عزیز تنویرؔ ۔ کوٹوی ثم اجمیری ذی شان فارم ہائوس ، نزد درگاہ صوفی بازار ،
بکرا منڈی، سومل پور روڈ (اجمیر شریف)
۱۹ مارچ ۲۰۲۲ء کو پاکستان کے شہر حیدر آباد سندھ میں ایک نشست میں جناب امین جالندھری صاحب سے میری ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں انھوں نے مجھے فرمایا تھا کہ میری کتاب “حرف حرف کہانی”عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے۔ اس کتاب پر آپ اپنا تبصرہ لکھ بھیجیں، تاکہ اس کتاب میں آپ کا تبصرہ بھی شامل طبع کیا جا سکے۔
میرے لیے اس مختصر سی ملاقات میں امین جالندھری صاحب کے تحلیلی جائزے سے ان کی تہذیبی شخصیتی اور ادبی حیثیت و اہمیت کا اندازہ لگانا آسان نہیں تھا، مگر جب ان کے افسانچے میرے زیر نظر آئے، تب مجھے اندازہ ہوا کہ اس تصویر ساز اور مرصع کار ذہن والے شخص نے عجیب و غریب زر خیز تخیل پایا ہے۔ وہ اپنے افسانوں کے توسل سے ایک ایسی تخلیقی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں دلکشی کے ساتھ انتشار بھی ہے۔ آشکار ا طور پر ان کے افسانوں میں مرصع سازی اور تصویر سازی کے فن کے ساتھ ساتھ ایسا نرالا پن موجود ہے جو دل آویز بھی ہے اور مسحور کن بھی ۔ فن افسانہ نگاری میں یہ شخص لا محدود صلاحیتوں کا مالک ہے۔ میدانِ ادب کے کارزار میں ان کی قوت بازو، قوت قلم کی صورت میں نمودار ہو رہی ہے، جس کی جھلک “حرف حرف کہانی” کے افسانوں میں ملتی ہے۔ ذیل میں ان کے کچھ افسانوں پر مختصر سے تبصرے حاضر قرطاس و قلم ہیں۔
افسانہ محشر خیال کا مختصر تجزیہ
اس افسانے میں بادشاہ شاہ عالم کے دربار میں آنے والے شخص ( درویش) کے سامنے، بادشاہ سلامت اپنا خواب بیان کر نے کے بعد اس سے خواب کی تعبیر پوچھتے ہیں تو وہ شخص بھی اپنا خواب بیان کرتا ہے، جس کو سن کر بادشاہ سلامت کہتے ہیں کہ آپ کے خواب نے میرے خواب کی تعبیر بیان کر دی ہے، یعنی ہم دونوں کے خوابوں سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ لاہور شہر کے وسطی میدان میں ایک عالیشان وسیع مسجد تعمیر کرائی جائے۔ اس پر وہ شخص بولا حضور آپ نے درست فرمایا، مسجد کی تعمیر کے کام سے بہت سے دستکاروں کو جو بے روزگار ہیں انہیں روزگار مہیا ہو جائیگا اور ملک میں خوشحالی آئیگی۔
تبصرہ:مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں نے ہی اپنے اپنے انداز ِ گفتگو میں ایک دوسرے کے منصب کا خیال رکھا ہے۔ بادشاہ کے دربار میں شاہی سطوت و رعب کی جگہ عاجزی و انکساری تھی، وہیں اس شخص نے بادشاہ کے حضور شاہی آداب و القاب کا خیال رکھا ہے۔ اس مختصر سے افسانے میں ادب و آداب زبان و بیان کی بے بہا خوبیاں اجاگر ہو رہی ہیں۔ ان دونوں کے اندازِ گفتگو نے افسانے میں بڑی دلکشی پیدا کر دی ہے۔ قارئین اس افسانے کوپڑھ کر خود محسوس کریں گے۔
افسانہ خمار کا مختصر تجزیہ
اس افسانے میں ایک شخص عمران اپنی کار سے ایک بزرگ سائیں کے مزار پر آتا ہے۔ دبئی سے ایک خوبصورت نو جوان لڑکی بھی اسی مزار پر اپنی منت لے کر آتی ہے۔ وہ لڑکی منت مانگنے اور سائیں کی بارگاہ سے باہر آکر سڑک کھڑی ہو جاتی ہے ، تب ایک بزرگ آگرا سے کہتے ہیںکہ وہ سامنے جو کار آرہی ہے، اسے رکوا کر بے خوف ہو کر اس میں بیٹھ جانا، وہ شخص تمہیں تمہاری منزل مقصود تک پہنچا دیگا۔ بزرگ کے کہنے پر عمل کرتے ہوئے وہ کار کو رکواکر اس میں سوار ہو جاتی ہے ۔ یہ کار عمران کی تھی ۔ وہ راستے میں اس سے کئی سوال پوچھتا رہا ۔ لڑکی تمام سوالوں کا جواب دیتی رہی۔ اس نے اپنا نام ماروی بتایا۔ ماروی نے کار رکوا کر بیٹھنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ جب میں سڑک پر کھڑی ہوئی تھی اس وقت سائیں نے آکر مجھے کہا تھا کہ سامنے سے جو کار آرہی ہے اسے رکوا کر تم اس میں بیٹھ جانا۔ ماروی کی بات سن کر عمران نے ماروی سے کہا کہ کار کی پچھلی سیٹ پر دیکھو، ایک ڈبہ رکھا ہے اس میں ایک سرخ جوڑا ہے اور کچھ گہنے ہیں، یہ تمہارے لئے ہیں۔ یہ ڈبہ مجھے اندرونِ خانہ، مزار ایک بزرگ عورت نے دیکر کہا تھا کہ اسے تمہاری بہن ماروی کو دیدینا اور اسے اس کی منزل تک پہنچا دینا۔ وہاں تمہیں ایک شخص کھڑا ہو کر مناجات گاتا ہو ا ملے گا۔ اس کے قریب چار پانچ لوگ اور کھڑے ہوئے ملیں گے، ان میں ایک شخص ہری پگڑی والا ہوگا، وہ ماروی کا نکاح عمر سے کرا دیگا۔ یہ دونوں جب سے اس مقام پر پہنچتے ہیں وہ ہری پگڑی والا شخص ماروی کا نکاح عمر سے کروادیتا ہے۔ تبصرہ: اس افسانے میں افسانہ نگار نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اولیائے کرام کے مزارات پر جا کر ان کے وصیلوں سے جو دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ بارگاہِ رب العزت میں فوراً قبول ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ تمام انبیاء و اولیاء اپنی اپنی قبروں میں زندہ و جاوید ہیں، وہ سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیںاس لئے بزرگانِ دین کے مزاروں پر جاکر، ان کے وصیلوں سے مانگی گئی دعائیں عرش اعظم کو بھید کر جب اس خالق دو جہاں کے رو برو قبولیت کیلئے پہنچتی ہیں تو وہ رب بے نیاز کس طرح سے اپنے نیک بندوں کی خواہشات اور آرزوؤں کو ان بزرگوں کی سفارش پر قبول فرما کر پوری کرتا ہے۔
افسانہ مستی کا مختصر تجزیہ
اس افسانے میں علی محمد جیب تراش ، خیر محمد جیب تراش سے آکر کہتا ہے کہ یار خیر محمد میں تین ماہ سے پریشان ہوں، ابھی تین دن کی محنت کے بعد کل اسی روپے ہاتھ آئے، جو اس مہنگائی میں ایک دن کا بھی خرچ نہیں ہے۔ تو نے تو بڑا شکار کر لیا، جس میں تجھے چالیس ہزار روپے مل گئے ، اس لئے تو مستی مار رہا ہے۔ اس بات پر خیر محمد علی محمد کو اپنے دھندے کے عیب و ہنر کا فرق سمجھاتے ہوئے، نصیحت کرتا ہے کہ تم بسوں سے اترنے والے مسافروں کا شکار بناتے ہو، اس لئے ان غریبوں کی بد دعائیں لگتی ہیں۔ تمہیں کاروں سے اترنے والے بڑے بڑے سیٹھوں کو شکار بنانا چاہئے۔ آج لعل سائیں کے میلے کا آخری دن ، تم نے میرے ساتھ چل کر وہاں کسی بڑی سیٹھ کو شکار بنانا اور کچھ پیسے لعل سائیں کے ڈبے میں ڈال دینا۔ اس بات پر علی محمد نے جواب دیا کہ لعل سائیں کے ڈبے میں ڈالی جانے والی رقم اوقاف والے کھاجاتے ہیں، یہ سن کر خیر محمد نے کہا کہ کوئی بھی کھائے ہمیں اس سے مطلب نہیں۔ کچھ وقفے کے بعد دونوں جیب تراش تیاری کر کے میلے میں پہنچ گئے۔ وہاں کچھ دیر انتظار کے بعد ایک کار آتی ہے جس میں سے ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ اترتا ہے اور درواز ے کی طرف بھیڑ میں گھس جاتا ہے۔ جیسے ہی وہ شخص بھیڑ میں گھستا ہے تو خیر محمد، علی محمد کو اس کے پیچھے دمادم مست قلندر کے نعرے لگاتے ہوئے چلنے کو کہتا ہے اور خود علی محمد کے پیچھے چلنے لگتا ہے ۔ علی محمد نے اس شخص کے پیچھے چلتے ہوئے، پھرتی اور صفائی کے ساتھ اس کی جیب تراشی کر کے نوٹوں کی گڈی، اپنی جیب میں ڈال کر دما دم مست قلندر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بھیڑ سے باہر آگیا۔ خیر محمد بھی اس کے ساتھ باہر آگیا۔ باہر آنے کے بعد خیر محمد نے علی محمد سے کہا کہ گھر چلنے سے پہلے چرس کا ایک سوٹا لگا لیتے ہیں۔ سوٹا لگانے کے بعد دونوں بس اسٹاپ پر پہنچ گئے اور ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ پھر علی محمد نے بس میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر بیڑی سلگائی اور کش لگانے لگا، اتنے میں کنڈکٹر نے اس کے سامنے آکر کہا، سائیں ٹکٹ ٹکٹ ، تو علی محمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پھر حیران رہ گیا۔ کہ اس کی جیب خالی کیسے ہو گئی۔ کنڈکٹر اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہنے لگا کہ ٹکٹ کے پیسے آپ کا ساتھ دے گیا ہے اور آپ کے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ آپ کے پیسے لال سائیں کے ڈبے میں ڈال دیے ہیں۔
تبصرہ: اس افسانے میں افسانہ نگار نے جیب تراشی کے فن کی بہت خوبصورت انداز میں منظر کشی کی ہے،افسانہ نگاری کے اسلوب میں اصل اہمیت لب و لہجے کی ہوتی ہے، جس میں جذبات لگادی اور واقعہ نگاری سے ایک نئی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جیب تراشوں کی بات چیت کا لب و لہجہ اس افسانے کا جزو ہے۔ خیر محمد علی محمد کو تاکید کرتا ہے کہ بسوں میں سے اترنے والے غریب مسافروں کو شکار نہیں بنانا چاہئے، وہ بد دعائیں دیتے ہیں ۔ اس افسانہ کے کردار میں بے حد خوبصورت جذبات نگاروں کا رنگ ہے ۔ دوسری جانب علی محمد نے سیٹھ کی جیب تراشی کر کے جو رقم حاصل کی تھی، اس کو خیر محمد اڑ ا لیتا ہے اور اس کا بس کا کرایہ کے پیسے کنڈکٹر کو دیکر، کنڈکٹر کے ذریعے علی محمد کو پیغام پہنچاتا ہے کہ اس کی جیب سے جو رقم حاصل کی تھی وہ لال سائیں کے ڈبے میں ڈال دی ہے۔ اس افسانے میں یہ واقعہ نگاری کی ایک انوکھی منظر کشی ہے، جس نے افسانوں میںنئی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
افسانہ بلند پروازی کا تجزیہ
یہ افسانہ دو کبوتر باز استادوں ببن خاں یوسف زئی پٹھان اور رفیق خان شیخ قریشی قصائی کے درمیان ۳۷ سال مقدمہ چل رہا تھا۔ ۳۷ سال کے عرصے کے بعد عدالت میں رفیق خاں کے خلاف اس کے مکان کی قُرقی کا فیصلہ ببن کے حق میں سنایا تھا۔ ببن خاں فیصلے کے دستاویز کی فائل بغل میں دبائے کورٹ سے باہر آئے اور ایک رکشے والے کو روک کر کہا بھائی پکا قلعہ چلنا ہے رکشہ والے نے پکا قلعہ جانے سے انکار کر دیا تو ببن خاں نے پید ل چلنے کا فیصلہ کر لیا۔ ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ ببن خاں تھک کر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ جب ایک دن رفیق خاں کے ساتھ ببن خاں اسی پیڑ کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور باتوں ہی باتوں میں آپس میں الجھ گئے تھے اور پھر رفیق نے کہا “زیادہ چودھری مت بنو میرے دادا اختر خان کی کبوتری پورے ہندوستان میں مشہور تھی اور آگرے میں ان کے ہزاروں شاگرد تھے “یہ بات سن کر ببن خان تنک کر بولے، رفیق خان یہ مت بھولو کہ میرا تعلق اس خاندان سے ہے جس کے دروازے پر ہمیشہ ہاتھی جھوما کرتے تھے، اور جو کبوتر شہزادے سلیم نے نور جہاں کو پکڑائے تھے، وہ بھی خانہ زادے کے جد امجد کے پالے ہوئے تھے۔ ببن خاں کی یہ بات سن کر رفیق خاں نے کہا، ببن خاں تمہیں اگر اپنے فن پر اتنا ہی ناز ہے، تو چلو مقابلہ کر لیتے ہیں۔ تمہارے دو ہزار اور ہمارے پانچ ہزار ، اگر ہمیں شکست دیدو گے تو ہم مان لیں گے تمہیں استاد، لائو مردوں کی طرح ہاتھ ملائو، اس پر ببن خاںنے ہاتھ ملا کر چیلنج قبول کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ میاں ہم یوسف زئی پٹھان ہیں، قول کے سچے اور پکے، پھر رفیق خاں بولے ہم شیخ قریشی ہیں مونچھوں والے۔ مردمی میدان میں دیکھی جاتی ہے چوڑیاں نہ پہنادوں تو نام رفیق خان نہیں۔ انہی خیالوں میں گم ببن خاں اسی پیڑ کے نیچے سے آگے بڑھے، اور کچھ دور چل کر ایک مقام پر رک کر بولے، “ارے وہ فوارہ کہاں ہے” اور پھر من ہی من میں کہنے لگے۔ ہاں یہی جگہ ہے وہ جہاں پر ہم اپنے شاگردوں کے ساتھ آکر بیٹھا کرتے تھے۔ رفیق خاں سے شرط لگانے کے بعد اس دن بھی ہم اپنے شاگردوں کے ساتھ یہیں بیٹھے تھے کہ ادھر سے رفیق خاں مالائیں پہنے، سر پر پگڑی باندھے شیروانی زیب تن کئے ہوئے اپنے حواریوں (شاگردوں) کے ساتھ تانگے میں سوار تھے، آگے آگے شہنائی اور ڈھول والے چل رہے تھے۔ پھر ادھر سے گزرتے ہوئے رفیق خاں نے کہا، کل صبح فجر کے بعد دیکھیں گے تمہاری ندی میں کتنا پانی ہے، دیکھو ہم درگاہ وہاب صاحب پر چادر چڑھانے جا رہے ہیں ۔ رفیق خاں کا طعنہ سن کر میں (ببن خاں) نے اپنے شاگردوں سے کہا، بالے تو دوڑ کر میرے لئے ہار لے آ، شکورے تھو ڈھول اور شہنائی والوں کو لے آ، اور مجو میاں تم بہترین تانگے لے آئو ہم رفیق خاں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے، تمام تیاریوں کے بعد ببن خاں کا جلوس بھی گاڑی کھاتے چوک سے درگاہ وہاب صاحب پر چادر چڑھانے روانہ ہو گیا۔ چادر چڑھا کر جلوس قلعہ چوک پہنچ گیا۔ قلعے میں ہر طرف مقابلے کے چرچے تھے۔ ببن خاں کے دماغ میں بیٹھے بیٹھے یہ پرانے واقعات گشت کر رہے تھے کہ پھر انہیں خیال آیا اب چلنا چاہئے۔ وہاں سے روانہ ہو کر جب وہ ــ”اورینٹ” کے چوراہے پر پہنچے تو ان کی ملاقات ان کے شاگرد اچھے میاںسے ہو گئی۔ اچھے میاں کے اصرار پر وہ سلطان ہوٹل میں چائے پینے بیٹھ گئے۔ باتوں باتوں میں اچھے میاں نے پوچھا ــ”استاد آج کورٹوں کے چکر کیوں لگا رہے ہو ۔ اس بات کا جواب دیتے ہوئے ببن خاں نے اچھے میاں کو بتایا کہ ” جس وقت شاید تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، یہ اس وقت کا واقعہ ہے، پھر انہوں نے شروع سے تمام واقعات سناتے ہوئے اچھے میاں کو بتایا کہ وہ کبوتر بازی کا مقابلہ فجر کے بعد شروع ہوا، میرے کبوتر دن بھر اڑتے رہے، مقابلہ برابر رہا۔ اس کے بعد کئی مقابلے ہوئے مگر نتیجہ نہیں نکلا۔ پھر کہنے لگے، اچھے میاں ایک دن میں اپنے کارخانے میں بیٹھا ہوا تھا ، میرا بڑا لڑکا سامان لے کر بازار سے آرہا تھا، اس پر رفیق قریشی کے ایک رشتے دار عبد ل قریشی نے آواز کسی ، میرے لڑکے کا کسرتی بدن تھا، اس نے فوراً جواب دیا ۔ عبد ل قریشی نے چاقو سے لڑکے کا پیٹ پھاڑ دیا۔ لڑکا وہیں دم توڑ گیا۔ پھر قتل کا کیس دس سال چلا، قریشیوں کا ایکا مشہور ہے سب چھوٹ گئے۔ اس کے بعد رفیق قریشی نے مجھ پر سٹہ چلانے کے جرم میں پولیس سے مل کر تین سال کیلئے جیل بھجوا دیا۔ اس صدمے سے میری بیوی چل بسی ۔ جیل سے چھوٹنے کے بعد ہم نے اپنا مکان بھی فروخت کر دیا ، اور پھر رفیق خاں پر مقدمہ شروع کیا۔ جس کی کامیابی آج ۳۷ سال بعد ملی ہے۔ اچھے میاں بتائو رفیق خان تک یہ خبر کون پہنچا سکتا ہے۔ اس پر اچھے میاں نے کہا استاد پنھوں پان والے کی دکان پر بتا دینا، یہ خبر پورے قلعے میں پھیل جا ئیگی۔ پان والے کی دکان پر جا کر ببن خاں نے پوچھا، ارے پنھوں میاں ، کیا رفیق خان یہاں آتے ہیں۔ اس پر پان والے نے کہا کہ استاد ان کو دیکھے ہوئے تو چھ ماہ گزر گئے ہیں۔ یہ سن کر ببن خان بولے دیکھو پنھوں میاں، ہم نے ان کے مکان کی قرقی حاصل کر لی ہے، ببن خاں کی یہ بات سن کرپنھوں میاں نے استاد ببن خاں کو بتایا کہ جناب آپ جس مکان کی بات کر رہے ہیں وہ مکان تو رفیق خاں نے چھ ماہ پہلے ہی مسجد کو وقف کر دیا ہے۔ آ پ اچھے مسلمان ہیں ، مسجد کا بھی خیال نہیں۔ اس طرح رفیق خاں ، ببن خاں کو پھر ایک مرتبہ مات دیدی۔
تبصرہ: اس کہانی میں افسانہ نگار نے طرزِ تحریر میں جو آگرہ اور دلی کی زبان کا تڑکا لگایا ہے ، وہ قابل تعریف ہے۔ افسانے میں دلی اور آگرہ میں رائج مغلیہ دور کی زبان کی ترجمانی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ یہ اس دور کی ایک ایسی تہذیب کا آئینہ دار ہے جس میں اردو زبان و ادب کی بے بہا خوبیاں پنہاں ہیں ۔ سادگی بیان و زبان کے عمدہ نمونے ان کی طرزِ تحریر میں آشکارا ہیں۔ اسلوب بیان کی گہرائی میں جو دہلوی اثرات کی کار فرمائی موجود ہے وہ دلی کے بانکوں کی زبان کی لطافت سے بھر پور ہے۔ کہانی کے کرداروں میں بانکپن اور کج کلاہی کی جھلک، زبان کے چٹخارے اس فن کار کی قلم کے وہ معجزے ہیں جس سے اس دور کی اردو زبان کی سحر انگیزیاں جلوہ بار ہوتی ہیں۔ یہ خوبیاں ایک پختہ کار افسانہ نگار میں ہونا لازمی ہیں۔ مثا ل کے طور پر اس کہانی میں افسانہ نگار نے رفیق خاں اور ببن خاں کے درمیان بات چیت کی جو منظر کشی کی ہے، وہ بے حد خوبصورت ہے۔ ان کے درمیان بات چیت کے کچھ جملے درج ذیل ہیں۔ جس سے زبان و بیان کی روایتی تہذیب و ترویج کا اندازہ قارئین حضرات کو بھی بخو بی ہو جائیگا۔ رفیق خان: اب زیادہ چودھری مت بنو، ہمارے خاندان والوں کا تو نام برسوں سے اس سلسلے میں مشہور ہے ۔ میرے دادا اختر خاں کی کبوتری پورے ہندوستان میں مشہور تھی۔ ببن خان: ارے میاں ہمارے خاندان والوں کا میل ملاب تو زمانہ قدیم سے ہی درباروں سے رہا ہے ۔ ہمارے جد امجد شاہی پیغامات کیلئے نامہ بروں کے سلسلے میں کافی مشہور ہیں۔ شہزادے سلیم نے نور جہاں کے ہاتھوں میں جو کبوتر دیئے تھے وہ اس خانہ دار کے جد کے پالے ہوئے تھے۔
ببن خاں: میاں ہم یوسف زئی پٹھان ہیں قول کے سچے اور پکے ۔
رفیق خاں: اور ہم شیخ قریشی مونچھوں والے، اپنی مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے کہا۔
ببن خان: چل بالے بھاگ کر ہار لا استاد کیلئے اور شکورے تو ڈھول اور شہنائی والوں کو پکڑ کر لا۔ مجو میاں تم بہترین تانگا لے کر آئو۔
ببن خاں: میرا لونڈا بازار سے سودا لے کر آرہا تھا۔ رفیق خاں کے رشتے دار عبد ل قریشی نے لمڈے پر آواز کسی۔ ہمارے لمڈے کا جسم بھی کسرتی اور بھر پور تھا، اس نے بھی آواز کا ترت جواب دیا۔ بات چخ چخ سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ عبد ل قریشی نے لمڈے پر چاقو سے وار کر دیا۔ اور پیٹ پھاڑ دیا، ہمارا لمڈا دم توڑ گیا۔
مندرجہ بالا جملوں میں شاہی ادوار کی تہذیب کی جھلک اور گفتگو میں زبان و بیان کا سحر انگیز انداز بہت خوب ہے۔ اس دور کی بازار و لسانی اور تہذیبی روایات کی جھلک مذکورہ جملوں میں بھر پور نظر آتی ہے۔ مذکورہ تبصرہ شدہ افسانوں کے علاوہ اور بھی افسانے جیسے چک گ 45، آگ، بول میرے مچھلی، ایک دن کی بات، کامیاب، تجربہ، التجا، مسافر، شو ٹائم، درد کی زنجیر، رہائی، پاور، محاسبہ اورہنی مون وغیرہ اس کتاب میں شامل ہیں۔ ان افسانوں کے مطالعے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ جناب امین جالندھری کو افسانہ نگاری کے فن پر جو دسترس حاصل ہے وہ قابل تعریف ہے۔