بیٹھیے۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے ابان کو بیٹھنے کے لیے کہا۔
ابان کے دل میں مختلف قسم کے خدشات پل رہے تھے۔ اس کے لب پر ایک ہی دعا تھی کہ وہ ٹھیک ہو، مولا اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔
دراصل آپ کی وائف کو مائنر( نروس) اٹیک ہوا ہے، انہوں نے کسی بات کا گہرا صدمہ لیا ہے، اگر وہ اسی طرح پریشان رہیں، تو خدانخواستہ ان کا نروس بریک ڈاؤن بھی ہو سکتا ہے۔
آپ کو انہیں ہر پریشانی سے دور رکھنا ہوگا اور جتنا ہوسکے انہیں خوش رکھیں۔
انھیں ہوش کب تک آئے گا۔
ہم نے خود انہیں نیند کا انجکشن دیا ہے تاکہ ان کا دماغ پرسکون ہو سکے، تقریباً تین گھنٹے بعد آجائیے گا اور کل ہم انہیں ڈسچارج بھی کردیں گے، بس آپ ان کی خوشی کا خیال رکھیں۔
__________________
کیا کہا ہے ڈاکٹر نے؟ احمد لغاری نے ابان سے پوچھا جو ابھی ڈاکٹر کے پاس سے آیا تھا۔
ڈیڈ اسے مائنر اٹیک ہوا ہے، کسی بات کا اس نے گہرا صدمہ لیا ہے۔
اسے کچھ گھنٹے تک ہوش آجائے گا۔ آپ چاچی اور امی کو لے کر گھر چلے جائیں۔ میں ہوں زری کے پاس، کل تک اسے ڈسچارج مل جائے گا۔
__________________
آج کے دن اس کی ملاقات دو بار اس دشمن جان سے ہوئی تھی۔
پہلی بار جب اسے دیکھا تھا وہ بے ہوشی کی حالت میں تھی اور دوسری ملاقات میں اس کی طبیعت بہتر ہونے کی بجائے اور بھی بگڑ گئی تھی۔ اس کے رونے کی وجہ سے سوجھی آنکھیں اسے دیکھنے سے لگتا تھا کہ جیسے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں، اپنے اندر بہت راز رکھتی ہوں۔
اور اب وہ اس کے سامنے تھی یہ دن کی تیسری ملاقات تھی اور اس ملاقات میں وہ اسے صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی۔
وہ لڑکی جو بستر سے لگی تھی، وہ اسے عزیز ہوتی جا رہی تھی اور اب جب وہ اسے اس حالت میں دیکھ رہا تھا تو اسے اپنے دل کے اور بھی زیادہ قریب لگی تھی۔
وہ کبھی اسے کہہ نہیں سکا کہ وہ اس کے لیے کیا ہے۔
وہ اس کے بیڈ کے پاس چیئر پر بیٹھا کہیں بہت دور نکل گیا تھا۔ اس کے اور اپنے ماضی میں۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
آج تو ہماری بیٹی پری لگ رہی ہے۔ آغاجان نے پیار سے اپنے سامنے موجود 9سال کی زرفشاں سے کہا جو گلابی فراک پہنے پری لگ رہی تھی۔
آغا جان آج میرے سکول میں فنکشن ہے اور آپ دیکھنا میں ہی فیری ایواڈ جیتوں گی۔۔۔۔
آغا جان!!!!! ابان آواز دیتا باہر کی طرف آیا۔
آغا جان آج بھی لیٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ اور بولتا کہ اس کی نظر زری پر پڑی، وہ واقعی ہی معصوم پری لگ رہی تھی۔ لیکن اپنے آغاجان کے پاس اسے دیکھ کر غصہ آیا تھا۔
آج بھی لیٹ ہو جائینگے ہم۔ آج فنکشن ہے، ہمیں جلدی جانا چاہیے۔ وہ نروٹھے پن سے بولا تھا۔
بس ماہی کو بھی آنے دو پھر سب چلتے ہیں مل کر آغا جان نے تحمل سے کہا۔
اس فنکشن پر زری کو سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے چوٹ لگی تھی اور اس کی بازو ٹوٹی تھی۔
اس کے گرنے کی وجہ سے وہ کافی دکھی ہوا تھا، وہ میری وجہ سے گری تھی اسے میری نظر لگی ہے غلطی تو اس پاگل کی ہے، اسے اتنا پیارا نہیں لگنا چاہیے تھا۔ وہ بارہ سالہ ابان اپنے آپ سے لڑ رہا تھا۔
اس کے مطابق اسے ہمیشہ اسی کی نظر لگتی تھی۔
اس کے بعد سے وہ صرف اسے سرسری سا ہی دیکھتا تھا اور اس سے دور رہنے کی وجہ، اس کے چڑ چڑے پن کی وجہ آغاجان کی محبت تھی جس میں زری بھی شریک ہو چکی تھی اور شراکت اسے شروع سے ہی ناپسند تھی۔
وہ کتنی دیر سوچ میں ڈوبا اسے تکتا رہا تھا شاید اس کی آنکھوں کی تپش تھی کہ اس نے ہلکی سی آنکھیں کھولی تھیں۔
جو منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا وہ شاید اسے پسند نا آیا تھا اسی وجہ سے وہ اپنی آنکھیں موند گئی تھی۔ اور مقابل کو اس کا اس طرح سے آنکھیں بند کر جانا چبھا تھا۔
ہم اس وقت ہسپتال میں ہیں اور رات کے ڈھائی بج چکے ہیں۔ وہ شاید اس سے پہلی بار اتنے نرم لہجے میں بول رہا تھا۔
لیکن اس نے پھر بھی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔
موم ڈیڈ اور چاچی گھر جاچکے ہیں اور تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی اس کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ زری نے اپنی آنکھیں کھول دی تھیں، اسے سمجھے میں ایک پل نہ لگا تھا کہ وہ اور ابان اس وقت اکیلے ہیں اور ابھی رات بھی اس کے ساتھ ہسپتال میں گزارنی ہوگی۔
اس کے اس طرح آنکھیں کھولنے پر اسے پریشانی ہوئی تھی، کیا تمہیں کچھ چاہیے؟
وہ اپنا منہ دوسری طرف موڑ گئی تھی جیسے کوئ دوسرا موجود ہی نہ ہو۔
کچھ پل بعد وہ بھی اپنا سر چیئر سے ٹکا گیا۔۔۔۔
وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے
__________________
کھٹک کی آواز سے اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔
وہ منٹ سے پہلے اٹھ کر اس کے پاس پہنچا تھا جو شاید اٹھنے کی تیاری کر چکی تھی۔
کیا ہوا کچھ چاہیے تھا؟ وہ اس کے اس طرح اٹھنے پر سمجھ گیا کہ اسے شاید واش روم جانا ہے۔
مجھے واش روم جانا ہے۔۔۔۔۔
میں لے چلتا ہوں وہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھانے ہی والا تھا کہ وہ اس کے ہاتھ جھٹک چکی تھی۔
نہیں۔۔۔۔ میں خود چلی جاؤں گی، اب میں کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں۔ وہ یہ کہہ کر اٹھی تھی۔
لیکن مقابل شاید ڈھیٹ تھا یا پھر اپنے نام کا ایک ہی تھا وہ اسے پھر سے تھام چکا تھا اور اسے لیے واش روم کی طرف بڑھا۔ اور آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔
ڈور لوکڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں باہر موجود ہوں۔
اور اسی طرح اسے واپس لیے بیڈ پر بٹھایا۔
پتا نہیں کیوں آنسوں آنکھوں سے باہر نکلنے کو بے تاب تھے اور اس کی اتنی پرواہ پر دو آنسو نکل کر رخسار پر بہے تھے، جو کہ مقابل سے چھپے نہ رہ سکے تھے۔
کیا اس قدر افسوس ہو رہا ہے تمہیں اس لڑکے کی ماں کے انکار کا کہ تمہارے آنسو نہیں تھم رہے۔وہ اسے بولنے پر اکسانے کے لیے اتنی گری ہوئی بات کہہ گیا تھا ۔
زری نے اپنے سامنے کھڑے محرم کو دیکھا تھا جو اسے بیڈ پر بٹھانے کے بعد بھی اسی کے سامنے کھڑا اپنی زبان کے نشطر چلانے سے باز نہ آیا تھا۔
وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوا تھا کیونکہ وہ اپنے آنسوں رگڑنے کے بعد مقابل کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔
وہ آنسو کی وجہ جاننا چاہتا تھا، اس نے کبھی بھی اسے اس طرح روتے نہیں دیکھا تھا جب اسے کسی بات پر غصہ آتا یا رونا آتا تھا تو وہ خاموش ہو جاتی تھی اس طرح کبھی روئی نہ تھی۔ اس کے اس طرح رونے سے اسے تکلیف ہوئی تھی اور اپنی تکلیف کم کرنے کے چکر میں وہ اپنے الفاظ سے مقابل کی تکلیف میں اضافہ کر گیا تھا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولی تھی۔
جس کے پاس باپ اور بھائی جیسے مضبوط سہارے نہ ہوں اور سہارے کے نام پر آپ جیسے مرد کا ساتھ ہو، جو کہ عارضی ہو، تو اس لڑکی کو رونا چاہیے، رونا نہیں بلکہ اسے جینا ہی نہیں چاہیے، کیا کرے گی وہ اس دنیا میں جی کر؟ اس کے آنسوؤں میں اضافہ ہوا تھا اور وہ روتے روتے اپنا سر اس شخص کے چوڑے سینے سے لگا گئی تھی جس کا ہاتھ وہ جھٹک گئی تھی، جسے وہ کچھ پل پہلے عارضی سہارا قرار دے چکی تھی اور اب وہ اسی کی پناہ میں تھی۔۔
کچھ وقت بعد اس کے رونے کی آواز ہلکی ہوئی تھی اور اس کی سسکیاں تھم گئی تھیں۔
اس نے اسے اپنے ساتھ ایسے ہی لگائے بٹھایا تھا اور پھر اس کا سر تکیے پر رکھا اور اس کے پاؤں اوپر کیے، اس پر چادر پھیلائے واپس آکر بیٹھا تھا اور اپنی نظریں اس کے معصوم چہرے پر ٹکا دی تھیں۔ رونے سے اس کی ناک گلابی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پر واضح آنسو کے نشان موجود تھے۔
وہ اٹھا تھا اور بہت پیار سے اس کی چھوٹی سی ناک کو اپنے ہونٹوں سے چھوا تھا جیسے وہ موم کی گڑیا ہو۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
_________________
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟وہ رابیعہ بیگم کی دوا لینے ان کے گھر کی طرف آئی تھی، جب دانیال کو رابیعہ بیگم کے گیٹ کے پاس دیکھ کر بولی۔۔۔
لو۔۔۔۔ محترمہ کی چھٹی والے دن بھی آنکھ جلدی کھل جاتی ہے۔۔۔۔۔ وہ اپنے منہ میں بڑبڑایا تھا۔
کچھ کہا؟ وہ اس کے اس طرح بڑھانے سے کچھ سمجھ نہ پائی۔
نہیں۔۔۔ محترمہ میں نے کچھ نہیں کہا،کیا آپ بتانا پسند کریں گی کہ ۔۔۔۔۔
میں کچھ نہیں بتاؤں گی بلکہ آپ بتائیں کہ آپ اس طرح کسی کے گھر کے باہر کیا کر رہے ہیں؟ ورنہ میں شور مچا دوں گی، کہ آپ چوری کر رہے ہیں۔
اچھا!!! تو کیا میں آپ کو چور دیکھتا ہوں؟
دیکھنے سے کیا ہوتا ہے۔ آپ کی حرکتیں بتا رہی ہیں۔
یہ میری خالا کا گھر ہے۔ میں ان سے ملنے آیا تھا۔ کیا اب آپ بتانا پسند کریں گی کہ زری اور خالہ کہاں گئے ہیں؟
کیا۔۔۔۔۔ میری چچی آپ کی خالہ کب سے بن گئیں؟ ماہی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
ہاہاہاہاہا جب سے میں پیدا ہوا ہوں، تب سے ہی وہ اس روتبے پر فائز ہو گئی تھیں۔ وہ اس کی بے تکی بات پر کھل کر مسکرایا تھا۔
چچی ہماری طرف ہیں اور زری ہسپتال میں ہے۔ اس سے اپنی اور بےعزتی برداشت نہ ہوئی اسی لیے جلدی سے بتا کر دروازہ کھولنے لگی۔
کیا۔۔۔۔ کیا ہوا ہے زری کو؟؟
آپ خود جا کر دیکھ لیں اور مجھ سے اس طرح سڑک پر کھڑے ہو کر سوال جواب مت کریں وہ اسے ہسپتال کا پتہ بتائے، اندر دوا لینے کے لیے بڑھ گئی گی۔۔
_______________
ستمگر کو میں چارہ گر کہہ رہی ہوں
غلط کہہ رہی ہوں مگر کہہ رہی ہوں
زری نے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔ تو ابان کو چیر سے سر ٹکائے سوتا پایا۔۔۔۔۔۔
وہ سوتے ہوئے بھی کسی مغرور شہزادے کی طرح لگ رہا تھا، جسے صرف اپنے آپ سے غرض ہو اور اپنی رعایا سے لاعلم ہو۔
میری وجہ سے یہ پوری رات بے آرام ہوئے، لیکن مجھے کیا؟
میری بھی تو زندگی ان کی وجہ سے ڈسٹرب ہوئی ہے، اگر انہیں چھوڑنا ہی تھا تو پھر کیوں۔۔۔ کیوں شادی کے لیے ہامی بھری تھی۔ اگر مجھے چھوڑنا ہی ہے تو مجھے کہیں کہ “میری زندگی سے چلی جاؤ زرفشاں نعمان لغاری” یوں تائی امی کو کہنے کی کیا ضرورت تھی اور تائی امی کو بھی کسی کی زبان کا پاس رکھنا نہیں آیا، کیسے مہمانوں کے سامنے میرا تماشہ بنا دیا اور ان سے یہ بھی کہہ دیا کہ میرا شوہر مجھے بہت جلد تلاق دینے والا ہے۔ وہ یہ سب باتیں سوچے جا رہی تھی اور انہیں سوچتے اس کے ماتھے پر کئی بل بھی آئے تھے اور چہرے پر ناگوار تاثرات بھی نمودار ہوئے تھے۔
کچھ ہی پل میں مقابل بھی اٹھا تھا اور اس کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اس سے پوچھا تھا۔
کیا کچھ چاہیے؟
مجھے گھر جانا ہے۔ اس کے سوال کو نظرانداز کیے بولی۔
ٹھیک ہے۔ میں ساری فارمیلٹی کلیئر کر کے آتا ہوں پھر چلتے ہیں۔ وہ یہ کہ کر دروازے کی طرف بڑھا اور پھر پلٹا۔۔۔۔۔
کچھ کھانے کو چاہیے؟
نہیں۔۔۔۔۔۔
وہ اس کا جواب سنے باہر کی طرف بڑھ گیا۔
سوال جواب تو ایسے کر رہے ہیں، جیسے ہم میں بہت اچھے تعلقات قائم ہوں۔۔۔۔
ہننہہہہہ۔۔۔۔۔
اپنی زباں تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یوں ہی ستم گر کسی کا نام
_______________
وہ کھانے کا کچھ سامان لیے جیسے ہی اندر داخل ہوا تو وہ اپنے سامنے منظر کو دیکھ کر رکا تھا۔
جہاں وہ یونیورسٹی والا لڑکا چیئر پر بیٹھا تھا اور وہ دونوں کسی بات پر مسکرا رہے تھے۔
مجھے دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی تھی اور اب وہ تمہاری خبر ضرور لے گی، کہ تم نے اسے میرے بارے میں بتایا کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔
غلطی تو تمہاری ہے۔ تم نے ہی کہا تھا کہ میں اسے کچھ——-ابھی وہ کچھ اور بولتی کہ سامنے کھڑے ابان کو دیکھ کر اس کی چلتی زبان رکھی تھی۔
کیونکہ وہ صرف خاموشی سے کھڑا ہی نہیں تھا بلکہ اپنا غصہ، حسد، جلن، سب کنٹرول کیے ہوئے تھا۔
اس کے اس طرح چپ ہو جانے پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا تھا۔
اسلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔
دانیال کے سلام پر ابان آگے بڑھا تھا۔ اور ٹرے ٹیبل پر رکھ دی تھی۔
یہ میری خالہ کا بیٹا دانیال ہے اور دانیال بھائی یہ زری کے بھائی اور میرے تایا زاد کزن ہیں۔
اور زرفشاں لغاری کا شوہر ابان لغاری بھی۔۔۔۔۔۔۔ زری کے آدھے تعارف پر اس کا موڈ بگڑا تھا اور اس سے ہاتھ ملاتے وقت اپنا مکمل تعارف خود کروا چکا تھا۔
جی جی میں جانتا ہوں آپ زری کے شوہر ہیں، جو کچھ دن پہلے لندن سے بزنس کی ڈگری لئیے واپس آئے ہیں۔
کچھ لیں گے آپ؟ چائے وغیرہ
نہیں۔۔۔۔ آپ لوگ ناشتہ کریں میں اب چلتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
________________
آپ کو انھیں بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ آپ میرے شوہر ہیں۔۔۔۔۔؟ وہ بیڈ پر بیٹھی تھی اور ابھی لباس تبدیل کرکے آئی تھی، ان کپڑوں میں وہ کچھ بہتر لگ رہی تھی جبکہ ہسپتال کے لباس میں کافی بیمار دکھائی دے رہی تھی۔
اس کی آواز پر ابان جو اس کی دوا رکھ رہا تھا اس کے ہاتھ رکھے تھے، وہ دوا کا شاپر میز پر واپس رکھ کے اس کی طرف بڑھا تھا اور اس کے سر پر جا کھڑا ہوا تھا۔
اس کی ٹھوڈی اوپر کیے، اس کی آنکھوں میں دیکھے پوچھا تھا۔
کیا میں تمہارا شوہر نہیں ہوں؟ پھر اس بے تکی بات کا مطلب کہ میں نے اسے یہ کیوں کہا؟
وہ اس کے اس طرح پوچھنے پر اپنی پلکیں جھکا گئی تھی۔
اس طرح آنکھیں نیچی کرنے پر اس نے اس کی ٹھوڈی کو جھٹکا تھا، جیسے اس کا یہ عمل ناگوار گزرا ہو۔۔۔
یہی حالات ابتدا سے رہے
لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے
_________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...