وہ اپنے کمرے میں بستر پہ دراز محوِ خواب تھا۔ کمرہ اس کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ ادھر وہ گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا، ادھر اس کے کمرے میں عجیب و غریب کھیل شروع ہو چکا تھا۔ اس کے کمرے میں موجود کتابوں کی الماری سے عجیب و غریب اور بھیانک شکل و صورت کی مخلوق برآمد ہو کر کمرے میں پھیل چکی تھی۔ ان کی شکلیں بہت ڈراؤنی تھیں جنھیں دیکھ کر اچھے اچھے بہادروں کا پتا بھی پانی ہو جائے۔ وہ مخلوق اس کی چارپائی کے چاروں طرف جمع ہو گئی، انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کیے اور پھر ایک مخلوق حرکت میں آئی اور اس کے رخسار پہ ایک زناٹے دار تھپڑ پڑا، دوسرے ہی لمحے وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور اپنے چاروں طرف اس مخلوق کو پا کربری طرح گھبرا گیا: ۔
’’کک۔۔ کک۔۔ کون ہو تت۔۔ تم؟؟‘‘
وہ بری طرح ہکلا کر بولا۔
’’ہمیں نہیں پہچانتے کیا؟‘‘
طنزیہ لہجے میں کہا گیا۔
اس نے حیرت و پریشانی کے عالم میں اپنی چارپائی کے چاروں طرف دیکھا۔ وہ بہت عجیب سی مخلوق تھی جس نے چارپائی کو گھیر رکھا تھا۔ عجیب اس طرح کہ ان کے چہرے بہت بھیانک اور ڈراؤنے تھے۔ کچھ کے چہروں پر آنکھیں نہیں تھیں۔ کچھ کے چہرے ناک سے محروم تھے۔ کسی مخلوق کی ٹانگ ایک تھی تو کسی کا بازو ایک، ایک دو تو کٹے سر کے ساتھ چل پھر رہی تھیں۔ وہ آدمی چارپائی پر سمٹ کر بیٹھ گیا۔ اسے ان سب سے ڈر لگ رہا تھا۔
’’بولو!! پہچانا ہمیں؟‘‘
ان میں سے ایک کان کٹی مخلوق نے چلا کر پوچھا۔
’’نن نہیں تو۔۔ تت تم بتا دو؟‘‘
وہ ہکلایا۔
اس کا خوف دیکھ کر وہ مخلوق مزید شیر ہو گئی۔ اب وہ چارپائی پر چڑھنے لگی تھی۔
’’رکو!!!! رکو!!!! کیا چاہیے تمھیں؟‘‘
وہ ہذیانی انداز میں چلایا۔
’’ہاہاہاہا ہاہاہاہا ابھی سے ڈر گئے۔۔ تم ہی نے تو ہمیں بنایا ہے۔۔ پھر ہم سے ڈر کیسا؟‘‘
ایک مخلوق زور سے ہنسی۔
’’مم۔۔ میں نے؟ کیا مطلب؟؟‘‘
وہ آدمی الجھ گیا تھا۔
’’ہاں یہی بات ہے۔ تم نے ہمیں بنایا ہے۔۔ ہم تمہاری کہانیاں ہیں۔‘‘
’’کیا!!!!‘‘
وہ پوری قوت سے چلایا تھا۔
’’جی ہاں۔۔ ۔ اب چلانا بند کرو۔‘‘
ایک مخلوق نے اس کے کندھے پہ دباؤ ڈال کر سرد لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے۔۔ ٹھیک ہے۔۔ تمہیں کیا چاہیے؟‘‘
وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔
’’انتقام!!‘‘
ایک مخلوق نے کرخت لہجے میں کہا۔
’’کیا کہا۔۔ ۔ انت۔۔ ۔ انتقام۔۔ ۔ کس بات کا؟ میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا؟؟‘‘
آدمی نے خوف زدہ ہو کر کہا۔
’’دیکھ نہیں رہے تم، تم نے ہمارا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔۔ ۔ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔‘‘
ایک مخلوق نے غرا کر کہا۔
’’مگر کیسے؟؟؟ تم تو اچھی بھلی تھی۔‘‘
اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’اچھی بھلی؟ خاک اچھی بھلی تھی میں؟۔۔ ۔ تم نے میرے اندر جہاز کے سفر کے بارے میں لکھا لیکن بیان کی گئی تمام معلومات غلط تھیں۔۔ ۔ اس لیے انھوں نے میری ناک کاٹ دی۔۔ تمہیں چاہیے تھا پہلے جہاز کے بارے میں مکمل اور درست معلومات لیتے اور پھر لکھتے۔‘‘
ایک ناک کٹی کہانی نے برا سا منھ بنایا۔
’’اوہ‘‘
یہ سن کراس آدمی نے شرمندگی سے سر نیچے جھکا لیا۔
ایسے میں دوسری کہانی آگے بڑھی اور کہا: ۔
’’اور مجھے بھی دیکھ لو۔۔ ۔ میرا آدھا سر غائب ہے۔۔ پتہ ہے کیوں؟‘‘
’’نہیں تو‘‘
وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’وہ اس لیے کہ تم نے میرے اندر منفی موضوع پیش کیا اور مایوسی کا درس دیا۔۔ جیسے ہی میں بچوں کے پاس گئی انھوں نے میری وہ درگت بنائی کہ کیا بتاؤں اور اب میں تمہاری درگت بناؤں گی۔‘‘
مخلوق آگے بڑھتے ہوئے بولی۔
’’نن نہیں۔۔ ۔ رکو، رکو!!‘‘
وہ چیخا۔
’’رکو بہن، پہلے مجھے بھی اپنا مسئلہ بتانے دو۔‘‘
ایک کہانی نے لنگڑاتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے بہن۔‘‘
اس مخلوق نے پیچھے ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں تو تمہیں پتہ ہے کہ میں لنگڑی کیوں ہوں؟۔ میں خود ہی بتا دیتی ہوں۔۔ تم نے مجھے لکھتے وقت کوئی منظر نگاری نہیں کی۔۔ مکالمے تو بالکل لکھے ہی نہیں۔۔ بیانیہ انداز بھی شگفتگی سے خالی تھا جس سے میں بالکل پھیکی رہ گئی لہذا پڑھنے والوں نے مجھے خوب پیٹا اور یہ حالت کر دی۔‘‘
’’اوہ‘‘
آدمی یہ سن کر ششدر تھا۔
’’میری بھی سن لو لکھاری میاں!!‘‘
اچانک ایک تھکی تھکی آواز سنائی دی۔
اس نے نظریں اٹھائیں تو ایک کمزور مخلوق سامنے تھی جو دائیں بائیں لہرا رہی تھی۔
’’میری حالت دیکھو لڑکے‘‘
وہ مخلوق لڑکھڑاتے ہوئے بولی۔
’’کیا ہوا آپ کو؟؟‘‘
’’یہ پوچھو کیا نہیں ہوا میرے ساتھ۔‘‘
’’اوہ‘‘
’’جی ہاں تم نے مجھے لکھ تو لیا لیکن میرے اندر کوئی مرکزی خیال ہی نہیں ہے۔۔ مجھے آندھی کے لاوارث پتے کی مانند لفظوں میں اڑا دیا جب کہ میری روح۔۔ ۔ میں اپنی روح کو تلاش تلاش کرتے کرتے تھک گئی ہوں اور اب لگتا ہے کہ میں مر جاؤں گی۔
اس سے پہلے کہ میں مر جاؤں تم مجھے پڑھ کر دوبارہ لکھو اور مجھے ٹھیک کرو۔۔ میرے اندر تفریح، تعلیم، تربیت، معلومات، تاریخ کوئی مقصد تو پیش کرو۔ جس طرح اینٹوں کا انبار لگا دینے سے مکان نہیں بنتا اسی طرح لفظوں کے انبار سے کہانی نہیں بنتی۔ مکان کی طرح کہانی کے لیے بھی کوئی نقشہ، کوئی خاکہ، کوئی بنیاد، کوئی ترتیب ہونی چاہیے میاں!!!‘‘
وہ مخلوق درد بھرے لہجے میں کہتی چلی گئی۔
’’اوہ اوہ!! یہ مجھ سے کیا ہو گیا میری عزیز کہانیو!!!‘‘
اس آدمی نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔ اب اس کا ڈر ختم ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی بانہیں پھیلائیں اور اردگرد موجود کہانیوں کو گلے لگا لیا۔ یہ دیکھ کر کہانیوں کا غصہ کم ہونے لگا کیوں کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ اس آدمی کو احساس ہو چکا ہے۔
’’کاش تم ہمیں درست کر سکو!!!‘‘
ایک مخلوق نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ضرور ضرور۔۔ تم مجھے موقع دو، میں سب ٹھیک کر دوں گا۔
اس نے پر عزم لہجے میں کہا۔
’’چلو ٹھیک ہے، لیکن یہ تمہارے لیے آخری موقع ہے ورنہ ہم تم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روٹھ جائیں گی۔‘‘
کہانیوں نے منھ بنا کر کہا۔
’’میں ایسا نہیں ہونے دوں گا، میں اپنی پیاری کہانیوں کو خوب سجاؤں اور سنواروں گا اور آئندہ تمھیں شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔‘‘
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ اس کی بات سن کر کہانیاں بھی مسکرا دیں۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...