اکولہ
کیسے کہے گا آب بھلا تو سراب کو
کیسے بدل سکے گا حقیقت سے خواب کو
گھٹ بڑھ ہے آتے جاتے ہوئے ماہتاب کو
معلوم ہے ہے ساری کریڈٹ خضاب کو
تو لاکھ سینت سینت کے رکھیو شباب کو
ہے بعد دوپہر کے زوال آفتاب کو
ہلکٹ حوالدار ہوئے قربِ حشر ہے
قزاق شہر یار ہوئے قربِ حشر ہے
بچے بزرگوار ہوئے قربِ حشر ہے
شاہین مردہ خوار ہوئے قربِ حشر ہے
ہے ذلتوں کا سامنا عزت مآب کو
گدھ بھی دکھانے آنکھ لگے ہیں عقاب کو
جو رعب و دبدبہ تھا وہ کب کا اکھڑ گیا
نٹ بولٹ ڈھیلے ہو گئے چیچس بگڑ گیا
وہ نوجواں تھا جس کو پنپنا سکڑ گیا
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
کس کی نظر لگی ہے تری آب و تاب کو
اے قوم ہائے کیا ہوا تیرے شباب کو
تھا چودھویں کی شب میں حسیں چاندنی کا نور
آئی نظر چمکتی ہوئی شے کہیں پہ دور
لپکے تھے اس طرف کہ وہ آئینہ ہے ضرور
ٹکلا چمک رہا تھا کوئی پارک میں حضور
کیسے کروں بیان میں اس تب کو تاب کو
فوکس سا کر رہی تھی زمیں ماہتاب کو
صاحب! تمہارے نام کا جھنڈا بلند ہو
صاحب! تمہیں عوام کی واحد پسند ہو
صاحب! تم ہی تو ایک پُلِ ارجمند ہو
صاحب! تم اس وطن کے چمن کی سگند ہو
تالے لگیں گے ایسی سیاست کے باب کو
چمچوں کی فوج کھائے گی عزت مآب کو
کیسے ستم ظریف ستم گار لوگ ہیں
جتنے ہیں سخن سنج مزیدار لوگ ہیں
کیوں شاعروں کے در پے ٔ آزار لوگ ہیں
ہم تو نقیبؔ قوم کے بیمار لوگ ہیں
دو مصرعے دے دئے تھے انھوں نے جلاب کو
ہنستے ہیں دیکھ دیکھ کے اب پیچ و تاب کو
۲
لگا کر چلم کا جو دم دیکھتے ہیں
نظر جو نہ آئے وہ ہم دیکھتے ہیں
کہ سوکھے ہوئے کو بھی نم دیکھتے ہیں
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
’’خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں‘‘
عجب ہے درازیِ قامت کا عالم
تو میٹر، امیتابھ بچّن ہے اک سم
وہ ہے جزو ضربی تو ہے عادِ اعظم
ترے سر و قامت سے اک قدِ آدم
’’قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں‘‘
وہ آئینہ جو خود ہے جذبوں سے عاری
تمھیں کیا بتائے گا بیوٹی تمہاری
کبھی خود کو دیکھو نظر سے ہماری
تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری
’’تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں‘‘
مرے درد کو پوچھ بگ سے لٹل سے
حکیموں کے دل سے طبیبوں کے دل سے
مرض کا پتہ لے دواؤں کے بل سے
سراغِ تف نالہ بے داغ دل سے
’’کہ شب رو کا نقش قدم دیکھتے ہیں‘‘
ہے اہلِ کرم کا عجب کیس غالبؔ
کرم میں ریا کی ہے اب ریس غالبؔ
دکھاتے ہیں اوریجنل فیس غالبؔ
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
’’تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں‘‘