تو اب اس کائنات میں غور کریں افضل کونسی چیز ہوئی؟ انسان! نوعِ انسانی تمام انواعِ موجودات سے انسان افضل ہو گیا، کُل مخلوقات میں ہر مخلوق سے، کُل انواع میں ہر نوع سے افضل ہو گیا، ملائکہ سے بھی افضل ہو گیا گویا مقصودِ کائنات انسان ہے۔ اب انسان کی تین قسمیں ہیں ؛(اوّل) ایک انسان کافر ہے۔ (دوم) ایک انسان مومن ہے۔ (سوم) ایک انسان نبی ہے۔ تینوں قسم کے انسان ہیں، جبکہ نوعِ انسانی تمام کائنات سے افضل ہو گئی۔
کافر: ان میں ایک فرد یعنی کافر موجود ہے۔ کافر کے کیا معنی؟ کہ وہ انسان کہ جو جس کام کے لئے بنایا گیا تھا اس کام میں وہ صَرف نہیں ہوا وہ اپنے خالق کے لئے بنایا گیا تھا اختتام میں خالق پر نثار نہیں ہوا، خالق کے کام میں وہ نہیں آیا اس کا بننا نہ بننے کے برابر ہو گیا وہ بگڑ گ یا۔ جیسے کہ سالن کی دیگ سڑ جائے پھینکی جاتی ہے کھانے کے کام میں نہیں آئے گی، حالانکہ ننھا سا جز گھٹیا سا جُز جو نمک ہے وہ رکھ لیا جائے گا مگر دیگ پوری پھینک دی جائے گی۔ اس میں اگر چوہا پڑ جائے یا سڑ جائے تو پورا قورمہ یا پوری بریانی کی دیگ بے کار ہو گئی پھینک دی جائے گی اور ننھا سا جُز جو مٹی ہے یعنی نمک جو بچ گیا ہے وہ رکھ لیا جائے گا کہ وہ کام کا ہے۔ اسی طرح کافر کہے گا: یٰلَیتَنِی کُنْتُ تُرٰبًا (سورت النباء 78 آیت 40) ’کاش! میں گھٹیا سے گھٹیا جُز یعنی مٹی ہوتا۔‘ میں گھٹیا جُز بننے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ سیب کتنی عمدہ چیز ہے ذرا بگڑ جائے، سڑ جائے تو سارا پھینک دیا جائے گا لیکن دوسرا کچا سا بھی ہے وہ رکھ لیا جائے گا۔ کافر کے معنی یہ ہیں کہ وہ قطعی بہترین موجودات میں سے تھا۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیۤ اَحْسَنِ تَقْوِیمٍ (سورت التین 95 آیت 4) ’بہترین قوام میں سے ہم نے بنایا انسان کو۔‘ اس کا قوام بہت اچھا تھا چونکہ وہ سڑ گیا اس لئے وہ بیکار ہو گیا۔ اُوْلٰٓىٕکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ (سورت الاعراف 7 آیت 179) ’وہ ہر جُز سے گھٹیا ہو گیا تمام کائنات سے بدتر ہو گیا۔‘ اُولٰٓىٕکَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیةِ (سورت البینہ 98 آیت 6) ’وہ بدترین خلائق ہو گیا۔‘ جس طرح وہ دیگ بدترین خلائق ہو گئی اپنے سب جُزوں سے بدتر ہو گئی۔ اسی طرح وہ انسان جو اپنے رب کے کام میں نہیں آیا تمام کائنات کی ہر گھٹیا سے گھٹیا نوع سے بدتر ہو گیا، سڑ گیا۔ جس کام میں اس کو آنا تھا اس کام میں وہ نہیں آ سکا یعنی کافر خارج ہو گیا۔
اب دو گروہ رہ گئے؛ ایک مومن دوسرا نبی:
مومن، نبی: مومن کا خود مستقل وجود نہیں ہے مستقل وجود ایمان کا نہیں ہے، اس کی روشنی ایسی ہے جیسے کہ ظِل یا سایہ روشنی کا یہ اس سورج کی روشنی کے تابع ہے اگر وہ روشنی نہ ہو تو یہ نہ ہو۔ ایمان جو ہے مومن کا یہ در حقیقت نبوت کے تابع ہے اگر نبوت نہ ہو ایمان نہ ہو، تو مومن مستقل شئے نہیں ہے۔ تو مستقل انسان جو ہوا وہ نبی ہے نبی تمام موجودات سے افضل ہو گیا، انبیاء علیہم السلام تمام کائنات سے افضل ہیں۔ اب اس نے نبوت بنائی۔ نبوت کسے کہتے ہیں؟ خطابِ ربانی کو، یاد رکھو۔ اللہ تعالیٰ جس بشر سے خطاب کرے بس اس خطاب ہی کا نام نبوت ہے اور وہ بشر جو ہے وہ نبی ہے۔ اس نے کہا کہ: یٰۤاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّةَ (سورت البقرۃ 2 آیت 35) ’اے آدم! رہو سہو جنت میں۔‘ اب نبی بنایا اس نے نبوتِ آدم متحقق ہوئی متحقق ہونے کے بعد اس کو ختم کر دیا وہ ختم ہو گئے، ختم ہونے کے بعد اس نے دوسری نبوت بنائی۔ اس سے یہ پتہ چل گیا کہ وہ نبوت مقصود نہیں تھی اگر وہ مقصود ہوتی تو آگے کاریگری جا رہی نہیں رہتی۔ اگر نبوتِ آدم مقصود ہوتی جو متحقق کی تھی اور دیگر نبوتوں کی ایجاد کی ضرورت باقی نہیں رہتی آگے کوئی اور نہ بنتی۔ پھر کہا: یٰۤاِبْرٰہِیمُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا (سورت ھود 11 آیت 76) ’اے ابراہیم! جانے بھی دے۔‘ ابراہیم علیہ السلام کی نبوت ہوئی، اسے بھی ختم کیا۔ پھر کہا ’یا یعقوب، یا یوسف‘ یا فلاں، فلاں، پھر کہا: یا مُوْسیٰ اِنِّی اَنَا ’اے موسیٰ! میں، میں ہی ہوں۔‘ اگر ان کی نبوت مقصود ہوتی تو آگے نبی نہ بنتا۔ پھر کہا: یا یحیی، یا ذکر، یا داؤد، یا عیسیٰ سب نبوتوں کو بناتا رہا اور ختم کرتا چلا گیا، تو معلوم ہو گیا کہ ان نبوتوں میں سے کوئی سی بھی نبوت مقصدِ تخلیق نہیں ہے گویا مقصدِ کائنات نہیں ہے، کیونکہ اگر مقصد حاصل ہو جائے تو اس کے بعد کام ختم ہو جانا چاہیئے۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کو کہا یا عیسیٰ وہ بھی ختم ہوئے۔
پھر آگے سب کے بعد محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کو بنایا اور کہا کہ:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیمًا
(سورت احزاب 33 آیت 40) نبوت کا کام ختم ہو گیا، نبوت ہو چکی۔ تو معلوم ہوا کہ یہی نبی مقصود ہے، یہی مقصودِ کائنات ہے، اسی کا پیدا کرنا تھا تمام عالَم کو اسی کے لئے پیدا کیا ہے، یہی نبی مقصود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نبی کو نام لے کر نہیں پکارا، سب کا قرآن میں نام آیا: یا آدم، یا نوح، یا ابراہیم، یا داؤد، یا موسیٰ، یا عیسیٰ ان کو کہا: یٰۤاَیہَا الرَّسُوْلُ (سورت المائدہ 5 آیت 67) اتنا معزز نبی ہے یہی مقصدِ کائنات ہے، یہی تخلیقِ عالَم کا مقصد ہے اسی نبوت پر ختم ہوا۔ اور اسی مضمون پر ہم نے اپنے بیان کو ختم کر دیا۔ اب سب لوگ اپنے نبی پر دُرود و سلام بھیجو۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ مَعْدَنَ الْجُوْدِ وَ الْکَرَمْ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَ بَارِکْ وَسَلَّمْ
ہزاروں سال نرگِس اپنی بے نوُری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دِیدہ وَر پیدا
(علامہ اقبال)
٭٭٭
ٹائپنگ اور فائل کی فراہمی: حفیظ الرحمٰن
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...