کائی زدہ پانیوں میں عکس دیکھنے کی تمنا
وہی سلسلے ہیں خیال کے
وہی جستجو انہیں گم شدہ خدوخال کی
جنہیں رہنما کیا مدتوں
کئی قرن بیت گئے سوال و جواب میں
رہی ہر گھڑی
مری تشنگی مرے ساتھ ہی
نہیں حل ہوئیں مری الجھنیں
کہ میں ہوں گمان و یقین کے کہیں درمیاں
کسی ا ضطراب میں مدتوں سے گھر اہوا
مرے پانیوں کی روانیاں
ہوئیں منجمد
مری آنکھ صدیوں کی ریت سے ہے اٹی ہوئی
کسی شاہراہ خیال پر
تھا مرا جنوں مرا راہبر
کہوں کیامگر
اسی شاہراہ خیال پر
کہیں سرخ و سبز کے درمیان جو زرد ہے
وہی روشنی مرے اعتبار کا قتل ہے
یہی بیش و کم یہی پیچ و خم
مری بے بسی کا سبب ہوئے
مرے قافلے رہے گا مزن اسی سمت میں
کہ جہاں سراب ہیں خیمہ زن
کہ جہاں بگولے ہیں رقص میں
میں جو کائنات کے کم ترین حصار میں ہوں کہیں قیام پذیر
میرا قدم اٹھے بھی کہاں تلک
کہ نہیں ہے میرے و جود میں
کسی اختیار کے پل کی کوئی نمود تک
نہ لکیر ہے مرے ہاتھ میں
کسی خوابناک وصال کی
میں جو کٹ گیا ہوں خود اپنی ذات سے
(اس کا کس کو ملال ہو)
مری سوچ کے سبھی آئنے
ہوئے زنگ خوردہ (تو کیا ہوا )
کہ ہر اک زمانے کی دھول سے ہوں اٹا ہوا
یہ غبار میرا وبال ہے
سو اسے مجھی کو ہے کاٹنا
گو مرے لیے ہے حریم وقت کا در کھلا
پہ سکوت میں ہوں گھرا ہوں
یہ سکوت ٹوٹ سکے اگر
تو کھلیں کسی نئے آسمان کی کھڑکیاں
بنے کوئی منظر تازہ آنکھ کے کورے کاغذوں پر کبھی