نذیر ناجی(لاہور)
نوٹ:ایوارڈز کی تقسیم ہمیشہ جوڑ توڑ سے عبارت رہی ہے،اس لیے ایوارڈز ہمارا موضوع نہیں ،یہ مضمون اس لیے شائع کیا جا رہا ہے کہ قارئین طے کریں کیا وا قعتاََ احمد فراز صاحب کا ضمیر بیدار ہوا ہے یا حقیقت یہی ہے جو نذیر ناجی صاحب نے لکھی ہے۔احمد فراز اور نذیر ناجی دونوں اکادمی ادبیات کے سربراہ رہ چکے ہیں۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممتاز شاعر احمد فراز نے قومی ایوارڈ ہلال امتیاز کو کلنک کا ٹیکہ قرار دیتے ہوئے واپس کر دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’’موجودہ حکومت کی جانب سے دیئے گئے امتیاز کو فکری آنکھ سے دیکھتا ہوں تو کلنک کا ٹیکہ لگتا ہے‘‘۔ بہت اچھا ہوا کہ انہوں نے کلنک کایہ ٹیکہ اتار دیا۔ کلنک کے اور بھی بہت سے ٹیکے ایسے ہیں، جنہیں اتارنے سے عوام کے محبوب شاعر احمد فراز کی عزت میں مزید اضافہ ہو سکتاہے۔ مثلاً انہوں نے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے دو ایوارڈ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی کے ہاتھوں وصول کئے تھے۔یہ ایوارڈ ابھی تک ان کے پاس پڑے ہیں اور پچاس پچاس ہزار روپے کی وہ رقوم بھی انہی کی تحویل میں ہیں جن کے چیک جنرل قاضی نے ان کے سپرد کئے تھے۔ یہ دونوں ایوارڈز اور دونوں چیک کلنک کے ٹیکے ہیں جو معروف شاعر نے ابھی تک قبضے میں رکھے ہوئے ہیں۔ شاعر موصوف 2005ء تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ رہے۔ اس دوران انہوں نے تمام سرکاری سہولتوں سے پورا فائدہ اٹھایا۔ بھاری تنخواہ وصول کرتے رہے، مکان کا کرایہ وصول کیا، کار استعمال کی۔ اس منصب کے ذریعے جو سرکاری حیثیت ملی ، اس سے فیضیاب ہوئے۔ اس عہدے کا جتنا عرصہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں گزرا اس کے دوران حاصل کی گئی تمام رقوم تمام فوائد اور تمام سہولتیں کلنک کے ٹیکے ہیں۔ یقینا یہ سارے ٹیکے شاعر کے ضمیر کو کچو کے لگاتے ہوں گے انہیں روز شرمندہ کرتے ہوں گے۔ ان کے اندر کا شاعر روزانہ انہیں ملامت کرتا ہو گا۔ اتنی شرمندگی، اتنی ملامت او راتنے کرب کے ساتھ زندگی گزارنا کسی بھی شاعر کے لیے اذیت ناک ہوتا ہے۔شاعر موصوف یہ اذیت ناک زندگی کس طرح گزار رہے ہیں؟ وہ تو ہر کا م آزادی ، انسانی حقوق اور جمہوریت کی خاطر کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا دہرا معاوضہ وصول کرنے میں کبھی سستی نہیں دکھاتے۔ مثلاً جب وہ جلا وطن ہوتے ہیں تو بیرون ملک مختلف افراد اور اداروں سے اپنی قربانیوں کے صلے میں میزبانی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مختلف ملکوں کے دورے کرتے ہیں ۔ ان دوروں کے اخراجات وصول کرتے ہیں۔ آمریتوں کے خلاف اپنی بغاوتوں کی داد پاتے ہیں۔ لندن کے سوا دنیا کے بہترین ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں قیام کرتے ہیں اور میزبانوں کو یہ بتا کر انہیں خوش کرتے ہیں کہ وہ فوجی حکومتوں کے باغی ہیں اور ثبوت کے لیے کچھ نظمیں سناتے ہیں جو ان کے مطابق انہوں نے فوجی حکومتوں کے خلاف لکھی ہوتی ہیں اور جن کی پاداش میں انہیں جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا لیکن واپس آ کر وہ برسر اقتدار فوجی حکومتوں کے نمائندوں کو دوسری نظمیں پیش کر دیتے ہیں جو انہوں نے فوج کی مدح میں لکھی ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں ایک بار صدیق سالک نے فوج کی مدح میں لکھے گئے باغی شاعر کے اشعار نامور شاعر اختر الایمان کو ممبئی بھیج دیئے۔ انہوں نے یہ شعر ایک پاکستانی اخبار کو ارسال کئے اور شائع ہو گئے۔ خیر یہ تو سنی سنائی باتیں ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ شاعر اعظم جلاوطنی ختم کر کے واپس تشریف لائے تو بے نظیر بھٹو کے دور میں نہ صرف اپنی سرکاری ملازمت واپس لی بلکہ جلاوطنی کے تمام عرصے کی تنخواہ یکمشت وصول کر کے قومی خزانے سے قوم کی خاطر کاٹی گئی جلاوطنی کا معاوضہ بھی وصول کر لیا۔ا ن دونوں میں سے ایک چیز تو کلنک کا ٹیکہ ضرور ہے یا وہ فوائد ، داد اور میزبانوں کے دیئے ہوئے ’’عطیات‘‘کلنک کا ٹیکہ ہیں یا وہ ساری تنخواہ جو انہوں نے غیر حاضری اور جلا وطنی کے تمام عرصے کے عوض وصول کی، وہ کلنک کا ٹیکہ ہے کیونکہ ایک کام کے دو معاوضے نہیں ہو سکتے۔ جائز معاوضہ صرف ایک ہوتا ہے جبکہ دوسرا کلنک کا ٹیکہ۔
بے نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی لیکن احمد فراز اپنے منصب پر فائز رہے۔ بے نظیر بھٹو سے لی گئی یہ ملازمت نواز شریف کے دور میں کیسے برقراررہی؟ یہ رازوہی لوگ بتا سکتے ہیں جو ہر دور حکومت میں ’’سرسبز و شاداب‘‘ رہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہ لوگ کچھ بھی ہوں باغی ہرگز نہیں ہو سکتے۔
پاکستان کے شائقین ادب اور سخن شناس اسی وقت چوکنے ہو گئے تھے جب اسلام آباد میں احمد فراز کے سرکاری بنگلے کے بارے میں خبروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ رمز شناسوں نے اسی وقت کہہ دیا تھاکہ اگر شاعر موصوف کو بیگم صاحبہ کے نام پر لئے گئے سرکاری مکان میں رہنے کی اجازت نہ ملی تو انسانی حقوق ، شہری آزادیوں اور آمریت کے مسائل دوبارہ شاعر کے ضمیر کو جھنجھوڑنا شروع کر دیں گے۔ کہتے ہیں ہمایوں گوہر کو اس خطرے کا احساس تھا۔ وہ وزیر اعظم شوکت عزیز کے دوست اور صدر پرویز مشرف کے خیر خواہ ہیں اور جنرل مشرف کی جو سوانح عمری شائع ہونے والی ہے، اس کی ’’آؤٹ سورسنگ‘‘ میں بڑے حصے دار ہیں۔ انہوں نے کوشش کر کے احمد فراز سے گھر کا قبضہ لینے کا معاملہ التوا میں ڈلوا دیا لیکن جب معاملہ قومی اسمبلی کے ارکان تک چلا گیا تو شوکت عزیز مجبور ہو گئے اور اسلام آباد میں دو بنگلوں کے مالک احمد فراز کو ’’بے گھر ‘‘ کر دیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد محض 11 سال کی مزید سرکاری ملازمت اچانک ختم کر کے 75 سالہ جواں ہمت شاعر کو بے روزگار کرنا صریح زیادتی تھی۔ بیروزگاری پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور رہائش انسان کا
بنیادی حق۔بے شک ذاتی بنگلے موجود ہوں لیکن سرکاری مکان کی رہائش بہر حال بنیادی ضرورتوں کو بہتر انداز میں پورا کرتی ہے غالباً اسی بیروزگاری اور بے گھری نے شاعر کے ضمیر کو کچوکے لگائے۔یہ کچوکے مزید برداشت کئے جا سکتے تھے اگر ہمایوں گوہر سرکاری گھر اور دوبارہ ملازمت کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ قصور ہمایوں گوہر کا ہے۔ وہ چاہتے تو شاعر کی شرمندگی کو مزید چند سالوں کے لیے ملتوی کر سکتے تھے۔کچھ لوگ ضمیر کے سونے جاگنے کا شیڈول خواہشات کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں۔ مثلاً ملازمت پر برقرار رہیں تو ضمیر خوابیدہ رہتا ہے۔ بیروزگار ہو جائیں تو بیدار ہو جاتا ہے۔سرکاری بنگلہ قبضے میں رہے تو ضمیر اس کی خوابگاہ میں آرام کرتاہے۔ قبضہ ختم ہو جائے تو ذاتی گھر تک جانے سے پہلے ضمیر بیدار ہو جاتا ہے۔ ایوارڈ حاصل کرنا ہو تو ضمیر سو جاتا ہے اور حکومت شاعر کی خواہشات پوری کرنے میں نا کام ہو جائے تو ضمیر جاگ اُٹھتا ہے۔ روائیداد خان ہوں یا ہمارے شاعر موصوف ان سب کا شیڈول ایک جیسا ہوتا ہے۔شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ احمد فراز نے ہلال امتیاز حاصل کرنے کے لیے صدر مشرف سے خصوصی سفارش کرائی ہو گی۔ ادبی ایوارڈا کادمی ادبیات کی سفارش پر دئیے جاتے ہیں۔ اگرا کادمی کی سفارش نہ ہو تو پھر ملک کے انتظامی سربراہ کا حکم چلتا ہے۔ احمد فراز کے لیے ہلال امتیاز کی سفارش اکادمی کی طرف سے نہیں گئی تھی۔دوسرا راستہ صرف ایک تھا کہ صدر پرویز مشرف براہ راست حکم جاری کرتے۔ ظاہر ہے ایسا حکم سفارشوں اور درخواستوں کے بغیر جاری نہیں ہوتا۔اس اعتبار سے ضمیر کے سونے جاگنے کے شیڈول کا قیاس کیا جائے تو کچھ یوں ہو گا کہ اس کے حصول کی کوشش سے لے کر وصولی تک اور وصولی کے بعد سرکاری گھر پر قبضے اور ملازمت کی تنخواہوں اور مراعات کا سلسلہ جاری رہنے تک ضمیر کے سونے کا وقت تھا۔ جب سرکارسے کوئی امید نہ رہی تو ضمیر انگڑائی لے کر جاگ اٹھا۔ شیڈول کے مطابق بیداری کا عرصہ کب تک رہے گا؟ مجھے اس کا ندازہ نہیں۔ایک بات جانتا ہوں اور وہ یہ کہ ضمیر کی خوابیدگی کے دوران کلنک کے ٹیکے جمع ہو جاتے ہیں بیداری کے دوران وہ سب کے سب لوٹا دینا چاہئیں۔ ایک کلنک کا ٹیکہ واپس کر کے کلنک کے باقی سارے ٹیکے سینے سے لگائے رکھنا اچھا نہیں لگتا۔ دل چاہتا تھا کہ دانشوروں کے خط پر بھی تبصرہ کروں لیکن کالم کا دامن تنگ ہے۔
کالم سویرے سویرے روزنامہ جنگ انٹرنیٹ ایڈیشن مورخہ ۲۶؍جولائی ۲۰۰۶ء
’’کتنا ڈیسنٹ جنرل ہے۔ذہانت اور معاملہ فہمی کی روشنی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہے۔میں تو دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ڈائیلاگ کی میز پرکوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔۔۔میری بہت سے سفارت کاروں،بھارتی ادیبوں اور صحافیوں سے گفتگو ہوئی ہے،سب مانتے ہیں کہ پاکستانی صدر مشرف انتہائی زیرک،معاملہ فہم اور آنے والے وقت کو دور سے دیکھنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔فوجی ہونے کے باوجود میں اس کی بے پناہ صلاحیتوں کا قدردان ہوں’ ‘ (۲۴؍مارچ ۲۰۰۴کو جنرل پرویز مشرف کی ویب سائٹ کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر محدود
مدعوئین کے درمیان احمد فراز کے فرمودات۔بحوالہ روزنامہ خبریں انٹرنیٹ ایڈیشن۔ شمارہ:۲۷؍جولائی ۲۰۰۶ء ۔منیر احمد بلوچ کے کالم سے اقتباس۔ )