کلیم شہزاد(بوریوالہ)
دنیا کی بہاروں میں
چاند تجھے ڈھونڈے
ہر رات ستاروں میں
دنیا کی بہاروں میں
دل کشتی کناروں میں
ڈوبتی جائے ہے
غمزوں میں،اشاروں میں
دل کشتی کناروں میں
آنسو کب ٹانکے تھے
رات نے پلکوں سے
کچھ موتی مانگے تھے
آنسو کب ٹانکے تھے
بادل تھا بڑا پگلا
آنکھ سے بہہ نکلا
کاجل تھا بڑا پگلا
بادل تھا بڑا پگلا
آنسو بھی ڈرے دیکھے
نازک پلکوں پر
پتھر سے دھرے دیکھے
آنسو بھی ڈرے دیکھے
جیون سے پیارے تھے
رانجھن لمحے جو
بیلے میں گزارے تھے
جیون سے پیارے تھے
ماہیا گیت
رفیق شاہین(علیگڈھ)
تم یاد بہت آئے
شام کے ہوتے ہی
جب پھیل گئے سائے
تم یاد بہت آئے
جو گیت لکھے تم نے
گیت وہی میں نے
تنہائی میں جب گائے
تم یاد بہت آئے
کل رات تمہارے خط
میرے پڑھنے پر
تمہیں سامنے لے آئے
تم یاد بہت آئے
کل یاد تمہیں کر کے
میں کتنا روئی
تم دیکھ نہیں پائے
تم یاد بہت آئے
ترسی ہوئی راتوں میں
دل میں خیال آیا
ہم کیوں نہیں مل پائے
تم یاد بہت آئے
اک جرم محبت پر
ظالم دنیا نے
کیا کیا نہ ستم ڈھائے
تم یاد بہت آئے
شاذ رحمانی(بہار)
بس تو ہے خیالوں میں
تجھ سا نہیں کوئی
رحمت کی مثالوں میں
لمحوں کو پڑھا دینا
ہونگے ہمیں مجرم
سولی پہ چڑھا دینا
یہ بات ہے زہریلی
کہہ کے ذرا دیکھو
ہر ذات ہے زہریلی
پُر درد فسانہ ہے
کس کو سنائیں ہم
مصروف زمانہ ہے
زخم اپنا دکھاتے کیوں
بھائی!یہ دنیا ہے
دل اس سے لگاتے کیوں
قسمت ہی سنور جاتی
سودوزیاں کی جب
ہستی میں تمیز آتی