فانی۔۔۔
اور فنا۔۔۔
کوئی چیز ہمیشہ نہیں رہتی ۔ زندگی ،اور نہ ہی کوئی رشتہ۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ لوگوں کے گرد اپنی امیدوں سے حصار نہیں باندھنا چاہیے۔ یہی امیدیں بعد میں ہمیں دکھی کر دیا کرتی ہیں۔ سب چلے جانے کے لیے ہی آیا کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہ سب اس ذات کے فیصلے ہیں ۔ اسی کے پلان اسی کے منصوبے کا حصہ ہے۔
"چاچو آپ کو نہیں لگتا کہ سجاول کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے؟” گاڑی ڈرائیوکرتا جبل اداسی سے بولا۔
"کیوں بھئی کیا زیاداتی ہو گئی اس کے ساتھ؟” وہ جو فرنٹ سیٹ پر اس کی بائیں طرف بیٹھے تھے، اس کی طرف گھورتے ہوئےپوچھنے لگے۔
"وہ مان تو چکا تھا۔ یہ بس انا کا مسئلہ بنا چکے ہیں تایا ابو۔ ورنہ تو اتنا مشکل اور اتنا ہائپر ہونے والی بات ہی کوئی نہیں ہے” حبل نے بھی لقمہ دیا۔ ان کو اپنے دوست کے قربان ہونے کا سب سے زیادہ دکھ ستا رہا تھا۔ اور کہیں دور اندر وہ اسے اپنی بہن کے لیے بھی سوچے بیٹھے تھے۔
"دیکھو بیٹا جی! اس شخص کا کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے جو لمحے میں اپنا فیصلہ بدلتا ہو۔ جس کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اگلے لمحے وہ اس فیصلے کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہوگا۔ اور مرد تو وہ ہونا چاہیے جو اپنی بات منہ سے نکال دےتو اسی پرقائم رہے۔ یہ کہاں کی مردانگی ہے کہ کل تک اسے لاہور والی پسند تھی اوراب وہ غنویٰ کے لیے بھی پوزیسو ہو رہا ہے۔ یہ ایک نہیں دو زندگیوں کا سوال تھا۔بھائی صاحب میرے خیال میں بالکل اچھا فیصلہ کرر ہے ہیں ” وہ اپنی گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے مخاطب تھے۔
"ابو پھر بھی اگر غنویٰ آپی سے ہو بھی جاتا تو کوئی بڑا ایشو نہیں تھا یہ۔ بھیا بھی گھر پر رہتے اور آپی بھی ہمارے سامنے رہتیں” کمیل جو کافی دن سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا تھا بول ہی پڑا۔
"پتر بات یہ نہیں ہے کہ بڑا ایشو تھا۔ بات یہ ہے کہ جس کا اسے بڑا چاہ چڑھا ہوا تھا نا۔ جس کی وجہ سے زہرہ بی نے اپنی بات کو پسِ پشت ڈال کر ہاں تک کر دی تھی۔ اسے چاہیے تھا ان کے ایک بار سمجھانے پر ہی سمجھ جاتا۔ جب ایسے حالات آئیں اور تب بندہ سنبھلے تو بیٹا جی وہ بندہ انتہائی بے وقوف ہوتا ہے” وہ پیچھے بیٹھے کمیل کی طرف مڑ کر بولے۔
"مجھے کچھ نہیں سمجھ آیا۔ آسان الفاظ استعمال کیا کریں مجھے سمجھانے کے لیے ” کمیل منہ بناتے ہوئےبولا۔
"اچھا کبھی گدھے کو دیکھاہے؟” وہ مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے سمجھانے لگے۔ پیچھے بیٹھی لڑکیاں بھی غور سے سننے لگی تھیں۔ غنویٰ کے علاوہ سبھی لڑکیاں ساتھ جا رہی تھیں کہ نہ تو غنویٰ کی طبیعت بہتر تھی نہ ہی کشور بیگم نے اسے خود بھی جانے ہی دینا تھا۔ ان کے لیے سجاول اب ایک ٹارگٹ بن چکا تھا۔ ‘اس سے سو گنا اچھے لڑکے سے بیاہوں گی اپنی بیٹی’
اور قدسیہ بیگم تھیں کہ رخصت کرتے وقت سجاول کے سامنے تک نہ آئی تھیں۔ اس کا بڑا دن تھاآرہا تھا۔ مگر انہوں نے اسے اپنی شکل تک نہ دکھائی تھی۔ وہ نامراد سا فخر زمان کے پیچھے چلا گیا تھا۔
"لیں یہ کیسا سوال ہے۔ ہزار با ر دیکھا ہے” کمیل ہنستے ہوئے بولا۔
"اسے کبھی ہنہناتے دیکھا ہے؟” وہ بولے تو جبل سمجھ گیا وہ اسے گھما رہے ہیں۔مسکراہٹ ضبط کرنی مشکل ہو رہی تھی۔
"ابو یہ بات بھی پوچھنے ولی تھی کیا؟” اس نے منہ بنایا۔
"نہیں پھر بھی بتاؤ تو سہی یار” وہ بہت سنجیدہ نظر آتے تھے۔ البتہ آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔
"میری توبہ آئیندہ آپ کے سامنے کوئی بات کر گیا تو” وہ جو گرے ہُڈی پہنے ہوئے بیٹھا تھا۔ ہُڈ کو سر پر ڈالا اور منہ کھڑکی کی طرف کر کے اور سیٹ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
جبل، حبل اور حیدرصاحب کا جناتی قہقہہ گاڑی میں گونجا ۔
"بھئی کہنا میں یہ چاہتا تھا کہ گدھابھی سجاول سے زیادہ عقلمد قوم ہے۔ ان کی تھنکنگ پاور (سوچنے کی صلاحیت) بہت اچھی ہوتی ہے۔ اپنے سوچے گئے پلان اور کیے گئے عمل کو بڑی اچھی طرح ترتیب دیتا ہے۔ ایک بار جو سوچتا ہے اسی پر قائم رہتا ہے۔وہ جہاں اپنی سیفٹی(حفاظت)دیکھتا ہے وہیں کام کرتا ہے۔ یہ تو ہماری سوچ بنی ہوئی ہے کہ گدھاسوچ سمجھ سے عاری ہوتا ہے۔ ورنہ وہ ایک عقلمند قوم ہے” مسکراتے ہوئے وہ بتارہے تھے۔ سب لڑکیاں کھی کھی کرنے لگی تھیں۔
"زہرہ بی یہاں ہوتیں تو پتہ ہے کیا کہتیں؟” آمنہ جو تب سے چپ بیٹھی تھیں ، بولیں۔
"جی اچھے سے پتہ ہے۔ وہ کہتیں خود جو گدھا ہے ۔ اپنی قوم کی بدنامی کون کرتا ہے” انہوں نےہنستے ہوئے زہرہ بی کی بہت بار کی جانے والی بات دہرائی تو سب کے سب ہنسنے لگے۔
"تو طے یہ پایا کہ میرےبھائی نے اب کھو(کنویں) میں گرنا ہی گرنا ہے۔ "فجر اداس بیٹھی تھی۔
"بھئی یہ تو تمہارے بھائی پہ ڈیپنڈ کرتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ باقی جہاں تک بات ہے تمہاری۔ تو فکر نہیں کرو سب ٹھیک ہو گا۔ کوئی اپنے اصل سے دور نہیں ہو سکتا۔ سجاول بھی مڑے گا۔ تم لوگ بس اچھے کے لیے دعا کیا کرو” آمنہ بیگم نے بڑے آرام سے اس موضوع کو سمیٹا تھا۔
"اب پھرکہیں رک کر کچھ کھا لیا جائے؟ بہت بھوک لگ رہی ہے” لڑکیوں کے درمیان پھنسی نمل نے منہ نکالتے ہوئے کہا تو حبل مڑ کر اسے گھورنے لگا۔
"چچی اس کے پیٹ کے ساتھ ہی کھانا باندھ دیا کریں۔ ابھی صبح تو پراٹھے کا ناشتہ کیا ہے اتنا ہیوی”
"تم نہ میرے معاملات میں بولا کرو۔ تمہارے پیسے کا نہیں کھاتی میں۔ میرے ابا کے پیسے ہیں جتنامرضی کھاؤں۔ کیوں ابو؟” اس نے حیدر زمان کو بھی شامل کیا۔
"بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے نمل۔ ابھی کچھ دور ایک ڈھابہ آنے والا ہے جبل ادھر گاڑی روکنا۔ میں اور میری بیٹی کچھ کھا کر آئیں گے۔ تم لوگوں نے ہمارے بغیر جانا ہو اتو چلے جانا” جانتے تھے نا کہ ان کے بغیر جانے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ سب کو فخر زمان کی تیوری کا علم تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں خود اپنی موت کی تیاریوں میں ہوں
میرے خلاف آپ کی سازش فضول ہے
اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچ جانے پر وہ کسی کو بلائے بغیر کمرے میں بند ہو گیا تھا۔ فخر زمان اور شیرزمان بھی اسے کسی خاطر میں لائے بغیر سانول کو لیے ہال بک کروانے چل پڑے تھے۔ اس کا بس نہ چلتا تھا وہ کرے تو کیا کرے۔ دن رات کی جو کشمکش تھی وہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔وہ فوراً اٹھا کچن میں گیا۔ کیبنٹ سے گلاس نکال کر کھنگالا اور ٹھنڈا پانی ڈال کر غٹا غٹ چڑھا گیا۔ اندر لگی آگ کو پھر بھی سکون نہ ملا تو سنک کا نل کھولا اور ہاتھوں کا پیالہ بنا کر ٹھنڈا پانی منہ پرڈالنے لگا۔ جب تک سامنےسے شرٹ گیلی اور سینہ ٹھنڈا نہ ہو گیا وہ یہ عمل کرتا گیا۔
کس کے لیے اسے بے چینی لگی تھی؟
اس کے لے جسے علم بھی نہ تھا کچھ۔اس کے لیے جسے زہرہ بی کے علاوہ اور کوئی دکھتا ہی نہ تھا شاید۔
سنک کے پاس رکھا شیشے کا گلاس اٹھا کر فرش پر مارا تو وہ کئی کرچیوں میں بٹ گیا۔
اب جب فیصلہ ہو ہی گیا تھا کہ اسے ساری زندگی جلنے کے لیے کسی ایسی عورت کے حوالے کرنا تھا جو ایک خواہش کے پورا نہ ہونےپر بھاڑ میں بھیج رہی تھی۔ وہ کل کسی بھی بات پر اسے بھاڑ میں جھونک سکتی تھی۔تو اسے اس فیصلے کو خوش اسلوبی سے قبول کرنا چاہیے تھا۔ اس نےپینٹ کی جیب سے اپنا موبائل نکالا اور ایک نمبر ملا کر کان سے لگایا۔
"اب کیوں کال کر رہے ہو؟” دوسری طرف سے نروٹھی سی آواز ابھری تو وہ تلخی سے مسکرا دیا۔
"لہنگا سلیکٹ کر چکی ہو یا میں پک کرنے آؤں؟” اپنے لہجے کومتوازن رکھتے ہوئے اس نے اپنے مطلب کی بات کی۔
"آف کورس تم ہی کے ساتھ لینا ہے۔ یہ ہماری مشترکہ چوائس ہونی چاہیےنا” اس نے بڑے لاڈ سے کہا تو سجاول نے سختی سے آنکھیں میچیں۔
"پندرہ منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔ تم گاڑی سمیت تیار رہو”
"کیا مطلب؟ تمہاری گاڑی؟” زوئنہ کا لہجہ ہمیشہ کی طرح لچک سے پاک تھا۔
"ابو کے پاس ہے۔ وہ ہال بک کروانے نکلے ہوئے ہیں۔ میں بس سے آؤں گا۔ تم تیار رہو” اس نے کہا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی، اس نے کال ڈراپ کی اور اپنے والٹ میں کریڈٹ کارڈ چیک کرتا باہر نکل گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب سےزہرہ بی بیڈ پر تھیں اس دن سے اب تک غنویٰ بخار میں پھنک رہی تھی۔ آج کچھ ٹھیک ہوئی تو ان کے پاس آ بیٹھی تھی۔چہرے پر زردی کھنڈی تھی اور لبوں کا گلابی پن بھی پپڑیوں میں گم تھا۔
شہناز اور مہناز بیگم بھی ان کے پاس بیٹھیں اپنی اپنی کہانیاں سنا رہی تھیں۔ اپنی طرف سے ایک معمولی سی کوشش کہ زہرہ بی خود کو اکیلا نہ سمجھیں۔ غنویٰ ان کے بازو کی مالش کر رہی تھی جب شہناز بیگم اٹھیں اور زہرہ بی کی الماری کے ایک پوشیدہ خانے سے کچھ تصاویراور ایک البم اٹھا لائیں۔
"تمہیں اپنا خاندان دکھاتی ہوں کہ اتنا حسین کیوں ہے ” شہناز بیگم نے کمبل زہرہ بی کی ٹانگوں پر ٹھیک کیا اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گئیں۔
"ہاتھ دھو کر آؤ میں تمہیں سب تصاویر دکھاؤں” انہوں نے کہا تو وہ فوراً سے زہرہ بی کے قمیص کا بازو ٹھیک کرتی اٹھ کر ہاتھ دھو آئی۔
"پہلے یہ تصویر دیکھو اور بتاؤ کون ہے یہ” اس کو ایک تصویر دکھاتے ہوئے کہا۔
تصویر بلیک اینڈ وائٹ تھی کچھ لکیریں سی بھی کھنچی ہوئی تھیں مگر اس میں خاص بات جو غنویٰ نے دیکھی۔ وہ ایک لڑکی تھی۔
کالے یا شاید گرے سے دوپٹے میں سفید سا چہرہ اور اس چہرے پر سب سے خاص بات ۔۔
ایک دم سے اپنی طرف کھینچنے والی آنکھیں۔ آنکھوں کا رنگ ہلکا محسوس ہوتا تھا۔ اتنی بڑی بڑی آنکھیں اور وہ ہلکا سا رنگ۔لڑکی کی مسکراہٹ بھی مسحور کن تھی۔ناک ایک دم تیکھا۔ اس لڑکی کو غصہ بھی سجتا ہوگا۔ اس بلیک اینڈ وہائٹ تصویر میں بھی وہ لڑکی خوبصورتی کی ایک اعلیٰ مثال لگتی تھی۔
سمجھا ہے کون وقت کی رفتار کا مزاج
لمحوں میں کٹ گئیں گھڑیاں شباب کی
"یہ زہرہ بی ہیں” اس کےمنہ سے ایک دم نکلا۔
"ارے تمہیں کیسے پتہ؟” شہناز بیگم حیران ہوئی تھیں جبکہ مہناز بیگم نے بھی تصویر پکڑ کر تصدیق کی کہ وہ واقعی زہرہ بی کی جوانی کی تصویر تھی یا شہناز بیگم نے غلطی سے اسے ان کی اب کی کوئی تصویر پکڑائی تھی جس سے وہ اتنی جلدی پہچان گئی۔
"ان کی مسکراہٹ سے۔ زہرہ بی جب مسکراتی ہیں تو آنکھیں بھی مسکراتی ہیں ان کی۔ اب بھی مسکرا رہی ہیں دیکھ لیں آپ۔” وہ مسکرا کر زہرہ بی کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔
"تم تو بھئی اچھے دماغ کی مالک لڑکی لگتی ہو” مہناز نے تصویرواپس شہناز بیگم کو پکڑاتے ہوئے کہاتو وہ مسکرا دی۔
"یہ آنکھیں مجھے لگتا ہے میں نے کہیں اور بھی دیکھی ہیں” وہ ان کی تصویر پکڑ کر ایک بار پھر سوچنے لگی۔
"ہاں کمیل کی آنکھیں زہرہ بی جیسی ہیں” شہناز بیگم مسکرائیں۔
"نہیں نہیں ۔ اس کے علاوہ” وہ پر سوچ انداز میں بولی۔
"ہمارے گھر میں تو یہی دو لوگ ہیں جن کی آنکھیں شہد رنگ ہیں۔ ان کے بعد تمہاری اپنی آنکھیں ہی ایسی ہیں” مہناز بولیں۔
"او ہ ہاں۔۔۔ مجھے یاد ہی نہیں۔” وہ ایک دم کھلکھلا کر ہنسی تو مہناز اور شہناز بیگم بھی ایک دوسرے کی آنکھوں میں ایک جیسا تاثر پڑھ کر مسکرا دیں۔
"میں نمل اور فجر کو بتاؤں گی۔واؤکتنا مزہ آئیگا۔” وہ انتہائی خوش نظر آتی تھی۔ کشور بیگم جو ٹرے میں ان سب کے کھانے کے ساتھ زہرہ بی کےلیے جوس لارہی تھیں اسے بہت دن بعد آج مسکراتے دیکھ کر طمانیت سے مسکرادیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا جانئے ــــــــ کہ چھاتی جلے ہے یا داغِ دل
آج آگ سی لگی ہے، کہیں کچھ دھوں سا ہے
کئی ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد آخر کار اسے ایک ڈیپ ریڈ اورگولڈن لہنگا جس پر بہت ہی نفیس کام کیا گیا تھا لینے پر راضی ہوئی تھی۔لہنگا جتنا پیارا تھا زوئنہ اس سے زیادہ نخرے دکھا رہی تھی۔ اس کا دل کیا لہنگے سمیت سامنے کھڑی ناک منہ بناتی زوئنہ کو بھی آگ لگا دے۔
"جتنی جلدی تمہارے گھر والوں کو ہے مجھے تو لگتا ہے جیسے تمہیں گھر سے بے گھر کرنے والے ہیں” وہ اس کے آگے آگے چلتی ہوئی ایک دم سے مڑی تو وہ مزید اکتایا۔ ‘ایک تو اس کے سوال جواب’
"کہیں واقعی ایسا تو نہیں ہے؟” اس نے نظریں ترچھی کر کے اسے دیکھا۔
"میرے گھر والے لوگوں کی طرح تھوڑے دل کے ہرگز نہیں ہیں” سجاول نے نہ چاہتے ہوئے بھی طنز کیا جو سیدھا زوئنہ کے ‘دماغ’ کو لگا تھا۔
"کہنا کیا چاہ رہے ہو تم” لہجہ تیکھا کیے ابرو اچکائے اس نے پوچھا۔
"کچھ نہیں کہا چلو یہاں سے ۔ بہت کام ہیں ابھی” وہ چڑ کر بولا اور آگے چلنے لگا۔ وہ بھی پیر پٹختی پیچھے آنے لگی۔
جتنا دل جل رہا تھا اتنا ہی دماغ میں الاؤ تھا۔ ابو پہ جتنا غصہ تھا اتنا ہی زوئنہ کے اس وقت ساتھ ہونے پر تھا۔ اس کے سوال پر سوال اور ہمیشہ کی طرح ابرو اچکا کر آنکھیں تیکھی کیے گئے سوال۔ جو پہلے کبھی اسےبہت لبھایا کرتے تھے، اب چڑا رہے تھے۔
"بہت بدل گئے ہو تم” اس نے بمشکل اس کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے کہا۔
"تم خود بدل گئی ہو اس لیے ایسا لگ رہا ہوں۔ ورنہ میں اب بھی وہی سجاول ہوں” اپنی کیفیت اور سوچ سے بالکل الٹ جواب دیا تھا حالانکہ زوئنہ کا تجزیہ سو فیصد درست تھا۔
"وہی سجاول ہوتے تو میرے ناراضی کا نوٹس لیتے ۔ تم نے تو اس دن کال بند کرنے کے بعد دوبارہ کی بھی نہیں کال کہ تمہارے گھر والوں کی بات سب سے اوپر اور میری کوئی اپنی خواہش ہے ہی نہیں” اس نے ایک اور شکوہ کیا۔
"دیکھو زوئنہ! ہر بات اپنے وقت پر اچھی لگتی ہے۔ اور یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے۔ تم بس آرام سے سکون سے ان لمحات کو انجوائے کرو” وہ اچانک اسکی طرف مڑ کر اس کو کندھوں سے تھامے وضاحت دینے لگا۔
"تم جتنے جلے ہوئے ہو اس وقت ، میں کیسے انجوائے کروں؟” اس نے منہ بنایا۔
"مجھ پر ذمہ داری بھی تو دیکھو۔ اور سب گھر والوں کو جتنا منایا ہے سبھی ناراض ہیں مجھ سے۔ بس وہی فرسٹریشن ہے ۔ تم تو سمجھتی ہو نا مجھے” سجاول نے لہجہ حتی المقدور نارمل کرتے ہوئے اسے سمجھایا تو وہ جیسے سب سمجھ کر اثبات میں سر ہلا گئی۔
‘کتنے سال اور لگیں گے میری توڑ پھوڑ کو ٹھیک ہوتے’
اس کی طرف سے واپس مڑتے ہوئے چہرے کی مسکراہٹ اس سوچ سے ایک دم غائب ہوئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں سوچ رہی تھی ہم کوئی ڈھولکی وغیرہ ہی ساتھ لے آتے یار” فجر جو اداسی سے بیٹھی ہوئی تھی اچانک بولی۔
"میری بات سنو! تم چپ ہی رہا کرو۔ اگر ابھی ابا نکل آئے نا اس طرف تو لگ جائیگا پتہ سب کو” اجر نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
"اور میں سوچ رہی تھی عبادت کو بھی لے آتے۔ میں تو بور ہو رہی ہوں ” منال نے پاس بیٹھے موبائل پر گیم کھیلتے کمیل کو کہنی مارتے ہوئے کہا۔ وہ مگن تھا سو غصے سے اٹھ کر اندر چلا گیا۔ منال بھی کندھے اچکا کر رہ گئی۔
"یار اتنی فضول سی لڑکی سجاول بھیا کی پسند ہے میں تو حیران ہوں۔ ایسا کیا الگ تھا اس میں کہ بھیا نے زہرہ بی سے بھی ٹکر لی”نمل نہ بناتے ہوئے بولی۔
وہ لوگ اس وقت سجاول کے اپارٹمنٹ کے لاؤنج میں جمع تھیں۔ جبل اور حبل اس وقت سجاول کے کمرے کی سجاوٹ کرنے میں مصروف تھے جبکہ سانول ابھی تک شیر زمان کے ساتھ باہر کے انتظامات میں مصروف تھا۔ فخر زمان آرام کر رہے تھے اور سجاول صبح سے اب تک غائب تھا۔
"میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ تھا کیا اس میں آخر۔ "اجر نے موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے اس کا جواب دیا۔
"اس میں الگ ہے اس کا اتنا میک اپ تھوپنا” منال نے بھی لقمہ دیا۔
"اےےے!! تم سے بڑی ہے وہ۔ اور ہونے والی بھابی بھی ہے۔ شرم کرو شرم” جبل جو کمرے سے باہر نکلا تھا کلیوں کی ایک لڑی منال کی طرف اچھالتے ہوئے بولا۔
"اچھا اتنی شرم تب تو نہیں آتی جب میری بھابی کو اتنا کوستے ہو” نمل چمک کر بولی تھی۔ فجر اور جبل چونکہ ہر وقت چونچ لڑاتے تھے اور آج کل کم ہی آمنے سامنے آتے تھے سو نمل ان کی ایک آدھ جنگ سے فیض یاب ہونا چاہتی تھی۔
"تم منہ بند ہی رکھو۔ ایک تم نے جو میرے بھائی کو اپنے ‘وشش’ میں کیا ہوا ہے نا جس کی وجہ سے وہ زہرہ بی کے آگے بھی بولا تھا۔ جانتی نہیں ہو کہ مجھ اپنا جانی دشمن بنا چکی ہو” جبل واپس کمرے میں جاتا ہوا اسے بھی طعنہ مار ہی گیا تھا۔ وہ جل بھن گئی۔جنگ نہ ہو سکی سو وہ ناکام ہوئی تھی۔
"یار امی کو آنا چاہیے تھا ۔بھیا کیا سوچتے ہوں گے” فجر کا موڈاب بھی باسی ہی تھا۔
"میں کچھ بھی نہیں سوچ رہا۔ تم لوگ فکر نہ کرو۔ آرام کرو جاکر” سجاول جو جانے کب گھر میں داخل ہوا تھا، فجر کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے بکھرے ہوئے بال اور بگاڑے اور مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔وہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگی تھیں۔
"بھیا کا خون سفید ہو گیا ہے” منال اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی اور فجر باقاعدہ رونے لگی تھی۔
"یار ایسے موقعوں پر رویا نہیں کرتے ۔ کیوں اپنا منحوس موڈ ہم پر بھی مسلط کر رہی ہو” نمل نے اسے چپ کروانے کی بجائے بھڑکا کر اس کا دھیان بٹا دیا تھا اور اب ان دونوں میں ایک جنگ چھڑ چکی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دلم در عاشقی آوارہ شد آدارہ تر بادا
تنم از بیدلی بیچارہ شد بیچارہ تر بادا
(میرا دل عاشقی میں آوارہ ہو گیا ہے۔ خدا کرے یہ اور زیادہ آوارہ ہو تا جائے۔ میرا بدن بے دلی سے کمزور ہو گیا ہے۔ یہ کمزور ہوتا چلا جائے)
اس کا دل کیا سجے سجائے کمرے کو نیست کردے ۔
ہاں۔۔۔
یہ نیست کیا ہے؟
نیست ہے کسی چیز کا نہ ہونا۔۔
ہاں۔۔۔نیست کردینا چاہیے اس کمرے کو۔ نہ یہ رہے نہ ہی اس میں آکر آباد ہونے والی۔ دل پارہ پارہ ہو جائےاور پھر قربان ہو جائے اس پرجو وہ گنگناتی ہے جو سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔ جو عقل سے بھی اوپر کی چیز ہے۔ کمرے میں ٹہلتے ہوئے اسے لگا ابھی اس نے ایک آواز سنی۔
بہ تاراجِ عزیزانِ زلف تُو عیارے دارد
بہ خون ریز غریباں چشم تُو عیارہ تر بادا
(اپنے عزیزوں کی غارت گری میں تیری زلف نے بڑا کام کیا ہے۔ہم غریبوں کا خون بہانے کو تیری نظریں اور زیادہ عیار ہو جائیں)
دل ہمک ہمک جاتا تھا اور آواز قریب تر آتی تھی۔ وہ اس وقت تھا بھی کہاں۔ جہاں یہ آواز تو محسوس کی جا سکتی تھی ۔ مگر آواز کا ہونا ناممکنات میں سے تھا۔
رخت تازہ ست و بہر مردن خود تازہ تر خواہم
دلت خارہ ست و بہر کشتن من خارہ تر بادا
(تیراچہرہ تازہ ہے ۔ لیکن مجھے مارنے کو اور تازہ ہو جائے۔ تیرا دل پتھر ہے۔ لیکن مجھے مارنے کو اور زیادہ پتھرہو جائے)
وہ کمرے سے نکلا تو جہاں لاؤنج میں پہلے سب اپنے اپنے کمبل لیے ایک ہی جگہ سونے کا پروگرام بنائے ہوئے تھے وہیں اب سب بیٹھے فون کو اسپیکر پر لگائے ساتھ میں مونگ پھلی کھا رہے تھے۔ سوائے مونگ پھلی کی ‘کھرچ کھرچ’ کی آواز کے کوئی آواز بھی اس آواز کو مدھم نہیں کر ہی تھی۔ جیسے سب کچھ بیک گراؤنڈ میں تھا اور ایک وہ آواز سب پر حاوی۔
گر اے زاہد ،دعای خیر میگوئی مرا ، این گو
کہ آن آوارہ از کوی بتان آوارہ تر بادا
(اے عبادت گزار! اگردعا دینی ہی ہے تو یہ دے کہ مجھ جیسا آوارہ، محبوب کی گلی میں اور زیادہ آوارہ ہو جائے)
وہ چلتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ جہاں سب بیٹھے تھے ان سے بھی دور اس آواز تک پہنچنے کی سعی جاگی۔ قدم نہ تو اٹھتے تھے اور نہ ہی جمتے تھے۔
ہمہ گوئیند کزخونخواریش خلقے بہ جان آمد
من این گویم کہ بہر جانِ من خونخوارہ تر بادا
(سبھی کہتے ہیں کہ وہ میرے محبوب کی خونخواری سے تنگ ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ وہ میری جان کے لیے اور زیادہ خونخوار ہو جائے)
اس کا دل تھمنے لگا تھا۔ جیسے وہ آواز اسے اپنا محبوب مان بیٹھی ہو۔ اس کا دل ہمکنے لگا۔ جیسے وہ آواز اسے اپنا جانان مان چکی ہو۔ قدم وہیں ٹھہر گئےجیسے اس آواز کی لے اس کو چھو کر گزری ہو۔
دلِ من پارہ گشت از غم، نہ زانگو نہ کہ بہ گردد
وگرنہ جانان بدین شاد است، یارب، پارہ تر بادا
(میرا دل غم سےپارہ پارہ ہو گیا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ٹھیک ہو جائے۔ اگر یہ حالت محبوب کو پسند ہے تو اور پارہ ہو جائے)
وہ بے قرار ہوا۔ میں جانان نہیں تو وہ جانا ن ہو جائے۔ میں محبوب نہیں تووہ بن جائے۔ وہ مجھے دیکھے بھی نہ۔ میرے سامنے ہو۔ اس کا پردہ بھی ہو تو آواز مجھ تک آئے۔ و ہ لے مجھے چھو کر گزرے جو ابھی گزری۔دل نہ اب تھمتا تھا نہ ہی ہمکتا تھا۔ دل اب رہا ہی نہ تھا۔ وہ غیر آباد آنکھوں سے اپنے دل کو چور چور ہوتا دیکھ رہا تھا۔
چو با تر دامنی خو کرد خسروؔ با دو چشم تر
بہ آب چشم پاکان دامنش ہموارہ تر بادا
(اے خسروؔ! تیری ان دو آنکھوں نے دامن تر کر دیا ہے۔ ان آنسوؤں سے تیرا دامن اور پاک ہو جائے)
آنکھیں ویران ہو چلی تھیں اور جسم کھنڈر بن چلا تھا۔ نہ دل پہ ہاتھ رکھا جاتا تھا نہ ہی سہارا ملتا تھا۔
اندھیرا ۔۔۔۔
کالا اندھیرا۔۔
اور کالی رات۔۔۔۔
"بھیا۔۔۔۔”منال چیخی تو وہ سب چونک کر پیچھے گرے ہوش سے بیگانہ چوڑے وجود کی طرف دوڑے تھے۔
اور آواز۔۔۔
آواز رکی نہیں۔۔
ٹوٹی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...