باتیں تھی کہ ختم کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
تقریباً رات کہ 1 بجے تک وہ سب وہی بیٹھے باتیں کررہے تھے۔
کیف آئمہ سے بات کرنا چاہتا تھا مگر اس کی ہمت نہیں ہورہی تھی یہ آئمہ وہاں بیٹھی سب کی باتیں سن رہی تھی۔
وہ کیف کو نوٹ نہیں کرہی تھی نا ہی اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔
مگر کیف مسلسل اس کی طرف ہی دیکھی جارہا تھا اچانک کیف کی ماں نے کہا: افففف رات کہ 1بج گئے اور پتا ہی نہیں چلا۔
یہ سن کر سب ہی حیران ہوئے۔
آئمہ کی ماں نے کیف اور اس کی ماں سے کہا: اوووو واقعی باتیں کرتے کرتے کچھ پتا ہی نہیں چلا آپ لوگ کافی تھک گئے ہونگے آخر اتنا صفر جو کرکے آئے ہے آپ لوگ چلے میں آپ لوگوں کو آپ کا کمرا دکھاتی ہوئ۔
یہ سن کر کیف کی والدہ نے کہا: ارے اس کی کوئ ضرورت نہیں ہم اب جارہے ہیں۔
اکرم نے فوراً کہا: ارے کہاں جارہے ہیں آپ لوگ؟؟؟
کیف کی ماں ارفہ مسکرائی اور کہا: بھائ آپ شاید بھول گئے ہے یہاں کیف کے والد نعیم کا اپنا گھر بھی تھا مطلب جہاں پر میں اور نعیم اکیلے رہتے تھے وہ گھر نعیم نے میرے نام کیا ہوا تھا اب ہم وہی ہی جارہے ہیں۔۔۔۔
اکرم نے کہا: مگر وہ گھر تو آپ نے کرایے پر چڑھا دیا تھا۔
ارفہ نے کہاں: اب وہاں کوئ نہیں رہتا ہمارے کرائے دار وہ گھر چھوڑ کر جاچکے ہیں میں نے پہلے ہی یہاں فون کروا کر گھر کی صفائی کروا دی تھی۔
اکرم نے کہا: کمال ہے مطلب بھائ کے گھر نہیں رکنا تم نے۔
ارفہ نے مسکراتے ہوئے کہا: بھائ اب ہمیشہ کے لئے تو نہیں رک سکتی نا۔
کیا مطلب! اکرم نے حیرانگی سے پوچھا۔
ارفہ نے مسکراتے ہوئے کہا: اب ہم یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگئے ہیں۔
یہ سن کر سب بہت خوش ہوئے۔
ارفہ نے مزید کہا: وہ کیف نے ایک دن مجھ سے کہا کہ وہ اب واپس پاکستان جاکر اپنے والد کی فیکٹری سنبھالنا چاہتا ہے جو کہ کافی عرصے تک بند ہے۔
یہ سن کر سب بہت خوش ہوئے۔
آئمہ نے مسکراتے ہوئے کہا: پھوپھو اگر ایسی بات ہے تو میں بھی اب آپ کے گھر روز آؤ گی۔۔۔
ارفہ نے کہا: جی جی میرا بیٹا ضرور کیوں نہیں وہ تمہارا ہی گھر ہے۔۔۔۔
ارفہ مسکرائی۔
ارفہ کی مسکراہٹ اتنی خوبصورت تھی کہ کیف دیکھتا ہی رہ گیا ایسا لگ رہا تھا جیسے چاند زمین پر اتر آیا ہو وہ اپنی آنکھیں تک نہیں جھپک رہا تھا اچانک آئمہ نے اسکی طرف دیکھا آئمہ کو اپنی طرف دیکھتے دیکھ کر کیف ڈر گیا اور جلدی سے اپنی نگاہ نیچے کرلی۔
آئمہ نے اس بات کو زیادہ سیریس نہیں لیا۔
ارفہ نے آئمہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: اچھا بیٹا تم اب کیا کررہی ہو کیا راوٹین ہے؟؟؟
آئمہ نے کہا: جی پھوپھو میں اب یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہو۔۔۔
اوووو اچھا شاباش۔
ارفہ نے مزید کہا: تو شادی وادی کا کوئ پروگرام نہیں ہے ابھی ہینا۔۔۔
یہ سن کر آئمہ کو جھٹکا لگا کیونکہ وہ سب نہیں جانتے تھے کہ آئمہ اب ایک طلاق یافتہ خاتون ہے اس سے پہلے کہ آئمہ پھر سے رونا شروع کرتی آئمہ کی والدہ نے جلدی سے کہا: نہیں آئمہ ابھی پڑھ رہی ہے اور ابھی اس کا شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔۔
یہ سن کر ارفہ کو کچھ شک ہوا لیکن اس نے کچھ کہا نہیں۔۔۔
ارفہ نے کہا: اوووو اچھا یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔
تھوڑی دیر تک باتیں کرنے کہ بعد کیف اور اس کی والدہ وہاں سے چلے گئے اکرم نے تو بہت کہا کہ رات کافی ہوگئ ہے رک جاؤ مگر ارفہ نے ایک نا سنی وہ اپنے شوہر کہ ہی گھر رہنا چاہتی تھی۔۔۔۔
جب وہ گھر پہنچے تو گھر کو دیکھ کر ارفہ کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے اسے اس کے شوہر نعیم کی یاد آنا شروع ہوگئی تھی کیف نے اپنی روتی ہوئی ماں کو گلے سے لگاتے ہوئے چپ کرایا اور کہا: ارے امی آپ کیوں رو رہی ہے ایسے مت روئے ابو ہمیں دیکھ رہے ہونگے اور وہ بہت خوش بھی ہونگے کہ ہم گھر آگئے۔۔۔۔
ارفہ اپنے بیٹے کہ کہنے پر چپ ہوئ اور گھر کی ایک ایک چیز کو دھیان سے دیکھتی گئ کیف بھی گھر کو دیکھ رہا تھا۔
وہ دونوں بہت خوش تھے۔
آخر وہ سب اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر گھر لوٹے تھے۔
یوں پھر وقت گزرتا گیا کیف نے اپنے باپ کی فیکٹری کو بہت اچھے طرح سے سنبھالنا شروع کردیا اس نے فیکٹری کی اچھی طرح سے مرمت کروائی سب کیف سے بہت خوش تھے۔
کیف کی فیکٹری کافی اچھی چل رہی تھی۔
اب بس کمی تھی تو ایک لائف پارٹنر کی جس کہ آنے سے زندگی رنگین ہوتی ہے۔
کیف نے اپنی زندگی میں بہت محنت کی ایسا نہیں تھا کہ وہ خوبصورت نہیں تھا بلکہ وہ ایک بہت ہی خوبصورت ہینڈسم شخص تھا بہت سی لڑکیوں نے کیف کو ٹرائے کیا تھا مگر کیف ایک شریف انسان تھا۔
اس کا دل بس ایک ہی چہرے پر اٹک گیا تھا زندگی میں اس نے بہت سی لڑکیاں دیکھی تھی مگر آئمہ جیسی کوئ نہیں تھی آئمہ تو سب سے مختلف تھی۔
کیف آئمہ سے بات تو کرنا چاہتا تھا مگر اس میں اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی وہ جب بھی بات کرنے لگتا تھا آئمہ کو دیکھ کر اس کی سٹی گل ہوجاتی تھی۔
ایک دن کیف کام سے گھر پہنچا تھا کھانے کے ٹیبل پر اسکی ماں نے کیف سے کہا: بیٹا میں چاہتی ہو کہ تم اب شادی کرلو تمہاری عمر بھی ڈھلتی جارہی ہے اور ویسے بھی یہی عمر ہوتی ہے شادی کی۔۔۔
یہ سن کر کیف کافی خوش ہوا کیونکہ وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ اسکی ماں اس حوالے سے اس سے پوچھے۔۔۔
کیف ابھی چپ ہی بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ اسکی ماں نے پھر سے کہا: کیا ہوا بیٹا میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے اگر تمہیں کوئ لڑکی پسند ہے تو بتادو۔
کیف نے مسکراتے ہوئے کہا: پتا نہیں امی مجھے شادی کرنی چاہئے کہ نہیں۔
ارفہ کافی حیران ہوئ کیونکہ کیف کہ یہ بات اڈے زرا سمجھ نہیں آئی۔
ارفہ نے کہا؛ کیا مطلب دیکھو بیٹا اگر تمہاری نظر میں کوئ لڑکی نہیں ہے تو میں ہی دیکھ لونگی کیونکہ میری نظر میں ایک لڑکی ہے۔۔۔۔
یہ سن کر کیف کو تو جیسے کرنٹ لگ گیا ہو اس نے حیرانگی سے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: کون ہے آپکی نظر میں؟؟؟
ارفہ مسکرائی اور کہا: آئمہ! آئمہ ہے میری نظر میں۔۔۔۔
یہ سن کر کیف کی تو خوشی کا کوئ ٹھکانہ ہی نا رہا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جھومیں اور ناچے۔
کیف نے شرماتے ہوئے منہ نیچے کرلیا۔
اسکی ماں نے کیف کی یہ حرکت دیکھی تو اس نے کہا: ماں ہو میں تمہاری اچھی طرح سے پتا ہے مجھے کہ تم بھی آئمہ سے محبت کرتے ہو اور تمہیں بھی وہ بہت پسند ہے۔۔۔
کیف نے شرماتے ہوئے کہا: آپکی مرضی ہے امی آپ جو کرنا چاہے کرے میں آپکی خوشی میں خوش ہو۔
ارفہ نے مسکراتے ہوئے کہا: تو پھر کیا میں کل جاو بھائ کہ گھر آئمہ کا رشتہ مانگنے تمہارے لئے۔۔۔
کیف تو خوشی سے پاگل ہورہا تھا۔۔۔۔
کیف نے کہا: جی جیسی آپکی مرضی۔۔۔۔
ارفہ مسکرائی اور کہا: ٹھیک ہے پھر۔۔۔
اگلے دن ارفہ اسی نیت سے اکرم کی گھر گئ۔
اس وقت وہ سارے اکھٹے بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
ارفہ نے موقع ملتے ہی اپنے بھائ سے کہا: بھائ آج میں آپ سے کچھ مانگنے آئ ہو۔۔۔۔
اکرم نے کہا: میرا تو سب کچھ تمہارا ہے پوچھنے والی کیا بات ہے جو چاہے وہ لے لو۔۔۔
ارفہ نے مسکراتے ہوئے کہا: میں بہت ہی خاص اور نایاب چیز مانگنے آئ ہو جس کے لئے مجھے آپ سے اجازت لینے کی ضرورت ہے۔۔۔
یہ سن کر اکرم نے کہا: جی جی حکم کرے۔۔۔
ارفہ نے رکتے رکتے ہوئے کہا: وہ بھائ میں اپنے بیٹے کیف کے لئے آئمہ کا رشتہ مانگنے آئ ہو۔۔۔۔
یہ سن کر آئمہ کے ماں باپ دونوں کو حیرت کا جھٹکا لگا اور وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگ پڑے۔
ارفہ نے ان دونوں کی طرف دیکھا اور کہا: ککک کیا ہوا بھائ میں نے کچھ غلط کہہ دیا۔۔۔
آئمہ کی ماں نے کہا: نننن نہیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔۔۔
ارفہ نے کہا: تو پھر آپ لوگوں نے ایسا کیوں بنایا ہے جیسے میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہو یا پھر مجھ سے کوئ غلطی ہوگئ ہو۔۔۔
اکرم نے کہا: نہیں ارفہ ایسی بات نہیں ہے ہم ہم اس رشتے سے خوش ہے۔
یہ سن کر آئمہ کی ماں اس بات پر اکرم کی طرف نہایت حیرت سے دیکھنے لگ پڑی۔
اکرم نے مزید کہا: لیکن ہم ایک بار آئمہ سے پوچھ کر آپ کو جواب دے گے۔۔۔
ارفہ یہ سن کر بہت خوش ہوئ ارفہ نے کہا: آئمہ میری بھی بیٹی ہے میں نے اسے گود میں اٹھایا ہوا ہے آج میں آپ سے وعدہ کرتی ہو کہ آئمہ کو کبھی رونے نہیں دونگی میرا بیٹا بہت اچھا ہے اور خوشی کی بات تو یہ بھی ہے کہ کیف بھی آئمہ کو پسند کرتا ہے وہ آئمہ کو بہت خوش رکھے گا اسے کبھی کوئ تکلیف نہیں آنے دے گا۔۔۔۔
یہ سن کر اکرم نے کہا: جی میں جانتا ہو اور ہم اس رشتے سے کافی خوش بھی ہے مگر پھر بھی ہمیں آئمہ کا مشورہ جاننا ضروری ہے۔
ارفہ نے کیا: ٹھیک ہے بھائ آپ لوگ آئمہ سے بھی پوچھ لے ٹھیک ہے تو پھر میں کل دوبارہ آؤ گی اس امید سے کہ آئمہ بھی اس رشتے سے راضی ہے۔۔۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئ۔۔۔۔
اس کے جاتے ہے آئمہ کی والدہ اکرم کو کہنے لگی: اکرم یہ آپ نے کیا کہہ دیا۔۔۔
اکرم نے کہا: تو اور کیا کہتا میری بہن ہے وہ کوئ غیر تھوڑی نا ہے جو میں انکار کر دیتا۔۔۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: مگر آپ تو سب جانتے ہی ہے تو پھر۔۔۔
یہ سن کر اکرم بھی پریشان ہوگیا اس نے کہا: اتنا اچھا اور نیک انسان ہے کیف اور یہ بات تو میں پورے اعتماد اور بھروسے سے کہہ سکتا ہو کہ کیف آئمہ کو کبھی کوئ دکھ نہیں آنے دے گا۔۔۔
اکرم نے مزید کہا: تم ایسا کرو جب آئمہ یونیورسٹی سے آئے تو اس حوالے سے اس سے پوچھنا اور اسے اس بات پر راضی بھی کرنا کہ وہ اس رشتے سے راضی ہو جائے کیونکہ اس سے اچھا خاندانی رشتہ ہمیں نہیں ملے گا۔۔۔
یہ سن کر آئمہ کو والدہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
جب آئمہ یونیورسٹی سے آئ تو اس نے آتے ہی اپنے ماں باپ کو سلام کیا اور اپنے کمرے میں چلی گئ آئمہ فریش ہوکر نیچے آئ سب کیساتھ مل کر کھانا کھایا یونیورسٹی میں آج جو کچھ اس کیساتھ ہوا وہ سب کچھ اپنے ماں باپ سے شئر کیا تھوڑی دیر تک وہ وہی بیٹھی رہی اور پھر وہ اپنے کمرے میں چلی گئ۔
جب شام ہوئی تو آئمہ کی ماں اسی نیت سے آئمہ کہ کمرے میں گئ۔
آئمہ نے اپنی ماں کو دیکھا اور فوراً ہی انہیں اپنے پاس بیڈ پر بٹھایا اور کہا: جی امی۔۔۔
آئمہ کی ماں نیچے منہ کرکے بیٹھی تھی۔
اپنی ماں کی یہ حرکت دیکھ کر آئمہ نے کہا: امی کیا ہوا کچھ ہوا ہے بتائے مجھے!
آئمہ کی ماں نے آئمہ کی طرف دیکھا اور کہا: بیٹا آج تمہاری پھوپھو آئ تھی۔۔۔
آئمہ نے کہا: ہاں تو!
آئمہ کی والدہ نے کہا: بیٹا ہمیں غلط مت سمجھنا ہم جانتے ہیں کہ تم پر کیا گزری ہے اسی لئے ہم نے ابھی کچھ نہیں کیا
آئمہ کو کچھ سمجھ نہیں۔ آئ آئمہ نے کہا: امی میں سمجھی نہیں۔
آئمہ کو والدہ نے کہا: بیٹا تمہاری پھوپھو اپنے کیف کے لئے تمہارا رشتہ مانگنے آئ تھی۔
یہ سن کر آئمہ اپنی آنکھیں پھاڑ کر اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگی اور کہا: تو پھر آپ لوگوں نے کیا کیا۔؟؟؟؟
آئمہ کی والدہ نے کہا: ہم نے تو یہی کہا کہ ہم تم سے پوچھ کر بتائے گے۔۔۔
آئمہ نے کیا: اچھا کیا امی آپ ان کو انکار کردے۔
یہ سن کر آئمہ کی والدہ کافی حیران ہوئ اور کہا: مگر کیوں بیٹا کیف اتنا اچھا محنتی انسان ہے کیا کمی ہے اس میں اور ہم بھی یہی چاہتے ہے کہ تم کیف سے ہی شادی کرو۔۔۔
آئمہ کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: اسی لئے تو کہہ رہی ہو کہ منع کردے مجھ جیسی طلاق یافتہ لڑکی کیف کے لائق نہیں ہے۔۔۔۔
اسکی ماں نے کہا: مگر بیٹا تمہاری پھوپھو کافی امید لے کر آئ تھی اور صبح انہوں نے پھر آنا ہے اور ہم بھی اس رشتے سے کافی خوش ہے۔
آئمہ نے کہا: ٹھیک ہے تو پھر مجھے کیف سے بات کرنی ہوگی۔
آئمہ کی والدہ نے حیرانگی سے کہا: کیا کیا بات کرنی ہے تم نے اس سے؟؟؟؟
آئمہ نے کہا: میں اسے کسی بات سے انجان نہیں رکھنا چاہتی میں کیسی لڑکی ہو میرے ساتھ کیا کیا ہوا سب اسے بتانا چاہتی ہو اور پھر اس سے پوچھوں گی کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے کہ نہیں۔۔۔۔
یہ سن کر اسکی ماں نے کہا: مگر بیٹا!!!!
آئمہ نے اپنی ماں کی بات کاٹتے ہوئے کہا: نہیں امی یہ کرنا ضروری ہے اسے میرے بارے میں سب پتا ہونا چاہئے میں ایسے اپنی ساری حقیقت چھپا کر اس کیساتھ زندگی نہیں گزار سکتی۔
آئمہ کی ماں نے کہا: ٹھیک ہے بیٹا مگر جو بھی کرنا سوچ سمجھ کر ہی کرنا۔
آئمہ نے اپنے آنسو صاف کئے اور کہا: جی۔
یہ سن کر اسکی ماں وہاں سے چلی گئ۔
اپنی ماں کے جاتے ہی آئمہ نے اپنا فون اٹھایا اور کیف کی طرف کال کی۔
جب کیف نے دیکھا کہ آئمہ اسے کال کرہی ہے تو اس نے فوراً کال اٹھائ اور کہا: السلام و علیکم!
آئمہ نے سلام کا جواب دیا اور کہا: کیف کیا آپ مجھ سے ملنے آسکتے ابھی میرے گھر پر۔۔۔
یہ سن کر کیف کافی حیران ہوا اور کہا: جججج جی جی میں آتا ہو۔
آئمہ نے کہا: جی میں انتظار کررہی ہو۔۔۔۔
یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیف کو اب ڈر بھی لگ رہا تھا اس کے زہن میں یہی ڈر تھا کہ کہی آئمہ اس سے ناراض نا ہوجائے اس کہ پسینے چھوٹ رہے تھے بڑی مشکلوں سے وہ آئمہ کہ گھر تک پہنچا گھر کہ باہر کھڑا ہوا وہ ایک بار پھر سے رک گیا اور سوچنے لگا کہ کہی آئمہ اسے شرمندہ ہی نا کردے۔
لیکن پھر وہ اللہ کا نام لے کر گھر کہ اندر داخل ہوا اندر جاکر اس نے آئمہ کی والدہ کو دیکھا وہ آئمہ کی والدہ کے پاس گیا اور کہا: السلام و علیکم! مامی کیسی ہے اپ؟
آئمہ کی والدہ نے کیف کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا: واعلیکم السلام میرے بیٹے تم کب آئے؟
کیف نے کہا: جی مامی ابھی ہی آیا ہو وہ آئمہ نے فون کیا تھا کہ آجاؤ اس نے کوئی بات کرنی ہے اسی لئے آیا ہو۔۔۔
آئمہ کی والدہ نے رکتے ہوئے کہا:اچھا آئمہ نے تمہیں بب بلایا ہے۔
کیف نے کہا: جی مامی ویسے آئمہ ہے کہا؟
آئمہ کی والدہ نے کہا: ہا ہاں بیٹا وہ اپنے کمرے میں ہے تم اس کے کمرے میں چلے جاؤ اس سے ملنے۔۔۔
یہ سن کر کیف نے سر ہلایا اور آئمہ کہ کمرے کی جانب بڑھا جب وہ کمرے کہ اندر جانے لگا تو اس نے باہر سے پہلے دروازہ کھٹکھٹایا۔
آئمہ نے اسے اندر آنے کا کہا۔
یہ سن کر وہ اندر داخل ہوگیا۔
اس کہ ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔
آئمہ نے کیف کی طرف دیکھا اور اسے صوفے پر بٹھایا اور خود بھی پاس پڑے صوفے پر بیٹھ گئ۔
کیف نے آئمہ کی طرف ڈرتے ہوئے دیکھا اور کہا: ججج جی وہ آپ نے بب بلایا تھا۔۔۔
آئمہ نے کیف کی طرف نظر دوڑائی اور پھر ایک لمبی سانس خارج کرتے ہوئے کہا: کیف کیا تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو۔۔۔۔
آئمہ نے یہ سوال ایک دم سے ہی پوچھ لیا۔
یہ سن کر کیف کو تو جیسے جھٹکا لگ گیا ہو۔
اس نے نیچے منہ کرلیا۔
آئمہ نے پھر سے کہا: کیف کیا ہوا مجھے بتاؤ کیا یہ سچ ہے۔۔۔؟
کیف نے نیچے ہی منہ کرتے ہوئے کہا: ججج جی یہ سچ ہے!!!
یہ سن کر آئمہ نے کہا: لیکن کیوں؟؟؟؟
کیف نے پھر سے نیچے منہ کرکے ڈرتے ہوئے کہا: وہ وہ وہ میں۔۔۔ آپ کو پسند کرتا ہو۔۔۔
آئمہ نے کہا: مگر کیوں؟؟؟
کیف نے اس بار اپنا سر اٹھایا اور آئمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: مجھے آپ سے محبت ہوگئ ہے اسی لئے۔۔۔
آئمہ نے جب یہ سنا تو وہ بھی کافی حیران ہوئ۔۔۔
آئمہ نے کہا: مگر میں یہ شادی نہیں کرسکتی!!!
یہ سن کر تو جیسے کیف کہ سر پر پہاڑ ٹوٹ گیا ہو۔
کیف نے اپنی پھٹی آنکھوں سے آئمہ کی طرف دیکھا اور کہا: کککک کیوں کیوں نہیں کرسکتی؟؟؟؟؟
آئمہ نے ایک پل کے لئے کیف کی آنکھوں میں دیکھا کیف کی آنکھیں اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ آئمہ سے کتنی محبت کرتا ہے۔۔۔
آئمہ نے کہا: کیونکہ میں تمہارے لائق نہیں ہو۔۔۔
کیف نے حیرانگی سے پوچھا: ایسا کیا ہے آپ میں جو آپ میرے لائق نہیں ہے؟؟؟
آئمہ نے کہا: تم میری کہانی نہیں جانتے!
یہ سن کر کیف پھر سے کافی حیران ہوا اس نے کہا: کک کہانی کیسی کہانی۔۔۔
آئمہ نے اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کی جب کیف نے اسکی آنکھوں سے نکلے آنسو دیکھے تو وہ ڈر گیا کیف نے کہا: آپ بتائے مجھے کیا ہوا ہے آپ کیساتھ پلیز ایسے مت روئے۔۔۔
آئمہ نے کہا: کیف میں ایک طلاق یافتہ لڑکی ہو۔۔۔۔
یہ سن کر کیف کو تو جیسے کرنٹ لگ گیا ہو وہ تڑپتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا کیف کی آنکھیں لال پڑ گئ تھی۔
کیف نے کہا: کیا! کیا کہا آپ نے آپ آپ پہلے سے ہی شادی شدہ تھی؟؟؟؟
آئمہ نے کہا: ٹھیک کہا تم نے۔۔۔
کیف نے کہا: اور اب طلاق ہوچکی ہے اور اتنا سب کچھ آپ لوگوں نے ہم سے چھپائے رکھا۔۔۔ کیوں!!!
کیف کسی پانی سے باہر گری مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔۔۔
یہ سن کر آئمہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور کیف کو دیکھتے ہوئے کہا: تم بھول گئے ہو کیف جس دن میری شادی تھی اس دن تمہاری امی کی طبیعت کافی خراب تھی اور تم ان کیساتھ ہسپتال میں پورے ایک مہینے تک ایڈمٹ تھے تو ان حالات میں ابو اور امی کو آپ لوگوں کو میری شادی کے بارے میں بتانا مناسب نہیں سمجھا۔
آئمہ نے مزید روتے ہوئے کہا: شادی کہ دو سال بعد ہی مجھے طلاق ہوگئ تھی۔۔۔
کیف نے کہا: طلاق کی وجہ کیا تھی؟؟؟؟
کیف اس وقت بہت بری حالت میں تھا۔
آئمہ نے روتے ہوئے اپنی ساری کی ساری کہانی کیف کو سنادی اور کہا: میں تمہیں کسی بات سے انجان نہیں رکھنا چاہتی تھی اور نا ہی یہ راز ہمیشہ کے لئے راز رکھ کہ تمہارے ساتھ زندگی گزار سکتی تھی اسی لئے میں پہلے ہی سب بتا دینا چاہتی تھی اور میں نے بتا دیا۔۔
کیف نے جب آئمہ کی ساری کہانی سنی تو اس نے ایک لمبی سانس خارج کی اور کہا: آپ کیساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئ ایک آزمائش تھی جو کہ پوری ہوچکی ہے۔۔۔
آئمہ نے حیرت بھری نگاہ سے کیف کی طرف دیکھا اور کہا: کیا مطلب؟؟؟؟؟
کیف نے کہا: میں پھر بھی آپ سے شادی کرنا چاہتا ہو۔۔۔
یہ سن کر آئمہ بہت حیران ہوئ۔۔۔
کیف نے مزید کہا: زندگی امتحان لیتی ہے ہر انسان سے اور تم سے بھی لے چکی ہے تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس میں تمہاری تو کوئ غلطی نہیں تھی۔۔۔
آئمہ بس کیف کی طرف دیکھ کر اسکی ساری باتیں سن رہی تھی۔
کیف نے کہا: اب تو میرے اندر آپ سے شادی کرنے کا جذبہ اور بھی بڑھ چکا ہے۔۔۔ آپ ایک مظبوط اور بہادر لڑکی ہے۔۔۔
آئمہ کے دل میں ایک عجیب سی خوشی جاگ اٹھی تھی اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ اتنا سب کہہ دینے کے باوجود بھی کیف اسے نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔۔۔
کیف نے کہا: میں کل امی کیساتھ دوبارہ آؤ کا رشتہ پکا کرنے کے لئے اور تاریخ بھی لینے کہ لئے۔۔۔۔
آئمہ بس چپ چاپ اسکی باتیں سن رہی تھی۔
کیف نے کہا: مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھئے گا میں نے آپ سے سچی محبت کی ہے اور ہمیشہ کرتا بھی رہو گا۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔
آئمہ ابھی بھی وہی بت بنی اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔
اس کے جاتے ہی آئمہ اپنے کمرے سے باہر نکلی اور اپنے والدین کے کمرے کی جانب بھاگی جب وہ اپنے والدین کے کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے اپنے ماں باپ کو دیکھتے ہوئے کہا: امی ابو میں یہ شادی کرنے کے لئے تیار ہو۔۔۔
یہ سن کر انکے ماں باپ خوشی سے جھوم اٹھے۔
اسکی ماں آگے بڑھی اور اپنی بیٹی کو گلے لگاتے ہوئے کہنے لگی: مجھے پتا تھا کہ کیف پھر بھی تمہیں یوں اکیلا نہیں چھوڑے گا اس کا دل بہت بڑا ہے اللہ تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔
کیف اپنی ماں کے پاس گیا اور اپنی ماں سے کہنے لگا: امی مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔۔
اسکی ماں۔ نے کیف کی طرف دیکھا اور کہا: ہاں بیٹا کہو۔۔۔
کیف نے آئمہ کی ساری کہانی اپنی ماں کو بتائ اور کہا: امی مجھے لگتا ہے مجھے اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے مجھے اسے مظبوط بنانا چاہئے اگر میں اسے یوں اکیلا چھوڑو گا تو یہ میری زندگی کا سب سے بڑا گناہ ہوگا
اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر اسکی ماں کافی خوش ہوئ۔
اس نے کہا: تم جانتے ہو بیٹا جب تمہارا ابو اس دنیا سے چلا گیا تھا تب ہمیں تمہارے ماموں نے سنبھالا تھا ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تمہیں پڑھایا لکھایا اور آج اس مشکل گھڑی میں میں اپنے بھائ کو یوں نہیں چھوڑ سکتی میں اسکی بیٹی کو اپنی بیٹی بناکر رکھو گی اسے اسکا ماضی بھلا دو گی۔۔۔
یہ سن کر کیف بہت خوش ہوا۔۔۔
سب بہت خوش تھے۔۔۔۔
سب اکھٹے بیٹھے تھے اور خوشی سے جھوم رہے تھے کیمرا مین تصویریں بنانے میں مصروف تھا اصل میں کیف اور آئمہ کی شادی ہورہی تھی سب بہت خوش تھے اور کیف محبت بھری نگاہوں سے آئمہ کو دیکھ رہا تھا جو کہ دلہن بنی ہوئ تھی اور اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کہ کیف تو ایک منٹ کے لئے بھی اس کے چہرے سے اپنی نگاہ نہیں ہٹا پارہا تھا آئمہ بھی کیف کو ہی مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔
آئمہ کو اپنی زندگی میں بہاریں نظر آرہی تھی سب لوگ آئمہ اور کیف کی جاڑی کی دست دے رہے تھے۔
شادی بہت دھوم دھام سے اور یوں پھر آئمہ اپنے اصلی گھر آگئ۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...