’’اف۔۔!! بہت خوف ناک نظارہ ہو گا وہ، جب دیوار بول رہی ہو گی۔‘‘
قاسم نے خوف سے جھرجھری لی۔
’’ہاں۔۔ بہت لرزا دینے والا۔‘‘ نعیم نے اپنی خود ساختہ کہانی پہ پھول کر کپا ہوتے ہوئے کہا۔
’’آگے کیا ہوا بھائی؟‘‘ منال پہ تجسس غالب تھا۔ نعیم نے فاتحانہ انداز میں اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے بچوں کو دیکھا، جن کے چہرے سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے، پھر وہ کہانی کو آگے بڑھانے لگا۔
’’ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ محلے کے اس مکان میں جو بھی کرایہ دار آتا، وہ تین چار دن بعد اپنا بوریا بستر باندھ کر بھاگ جاتا تھا، کیونکہ اس مکان کی دیواریں بولتی تھیں اور ڈراتی تھیں۔ دیوار کے اکھڑے ہوئے پلستر سے جو خیالی شکلیں بن جاتی ہیں نہ، بس اسی طرح کی شکلیں دیوار سے سر نکال کر ڈراتی تھیں اور یہ بات تواتر کے ساتھ پانچ مکان چھوڑ کر جانے والے کرایہ دار بتا چکے تھے۔ جلد ہی وہ مکان آسیب زدگی کے حوالے سے مشہور ہو گیا۔ لوگ اس مکان سے دور بھاگتے تھے۔ پھر ایک دن لوگوں نے اس مکان کی طرف کسی کو جاتے دیکھا۔ وہاں اب ایک نیا کرایہ دار آ گیا تھا۔ اس بار وہاں پر ایک حکیم صاحب نے ڈیرہ ڈالا تھا۔ لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ جلد حکیم صاحب اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگیں گے۔ مگر ایک ہفتہ گزر گیا۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ مالک مکان روزانہ اس سے ملتا اور مرچ مصالحہ لگا کر مکان سے متعلق مشہور کہانیوں میں سے ایک ڈراؤنی کہانی سناتا۔ حکیم صاحب کہانیاں سن کر ہنستے رہتے۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سارا ڈرامہ مالک مکان کا بنایا ہوا ہے کہ وہ نئے کرایہ داروں سے ایڈوانس کرایہ لے کر پھر ان کو نفسیاتی طریقہ سے ڈرا کر ان کے ذہنوں میں شک انڈیل دیتا ہے، اور پھر رہی سہی کسر خوفناک آوازیں پوری کر دیتی تھیں جو کرایہ داروں کو سنائی دیتی تھیں، اس طرح وہ پورے مہینے کا کرایہ بٹور کر کرایہ دار کو جلد بھگا دیتا، کیونکہ یہ مکان اچھی لوکیشن پہ واقع تھا اس لیے کچھ دنوں بعد کوئی اور ضرورت مند اسے کرایہ پر لے لیتا، اس طرح مالک مکان کی گویا پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑاہی میں، حکیم صاحب مکان کا راز جاننے کے لیے آئے تھے۔ وہ ویسے تو ہر لحاظ سے مطمئن تھے، مگر وہ اس کھوج میں تھے کہ کسی طرح آوازوں کا معما حل ہو جائے، کیونکہ وہ پچھلے سات دنوں سے روزانہ رات کو ہر کمرے سے خوفناک آوازیں سنتے تھے۔ آوازیں ہر طرف سے گونج دار طریقے سے سنائی دیتی تھیں جس سے ان کی سمت کا تعین ہی نہ ہو پاتا تھا۔ آخر کار انہوں نے ایک الیکٹریشن کی خدمات لیں۔ الیکٹریشن نے بجلی کی وائرنگ چیک کی اور پھر اسی دوران اسے وہ ننھے منے اسپیکر مل گئے جو خوفناک آوازیں نشر کر رہے تھے۔ اسپیکرز کی باریک تاروں کا تعاقب کیا گیا تو وہ ساتھ والے مکان کی چھت سے ہوتی ہوئیں اس کے روشن دان میں داخل ہو رہی تھیں اور یہ مکان مالک صاحب کا تھا۔ یوں حکیم صاحب نے اس شاطر مالک مکان کا بھانڈا پھوڑ دیا اور جلد ہی یہ خبر مشہور ہو گئی۔ اس بات کے ظاہر ہونے کے بعد لوگوں نے اس مالک مکان کی خوب خبر لی اور حکیم صاحب کا شکریہ ادا کیا۔‘‘
نعیم نے کہانی مکمل کی اور بچوں پہ ایک نظر ڈالی۔ وہ سب حیرت سے منہ کھولے بیٹھے تھے، پھر اچانک جیسے سب کو ہوش آ گیا۔ وہ سب نعیم کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے۔
’’چلو بھئی، اب اپنے اپنے بستروں کا رخ کریں سب۔‘‘ نعیم نے سب کو یاد دلایا۔
کیونکہ کہانی سننے سے پہلے بچوں نے یہی وعدہ کیا تھا کہ وہ کہانی سننے کے بعد چپ چاپ سو جائیں گے۔
’’بالکل، ہمیں یاد ہے۔‘‘ منال نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اسی وقت کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ سبھی بچے چونکے۔ ان کے چہروں پہ خوف کے سائے منڈلانے لگے۔ کیونکہ وہ ابھی ابھی ایک ڈراؤنی کہانی سن کر اٹھ رہے تھے۔
’’میں ہوں بچو!! دروازہ کھولو ناں۔‘‘ امی جان کی آواز سن کر ان کے حواس بحال ہوئے، انہوں نے دروازہ کھولا اور وہ مسکراتی ہوئیں کمرے میں آ گئیں۔
’’میں باہر ہی تھی، نعیم کی کہانی سن رہی تھی۔‘‘
’’ہائیں!!‘‘ نعیم جھینپ گیا۔
’’کیا ہوا نعیم بیٹا؟ بہت اچھی تھی کہانی تمھاری۔‘‘ امی بولیں۔
’’جی ہاں، ہم سب کو پسند آئی ہے۔‘‘ قاسم نے گویا اس کی حوصلہ افزائی کی تھی، باقی سب اس کے انداز پہ مسکرا دئیے۔
’’بچو!! میں اس لیے آئی ہوں کہ آج آپ کو کہانی کھیل کے بارے میں بتاؤں۔‘‘
’’کہانی کھیل!! وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔
’’ابھی بتاتی ہوں، بیٹھو۔‘‘ وہ سب دائرے میں بیٹھ گئے۔ امی جان کی آواز سنائی دی:
’’ہم سب مل جل کر ایک کہانی مکمل کریں گے اور اس دوران ہم بہت سی اچھی اچھی باتیں سیکھیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کھیل ہمارے تخیل کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔‘‘
’’وا اہ، لیکن ہم سب ایک کہانی کیسے مکمل کر سکتے ہیں؟‘‘
قاسم نے حیرت سے دیدے نچائے۔
’’اچھا ابھی جان لو گے۔ اب میں کہانی شروع کر رہی ہوں۔‘‘ امی جان نے مسکرا کر کہا۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے پھر امی جان نے کہانی ان الفاظ سے شروع کی:
’’ریلوے اسٹیشن پر بہت گہماگہمی تھی۔ لوگ جلد از جلد گاڑی میں سوار ہونا چاہتے تھے اور جن کی منزل آ چکی تھی، وہ اپنا سامان سمیٹ کر باہر نکلنا چاہتے تھے۔ یوں اس کشمکش میں کافی دھکم پیل ہو رہی تھی۔ اوپر سے گاڑی کانوں کے پردے پھاڑ دینے والے ہارن بجا رہی تھی۔ دس سالہ معاذ بھی اپنے والدین کے ہمراہ گاڑی میں سوار تھا۔ اس نے کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا۔
’’ابو!! یہ لوگ نظم و ضبط کو کیوں بھول جاتے ہیں؟‘‘ معاذ نے سوال کیا۔
’’بیٹا!! جلد بازی شیطانی اثرات کی حامل ہوتی ہے، اس لیے تو ہمیں حلم اور بردباری کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
’’اچھا، لیکن ہم صبح جلد بازی سے کام لیتے ہوئے اپنے اسکول اور دیگر کاموں پہ کیوں جا رہے ہوتے ہیں؟‘‘
ننھے معاذ نے ایک اور سوال اٹھایا۔
’’بیٹا!! وہ تو ہم وقت کی پابندی کر رہے ہوتے ہیں، اور یہ بات درست ہے کہ ہمیں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ وقت پہ جاگ کر، تیاری کر کے مستعدی سے مناسب وقت پر گھر سے روانہ ہو جانا چاہیے تاکہ ہم بروقت اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکیں، مستعدی اور جلد بازی میں فرق ہوتا ہے۔‘‘ ابو جان نے اسے سمجھایا۔ معاذ نے سمجھ جانے والے انداز میں سر ہلایا۔ اچانک اس کی نظریں باہر ڈرنک کارنر پر جم گئیں۔ اسے بھوک محسوس ہونے لگی۔
’’ابو، میں اس اسٹال سے چیز لے لوں۔‘‘ وہ سیٹ سے اٹھتے ہوئے بولا۔
’’نہیں، گاڑی چلنے والی ہے، اگلے اسٹیشن پر میں خود دلا دوں گا۔‘‘ ابو نے اسے روکا۔
’’ابو!! یہ سامنے ہی تو ہے، میں بس ابھی آیا۔‘‘ معاذ یہ کہہ کر باہر کو لپکا۔
’’ارے رکو!!‘‘ اس کے ابو تیز لہجے میں بولے مگر وہ اتر چکا تھا۔ معاذ گاڑی سے اتر کر ڈرنک کارنر تک پہنچا، اس نے دکاندار کو آواز دے کر اپنی چیزوں کے بارے میں بتایا مگر وہ بے حد مصروف تھا، ادھر عین اسی وقت گاڑی نے روانگی کا نقارہ بجایا۔
’’انکل، انکل!!! مجھے یہ بسکٹ اور نمکو دیجیے۔‘‘ وہ چلایا۔ ساتھ ہی اس نے پیسے نکال کر آگے کیے، دکاندار نے پیسے جھپٹ لیے اور دوسرے کام میں مصروف ہو گیا، گاڑی نے حرکت کی اور پھر گاڑی رفتار پکڑنے لگی، معاذ کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا۔
’’یہ لو بیٹا۔‘‘ دکاندار نے اس کے سامنے شاپر لہرایا اور بقیہ پیسے بھی پکڑائے۔ معاذ واپس بھاگا، مگر اب دیر ہو چکی تھی، گاڑی تیز ہو رہی تھی اور ایسے میں معاذ جیسے چھوٹے بچے کا سوار ہونا نا ممکن تھا۔ وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ گاڑی کو دور جاتے دیکھ رہا تھا۔‘‘ یہاں تک سنا کر امی جان خاموش ہو گئیں۔
’’آگے سنائیں نہ؟‘‘ منال نے مچل کر کہا۔
’’اب آگے قاسم سنائے گا۔‘‘ امی جان نے کہا تو قاسم اچھل پڑا۔
’’مم۔۔ مم۔۔ میں، مجھے کیا پتا آگے کیا ہوا؟‘‘ قاسم حیران و پریشان انداز میں بولا۔
’’اوہو، بس تم خود بخود سوچ کر سناتے جاؤ اور کوئی اخلاقی سبق نکال لو۔‘‘ امی نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ سب کی نظریں قاسم پہ جمی تھیں۔۔ اس نے کچھ سوچا اور پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں، اب اسے معاذ روتا ہوا نظر آنے لگا، گویا اس کا تخیل اسے کہانی کا اگلا حصہ دکھا رہا تھا۔ اس نے بولنا شروع کر دیا:
’’معاذ بہت گھبرا گیا تھا، اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے، پھر اچانک اسے ٹکٹ گھر کا خیال آیا، شاید وہاں کوئی میری مدد کرے، یہ سوچ کر وہ بھاگتا ہوا ٹکٹ والی کھڑکی پہ پہنچا، مگر وہ بند تھی، اس نے کچھ سوچا اور اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کا رخ کیا، دروازے پہ پہنچ کر جیسے اسے بریک لگ گئے۔
’’اجازت!! پہلے اجازت لینی ہے۔‘‘ اس نے دل میں سوچا اور پھر با آواز بلند بولا:
’’کیا میں آ سکتا ہوں۔؟‘‘ کرسی پر بیٹھا ہوا آدمی چونکا۔
’’آ جاؤ بیٹا، کیا بات ہے۔؟‘‘ اس کا نرم لہجہ سن کر معاذ کو رونا سا آ گیا، اسٹیشن ماسٹر بھانپ چکا تھا کہ یہ بچہ بچھڑ گیا ہے، اس نے آگے بڑھ کر معاذ کو حوصلہ دیا اور پوچھا:
’’کیا تم گھر والوں سے بچھڑ گئے ہو؟، مجھے جلدی سے اپنا ڈبہ نمبر اور سیٹ نمبر بتاؤ، میں اگلے اسٹیشن کال کر دیتا ہوں، وہاں کی انتظامیہ تمہارے والدین کو باخبر کر دے گی۔‘‘
اسٹیشن ماسٹر کی تجویز خوب تھی، مگر معاذ کا چہرہ بجھ سا گیا تھا کیونکہ اسے سیٹ نمبر اور ڈبہ نمبر یاد ہی نہ تھا، اس نے اپنا منہ بازوؤں میں چھپا لیا، اور رونا شروع کر دیا۔
’’بچے!! لگتا ہے تمہیں اپنی سیٹ کے بارے میں معلوم نہیں ہے، بیٹے اپنا مشاہدہ مضبوط بناؤ، اچھا سنو، نا امید ہونا گناہ ہے، ابو کا فون نمبر بتاؤ، میں ان کو کال کر کے بتاتا ہوں۔‘‘ اسٹیشن ماسٹر کی آواز نے معاذ کے دل و دماغ میں بہار کے پھول کھلا دئیے، وہ سوچنے لگا کہ انسان بھی کتنا کم حوصلہ ہے۔ بہت جلد امید ہار بیٹھتا ہے۔ اس کو حوصلہ وہمت سے اپنی مشکل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہر مشکل کا حل موجود ہوتا ہے۔ اس نے فوراً نمبر بتایا۔ ماسٹر صاحب نے کال ملائی اور پھر معاذ کے ابو کو ساری صورتحال بتائی، تب تک وہ لوگ اگلے اسٹیشن پر پہنچ چکے تھے، اگلا اسٹیشن وہاں سے چار کلومیٹر آگے تھا، وہ ایک قصبہ تھا، معاذ کے ابو نے گاڑی سے اتر کر ایک کار کرائے پہ لی اور پچھلے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گئے، جہاں پہ معاذ ان کا انتظار کر رہا تھا۔ معاذ نے اسٹیشن ماسٹر کا بہت شکریہ ادا کیا، اسے اس بات کا بہت دکھ تھا کہ اس کی وجہ سے ان کے سفر میں خلل آ گیا تھا۔ اس نے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ آئندہ بڑوں کی بات کو نظر انداز نہیں کرے گا اور ہمیشہ ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہو گا۔‘‘
قاسم نے یہاں تک سنا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس کے چہرے پر بے پناہ خوشی اور جوش و خروش تھا۔
’’ہائیں!! یہ کہانی تو آپ دونوں نے ہی مکمل کر لی۔‘‘ منال نے برا سا منہ بنایا۔
’’کوئی بات نہیں، کل تم شروع کرو گی کہانی۔‘‘ امی نے مسکرا کر کہا پھر وہ بولیں: ’’چلو اب دعا پڑھ کر سو جاؤ، صبح وقت پہ اٹھ کر نماز ادا کرنی ہے۔‘‘
’’جی بہت بہتر، سب بچے اپنے اپنے بستروں کی طرف بڑھے۔‘‘ امی جان لائٹس آف کر کے زیرو کا بلب جلا کر السلام علیکم کہہ کر باہر چلی گئیں۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...