کلیم شہزاد(بوریوالہ)
سچ کہتے ہیں، یہ سانسیں بھی لیتی ہیں
دیواریں بھی ساری باتیں سُنتی ہیں
جسموں کی حرکت پہ گر پابندی ہے
پہروں کے گھیروں میں سوچیں پلتی ہیں
خوابوں کے پھولوں پہ پہرے کانٹوں کے
ہر ٹہنی کے ہونٹ پہ آہیں اُگتی ہیں
دِل دھڑکن میں کیسی آگ بسا دی ہے
لمحہ لمحہ اس کی باتیں جلتی ہیں
جونکوں کی مانند لہو جو پیتی ہیں
دِل آنگن میں کیسی آہیں پَلتی ہیں
ہائے! کیسا برتارا کر بیٹھی ہیں
اب وہ سہمی ہاتھوں کو کیوں مَلتی ہیں
مَیں بے رنگا جیون لے کر گھر لَوٹوں!
رَنگوں میں جب سب کی شامیں ڈھلتی ہیں
کون کلیمؔ روایت توڑے صدیوں کی
رسمیں ہر اک حال میں چالیں چلتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانول اسم اگر وہ مجھ کو یاد آتا
ریشم حرفوں کا دروازہ کھل جاتا
لفظوں کو زنجیر پڑی تھی محبس میں
کیسے حرف زبان پہ اپنی مَیں لاتا
دور آسیب سبھی ہو جاتے جسموں سے
ایک نظر جو کوہ قافوں پر فرماتا
رنگ بکھرتے کرنیں بن کر دھرتی پر
پتھر پوش فضا میں گر وہ مُسکاتا
روند دیے تھے پھول سے چہرے لمحوں نے
اس کا چاند سا پیکر کیوں نہ دھندلاتا
کون کلیمؔ مسیحا تھا ان زخموں کا
کیسے اپنے چارہ گر کو بتلاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظروں کا آئینہ منظر ہو جائے تو اچھا ہے
تیرے من کا موسم بہتر ہو جائے تو اچھا ہے
جسم حویلی میں جو پھیلا ہے آسیب کی صورت میں
دور کبھی یہ اپنا بھی ڈر ہو جائے تو اچھا ہے
پتھر پوش انسانوں نے جب اس کو کمتر جانا ہے
اب تو دل کا ہیرا، کنکر ہو جائے تو اچھا ہے
جس کی جادو چوٹی پر وہ قید پڑا ہے برسوں سے
کاش وہ زرد پہاڑ کبھی سر ہو جائے تو اچھا ہے
یہ جو اس کی چھت پر اترے ، وہ منظر پھر کیساہو
دل کا پرزہ کبھی کبوتر ہو جائے تو اچھا ہے
کون ہے جیتا اور یہاں پر کس نے کیسے ماتیں دیں
یہ بھی کبھی حساب برابر ہو جائے تو اچھا ہے
کون کلیمؔ تمہارے غم کا درماں کر ے گا دنیا میں
دل کی حالت خود ہی بہتر ہو جائے تو اچھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیاع ردائیں ملی ہیں مجھ کو تمہارے ، لہجے کی نغمگی سے
اجالتا ہوں میں ذہن و دل کو چمکتے لفظوں کی روشنی سے
جو میری ہستی پہ فصلِ گل ہے تو خواب میرے بشاتیں ہیں
گلاب مہکے ہیں سانس گلشن میں دل کے زخموں کی تازگی سے
کبھی تو آئے گا رنگ سانول دعا پہ تیری لطافتوں کا
کہ اک تعلق جو ٹھہرا آخر ہمارے ہونٹوں کا تشنگی سے
یہ سوچ لینا، جمال تیرا سحاب صورت ہے چار دن کا
کمال کیسے ملے گا تجھ کو فقیر لوگوں کی دشمنی سے
اگر مسافر کو راستوں نے نگل لیا تو ملال کیسا
بدلتے دیکھے ہیں چاند رستے گلہ ہے کیسا یہ چاندنی سے
ہوا میں کس نے یہ زہر گھولا کہ جسم نیلا زمین کا ہے
شباہتوں کو جمال کیسے ملے گا بڑھتی بے چہرگی سے
بصارتوں کا یہ نور کیسا ملا ہے جذبوں کو شہر ڈرمیں
کلیمؔ جھیلی مسافتوں سے ، بدن میں پھیلی شکستگی سے