کئی روز گزر گئے، لیکن کوئی قابل ذکر بات نہ ہوئی اور نہ ہی ڈاکٹر بیدی واپس آیا تھا۔ راوی اختر کے حق میں چین ہی چین لکھتا ہے۔ پروفیسر کا زیادہ وقت تجربہ گاہ کے اندر ہی گزر رہا تھا۔ کسی ضرورت کے تحت یا کھانے پینے ہی باہر نکلتا اور پھر واپس غڑاپ سے لیبارٹری میں گھس جاتا تھا۔ اختر نے پروفیسر کے پر جوش انداز سے یہ قیاس کر لیا تھا کہ وہ جلد ہی کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے والا ہے، البتہ اختر نے اس سے کوئی کرید نہیں کی۔ جو کچھ بھی ہو گا، اسے معلوم ہو جائے گا۔ رات تقریباً ساڑھے نو بجے پروفیسر اپنی تجربہ گاہ سے باہر نکلا۔ اس کا چہرہ کسی اندرونی خوشی اور جذبے سے تمتما رہا تھا۔ وہ آتے ہی بولا۔
’’لے آؤ فرزند۔۔۔ جو کچھ بھی کھانے کو رکھا ہے، لے آؤ۔۔۔‘‘
اختر نے خاموشی سے ٹیبل پر کھانا لگا دیا۔ پروفیسر مر بھکوں کی طرح ٹوٹ پڑا۔
’’دیکھنا۔۔۔ اب تم دیکھنا۔۔۔ دنیا میرا نام اب قیامت تک یاد رکھے گی۔۔۔ میرے کارنامے کو رہتی دنیا تک سراہا جائے گا۔‘‘
’’کیوں ۔۔۔‘‘ کیا آپ نے کرپشن کے خاتمے کی دوا ایجاد کر لی ہے؟‘‘ اختر کا چہرہ سنجیدگی کی مثالی تصویر لگ رہا تھا۔
’’احمق۔۔۔ اگر کرپشن کے خاتمے کی دوا ایجاد بھی ہو گئی تو اسے کوئی کھانے پر رضا مند ہی نہیں ہو گا۔۔۔ اسے بھوکا تھوڑی مرنا ہے ۔۔۔ بہرحال۔۔۔ میں کچھ دیر بعد آؤں گا۔۔۔ خوش خبری کے ساتھ ملاقات ہو گی۔‘‘
پروفیسر ایک پلیٹ اٹھا کر تجربہ گاہ کی جانب چلا گیا۔
اختر نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ اس کی منہ سے گہری سانس خارج ہوئی۔
’’اُف۔۔۔ پتا نہیں ۔۔۔ اس پاگل دے پتر نے کیا کر ڈالا ہے ۔۔۔ اس سے اچھا تو میرا ہیرا ہے ۔۔۔‘‘ وہ ہیرا کے سر میں انگلیاں پھیرنے لگا۔
ہیرا کے منہ سے ہلکی سے ’’بخ‘‘ کی آواز نکلی تھی۔
اختر وقت گزاری کے لیے ایک کتاب پڑھنے لگا۔ ہیرا اس کے قدموں کے قریب گول مول ہو کر پڑا ہوا تھا۔ پھر پڑھتے پڑھتے اختر کو بھی اونگھ آ گئی۔ اچانک اسے کسی نے بری طرح جھنجوڑ ڈالا۔ اختر ہڑ بڑا کر اٹھ گیا۔
’’کک۔۔۔ کون۔۔۔ کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں فرزند۔۔۔ اندر آ جاؤ۔۔۔ فوراً چلو میرے ساتھ۔۔۔‘‘
سامنے پروفیسر کھڑا تھا۔ اس کی بانچھیں کانوں تک پھیل گئی تھیں۔ ’’آؤ میں تمہیں سائنس کی جادوگری دکھاتا ہوں۔‘‘
ہیرا بھی اٹھ گیا۔ پروفیسر اسے لے کر تجربہ گاہ میں آیا۔ اختر نے اِدھر اُدھر دیکھا، مگر اسے وہاں کسی قسم کی تبدیلی یا کوئی قابل ذکر بات نظر نہیں آئی۔ وہ پروفیسر کی جانب مڑا۔ پروفیسر ہاتھ میں ایک لائیٹر لیے مسکرا رہا تھا۔
’’یہ میرے تجربے کا نچوڑ ہے۔‘‘ اس نے لائیٹر لہرایا۔
’’نچوڑ۔۔۔؟ مگر یہ تو لائیٹر ہے ۔۔۔ آپ کی زبان میں اسے نچوڑ کہتے ہیں؟‘‘ اختر تمسخر سے باز نہیں آیا تھا۔
’’فرزند ارجمند۔۔۔ اس لائیٹر میں جادو قید ہے۔ میں تمہیں بتا دوں کہ میں اپنے شعاعوں کے تجربے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ اس لائیٹر میں ۔۔۔ میں نے اپنی ایجاد کردہ شعاع قید کر دی ہے۔ دیکھنے میں یہ عام سا لائیٹر بھی ہے ۔۔۔ اس سے سگریٹ بھی سلگا سکتے ہیں ۔۔۔ مگر یہ کسی کے وہم و گمان میں نہ ہو گا کہ یہ نچلی سطح سے بھی دب سکتا ہے، یہ دیکھو۔۔۔ یہ نچلی سطح کے دو اطراف میں دبے گا۔ سیدھی طرف دس مرتبہ دبانے سے اس میں سے سبز شعاع نکلے گی۔ جو چیزوں کو مختصر کر دیتی ہے، جب کہ الٹی جانب بھی دس مرتبہ دبانے کے بعد سرخ شعاع خارج ہو گی، جو چیزوں کو سابقہ حالت میں لے آتی ہے۔ جو چیز بھی چھوٹی ہو گی، اس کی ساخت اور ماہیت پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ گھٹ کر بھی اس کی شکل برقرار رہے گی۔۔۔‘‘ پروفیسر نے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا۔
’’سر۔۔۔ میں نے بچوں کی بہت سی ایسی کہانیاں پڑھی ہیں، جن میں شہزادی کو کوئی کالا پیلا جن اٹھا کر لے جاتا ہے اور پھر ایک بہادر شہزادہ اسے چھڑانے روانہ ہوتا ہے ۔۔۔ کوئی بزرگ شہزادے کو کراماتی انگوٹھی دیتے ہیں۔ اس انگوٹھی میں سے نیلی پیلی لال شعاعیں خارج ہوتی ہیں ۔۔۔ پھر باقی کام انگوٹھی ہی انجام دیتی ہے۔ شہزادے کا خالی پیلی نام ہو جاتا ہے، یعنی میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے بہت پہلے ایسی چیزیں ایجاد کر لی تھیں اور آپ خواہ مخواہ اسے اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔‘‘ اختر اپنے مخصوص انداز میں کہتا چلا گیا۔
’’ احمق ۔۔۔ وہ صرف کہانیاں ہوتی ہیں ۔۔۔ اور ایسی کہانیوں کا حقیقت سے دور کا بھی رشتہ نہیں ہوتا ہے۔ وہ صرف مصنف کی سوچ اور ذہنی اختراع ہوتی ہے۔ ان کی ذہنی کاوش کو سائنس دان عملی اور حقیقی شکل دیتا ہے۔‘‘
’’اپنی تعریف کا اچھا طریقہ ہے ۔۔۔‘‘ اختر ہنسا؟ ’’ویسے سر۔۔۔ یہ سائنس دان بھی کمال لوگ ہوتے ہیں، جو ایسی حیرت انگیز چیزیں ایجاد کر لیتے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ چاند کو دیکھتے ہوں گے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نا ہو گا کہ انسان چاند پر جا سکتا ہے اور آج کے انسان نے چاند پر اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔‘‘
’’آج بڑی فلسفیانہ باتیں کر رہے ہو۔۔۔ آؤ ۔۔۔ تمہیں تجربہ کر کے بھی دکھا دوں۔‘‘
’’ایک منٹ سر۔۔۔‘‘ اختر بولا اور تیزی سے ہیرا کو اٹھا کر میز پر کھڑا کر دیا۔ ’’سر اس ہیرا کو چھوٹا کر دیں۔ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کوئی جان دار شے چھوٹی ہو کر کیسی لگے گی۔‘‘ اختر یہ کہہ کر خود ایک طرف ہو گیا۔
’’ٹھیک ہے ۔۔۔‘‘ پروفیسر نے سر ہلا کر لائیٹر کا رخ ہیرا کی طرف جانب کر دیا۔ اختر نے ہیرا سے کہا۔ ’’چل بھئی ہیرا۔۔۔ ایکشن لے لے ۔۔۔ تیری تصویر اُتر رہی ہے بر دکھوے میں بھیجنا ہے ۔۔۔ بولو چیز۔۔۔‘‘
لیکن کچھ نا ہوا۔ لائیٹر میں سے شعاع نہیں نکلی، البتہ اختر کے منہ سے قہقہہ نکل گیا۔
’’بس جناب۔۔۔ ہو گئی چھٹی۔۔۔ آپ کا جگاڑ فیل ہو گیا ہے۔‘‘
پروفیسر پر بوکھلاہٹ طاری تھی۔ وہ بار بار لائیٹر دبا رہا تھا۔ اس کا رخ اب تک ہیرا کی طرف ہی تھا۔ اختر نے منہ بنا کر ہیرا کو ٹیبل پر سے اُتارنا چاہا۔ عین اسی لمحے لائیٹر سے انتہائی چمک اور سبز شعاع نکلی اور بہ یک وقت اختر اور ہیرا پر پڑی۔ اختر کو اس لمحے عجیب سا احساس ہوا تھا، جیسے کوئی انتہائی ٹھنڈی سی لکیر اس کے بدن میں گھس گئی۔ اس نے مڑ کر پروفیسر سے کچھ کہنا چاہا، لیکن پھر وہ ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔ اس کے سر کے بال حیرت سے کھڑے ہو گئے تھے۔
جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا، اس نے اختر کے ہوش اڑا کر دماغ ماؤ کر ڈالا تھا۔ اس کا سر سائیں سائیں کرنے لگا۔ یہ سب کیا تھا؟ یہ کیا ہو گیا ہے؟۔۔۔ وہ پروفیسر کو دیکھ تو رہا تھا مگر سر اُٹھا کر۔ اب پروفیسر اسے کسی بہت بڑے دیو کی مانند لگ رہا تھا۔ پروفیسر کا جوتا ہی اختر کو کسی ٹرک کی طرح بڑا لگ رہا تھا۔ اس نے حیرت پاش نظروں سے ہیرا کو دیکھا۔ ہیرا اختر کے سائز کا ہو گیا تھا اور وہ بری طرح گھبراہٹ کے عالم میں بھونک رہا تھا۔ اختر سمجھ گیا کہ پروفیسر کی جادوئی شعاع نے ان دونوں کو کسی کیڑے کے برابر کر دیا ہے۔ پروفیسر آگے جھکا ہوا تھا اور آنکھیں چندھیا چندھیا کر اسے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اختر ماچس کی تھیلی سے بھی چھوٹا ہو گیا تھا۔ تجربہ گاہ کی ہر شے اچانک بڑی ہو گئی تھی۔ کرسیاں ٹیبلز بڑے بڑے پہاڑوں کی طرح موجود تھیں۔ مختصر سا ہو کر وہ کیا محسوس کر رہا تھا یہ کوئی اختر سے ہی پوچھے۔ اچانک تجربہ گاہ میں کچھ عجیب سی آوازیں ابھریں اور پھر ایک دھماکا ہوا۔ پروفیسر اور اختر نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا۔