یہ واقعہ ہوا اپنے وقوع سے پہلے
کہ اختتامِ سفر تھا شروع سے پہلے
یہ کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اس کا اختتام ہوتا ہے۔فلیش بیک کی تیکنیک سے نہیں بلکہ سچ مچ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں یہ ختم ہوتی ہے۔لیکن کیسے؟
کوئی بھی کہانی جب شروع ہوتی ہے تو سیدھ میں آگے بڑھنے لگتی ہے۔بے شک اس میں کچھ نشیب و فراز بھی آتے ہیں،کچھ موڑ بھی آتے ہیں،ٹیڑھے میڑھے رستوں سے بھی گزرہوسکتا ہے، گلیوں، سڑکوں، شاہراہوں، فٹ پاتھوں سے پگڈنڈیوں تک کئی مقامات پیش آسکتے ہیں۔ جنگلوں ، دریاؤں، سمندروں اور صحراؤں سے بھی گزرنا پڑ سکتا ہے۔لیکن ایسے ہر مقام سے گزرتے ہوئے بھی کہانی کو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔یہ صراط مستقیم ہو یا زگ زیگ لیکن آگے تو چلنا ہوتا ہے۔پر یہ واضح نہیں ہو رہا کہ کہانی اپنے اختتام سے کیسے شروع ہو۔
کہانی سے دھیان ایک فلم کی طرف جا رہا ہے۔Wedding Anniversary اس فلم کی ہیروئن ماہی گِل تھی۔یہ میری بہت زیادہ پسندیدہ ہیروئنوں میں بھی ٹاپ پر ہے۔ویڈنگ اینی ورسری‘‘ میں اس کا نام ’’کہانی‘‘تھا۔کہانیاں کہتی ہوئی غلافی آنکھوں والی خوبصورت ماہی گل کا یہ نام بھی خوبصورت تھا۔اس کا کردار بھی کہانیوںمیں کھوئی رہنے والی لڑکی کا تھا۔اپنی کہانیوںمیں کھوئی رہنے والی ’’کہانی‘‘ ۔۔۔میں جس کہانی کی کہانی سنانا چاہ رہا ہوں،وہ ماہی گل سے بھی کچھ کچھ ملتی ہوئی لگ رہی ہے۔۔وہ کہانی ایک ہی وقت میں ایک حسین جسم میں بھی سمائی ہوئی ہے اور بیکراں وقت پر بھی چھائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ ’’ایک ہی وقت‘‘ اور بیکراں وقت‘‘ کیا ہیں؟
میں نے اپنی ایک پرانی کہانی ’’روشن نقطہ‘‘ سے اس سلسلے میں مدد چاہی تو اس نے دو کی بجائے چار عوالم کے بارے میں بتا دیا۔اس کے بقول:
’’پہلاعالم، عالمِ زمان ہے۔ یہ ایسا عالم ہے جس کی اِبتدااور اِنتہادونوں ہیں۔
دوسراعالم، عالمِ دہر ہے۔ اس عالم کی ابتدامعلوم مگر انتہانامعلوم ہے۔
تیسرا عالم، عالمِ سرمد ہے۔اس کی ابتدابالکل نظرنہیں آتی مگر انتہاسمجھ میں آتی ہے۔
چوتھا عالم، عالمِ ازل ہے۔ اس کی نہ ابتداکاپتہ ہے نہ اِنتہاکی خبرہے‘‘
میں پہلے عالم،عالمِ زمان پر رکا اور اس کی ابتدا اور انتہا پر غور کرنے لگا تو ماہی گل اپنے پورے وجود کے ساتھ سامنے آ گئی۔سر سے شروع کریں یا پیروں سے ۔۔یہاں سے ماہی گل شروع اور یہاں پہ ختم بلکہ مکمل ہوتی ہے ۔اس کی ذاتی زندگی ہو یا فلمی کرداروہ ایک معلوم مکمل کہانی ہے۔۔مجھے عالمِ زمان کی سمجھ آنے لگی تو میں عالمِ دہر اور عالمِ سرمد دونوں کو اُلانگ کر سیدھا چوتھے عالم، عالمِ ازل کی طرف نکل گیا۔یہاں پہنچا تو روشنیوں کی ایسی چکا چوند تھی کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔کچھ دیر میں ادراک بحال ہونے لگا تو رقص کی سی کیفیت محسوس ہونے لگی۔لیکن ابھی کچھ واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔رقص والی کیفیت میں بھی ایک گھومتا ہو ا ٹھہراؤ سا محسوس ہونے لگا۔اب یہ رقص نہیں بلکہ طواف جیسا لگ رہا تھا۔اس میں بہاؤ بھی تھا اور ٹھہراؤ بھی تھا۔ اور تب مجھے لگا کہ کچھ دکھائی دینے لگا ہے۔میں نے خود کوطواف کے بہاؤ میں چھوڑ دیا تھا اور آنکھوں کو بھی اسی کے حوالے کر دیا تھا، جب چاہیں سہولت کے ساتھ کام کرنے لگیں۔اور پھرجب آنکھوں نے دیکھنا شروع کیا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ازل اور ابد کے اس بہاؤ میں یا اس رقص میں یا طواف میں بھی ماہی گل ہی دکھائی دے رہی تھی۔فلم والی ’’کہانی‘‘ کے روپ میں۔میری وہ کہانی جو پہلے ماہی گل سے کچھ کچھ ملتی ہوئی لگ رہی تھی عالمِ ازل میں لفظ بلفظ وہی تھی۔
میں نے چاہا کہ اب تک کا یہ سارا لکھا ہواضائع کر دوں۔میں کتنا ہی گمنام بلکہ بے نام سہی لیکن میرا اپنا سنجیدہ اوربامعنی علمی اثاثہ ہے۔میرے جیسے سنجیدہ لکھنے والے اس طرح کے فلمی لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھتے،انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ایسے سنجیدہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ کہانی ہمیں لکھتی ہے۔لیکن میں اپنی تمام تر سنجیدگی کے باوجود یہ نہیں کہتا۔کہانی مجھے نہیں لکھتی بلکہ کہانی اور میں ہم دونوں مل کر لکھتے ہیں۔سو اب بھی میں اور میری کہانی مل کر اسے لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اسی دوران ایک فلمی کردار میرے اور کہانی کے درمیان آجاتا ہے۔یہ ایک ایسا فلمی کہانی کار ہے جس کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ فارمولا فلمیں لکھنے والے اس کہانی کار کے فارمولے بھی گھِس گھِس کر ختم ہو چکے ہیں۔فلمی دنیا میں جمے رہنے کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں تو اس نے اپنی عظمت کا پرچم خود ہی اٹھا لیا۔’’اَنَا خَیر مِنہُ‘‘ کے خبط میں مبتلا اب وہ خود ہی ہر ملنے والے کو بتاتا پھرتا ہے کہ وہ بڑی عظیم شخصیت ہے،اس نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے ہیں اور ابھی وہ اور بڑے کام کرنے والا ہے۔اس کے پاس وقت نہیں ہے اور اسے بہت سارے کام کرنے ہیں۔حالانکہ اس کے پاس وقت ہی وقت ہے۔میں اسے ایک جھٹکا دینا چاہتا تھا لیکن کہانی نے کہا یہ قابلِ رحم لوگ ہوتے ہیں،انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔سو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔اب میں کہانی کی طرف متوجہ ہوں۔کہانی مجھے اورمیں کہانی کو لکھنے لگا ہوں۔
کہانی نے مجھے سجھایا کہ سیدھ میں چلنا بھی ایک ظاہری حقیقت ہے لیکن اس کے اندر ایک اور حقیقت ہے۔سارے زاویے،سارے مربعے،مستطیلیں،مثلثیں، حقیقت ہیں لیکن یہ سب ہی ایک دائرے کے اندر ظہورفرما ہیں ۔جیسے ایک وسیع تر ’’قفس کے اندر‘‘تمہاری شاعری ہے۔پھر یہ ایک سادہ سا دائرہ نہیں ہے بلکہ ایک لامحدود دائرہ ہے جو دائرہ در دائرہ پھیلتا جا رہا ہے،یہ دائرہ در دائرہ ایسے ہی ہے جیسے تمہاری تخلیقی نثر’’خواب کے اندرخواب‘‘ہے اور یہ ایسا تسلسل ہے جو دو آئنوں کو روبرو لانے سے لا محدود عکسوں کا سلسلہ بنا دیتا ہے۔اپنی شاعری اور نثر کی بابت توصیف سن کر مجھے اچھا لگا۔
تب میں نے کہانی کو بتایا کہ مرد ہو یا عورت ، سارے انسان اپنی اصل میں ایک ہیں۔کوئی اپنی کھوج میں نکلے یا خدا کی جستجومیںنکلے۔کائنات کے کسی بھید کو سمجھنا چاہے یااپنے اندر کے اسرار کو جاننا چاہے سب کا رخ ایک ہی طرف ہوجاتا ہے۔وہاں سارا اچھا، برا،گناہ ،ثواب،پاکیزگی ، ناپاکی،دیوانگی،دانش،جسم،روح،سب ہم آمیز ہو جاتے ہیں،اور جیسے سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔لیکن یہ تب ہوتا ہے جب آپ کا مرکزِ جستجوآپ کو نظر اٹھا کر دیکھتا ہے۔اسے نظرِ کرم کہیں یا محبوب کی نگاہ،بس ساری کائنات اور اس کے سارے اسرار اُس کی آنکھ کے اٹھنے پر منکشف ہوجاتے ہیں۔
میری تقریر ختم ہوئی تو کہانی کی کھنکتی ہنسی سے ماحول مترنم ہو گیااور ساتھ ہی کہانی کی آواز آئی میری طرف دیکھو!
میں نے کہانی کی طرف دیکھا،اُس کی خوبصورت غلافی آنکھیں اُٹھی ہوئی تھیں،وہ مجھے محبت سے دیکھ رہی تھی اوراس کی آنکھ سے ساری کائنات کے سارے اسرارمنکشف ہوئے جا رہے تھے۔ سارا اچھا، برا،گناہ ،ثواب،پاکیزگی ، ناپاکی،دیوانگی،دانش،جسم،روح،سب ہم آمیز ہوئے جا رہے تھے ،سب بے معنی ہو ئے جا رہے تھے۔جیسے از سرِ نو تخلیق کائنات ہونے لگی تھی۔
ایک دائرہ تھا جو مسلسل گھوم رہا تھا۔مثلث،چوکور،مستطیل،مربع سارے عقائد، تصورات، خیالات،سارے زمانے، زمینیں، اجسام،ارواح اور ان سب کی ضرورت کی ہر شے کی کلبلاہٹ اس دائرے کے اندر محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔یہ ازل اور ابد کا عالم تھا جہاں لا محدود دائرہ مسلسل متحرک تھا،رقص فرما تھا،اپنا ہی طواف کر رہا تھا ۔یہاں ساری سیدھیں دائرے کے اندر تھیں۔دائرہ خود بس دائرہ در دائرہ تھا۔ جہاں جو کچھ اختتام پذیر تھا وہیں سے وہ شروع ہو رہا تھا۔دائرے کے اختتام اور شروع کا تعین کون کر سکتاہے؟
کہانی میرے سامنے تھی،میں اسے دیکھ رہا تھااوراس کی غلافی آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں۔کہانی میرے سامنے رقص کر رہی تھی اور میں اس کے گرد طواف کر رہا تھا۔
دائرہ در دائرہ ہوتے ہوئے لا محدوددائرے میں کہانی جہاں جہاں ختم ہورہی تھی وہیں وہیں شروع ہو رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...