا اطلاق ایسے جملوں اور عناصر پر کیا جانے لگا جو بکثرت مستعمل ہوں اور فرسودہ ہو جائیں۔ (منقول)