(Last Updated On: )
لڑکے نے دوازے پر دھیرے سے دستک دی۔ ایک بڑا سا موٹاکتا اس کے ٹخنوں کو سونگھ رہا تھا۔ کتے کی موجودگی سے وہ خاصا پریشان تھا۔ اسے اجنبی کتوں سے بہت ڈر لگتا تھا اور وہ جلد از جلد مکان کے اندر داخل ہو جانا چاہتا تھا،لیکن اب تک اسے اپنی دستک کا کوئی جواب نہیں ملاتھا۔ وہ سوچ رہا تھاکہ کیا اسے سیدھے دروازے کا ہینڈل گھما کر اندر داخل ہو جانا چاہیے…لیکن …کاہنہ کیا کہے گی؟…کیا وہ اسے بد دعا دے دے گی؟
یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ کس سے زیادہ خوفزدہ تھا ،اس کتے سے یا کاہنہ سے ؟
اسے ڈر تھا کہ اگر وہ دروازے پر زیادہ دیر تک کھڑا رہا تو شایدکتا یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ وہ کسی غلط مقصد سے آیا ہے اوراگر وہ واپس ہوگا تو کتا شاید یہ سمجھ بیٹھے گا کہ وہ بھاگ رہا ہے… اور کاہنہ ؟ … وہ جب آخر کاردروازہ کھولے گی اور کسی کو دروازے پر نہ پائے گی تو کیا کہے گی؟ وہ تویہی سمجھے گی ناکہ شایدکسی نے اس کے ساتھ مذاق کیا ہے اور پھروہ یقیناً اس کی طرف آسمانی بجلیاں بھیج دے گی۔ اورساتھ ہی ، یہاں سے اس طرح بھاگ جانے میں اس کا ایک اور نقصان بھی تھا…اس صورت میں اسے’مقدس پانی ‘ نہیں مل پاتا جس کے لیے اس کی بیمار ماں نے اسے کاہنہ کے پاس بھیجا تھا۔
کاہنہ اور ’مقدس پانی‘ کا معاملہ بڑا پر اسرار تھا۔ لڑکے نے ان سے متعلق ،شہر کی گلیوں میںگردش کرتی ،کئی افواہیں سنی تھیں۔ مقدس پانی حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں تھا، بس ایک خالی بوتل میں پانی بھر کر اسے کاہنہ کے پاس لے جانے کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ بوتل پر اپنا ہاتھ رکھ کر دعائیں کرتی۔ اس کے بعد وہ پانی ’مقدس ‘ہو جاتااور اس میں شفا بخشنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی۔ اس کی ماں نے تواسے یہی بتایا تھا۔
لڑکے نے دوبارہ دستک دی۔ اس بار اس کی دستک میں شدت تھی ،لیکن اس نے یہ خیال بھی رکھا تھا کہ اس کی دستک اتنی تیز نہ ہو کہ کاہنہ ناراض ہو جائے۔ اندھیرا پھیل رہاتھا۔ کتا اب بھی اس کے ٹخنوں کو سونگھے جا رہا تھا۔ لڑکے نے بوتل کو مضبوطی سے تھام لیا جس میں اس نے کاہنہ کے گھر کے ٹھیک سامنے والی گلی کی دوسری جانب واقع نل سے ابھی ابھی پانی بھرا تھا۔ اس نے سوچاکہ وہ اس بوتل کو کتے پر دے مارے اوراس حملے میں اگر بوتل ٹوٹ جائے تواس کے نوکیلے ٹکرے کتے کو بھونک دے…لیکن… کاہنہ کیا کہے گی؟ …وہ شاید اسے بد دعا دیگی …اس نے دوبارہ دستک دی اور اس بار اسے کسی عورت کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔
’’کون ہے؟‘‘ آواز آئی۔
لڑکے نے جلدی سے دروازے کا ناب گھما کر اسے دھکا دیالیکن دروازہ نہیں کھلا۔ کتا غرّایا۔ لڑکے نے گھبرا کرپھر ناب کو گھمایا اور دھکا دیا۔ اس بار کتا تیز آواز میں بھونکااور لڑکے نے مضطربانہ انداز میں دروازے پر دستک دے ڈالی۔ تبھی اس نے دروازے کابولٹ کھسکنے کی آواز سنی اور دروازہ کھل گیا۔ اندر تاریکی تھی۔ دوازے کا نصف حصہ جیسے تاریکی میں مدغم ہو گیا تھا۔ لڑکے نے کتے کے بالوں کی رگڑ اپنی پنڈلیوں پر محسوس کی۔ کتا کھلے دروازے سے گزر کر مکان کے اندر داخل ہو گیا تھا۔
’’ دفع ہوجائو! ‘‘ عورت اچانک غصے سے بولی۔
لڑکے نے حیرت سے سوچا ، کیا یہی کاہنہ ہے؟۔ اسی دوران ایک بار پھر کتا دھیرے دھیرے اس کی ٹانگوں سے رگڑکھاتا ہوا گزرا۔ لڑکے کو ایک ہلکی سی نرماہٹ بھری گرمی کا احساس ہوا اور ایک عجیب سی سنسناہٹ اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔ گرمی کا احساس تو لمحاتی تھا لیکن سنسناہٹ باقی رہی جو اس کی پیٹھ سے ہوتی ہوئی اس کی گردن کے پچھلے حصے تک پھیل گئی اور خوف کی ایک سرد لہرسے اس کا جسم ہولے ہولے کپکپانے لگا۔
’’کتا اندر نہیں جاسکتا۔ ‘‘عورت چیخی،’’ یہ کسی سفید فام کا مکان نہیں ہے۔ ‘‘
لڑکے نے چمڑے کے نرم جوتوں کی چرمراہٹ کو اندھیرے میں مدغم ہوتے سنا۔ عورت شاید اندر جارہی ہے، لڑکے نے سوچااور وہ بھی اس کے پیچھے مکان میں داخل ہو گیا۔
’’ دروازہ بند کردو‘‘ عورت نے کہا جو اَب بھی اندھیرے میں آگے بڑھی جارہی تھی۔ لڑکا یہ کام اس کے کہنے سے قبل ہی انجام دے چکا تھا۔
حالاںکہ باہر بھی اندھیرا پھیل رہا تھا لیکن اندر کا اندھیرا کچھ زیادہ ہی گہرا تھا۔ ڈھلتے ہوئے دن کی مدھم ہوتی ر وشنی کھڑکیوں سے کمرے کے اندر پہنچ رہی تھی،جن کے پردے ابھی کھینچے نہیںگئے تھے۔ ’’ کیا ایسا موم بتیوں کی بچت کے لیے کیا گیا ہے؟‘‘لڑکے نے حیرت سے سوچا۔ اس کی ماں بھی اسے مکمل اندھیرا ہونے سے قبل موم بتیاں جلانے پر اکثر ڈانٹا کرتی ہے۔
لڑکے کی نگاہیں بے ساختہ کھڑکی سے آنے والی مدھم روشنی کی طرف اٹھ گئیں۔ وہ حیران تھا کہ عورت اس اندھیرے میں آخر کہاں غائب ہو گئی۔ وہ سوچ رہا تھاکہ کہیں وہ اسے کھڑکی سے باہر جھانکتا دیکھ کر یہ تو نہیں سمجھ لے گی کہ وہ اندھیرے سے خوفزدہ ہے۔ وہ اپنی نگاہیں کھڑکی سے ہٹانا چاہتا تھا لیکن کھڑکی کے باہر دھیرے دھیرے ہلتی ہوئی انگور کی بیلوں کی گہری سبز پتیوں نے اسے مسحور کر رکھا تھا۔ وہ بھول چکا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر قبل جب وہ انھی بیلوں کی اندھیری سرنگ سے گزر کر آرہا تھا،جومین گیٹ اورمکان کے دروازے کے درمیانی راستے کے اوپر پوری طرح چھائی ہوئی تھیں،تو وہ کس قدر خوفزدہ تھا۔ اس نے پوری کوشش کی تھی کہ اس کے ہاتھ ان بیلوں اور ان میں لٹکتے مخملی، سیاہ اور رسدار انگوروں سے مس نہ ہوںجوبالکل اس کی دسترس میں موجودشاخوں پر لٹکے اسے لبھا رہے تھے۔
’’ان بیلوں کوچھونا منع ہے۔ ‘‘ …یہ ایک ایسی تنبیہ تھی جس سے چارٹرسن قصبے کا ہر شخص واقف تھا۔ یہ مشہور تھا کہ ان بیلوں پر ایک گاڑھا ، نظر نہ آنے والا گوند لگا ہوا ہے جس کی مدد سے کاہنہ رات میں انگور چرانے کی نیت سے آنے والے چور وں کو پکڑتی ہے۔ اندھیری سرد رات میںچور صبح ہونے تک ان بیلوں سے چپکے روروکرمعافیاں مانگتے رہتے تھے۔ صبح سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ کاہنہ اپنے مکان سے نکلتی تھی ،اپنے بازو آسمان کی طرف بلند کرتی اور کہتی تھی:’’جائو ! …جائو ! گنہگار انسان ؛جائو ! اور اب گناہ مت کرنا۔ ‘‘ اچانک وہ چور آزاد ہو کروہاں سے چلا جاتا تھا،لیکن اب وہ بالکل بدلا ہوا ہوتا تھا… ایک بالکل مختلف انسان! …یہ وہی بیلیں تھیں…ہر سال گرمیوں میں قصبے میں ان کا تذکرہ رہتا تھا۔
n
ایک دن جب وہ اپنے تین دوستوں کے ساتھ اسکول سے بھاگ نکلا تھا اور وہ چاروں ایک بس میں قصبے کی جانب واپس آرہے تھے،بس میں سوار کچھ لوگ کاہنہ کے انگوروں سے متعلق آپس میں بحث کر رہے تھے۔ بس میں اتنی بھیڑتھی کہ ہلنا مشکل ہو رہا تھا۔ اسکول سے بھاگے ان دوستوں نے اپنی نشستیں معمر لوگوں کو دے دی تھیں اورخود بس کے درمیان میں ایک دوسرے سے چپکے ہوئے کھڑے تھے اور لوگوں کی باتیں سن رہے تھے۔ وہ ایسی جگہ کھڑے تھے کہ بس میں موجود زیادہ تر مسافروں کو با آسانی دیکھ سکتے تھے۔
’’ یہاں تک کہ اس نظر نہ آنے والے گوند سے ایک گائے بھی نہیں بچ سکتی۔ ‘‘ایک لمبے شخص نے کہا جس کے گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں اوراس کی بندر ٹوپی اس کے ماتھے کے ساتھ بے ترتیبی سے چپکی ہوئی تھی۔ نصف دائروں کی صورت میں اٹھی ہوئی مونچھوں کی وجہ سے وہ کافی خوفناک لگ رہا تھا۔
’’میرا توبس ایک ہی سوال ہے۔ ‘‘ ایک موٹی عورت بولی جو اپنی گود میں دھلے ہوئے کپڑوں کی ایک بڑی سی گٹھری لیے بیٹھی تھی۔ ’’ کیا تم نے کبھی کسی آدمی کو ان بیلوں سے چپکے ہوئے دیکھا ہے؟… مجھے بس اس سوال کا جواب دو۔ ‘‘اس نے خود اعتمادی سے بھرپور لہجے میں کہا اور کھڑکی سے باہرجھانکنے لگی۔ باہرسائکلوں پر سوار مزدور ایک قطار میں ، اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ بس ان کے اتنے قریب سے گزر رہی تھی کہ لڑکے کو ڈر لگنے لگا کہ کہیں وہ بس سے ٹکرا نہ جائیں۔
’’میں نے ایک شخص کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ان بیلوں سے چپک گیا تھا۔ ‘‘ایک نوجوان نے کہا جو بس کی سب سے پچھلی نشست پراپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہواتھا۔ وہ لوگ پورے راستے ایک دوسرے کو فحش لطیفے سناکر قہقہے لگاتے رہے تھے۔ نوجوان کے ہونٹ موٹے اور آنکھیں سرخ تھیں۔
’’ کب… میرا مطلب ہے کہ وہ ان بیلوں سے کب چپکا تھا؟…اور وہ آدمی تھا کون ؟‘‘ موٹی عورت نے کہا۔
’’اس طرح کی باتیں واقعی ہوا کرتی ہیں۔ ‘‘ کئی عورتوں کی آوازیں بیک وقت گونجیں۔
’’ یہی تومیں بھی کہہ رہا ہوں۔ ‘‘ بندر ٹوپی والے شخص نے کہا۔ ’’کچھ عورتوں کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ بات سمجھنا نہیں چاہتیں۔ انھیں تو بس مردوں کی مخالفت کرنی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔صرف مخالفت۔ ‘‘
’’ کیا کہہ رہا ہے یہ۔ ‘‘ ایک عورت نے پوچھا ’’ بات کچھ اور ہو رہی تھی اور اس نے بات کو کہیں اور پہنچا دیا۔ ‘‘
’’یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں۔ ‘‘موٹی عورت اپنی کپڑوں کی گٹھری سنبھالتی ہوئی بولی ’’مجھے باتوں کے جال میں الجھانے کی کوشش مت کرو۔ میں نے بس ایک سیدھا سادا سوال کیا ہے۔ مجھے صرف اس کا جواب چاہیے۔ ‘‘
’’ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ‘‘ کئی عورتیں پھر ایک ساتھ بول اٹھیں۔
’’ ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو تم لوگ۔۔۔۔ اپنی بات پر ڈٹی رہنا۔ ‘‘ پچھلی نشست پر بیٹھا نوجوان چلایا۔ وہ اب سگریٹ پی رہا تھا۔ رول کیاہوا سگریٹ اس کی موٹی انگلیوں میں بہت چھوٹا دکھائی دے رہا تھا۔
’’ حالاں کہ تمھیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے لیکن پھر بھی میں تم سے یہ کہوں گی کہ یہ کوئی مذاق نہیں۔ ہم ایک سنجیدہ موضوع پر گفتگوکر رہے ہیں۔ ‘‘ موٹی عورت بولی۔
’’ بیشک یہ مذاق نہیں ہے۔ ‘‘ ایک نیا شخص بحث میں شامل ہوتے ہوئے چلایا۔ وہ انگریزی میں بول رہا تھااوراس کی آنکھیں غصے میں سلگتی ہوئی سی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ ایک خوش پوش نوجوان تھا۔ اس کی شرٹ کا سفید کالر اس کی جیکٹ کے کالرکے او پر بڑے سلیقے سے پھیلا ہوا تھا۔ سفید لباس میں ایک نرس اس کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ’’ ان ماں جی نے آپ لوگوں سے ایک سیدھا سا سوال کیا ہے کہ کیا آپ میں سے کسی نے اپنی آنکھوں سے کسی آدمی کو اس کاہنہ کے پھندے میں پھنسا دیکھا ہے؟… ہے کوئی ایسا؟‘‘
’’اس نے ایسا کوئی سوال نہیں کیا ہے؟ ‘‘ پچھلی نشست پر بیٹھا نوجوان اپنی سگریٹ اپنے دوست کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا’’ اس نے توصرف اتنا پوچھا تھا کہ پھندے میں پھنسنے والا شخص کون تھا اور وہ کب پھنسا تھا؟‘‘ پچھلی نشست پر بیٹھے نوجوان ہنس پڑے۔ سگریٹ کا دھواںاب بس کی پچھلی نشست کے آس پاس کافی پھیل چکا تھا۔
’’ میرا سوال تھا۔ ‘‘ موٹی عورت نے اپنا سر گھما کر اس نوجوان کو گھورتے ہوئے کہا’’کیا تم نے کبھی کسی کو وہاں پھنسے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘پھر وہ باہر کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ کافی غصے میں معلوم ہو رہی تھی۔
’’ماں جی! اتنا غصہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ پچھلی نشست پر بیٹھا نوجوان بولا جس پرکئی زبردست قہقہے بلند ہوئے۔ ’’ میں تو صرف سمجھنا چاہ رہا تھا۔ ‘‘ وہ مزید بولا۔
’’ ہم لوگوں میں یہی توخرابی ہے‘‘ خوش لباس نوجوان بس کے تمام مسافروں سے خطاب کرتے ہوئے بولا۔ اس کی آواز میں خود اعتمادی تھی۔ ’’ ہم کسی معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور ہر بات کو ہنسی میں اڑا دیا کرتے ہیں۔ آج گورے اگر ہم پر حکومت کر رہے ہیں تو اس میں حیرانی کی کون سی بات ہے؟ماں جی نے ایک بالکل سیدھا ساسوال کیا تھا مگر انھیں الجھاوے والے جواب دے کر گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کی ہنسی اڑائی جارہی ہے۔ سچائی بس اتنی ہے کہ کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ کسی کے پاس بھی نہیں!کیا تم میں سے کسی نے بھی کسی شخص کو اپنی آنکھوں سے کاہنہ کے انگوروں سے چپکے ہوئے دیکھا ہے؟ کبھی نہیں!یہ سب بس توہم پرستی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور اس کاہنہ کے بارے میں بھی اب بہت ہو گیا۔ اس کی کہانیاں سنتے سنتے ہم میں سے بہتوں کے کان پک گئے ہیں۔ ‘‘
چند منٹوں کے لیے بس میں سناٹا چھا گیا۔ صرف کھچاکھچ بھری ہوئی بس کے، زور لگاتے انجن کی گھر گھراہٹ کے سوا کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ آخر کاربندر ٹوپی والے آدمی نے خاموشی توڑی۔
’’ نوجوان !‘‘۔ اس نے کہا ’’اپنے ظاہری رکھ رکھائو سے تم عقلمند اور تعلیم یافتہ نوجوان معلوم ہوتے ہو، لیکن شاید ایک بات کا تمھیں علم نہیں۔ ممکن ہے کاہنہ یہ سب باتیں سن رہی ہو۔ اس لیے اگر کسی دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں اچانک تم پر بچلی گر پڑے تو حیرت کا اظہار مت کرنا۔ ہم سب تمھارے جنازے میں موجودرہیں گے اورلوگوں کو یہ بتائیں گے کہ تم نے کیسے اپنی بدقسمتی کو دعوت دی تھی۔ ‘‘
اور اس طرح اس بحث کا اختتام ہوگیالیکن لڑکے کو یاد تھا کہ کیسے ہر سال گرمیوں میں قصبے کے باغیچوں میں انگورکی بیلوں، شفتالو اور خوبانی کے درختوں کی شاخوںسے مختلف رنگوں کے رقیق مادوںسے بھری مختلف سائز کی بوتلیں لٹکی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ ان درختوں سے پھل چرانے کی ہمت کسی میں نہیں ہوتی تھی۔ بھلا کون پھل کے درخت سے چپک کر شرمندہ ہونا چاہے گا؟ حیرت انگیز طور پر صرف کاہنہ کے درختوں کی شاخوں سے ایک بھی بوتل بندھی ہوئی نظر نہیں آتی تھی۔
n
لڑکے نے اپنی نگاہیں کھڑکی سے ہٹا کر تاریک کمرے کی طرف مرکوز کر دیں۔ اس کی آنکھیں اب تاریکی سے مانوس ہو چکی تھیں اور اسے تھوڑا تھوڑا دکھائی دینے لگا تھا۔ اس نے عورت کو خود سے دور جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ شاید ایسی چپلیں پہنی ہوئی تھی جس کے اوپری حصے پر نرم بالوں کے گچھے لگے ہوتے ہیں۔ وہ شاید انھیں بے حد پسند کرتی تھی۔ تبھی دور جاتی ہوئی ایک سفید شے پر نگاہ پڑی۔ وہ عورت سر پر ایک سفید رومال باندھے ہوئے تھی۔ لڑکے کی نظریں سفید رومال کا پیچھا کر رہی تھیںجو سیدھے آگے کی طرف جا کر زاویہ قائمہ بناتے ہوئے ایک طرف مڑ گیا تھا ۔۔۔۔۔ شاید کسی میز کے گرد ! اور تبھی اسے میز کا سیاہ ہیولہ نظر آیا۔ سفید رومال رک گیا تھااور لڑکے نے ایک کرسی کھینچے جانے کی آواز سنی۔ سفید رومال تھوڑا نیچے ہوا اور اپنی جگہ پر رک گیا۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ لڑکا سوچ رہا تھاکہ وہ کیا کرے؟کیا وہ بھی ایک کرسی پر بیٹھ جائے ،یاپھرعقیدت مندانہ انداز میں زمین پر اُکڑوں بیٹھ جائے؟کیا وہ اسے مخاطب کرے یا اس کے بولنے کا منتظر رہے؟ کاہنہ کے سامنے کھڑے ہوکر فیصلہ کرنا کتنا دشوار ہو رہا تھا۔ آخر اس کی ماں نے اسے ایسی جگہ بھیجا ہی کیوں؟کاہنہ کے بارے میں اپنے دوستوں کو دلچسپ قصے سنانا( اب جب کہ وہ اس سے مل بھی چکا تھا)ایک الگ بات تھی، اور خود اس کے سامنے کھڑے ہونا دوسری بات۔ تبھی اس کے نتھنوں میں کافور کی بو آئی۔ اس کی ماں کو جب بھی جوڑوں کا درد ستا تا ،وہ کافور استعمال کرتی۔ تو کیا کاہنہ بھی بیمار تھی؟کیا وہ خود اپنے لیے پانی پر دم کر رہی ہے؟ اچانک لڑکے کو اطمینان سا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔ کاہنہ بھی بیمار پڑ سکتی ہے ! اسے بھی درد ہوتا ہے !
ـ’’ سلام ‘‘ …اس نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے اسے مخاطب کیا اور ہولے ہولے کھانس کر گلا صاف کرنے لگا۔
’’ جیتے رہو۔ ‘‘اس نے جواب دیا۔ ’’ بولو بچے !کیا بات ہے؟ ‘‘تھوڑی دیر بعد وہ بولی۔ اس کی آواز بڑی باریک تھی۔ وہ گہری سانسیں لے رہی تھی۔ وہ زور زور سے کھانسنے لگی۔ عجیب طرح کی کرخت آوازوں سے پورا کمرہ گونج اٹھا تھا۔ کھانسیاںجیسے اس کے اندر سے ابلی آرہی تھیں۔ اور لڑکا سوچ رہا تھا کہ اگر وہ ایسے ہی کھانستی رہی تو کیا ہوگا؟کیا کچھ باہر آجائے گا؟کیااس کا ایک پھیپھڑہ؟ لڑکا اب عورت کا ہیولہ با آسانی دیکھ سکتا تھا۔ وہ تھوڑا آگے کو جھکی ہوئی تھی۔ کیا کچھ باہر نکل کر زمین پر گر پڑا ہے؟کھانسی رک گئی۔ عورت سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور اس نے اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر ایک سفید کپڑا نکالا تھا۔ وہ آگے کو جھکی اور اس کپڑے میں تھوک کر اٹھ گئی۔ اب وہ لڑکے سے دور کمرے کے دوسرے حصے میں جا رہی تھی جہاں نسبتاً زیادہ اندھیرا تھا۔ ایک دروازے کے چرمرانے کی آواز آئی اور سفید رومال اس کے پیچھے غائب ہو گیا۔ لڑکا سوچ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے… اس سے پہلے کہ وہ اپنا مدعا بیان کرتا، کاہنہ غائب ہو گئی تھی۔ وہ انتظار کرتا رہا۔
اب اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو چکی تھیں۔ اسے کمرے میں بہت سی چیزیں نظر آنے لگی تھیں۔ میز پر ترچھے سجے ہوئے تین سفید دھبے دراصل ٹیبل میٹ تھے۔ بیچ والے میٹ کے درمیان ایک سیاہ دھبہ تھا،جو در اصل ایش ٹرے تھا۔ چوں کہ کاہنہ کمرے میں نہیں تھی اس لیے لڑکا اتنی ہمت توکر ہی سکتا تھا کہ وہ میز کے قریب جاکر ان میٹس کو دیکھ سکے۔ یہ کروشیا کاری کیے ہوئے ٹیبل میٹ تھے۔ اسے یاد آیا کہ اس کی ماں نے چرچ کی قربان گاہ کی نذر کرنے کے لیے کتنی خوبصورت کروشیا کاری کی تھی۔
تبھی لڑکے نے ماچس کی تیلی رگڑے جانے کی آواز سنی۔ کئی کوششوں کے بعد آخر کار تیلی جل گئی۔ جلد ہی لیونگ روم کے نصف کھلے دروازے سے موم بتی کی پھیکی سی نارنجی روشنی کمرے میں داخل ہوئی۔ آہستہ آہستہ روشنی کا رقبہ بڑھتا گیا اور آخر کار کاہنہ ہاتھ میں موم بتی لیے کمرے میں داخل ہو ئی۔ اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، شاید وہ موم بتی کو رکھنے کے لیے مناسب جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔ اس نے درمیانی ٹیبل میٹ پر پڑے ایش ٹرے کو دیکھا، بیٹھ کر ٹیبل میٹ کو اپنی طرف کھینچا ، موم بتی کو ترچھا کر کے ایش ٹرے پر موم کے قطرے ٹپکائے اور پھر موم بتی کواس پر چپکا دیا۔
کاہنہ اب موم بتی کی روشنی میں لڑکے کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس کے موٹے ہونٹ باہر کو نکلے ہوئے تھے جس سے اس کی جھریوں بھری جلدکھنچ گئی تھی اور اس کے گالوں پرجھریوں کے دو واضح دائرے نظر آرہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے اپنے ہونٹوں کو بوسے کے لیے تیارکر رکھا ہے۔ پیشانی سے ناک کی ابھار تک ایک سیاہ لکیر گدی ہوئی تھی جس نے اس کی نیم وا آنکھوں کو تقسیم کر رکھا تھا۔ سر پر بندھا سفید رومال اتنا بڑا تھاکہ اس کا چہرہ چھوٹا لگ رہا تھا۔ اس نے سبز لباس پہن رکھا تھا جس کے اوپر کلف لگا ہوا سبز لبادہ تھا۔ لبادے پر جا بجا کشیدہ کاری کی مدد سے سفیدرنگ کی صلیبیں بنائی گئی تھیں۔ اس کے عقب میں ، دیوار کے سہارے ،بانس کی بنی ایک بڑی سی صلیب رکھی ہوئی تھی۔
کاہنہ پھر کھڑی ہوگئی اور لڑکے کے عقب میں واقع کھلی کھڑکی کی جانب بڑھی۔ اس نے کھڑکی کے پردے گرادئے اور واپس جاکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ جب وہ واپس جا رہی تھی تب لڑکے نے دیکھا کہ اس کے لبادے کی پشت پر ایک اور کافی بڑی صلیب بنی ہوئی تھی۔ بیٹھنے سے پہلے اس نے بانس کی صلیب کو اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لیا تھا۔
’’ ہاں ! تو تم کیا چاہتے ہو بچے؟‘‘اس نے دھیرے سے پوچھا۔
’’ میری ماں نے مجھے پانی لینے کے لیے بھیجا ہے۔ ‘‘ لڑکے نے بوتل کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’ پانی لینے کے لیے؟ …تعجب ہے … تم اتنی دور سے چل کر یہاں پانی لینے آئے ہو؟‘‘
’’میرا مطلب ہے۔ ‘‘ لڑکا بولا، ’ ’ مقدس پانی‘‘۔
’’ اوہو … اچھا اچھا… دراصل تم جو کہنا چاہتے تھے اس کے لیے تم نے صحیح الفاظ کا استعمال نہیں کیا تھا۔ ‘‘کاہنہ ایک بار کھانسی، پھر بولی ’’ بیٹھ جائو بچے…ضروری ہے کہ تم جو کہنا چاہتے ہو اس کے لیے مناسب الفاظ کا استعمال کرنا سیکھو۔ الفاظ خدا کی جانب سے ہمارے لیے بیش بہاتحفہ ہیں۔ اس نے اپنی لامحدود عقل کا ایک بے حد ننھا سا حصہ ہمیں بخشا اور پھرہمیں غور و فکر کر نے کی ہدایت کی۔ اس لیے الفاظ کا غلط استعمال کرناگناہ ہے اوران کا صحیح استعمال نہ جاننا بھی …خیر… کون ہے تمھاری ماں؟‘‘
’’ میری ماں؟‘‘ لڑکا اس کے اس اچانک سوال سے گھبرا گیا ’’ میری ماں ماسے مولا کی نرس ہے۔ ‘‘
’’ او …۔ ‘‘ کاہنہ بولی ،’’ تم نرس کے بیٹے ہو ؟حیرت ہے وہ ایک اتنے بڑے بیٹے کی ماں ہے۔ ‘‘ وہ دھیرے سے مسکرائی۔
لڑکے نے اطمینان کی سانس لی۔ اب وہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر رہا تھا کیوں کہ کاہنہ اس کی ماں کو جانتی تھی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے کاہنہ کے چہرے سے اپنی نظریں ہٹائیں تو اسے اس کے عقب میں ایک بڑا سا مکھوٹادکھائی دیا۔ سیاہ اور چمکدار۔ مکھوٹے کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس کے دو لمبے دانت ہونٹوں سے باہر نکل کر اوپر کی جانب اٹھے ہوئے تھے۔ اس سے دس فٹ کے فاصلے پر دیوار کی دوسری جانب عیسیٰ مسیح کی ایک تصویر تھی جس میں ان کا سینہ کھلا ہوا تھا اور قلب دکھائی دے رہا تھا۔ روشنی کی بے شمار کرنیں ان کے قلب سے پھوٹ رہی تھیں۔
’’ میرے بیٹے…تمھاری ماں کا دل سونے کا ہے۔ ‘‘ کاہنہ بولے جا رہی تھی ’’ تم خوش نصیب ہو کہ تم نے ایسی ماں پائی ہے…یاد رکھو…جب وہ کہے کہ میرے بیٹے یہ پیغام فلاں مکان تک پہنچا دو، ضرور جائو … جب وہ کہے کہ میرے بیٹے فلاں دکان تک چلے جائو… ضرور جائو… اور جب وہ کہے کہ میرے بیٹے کتاب اٹھائو اورپڑھو…تو ضرور پڑھو …در اصل وہ تمھیںدوباتیں سکھانا چاہتی ہے …علم حاصل کرنااور خدمت خلق کرنا…یہی وہ دو چیزیں ہیں… میرے بچے … جو ہمارے لیے سب سے ضروری ہیں۔ ‘‘
پھر کاہنہ بانس کی صلیب کی جانب بڑے انہماک سے دیکھنے لگی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ا س میں کوئی ایسی چیز دیکھ رہی ہے جو لڑکے کو دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ چند لمحوں کے لیے جیسے اس کی سانسیں رک سی گئیں۔ وہ ایک بارزور سے کھانسی، پھر تھوڑی دیر کے لیے بالکل خاموش ہو گئی، اس کے گال ایسے ہل رہے تھے جیسے وہ کچھ چبا رہی ہو۔
’’ بوتل قریب لائو۔ ‘‘ آخر کار وہ بولی۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ بوتل پر رکھا جب کہ دوسرے ہاتھ سے اس نے بانس کی بنی صلیب کو پکڑ رکھا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور چہرہ چھت کی جانب تھا۔ لڑکے نے دیکھا کہ گہرے انہماک کی وجہ سے اس کا چہرہ سکڑ گیا تھا اور جھریاں مزید گہری ہو گئی تھیں۔ پھر اس نے بولنا شروع کیا۔
’’تم نے اس گیت کواس سے پہلے نہیں سنا ہوگا میرے بچے، اس لیے اسے غور سے سنو۔ ہمیشہ نئی چیزیں سننے کی کوشش کرو۔ پھر ویسا ہی تم بھی کہنے کی کوشش کرو۔ جیسے میں کبھی بھی حمد کی بوسیدہ کتابیں الٹنے کی کوشش نہیں کرتی۔ خود ہی کہہ لیتی ہوں۔ ‘‘اور اس نے گانا شروع کر دیا۔
اگرندی کی ایک مچھلی
گرمیوں کی دوپہرمیں
ابل کر بھی
صبر سے شام کا انتظار کرسکتی ہے،
توہم بھی انتظار کر سکتے ہیں
برفیلی سرد ہوائوں کے جھکڑ والی اس سرزمین پر
بہار آئے گی
بہار آئے گی
اگر سر کنڈوں کے پودے
سردیوں میں سوکھ جاتے ہیں
اور مردہ دکھائی دیتے ہیں
لیکن بہار آتے ہی
پھر جی اٹھتے ہیں
توہم بھی اس آگ کو جھیل لیں گے
جو آرہی ہے
وہ آگ جو آ رہی ہے
ہم بھی اس آگ کو جھیل لیں گے
جو آرہی ہے
یہ ایک لمبا گیت تھا۔ جسے وہ دھیمے سروں میں گائے جا رہی تھی۔ گیت ختم ہوا تو اس نے دعا مانگنی شروع کی۔
’’ میرے خدا!تُو قادر مطلق ہے…تجھے جب بھی پکارا جاتا ہے… تو سنتا ہے… ہم اپنے دل اور اپنے خیالات کا رخ تیری جانب موڑنا چاہتے ہیں…لیکن یہ کہاں ممکن ہو پاتا ہے؟… اس دنیا میںکس قدر برائیاں ہیں…ہمارے دل کتنے خالی ہیں…اور ہمارے ذہن کتنے بھٹکے ہوئے ہیں… لیکن تُو…خدائے قادر مطلق… برائیوں کو دور کردیتا ہے… ہمارے قلب و ذہن کو ایک نئی طاقت اور نئی امید سے بھر دیتا ہے… تجھے شمشون یا د ہے؟ بے شک تجھے کیوں نہ یاد ہوگا۔ میرے مالک تونے ہی تو اس کی تخلیق کی تھی… تو، جو ہر شے کا خالق ہے… تو نے اسے ایک بانجھ عورت کے بطن سے پیدا فرمایاتھا…اور تبھی سے ہم یہ جانتے ہیں کہ ریگستان میں بھی پھول کھل سکتے ہیں… اور بنجرزمینوں میں اگنے والے پودوں میں وہ قوت نموپائی جا سکتی ہے جسے کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘
دفعتاً موم بتی کی لو بجھنے لگی۔ یکایک پھیلنے والے اندھیرے نے روشنی کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ بجھتی شمع کا ننھا سا نیلا شعلہ دیر تک ٹیبل پر نظر آتا رہا جو بیک وقت نہایت کمزور بھی لگ رہا تھا اور بے حد طاقتور بھی۔ لڑکے کو فرش کی ٹھنڈک اپنے ننگے تلوئوں سے گزر کر اوپر اٹھتی محسوس ہونے لگی اور اسے جھرجھری سی آگئی۔
تبھی اندھیرے میں کاہنہ کا قہقہہ گونجا۔ اس کی شروعات ایک شوخ سی ہنسی کی صورت میں ہوئی…ایسی ہنسی…جیسی لڑکیاں اس وقت ہنستی ہیں جب ان کے دوست ایک چھوٹے سے بوسے کے لیے ان کے پیچھے پڑے ہوںاور وہ بھاگ رہی ہوں…اور پھر یہ ہنسی ایک ایسے بھرپور قہقہے میں بدل گئی جو بے انتہا خوشی کی حالت میں لوگ لگاتے ہیں… ایسا قہقہہ جو آنکھوں میں پانی لے آتا ہے۔ اس قہقہے میں ایک عجیب سی لے تھی جو اس اندھیرے ماحول میں لڑکے کو بہت پُرلطف لگ رہی تھی،لیکن وہ قہقہہ بالآخر ایک تیز اور باریک چیخ میں بدل گیا۔ چیخ اتنی بھیانک تھی کہ لڑکے کا دل چاہا کے وہ بھاگ کر دروازے کے باہرچلا جائے،لیکن کسی غیر مرئی قوت نے جیسے اس کے قدموں کو جکڑ رکھا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ چیخ دیوار پر لٹکے بھیانک مکھوٹے کے منہ سے نکل رہی ہے۔ اسے نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابھی زمین پر گر کر کسی سانپ کی طرح بل کھانے لگے گا۔۔۔ یہاں تک کہ وہ بری طرح تھک کر سو جائے گا ۔۔۔ اور جب وہ اٹھے گا تو وہ اتنی ہی خوشی محسوس کرے گا جتنی وہ اس وقت محسوس کرتا ہے جب اس کی ماں اسے بے حد خوش ہو کر اپنی بانھوں میں سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیتی ہے۔
لیکن اس ہنسی، قہقہے اور چیخ… سب کا خاتمہ ویسے ہی اچانک ہو گیا جیسے ان کی شروعات ہوئی تھی۔ تاریکی موم بتی کی لو کے پاس سے ویسے ہی دور ہوتی گئی جیسے تالاب کے پانی میں پتھر پھینکنے کے بعد لہریں وہاں سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اور اب وہاں روشنی تھی۔ دیوار پر مکھوٹا خاموشی سے مسکرا رہا تھا اور مسیح کے قلب سے روشنی کی زرد کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔
’’ لارڈ… لارڈ… لارڈ۔ ‘‘ کاہنہ نے مدھم، لیکن بھر پور آواز میں کہا۔ اس کی آواز میں اتنی ہی خوشی موجود تھی جتنی ایک دن اس لڑکے کی ماں کی آواز میں تھی جب ایک دن وہ گلی میںکھیل کر گھر واپس لوٹا تو اس کی ماں جو باورچی خانے کے دروازے کے پاس کرسی پر ، جلتے ہوئے چولہے کے سامنے بیٹھی تھی،اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی اور اسے اپنے سینے سے لپٹاتے ہوئے بولی ’’میں ایک مدت سے کتنی بیمار ہوں ، لیکن شکر ہے کہ تو میرے پاس ہے… تو میرا بیٹا ہے… تو میرا بیٹا ہے… تو میرا بیٹا ہے۔ ‘‘
اور لڑکے کو اس کے جسم سے کافور کی بھینی خوشبو نکلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے بھی اسے لپٹا لیا، حالاں کہ اس کی بانھیں اس کی ماں کی بغلوں تک ہی پہنچ رہی تھیں۔ اسے یاد تھا کہ ماں کی بغلوں میں دب کر اس کے ہاتھ کتنے گرم ہو گئے تھے۔
’’ لارڈ… لارڈ… لارڈ۔ ‘‘ کاہنہ بولے جا رہی تھی، ’’ہمارے دلوں اور دماغوں میں موجود ریگستانوں پر اپنے کرم کی بارش برسا…رحم کر…اس پانی پر اپنی رحمتیں نازل فرما…اسے اپنی قوت سے بھر دے …اسے آب حیات بنادے…اور جو کوئی بھی اسے پیئے اس میں بہار کے پھولوں کی سی تازگی بھر دے …جو اس پانی کو پیئے اسے مایوسیوں سے نجات دیدے ۔ ‘‘
جیسے ہی کاہنہ چپ ہوئی اس نے بانس کی صلیب کو آہستہ آہستہ نیچے کیایہاں تک کہ وہ زمین پر آگیا۔ لڑکا سوچ رہا تھا کہ کیا اس کا عمل پورا ہو گیا یا ابھی کچھ باقی ہے؟ کیا اسے اٹھ کرمقدس پانی لے لینا چاہیے اور پھر وہاں سے چلے جانا چاہیے؟یا ابھی رکنا چاہیے؟ ۔۔۔۔۔۔ جلد ہی اس کی اس مشکل کو کاہنہ نے حل کر دیا۔
’’ یہاں آئو میرے بیٹے۔ ‘‘وہ بولی،’’اور میرے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائو۔ ‘‘
لڑکا کھڑا ہو گیا اور آہستہ آہستہ کاہنہ کی جانب بڑھا اور گھٹنوں کے بل زمین پربیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ اس کے دونوں جانب جھول رہے تھے۔ کاہنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سر پر رکھے۔ ہاتھ گرم تھے۔ لڑکے کو ان کی گرمی اپنے بالوں سے گزر کر سر کے اندر اترتی محسوس ہوئی۔ وہ سوچ رہا تھا شاید کاہنہ کی روح اس کے جسم میں داخل ہو رہی ہے۔ کیا یہ بات مشہور نہیںتھی کہ جب کاہنہ اپنا ہاتھ کسی کے سر پر رکھتی ہے تو وہ اپنی روح کے ذریعہ اس شخص کے اندر جھانک لیتی ہے۔ کاہنہ کو فریب دینا ناممکن ہے۔ اور لڑکا حیرت سے سوچ رہا تھا کہ کاہنہ کو اس کے پھیپھڑے کیسے دکھائی دیتے ہوں گے؟کیا اسے وہ پانی دکھائی دے رہا ہو گا جو وہ یہاں آنے سے قبل ، گلی کے ٹھیک دوسری سمت واقع نل سے پی کر آیاہے؟وہ پانی اب کہاں ہوگا؟معدے میں؟یاگردوں میں؟
تبھی کاہنہ نے اپنے ہاتھوں کو اس کے پورے سر پر پھیرا جیسے وہ اس کے سر میں کچھ ڈھونڈ رہی ہو۔ پھر وہ ہاتھ اس کی گردن پر پہنچے۔ ہاتھ اب قدرے ٹھنڈے محسوس ہو رہے تھے۔ اس ٹھنڈک سے اس کے جسم میں گدگدی کی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔ پھر ان ہاتھوں نے اس کے چہرے کو ڈھک لیا۔ آنکھیں بند کرنے سے قبل اس نے جلد کی جھریوں کودیکھا جو اتنے قریب سے پہاڑیوں جیسے معلوم ہو رہی تھیں۔ ان ہاتھوں میں نیلے صابن اور موم بتی کے موم کی ملی جلی مہک تھی،لیکن ان میںنسوار کی مہک بالکل نہیں تھی۔ لڑکے کو بڑی حیرت ہوئی۔ شاید کاہنہ نسوار استعمال نہیں کرتی ہے… لیکن اس کی دادی نسوار استعمال کیا کرتی ہے اور اس کے ہاتھوں میں ہمیشہ نسوار کی مہک بسی ہوتی ہے۔ تبھی کاہنہ بولی۔
’’ میرے بیٹے۔ ‘‘وہ بولی،’’جائو… جائو اور اپنی ماں کو شفا بخش دو۔ ‘‘جب اس نے اپنے ہاتھوں کو اس کے چہرے سے ہٹایا تواسے اپنا چہرہ سرد محسوس ہوا اور ساتھ ہی جلد کے سکڑنے کا بھی ہلکا سا احساس ہوا۔ وہ زمین سے اٹھا اور بوتل کو گردن سے پکڑ کر اٹھایا اوردروازے کی طرف چل پڑا۔ باہر نکل کر دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے دیکھا کاہنہ موم بتی ہاتھ میں لیے اپنی خوابگاہ کی طرف جا رہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ ایش ٹرے کو واپس میز پر کب رکھے گی؟…جب اس نے دروازہ بند کیا تب تک لیونگ روم تاریک ہو چکا تھا اور خواب گاہ روشن تھی۔
باہر رات کی تاریکی پھیل چکی تھی۔ لڑکا تھوڑی دیر کے لیے برآمدے میں رک گیا تاکہ اس کی آنکھیں تاریکی سے مانوس ہو جائیں۔ اسے کتے کا خیال آیالیکن وہ وہاں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سامنے انگوروں کی بیلیں نظر آ رہی تھیں جن پر ثمرممنوعہ دکھائی دے رہے تھے اور وہ رنگین کیڑے بھی جو اِن بیلوں پر ہر وقت رینگتے رہتے تھے۔ انگوروں کی بیلوں کی سرنگ کے نیچے سے گزرتے ہوئے لڑکے نے اپنا سر یوں جھکا رکھا تھا جیسے لوگ تیزبارش میں چلتے وقت جھکا لیتے ہیں۔ شاید لاشعوری طور پروہ ان کیڑوں سے خوفزدہ تھا کہ کہیں ان میں سے کوئی اس کے جسم پر گر نہ پڑے…یہ کیڑے کتنے بڑے ہیں… اس نے نفرت سے سوچا۔ اسے ان کے شوخ رنگوں سے بھی خوف آ رہا تھا۔
سرنگ کے درمیان پہنچتے ہی وہ اپنا ضبط کھو بیٹھا اور تیزی سے دوڑتا ہوا مین گیٹ سے باہر آگیا… اب وہ آزاد تھا…اسے ماں کا خیال آیا جو مقدس پانی کی منتظرہوگی…اور وہ بجلی کی سی سرعت سے تھائپ اسٹریٹ میں مغرب کی سمت دوڑتا چلا گیا… گھر کی جانب !…جب وہ سڑک کے آخری سرے پر پہنچا تو اسے ملی جلی آوازوں کا ایک شور سنائی دیا جو بھیڑ بھری حجامت کی دکانوں اور ان کے عقب میں واقع بیّر کی دکانوں سے بلند ہو رہا تھا۔ کاہنہ کے گھر کے ماحول میں تھوڑا وقت گزارنے کے بعد یہ شور، یہ لوگ، یہ دکانیں،سڑک کے کھمبوں پر لگی بتیاں، بسیں اور ٹیکسیاں… سب کچھ نئے لگ رہے تھے۔ وہ ان سب سے بچتا ہوا جلد از جلدگھر پہنچنا چاہتا تھا۔ اگر وہ اگلے موڑ پر پہنچ کربائیں مڑ ے گا تو اسے روشن اور پر ہجوم موشوشو اسٹریٹ سے گزرنا ہوگا جہاں جمعہ کی رات ویسے ہی زبردست بھیڑ رہتی ہے، اور اگر وہ دائیں مڑے گا تو اسے بانتو باتھو پوسٹ آفس کے پاس سے گزرنا ہوگاجو رات کے اس وقت تاریک ، ویران اور خوفناک ہوگا اور پھر اس کے آگے چارٹرسن کلینک کے پیچھے واقع کیکر کے ڈراونے درختوں کے قریب سے گزرنا پڑے گا جس کے آگے گولف کا ویران میدان ہے۔ دوسرا راستہ چھوٹا ہے لیکن ایک اکیلے لڑکے کے لیے خطرناک ثابت ہوگا… حالاں کہ کاہنہ کی روح اس کے ساتھ ہے… پھر بھی ! …اور پھر اس راستے میں اکثر لاشیں بھی تو ملتی رہی ہیں… لڑکا بائیں جانب مڑ گیا۔
دکانوں کے پاس بھیڑکی زیادتی کی وجہ سے اسے اپنی رفتار کم کرنی پڑی۔ اس نے بوتل کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا تھااور دوسرے ہاتھ سے اس کے پیندے کو سہارا دیتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اسے بوتل کو بڑی حفاظت سے گھر پہنچاناتھا۔ ایک قطرہ بھی برباد نہیں ہوناچاہیے۔ اس بوتل میں اس کی ماں کی شفا بند تھی۔ اس نے بوتل کی گردن کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور دکانوں کے سامنے سے گزرتا چلا گیا۔
بیّر ہال کے گیٹ کے سامنے، اسٹریٹ لیمپ کے نیچے نوجوان لڑکوں کا ایک جھنڈ کھڑاتھا۔ لڑکے کی رفتار ذرا کم ہوگئی۔ اسے ڈر لگا ۔… کون ہیں یہ لڑکے؟…اس نے سوچا…اسے ان کے پاس سے گزر کر نکل جانا چاہیے…نہیں ڈرنے کی کوئی بات نہیں… اس نے بھیڑ میں دو شناسا چہرے دیکھ لیے تھے… تیمی اور بُو بُو…وہ دونوں اپنے محلے کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ تھے۔ یہ سب بڑے لڑکے تھے۔ شاید چھٹی جماعت میں پڑھتے ہوں گے یا پھرباقاعدہ ہائی اسکول کے طالب علم ہوں گے یا پھر قصبے میں کہیں کام کرتے ہوں گے۔
تیمی نے لڑکے کو پہچان لیا۔
’’ کیا پیارے بچے۔ ‘‘ تیمی بولا ’’ اتنی رات کو سڑک پر کیا کر رہے ہو؟ ‘‘
’’ ہیلو ! تیمی بھائی ! ‘‘ لڑکے نے جواب دیا، ’’ بس دکانوں سے کچھ خریداری کر نی تھی۔ ‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔ وہ اپنا اصل مقصد اس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کے خیال میں شاید یہ مناسب نہیں ہوتا۔
’’ارے تم ادھر سنو ‘‘ ایک لڑکا تیمی کی طرف دیکھ کر چیخا۔ یہ بیزا تھا۔ لڑکے نے اس سے قبل بیزا کو جب بھی دیکھا تھا، کسی نہ کسی لڑکی سے بات کرتے ہوئے ہی دیکھا تھا۔ کبھی لڑکی اس کی باتیں سن کر ہنس دیتی تھی اور کبھی وہ لڑکی کی کلائی اس وقت تک مڑوڑتا رہتا جب تک وہ ’راضی‘ نہ ہو جاتی۔۔۔۔اور یہ سب کچھ وہ دن دھاڑے بڑے دھڑلے سے کرتا تھا۔
’’تم میری بات پر یقین نہیں کروگے‘‘ اس نے تیمی کو مخاطب کر کے کہا ’’لیکن جب میں تمہیں ثبوت دکھائوں گا تو تم سب کی بولتی بند ہو جائے گی۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تو کیا ثبوت ہے تمہارے پاس؟ ‘‘ ایک دوسرے لڑکے نے کہا ’’یہاں سب کو معلوم ہے کہ اس لڑکی سونٹو کو حاصل کرنا کتنامشکل ہے‘‘
’’ تو پھر آئو ۔۔۔۔ قریب آئو‘‘ بیزا نے کہا ’’میں تمہیں دکھاتا ہوں‘‘
لڑکوں کے جھنڈ نے سمٹ کر بیزا کو چاروںطرف سے گھیر لیا۔ لڑکا اس دائرے کے باہر کھڑا تھا۔ وہ بھی متجسس تھا اور دیکھنا چاہ رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے؟ لیکن اس کے سامنے کھڑی جسموں کی دیوار ناقابل عبور تھی ۔۔۔۔۔ ہاں وہاں سے وہ بیزا کی آواز ضرور سن سکتا تھا۔
’’ دیکھا؟ دیکھا تم سب نے؟ میں ابھی اس لڑکی کے پاس سے آرہا ہوں۔ دیکھو! دیکھو! یہ دیکھو؟ جب میں اسے اپنی انگلیوں پر لگا کر انگلیوں کو الگ کرتا ہوں تو مکڑی کے جالے جیسا تار بنتا ہے۔ ‘‘
’’ارے یار! ‘‘بھیڑ میں کسی نے کہا ’’ تم اس سے لوگوں کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ یہ معمولی سا شعبدہ ہے۔ ایک لڑکا اپنی ناک سے بہنے والی رطوبت اس جگہ لگا کر اندھیرے سے باہر آتا ہے اور اپنے دوستوں کے سامنے اعلان کرتا ہے کہ ابھی ابھی اس نے ایک لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔‘‘
’’ہمیں اسے غور سے دوبارہ دیکھنا چاہیے‘‘ دوسرے نے کہا ’’اس کے بعد ہی ہمیں کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ ‘‘
جھنڈ تھوڑا اور سمٹ گیا۔
’’دیکھا ؟ دیکھا تم نے؟ ‘‘ بیزا مسلسل بولے جا رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے بیزا نے واقعی اس لڑکی کو حاصل کر لیا ہے۔ ‘‘
’’ ارے یار یہ ناک کی رطوبت ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔۔‘‘ دوسرے نے اصرار کیا۔
’’ لیکن یار ! تم لوگوں کو اس معاملے میں بیزاکے سابقہ ریکارڈ کا تو پتا ہوگا ہی۔ ‘‘
’’دوسری بات! ہم اس بات پر کیسے اعتبار کر لیں کہ وہ سونٹو ہی تھی کوئی دوسری لڑکی نہیں تھی؟ کیا یہ بات بیزا کے جسم پر لکھی ہوئی ہے کہ وہ لڑکی سونٹو ہی تھی۔۔۔۔ دکھائو ۔۔۔۔ وہاں کہاں ’’سونٹو‘‘ لکھا ہے۔ ‘‘
’’ یہ تم نہیں تمہارے اندر کی جلن بول رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم لوگوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ ‘‘ بیزا نے کہا۔ سمٹا ہوا جھنڈ اب تھوڑا پھیل گیا تھا اور اب اتنی جگہ بن گئی تھی کہ لڑکا اس کے اند جھانک سکتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ بیزا اپنی پینٹ کی زِپ بند کر رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر لڑکے کے چہرے پر پڑی۔
’’تم یہاں کیا دیکھ رہے ہو‘‘ وہ چیخا ’’چلو بھاگو یہاں سے‘‘۔
لڑکا حیرت سے سوچ رہا تھا کہ بیزا اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں اپنی پینٹ کی زِپ کھولے لڑکوں کو کیا دکھا رہا تھا۔ جو کچھ بھی تھا ۔۔۔ دلچسپ تھا ۔۔۔۔۔ شایداحمقانہ بھی ۔۔۔۔اورگناہ آلود۔۔۔۔لڑکا خوش تھا کہ اس نے مقدس پانی کی بوتل کو ان سے بچا کر رکھا تھا اور ان میں سے کسی نے اسے چھوا نہیں تھا۔
ٹیچر ٹھیک ہی کہتے ہیں… لڑکے نے سوچا… ان کے دماغ میں خرافات کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اسکول میں ایک کے بعد ایک امتحان فیل کرتے چلے جاتے ہیں۔ خرافات اور اسکول دونوں ایک ساتھ ممکن نہیں۔
لڑکے کو اپنی برتری کا احساس ہوا۔ وہ اپنے ساتھ کاہنہ کی قوت رکھتا ہے اور اب وہ اپنی وہ قوت اپنی ماں کو دینے جارہا ہے۔ وہ اسے شفا دینے جا رہا ہے۔ وہ لڑکے اپنی مائوں کو شفا دینے نہیں جا رہے تھے۔ وہ اپنی مائوں کو گھروں میں اکیلی چھوڑ کر آئے تھے۔ اس نے اپنی رفتار بڑھا دی۔ اسے جلد گھر پہنچنا تھا۔ وہ چارج آفس سے دائیں مڑ گیا اور کلینک کی جانب بڑھا۔ اس نے سڑک پار کی اور مایابا اسٹریٹ میںداخل ہو گیا۔ مایابا اسٹریٹ تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی اور اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گھر اب قریب آگیا تھا۔ وہ محض اندازے سے چلا جا رہا تھا۔ ممکن ہے کچھ دیر میں اس کی آ نکھیں اندھیرے سے مانوس ہو جائیںاور اسے تھوڑا بہت دکھائی دینے لگے۔ اس نے بوتل کو سینے سے ہٹا کرہاتھ میں لٹکا لیا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا شاید تاروں کی مدھم روشنی سے اسے گھر پہنچنے میں مدد مل جائے،لیکن جیسے ہی اس نے اپنا چہرہ نیچے کیا اسے اپنے بالکل سامنے کوئی چیز دکھائی دی… اور…ٹھیک اسی لمحے اسے اپنی ران سے کسی چیز کے ٹکرانے کا احساس ہوا اور درد کی ایک تیز لہر اس کی ران سے شروع ہوکر سارے جسم میں پھیل گئی۔ پھر اسے دھات کی بنی کسی شے کے زمین پر گرنے کی آواز سنائی دی اور ساتھ زمین سے کچھ دھول بھی اڑ کر اس پر پڑی۔ لڑکے کی سمجھ میں نہیںآیا کہ وہ کب اورکیسے گر پڑا… اس نے خود کو اپنی ران پکڑے زمین پر پڑا پایا جس سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ چند فٹ کی دوری پر ایک شخص کھڑا اس پر چیخ رہا تھا۔
’’ کمبخت لڑکے‘‘،وہ چیخا۔ ’’جی چاہتا ہے تجھے ایک لات ماروں… سڑک پر ایسے چل رہا ہے جیسے تیرے باپ کی سڑک ہو…مردود… تُو تو ابھی اس کا ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا…اس سے پہلے کہ میں تیری پٹائی کر دوں، دفع ہوجا یہاں سے‘‘ اس آدمی نے زمین سے اپنی سائکل اٹھائی اور اس کا ہینڈل سیدھا کر نے لگا۔ پھر وہ وہاں سے چلا گیا۔
لڑکے نے بہ مشکل خود کو زمین سے اٹھایا اور لنگڑاتا ہوا گھر کی جانب چل پڑا… سب کچھ اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا سوائے ران سے اٹھتی ہوئی درد کی ٹیسوں کے،لیکن چند لمحے بعد ہی اسے اپنے سینے میں درد کی ایک تیز لہر اٹھتی محسوس ہوئی اور اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اسے بوتل کا خیال آیا جو اس ٹکر میں چکنا چور ہو گئی تھی اور سارا پانی زمین پر بہہ گیا تھا…مقدس پانی… جس میں اس کی ماں کی شفا بندتھی… اس کی ماں جس کی منتظربیٹھی تھی…کیا کہے گا وہ ماں سے؟… اگر وہ ان بدمعاش لڑکوں کے پاس نہیں رکا ہوتا تو شاید وہ سائکل سوار سے نہیں ٹکراتا…کیا اسے کاہنہ کے پاس واپس جانا چاہیے؟… نہیں… وہاں وہ کتا ہے…وہاں انگور کی بیلیں ہیں… وہاں کیڑے ہیں… اور پھر وہاں کاہنہ خود موجود ہے۔ وہ اپنی دعائوں کو یوں برباد کر نے والے کو سزا دئے بغیر نہیں چھوڑے گی…وہ سزا کیا ہوگی؟… آسمانی بجلیاں؟ …یا جہنم کی آگ؟…لڑکا لنگڑاتا ہوا سڑک پر چلا جا رہا تھا… اپنی بد قسمتی اسے صاف دکھائی دے رہی تھی… بغیر مقدس پانی کے وہ کس منہ سے ماں کی خواب گاہ میں داخل ہوگا…ماں کی آنکھوں کی محرومی اورحسرت وہ کس طرح دیکھ سکے گا۔
وہ جیسے ہی اپنے گھر کے آنگن میں داخل ہوا ، اسے بوتلوں کے ٹکرانے کی آوازسنائی دی۔ آواز اس کے کتے خانے کی جانب سے آرہی تھی۔ اسے یاد آیا کہ کتے خانے کے پاس ہی پرانی بوتلوں کا ایک ڈھیر رکھا ہوا تھا۔ شاید اس کاکتا ریکس اسے دیکھ کر تیزی سے اس کی طرف لپکا تھا اور اس کوشش میں وہ بوتلوں سے ٹکرا گیا تھا۔ اس نے احسان مندی کے جذبے سے مغلوب ہو کر کتے کو لپٹا کر پیار کیا۔ اس نے ڈھیر سے ایک بوتل منتخب کی… نہایت خاموشی سے…شاید اسے پہلے سے معلوم تھا کہ ان حالات میں اسے کیا کرنا ہے…وہ بوتل لے کرآنگن سے نکلا اور مایابا اسٹریٹ پر واقع نل کی جانب بڑھا۔ بالکل میکانیکی انداز میں اس نے کئی بار اچھی طرح کھنگال کر بوتل صاف کی۔ پھر اس میں پانی بھر کر اس کے اوپر لگے پانی کو اپنی پتلون سے پوچھا۔ بوتل کا ڈھکن بند کیا اور لنگڑاتا ہوا گھر کی جانب چل پڑا۔
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا اسے خواب گاہ سے آتی ماں کی آواز سنائی دی۔ شاید اس کی غیر موجودگی میں کوئی ماں سے ملنے آیا تھا۔
’’ میں کہتی ہوں سیسی!…اور میری بات یاد رکھنا… ایک تربیت یافتہ نرس کی بات…کہ یہ ساری دوائیں، یہ گولیاں اور یہ سارے انجکشن ، یہ سب کافی نہیں ہیں… میں جڑی بوٹیاں بھی استعمال کرتی ہوں…لیکن ان کے باوجود شفا کے لیے دعا کی بھی ضرورت ہے…بیٹے کیا یہ تم ہو؟‘‘
’’ ہاں !ماں!‘‘ لڑکے نے احتیاط کے ساتھ دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’ کیا تم پانی لے آئے ؟ ‘‘
’’ ہاں ،ماں!‘‘
’’ خوب… مجھے پتا تھا تم یہ کام کر لوگے…پانی اور تین پیالیاں لے آئو… ماں شانگے اور ماں موکوئنا آئی ہوئی ہیں۔ ‘‘
لڑکے کی آنکھیں آنسوئوں سے دھندلا گئیں… اس کی ماں کو اس پر کتنا اعتمادتھا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے یوں فریب دے کر اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے جارہا تھا…نہیں… فی الحال اسے پر سکون رہنا ہے… اس نے اپنی ہتھیلی کی پشت سے آنکھوں کو صاف کیا اور پھر بوتل اور تین کپ ایک ٹرے میں رکھے۔۔۔۔ اسے تن کر بالکل سیدھا چلنا تھا۔ اسے اپنی ران کے درد کو چھپانا تھا۔ اسے اپنی ماں کو دیکھ کر مسکرانا تھا۔ اسے مہمانوں کی طرف دیکھ کر مسکرانا تھا۔ اس نے ٹرے اٹھایا لیکن خوابگاہ میں داخل ہونے سے قبل وہ چند لمحوں کے لیے رک کر ہمت جٹانے لگا۔ خوابگاہ کے اند ر سے عورتوں کے باتیں کر نے کی آوازیں اسے بالکل صاف سنائی دے رہی تھیں۔
’’میں تمہاری بات سمجھ رہی ہوں ، نرس!‘‘ ان میں سے ایک عورت بولی ’’یہی بات تو میں لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔۔۔۔اب دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں بچے آپس میں کزن ہیں‘‘
’’اتنا قریبی رشتہ ؟‘‘ لڑکے کی ماں کی آواز آئی۔
’’ ہاں اتنا قریبی رشتہ ۔۔۔۔ماں موکوئنا میری گواہ ہیں۔۔۔۔میں نے ان کی موجودگی میں اس بات پر احتجاج کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نرس تم ہی بتائو میں نے احتجاج کیا تھا یا نہیں؟‘‘
’’ارے ہاں بھئی!میں نے توویسے لوگ اپنی زندگی میں نہیں دیکھے‘‘ماں موکوئنا نے تائید کی۔
’’ میں نے اپنی آواز کو چھت تک بلند کرتے ہوئے کہا تھا : لوگو! میں نے بھی دنیا دیکھی ہے ۔۔۔۔۔ اگر یہ دونوں بچے واقعی شادی کرنا چاہتے ہیں تو کسی جانور کی قربانی دینی لازمی ہے تاکہ ان کے درمیان کے خون کے رشتے کو ختم کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اور تم سننا چاہوگی کہ ان لوگوں نے کیا جواب دیا؟‘‘ماں موکوئنا نے اس کی بات درمیان میں کاٹی۔
’’میں سن رہی ہوں‘‘ لڑکے کی ماں بولی۔
’’اسے بتائو شانگے کی بیٹی۔۔۔۔۔‘‘ماں موکوئنا بولی۔
’’انھوں نے کہا کہ یہ سب پرانی اور فرسودہ باتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تب میں نے اپنے آپ سے کہا ’ شانگے کی بیٹی ، اپنا منھ بند کر لے اور خاموش بیٹھ جا،آنکھیں کھلی رکھ اور دیکھتی جا‘ ۔۔۔۔اور میں نے یہی کیا۔ ‘‘
’’شادی سے دو ہفتے قبل آخر کار ان کے اجداد کی روحوںنے انہیں سزا دے دی۔۔۔ ۔۔۔۔ جیسا کہ میںنے سوچا تھا ۔۔۔۔۔۔لڑکی کو ہسپتال پہونچانا پڑا ۔۔۔۔۔۔۔اس کے پیر ایسے پھول گئے تھے جیسے پتلون میں ہوا بھر دی گئی ہو۔۔۔۔۔اب میری باری آئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ان کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہوئے اپنا منھ کھولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’تم نے اس ناجائز شادی کے لیے اپنے اجداد کی روحوں سے اجازت لی تھی‘ ۔۔۔۔۔۔تم وہاں ہوتیں تو دیکھتیں کہ ان کی گردنیں کیسے جھک گئیں تھیں۔۔۔۔۔۔وہ لوگ نظریں چرا کر ادھر ادھر تو دیکھ رہے تھے لیکن میری طرف دیکھنے کی ہمت ان میں نہیں تھی۔ ہاں میری بات ان کے دل میں اتر گئی تھی اور سورج غروب ہونے سے قبل ہی وہ ایک بکری کی قربانی دے کر اس کا گوشت کھا رہے تھے۔ ایک ہفتے بعد بچے قربان گاہ پر گئے اور پجاری نے انہیں دعادیتے ہوئے کہا ’’بہت خوبصورت جوڑی ہے تمہاری۔ ‘‘
’’کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کچھ لوگ خود ہی مصیبتوں کو دعوت دیتے ہیں‘‘ لڑکے کی ماں نے کہا۔
’’صرف وہ لوگ جو لوگوں کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ‘‘ ماں شانگے بولی۔
’’یہ لڑکا کہاں رہ گیا؟‘‘ لڑکے کی ماں نے کہا ’’بیٹے! پانی کا کیا ہوا؟‘‘
بے ساختہ لڑکے نے اپنے پیروں پر نگاہ ڈالی۔ کہیں ران کے درد کی وجہ سے اس کے پیر پھول تو نہیں رہے ہیں؟ یا پھر اس کے جھوٹ کی وجہ سے؟ خوف کی ایک لہر اس کے رگ و پے میں دوڑ گئی۔ لیکن بہر حال اسے خودپر قابو رکھنا تھا نہیں تو ٹرے میں رکھی بوتل گر جائے گی۔ اس نے راہداری میں قدم رکھا۔ اس کی ماں سامنے تھی۔ اس کا بستر راہداری کے عین سامنے تھا اور وہ جیسے ہی راہداری میں مڑ ااس کی نظر سیدھے ماں پر پڑی۔ وہ کئی تکیوں کے سہارے بستر پربیٹھی ہوئی تھی۔ ان کی نظریں ملیں اور وہ مسکرائی۔ اس کے سامنے کے اوپری دانتوں کے درمیان کا خلا نظر آرہا تھا جسے وہ اکثر اپنی زبان سے چھوتی رہتی تھی۔ اس نے سر پر بادامی رنگ کے شیفون کا رومال باندھ رکھا تھا جو لاپرواہی کی وجہ سے سر کے ایک جانب ڈھلکا ہوا تھا اور سر کے دوسری جانب اس کے بے ترتیب بالوں کی لٹیں دکھائی دے رہی تھیں۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کے نتھنوں میں کافورکی بو داخل ہوئی۔ اس نے دونوں مہمانوں کو سلام کیا۔ حالاں کہ بیڈروم میں گرمی تھی لیکن ماں شانگے اورماں موکوئنا نے چمکدار ،بڑے اور بھاری اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ماں موکوئنا اپنے کاندھوں پر ایک کمبل ڈالے ہوئے تھیں۔ سروں پر رومال بڑے سلیقے سے بندھے ہوئے تھے۔ لڑکے نے ٹرے کو ماں کے بستر کے قریب ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا اور پیچھے ہٹ کر ماں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ واپس کچن میں جائے یا یہیں رک کر اپنی بد قسمتی کا انتظار کرے۔
’’ ُپتا نہیں میں اس لڑکے کے بغیر کیا کرتی‘‘اس کی ماں ایک کہنی کے بل اٹھتی ہوئی بولی۔ ا س نے دوسرے ہاتھ سے بوتل اٹھائی اور جس ہاتھ کے سہارے بیٹھی تھی،اس سے ڈھکن کھولنے لگی۔ لڑکے نے چاہا کہ آگے بڑھ کر اس کی مدد کرے لیکن اس کے پائوں جیسے زمین سے چپک گئے تھے ۔۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا…ماںنے ایک پیالی میں پانی ڈالا اور پی گئی…اس نے آسودگی کے احساس کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کر لیں…’’ اتنا ٹھنڈا پانی !‘‘ اس نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا’’کیا میں تمھیں بھی دوں؟‘‘اس نے باقی دو پیالیوںمیں پانی ڈالا۔
ماں کو خوش دیکھ کر لڑکے کی خوشی کی انتہا نہیں تھی…اس نے اپنے آپ کو معاف کر دیا تھا… کاہنہ نے اس کے اندر کیا دیکھا تھا؟… کیا وہ اسے اب بھی اپنے ہاتھوں میں محسوس کر رہی ہوگی؟… کیا اسے پتا چل گیا ہوگا کہ اس نے ابھی ابھی کیا کیا ہے؟…کیا مقدس پانی کا مزہ عام پانی سے مختلف ہوتا ہے؟…اس کی ماں کو تو کسی فرق کا پتا نہیں چلا تھا…کیا اسے شفا ملے گی؟
’’ کاہنہ کے اس مقدس پانی کو پیتے ہوئے آج میں بے حد خوش ہوں… میری خوش نصیبی کہ میں تم سے ملنے آئی۔ ‘‘ ماں شانگے بولی۔
’’مجھے پہلے سے ٹھیک لگ رہا ہے…اس پانی کی کرامت سے… اور آپ دونوں کی آمد کی برکت سے…میں اپنے اندرسکون بخشنے والی ٹھنڈک محسوس کر رہی ہوں…۔ ‘‘
لڑکا دھیرے دھیرے خوابگاہ سے باہر آگیا۔ اسے اپنی ران میں درد کا احساس ہوا،لیکن وہ خوش تھا… بے انتہا خوش… اس نے اپنی ماں کو شفا دی تھی…وہ اسے کل بھی شفا دے گا… اور ہمیشہ دے گا… اس کے لیے وہ دنیا کا سارا پانی استعمال کر ڈالے گا…وہ اسے شفا دے گا۔
Original Story : The Prophetess
By : Njabulo S. Ndebele (South Africa)