کہانیاں مقبول ہونے لگیں۔ ان کی شہرت دور دور تک پہنچنے لگی۔ دور دراز کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے ننھے منے بچوں کے خطوط اس کے نام آنے لگے۔
’’پیارے کہانی انکل!
سنا ہے آپ بہت اچھی کہانیاں سناتے ہیں۔
کیا آپ ہمیں بھی اپنی کہانیاں سنائیں گے؟
ہمیں آپ کے جواب بے چینی سے انتظار رہے گا۔
ہمارے محلے کا ایک ایک بچہ آپ کی کہانی سننے کے لیے بے قرار ہے۔‘‘
————
’’کہانی والے انکل آداب!
ہمارے گھر میں ہمیں کوئی کہانی نہیں سناتا۔
کیا آپ ہمیں کہانی سنائیں گے؟ ہم اپنے گلّک کے سارے پیسے آپ کو دے دیں گے۔‘‘
————
’’ڈیر انکل!
ہم آپ سے بہت ناراض ہیں۔ کیوں کہ آپ
ہمیں اپنی کہانیاں نہیں سناتے۔ انکل! ہم بھی
تو بچے ہیں۔ ہمیں بھی کہانی سننے کا حق ہے۔
امید ہے آپ ہماری ناراضگی دور کریں گے۔‘‘
————
’’انکل! مجھے کہانی سننے کا بڑا شوق ہے۔
اگر میرے پاس پَر ہوتے تو میں اُڑ کر آپ
کی کہانیاں سننے آپ کے پاس آ جاتا۔‘‘
————
بچوں کے تمام تر خطوط میں اسی طرح کی بات ہوتی ہوتی۔ کہانی سننے کی خواہش کہانیوں کی فرمائش۔ اس کو اپنے شہر میں بلانے کی دعوت۔
وہ ہر ایک کی خواہش پوری کرنا چاہتا تھا۔ اس کی یہ خواہش تھی کہ اس کی کہانیاں دنیا بھر میں پھیل جائیں۔ تمام بچوں تک پہنچ جائیں۔ ایک ایک ذہن میں محفوظ ہو جائیں۔ اُس کی اس خواہش کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ کہانی سنانا اب صرف اس کا دھندا نہیں رہ گیا تھا بلکہ اس کا شوق بھی بن چکا تھا۔ اور وہ اپنے کہانی سنانے کے شوق کو کہانی سننے کے شوق سے ہم آہنگ کر دینا چاہتا تھا کہ اس ہم آہنگی میں اُس کی اُن خواہشوں کا اظہار بھی ممکن تھا جو شعوری دباؤ کے سبب اس کے لاشعور میں پہنچ چکی تھیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ وہ ایک اکیلا مختلف مقامات سے تعلق رکھنے والے اتنے سارے بچوں کی فرمائشیں کیسے پوری کر سکتا تھا؟
سوچنے پر اس کی یہ مشکل بھی آسان ہو گئی۔ ایک راستہ نکل آیا۔
ہفتے میں ساتوں دن ایک شہر میں کہانی سنانے کے بجائے اس نے الگ الگ سات شہروں کا انتخاب کیا اور ہر ایک شہر کا ایک دن مقرر کر لیا۔ اور اس شہر میں پہنچ کر صبح سے شام تک مختلف محلوں اور مضافات میں کہانیاں سنانے لگا۔
فرمائشیں اور بڑھیں تو اس نے شہروں کی تعداد سات سے تیس کر دی۔ اس طرح کہانی سننے والوں کا دائرہ ایک صوبے سے پھیل کر دوسرے صوبوں تک پہنچ گیا۔
کہانیوں کی مقبولیت روز بروز بڑھتی گئی۔ کہانیاں چھوٹوں کے ساتھ بڑوں کو بھی اپنی طرف کھینچنے لگیں۔
————
کہانیوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور سننے والوں کے پھیلتے ہوئے دائرے کو دیکھ کر خفیہ ایجنسیوں کے کان کھڑے ہوئے۔ بھیس بدل کر ان کے ایجنٹ بھی کہانی کے مجمعوں میں شریک ہونے لگے۔ خفیہ طریقے سے کہانیاں ریکارڈ ہونے لگیں اور ایک دن ان ریکارڈ کی گئی کہانیوں پر کہانی فہموں کا کمیشن بٹھا دیا گیا۔
کمیشن کی بیٹھک میں کہانیوں کو بار بار سنا گیا
ان پر باہر اندر دونوں جانب سے غور کیا گیا
مختلف سطحوں پر پرکھا گیا
لفظوں کو تخلیقی نظر سے پڑھا گیا
جملوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا گیا
عبارتوں کو تجزیاتی پیمانوں سے جانچا گیا
استعاروں کو اُدھیڑا گیا
علامتوں کی پرتوں کو کھُرچا گیا
تلمیحوں کو پھیلایا گیا
تمثیلوں کو تمثالا گیا
تجریدوں کو اُبھارا گیا
بین السطور کو بھرا گیا
معانی کی تہوں میں اترا گیا
مفہوم کی سطحوں کو کھنگالا گیا
پلاٹ کو پلٹا گیا
کردار کو کریدا گیا
اور رپورٹ میں لکھا گیا
’’یہ کہانیاں سادہ دکھائی دیتی ہیں
مگر سادہ نہیں ہیں
یہ بے حد گمبھیر
اور بہت گہری ہیں
اور ان کی گہرائیوں میں بہت کچھ پوشیدہ ہے
لہٰذا کمیشن کی رائے میں
یہ سب کی سب لائق ضبط ہیں
اگر ان پر پابندی عائد نہیں کی گئی
تو یہ نہایت خطرناک، مضر اور مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔‘‘
————
کمیشن کی سفارشات کے اس پہلو پر کہ کہانیاں ضبط کر لی جائیں، عمل نہ ہو سکا کیوں کہ ساری کی ساری کہانیاں اس کے دماغ سے نکل کر بچوں کے ذہنوں میں پہنچ چکی تھیں اور وہاں ان کے حافظے میں لوحِ محفوظ کی طرح محفوظ ہو گئی تھیں جہاں سے انھیں مٹانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی تھا۔ البتہ اس کے کہانی سنانے پر پابندی لگانے کا حکم ضرور صادر کر دیا گیا تاکہ یہ کہانیاں مزید کسی کان میں نہ پہنچ سکیں یا اس طرح کی اور دوسری کہانیاں پھر کبھی نہ سنائی جا سکیں۔
پابندی عائد کر کے حکم نامے میں تین وجہیں بتائی گئیں:
پہلی وجہ کہ کہانی سنانے والا کہانیوں میں الجھا کر بچوں کا قیمتی وقت برباد کرتا ہے۔ بچے کہانیوں کے چکر میں آ کر اپنی تعلیم پر دھیان کم دیتے ہیں۔ اس طرح کہانیاں بچوں کے تعلیمی نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ چونکہ بچے ملک کے مستقبل ہوتے ہیں اس لیے ایک طرح سے کہانی سنانے والا ملک کے روشن مستقبل کو تاریک بنانے کا قصور وار بھی ٹھہرتا ہے۔
دوسری وجہ یہ کہ کہانی بچوں کے اخلاق کو کردار کو بھی خراب کر رہی ہیں۔ ان سے نہ صرف یہ کہ کہانی سننے والے بچے بگڑ رہے ہیں بلکہ وہ اپنے آس پاس کے ماحول بھی بگاڑ رہے ہیں۔ ان کی الٹی سیدھی حرکتوں سے گھر والوں کو مالی نقصان بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔
اور تیسری وجہ یہ کہ کہانی کے مجمعوں سے شہر کے ٹریفک جام ہوتے ہیں۔ راستے بلاک ہوتے ہیں۔ آمد و رفت میں دشواری ہوتی ہے جس سے لوگوں کا کاروبار متاثر ہوتا ہے۔
حکم نامے میں یہ بھی درج تھا کہ وہ دس دن کے اندر اندر کہانی سنانا بند کر دے اور یہ تنبیہ بھی تھی کہ حکم کی تعلیم نہ ہونے کی صورت میں سزا بھی ہو سکتی ہے۔
————
حکم نامے کے جواب میں درخواست داخل کرتے ہوئے اُس نے نہایت مؤدّبانہ انداز میں عاجزی کے ساتھ عرض کیا:
حضور والا! کہانی سنانا میرا دھندا ہے۔ اس سے میری روزی روٹی جُڑی ہوئی ہے۔ اس پر میرے بچوں کے مستقبل کا انحصار ہے۔ اس کے بند ہو جانے پر میرے ساتھ ساتھ میرے بال بچے بھی تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ یہی میرا ایک آخری سہارا بچا ہے یہ آخری سہارا بھی مجھ سے نہ چھینا جائے۔
جہاں تک وقت کی بربادی کا سوال ہے تو اس ضمن میں عرض یہ کرنا ہے کہ میں کہانیاں بچوں کی فرصت کے اوقات میں سناتا ہوں۔ اس لیے وقت کے برباد ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ رہ گئی بچوں کے بگڑنے کی بات تو کہانیاں انھیں بگاڑتی نہیں بناتی ہیں۔ ان کے مستقبل کو تاریک نہیں، روشن کر رہی ہیں۔
ٹریفک جام کرنے کا جو الزام مجھ پہ لگایا ہے وہ سِرے سے ہی بے بنیاد ہے۔ راستے بلاک کہانی کی محفلوں سے نہیں بلکہ مداریوں کے مجمعوں سے ہوتے ہیں جن میں سانڈے کا تیل بیچا جاتا ہے۔ جہاں درد سے نجات پانے کی خاطر دکھی اور مضطرب مریض مختلف علاقوں سے جوق در جوق آتے ہیں اور جن مجمعوں سے محض کاروبار ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ نہ جانے کیا کیا ان کی زد میں آتا ہے۔ کیا کیا مٹتا ہے؟ اس لیے نہایت ادب و احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ یہ حکم نامہ واپس لے لیا جائے اور مجھ غریب پر رحم کیا جائے۔‘‘
درخواست دے کر وہ معینہ تاریخ کے بعد بھی کہانیاں سناتا رہا مگر ایک دن کچھ سپاہی آئے اور اسے کہانی سنانے کے دوران ہی نافرمانی کے جرم میں پکڑ لے گئے۔
کہانی انکل کی اچانک گرفتاری کو دیکھ کر بچے حیران ہو اٹھے اور بوکھلا کر شہر کے مختلف حصوں میں مدد کے لیے دوڑ پڑے۔
اس کی گرفتاری کی خبر سے سارے شہر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ غصے میں بچے سڑکوں پر نکل آئے۔ بچوں کا جلوس تھانے پہنچ کر اس کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کرنے لگا۔
اس کی رہائی کے لیے فلک شگاف نعرے لگنے لگے۔ آوازوں کا شور دفاتر کے کمروں میں گھس کر گونجنے لگا۔ نقل و حرکت رک گئی۔ کام کاج ٹھپ پڑ گیا۔
اُس سے بچوں کی والہانہ محبت، کہانی سننے کا شوق اور ان کے جوش اور ولولے کو دیکھ کر بچوں کے کچھ بڑے بھی ان کی ہمنوائی پر آمادہ نظر آنے لگے۔
خبر پہنچتے ہی دوسرے شہروں کے بچے بھی اُس کی گرفتاری کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ بچوں کی ضد، جوش اور نعرے بازی کے اثرات کے پیش نظر حکم صادر کرنے والوں کو مصلحت سے کام لے کر فی الحال اُسے چھوڑ دینا پڑا۔
وہ با عزت بری ہو کر باہر آ گیا۔ کہانی کی محفل پھر سے سج گئی۔ ادھوری کہانی پوری ہو گئی۔ رُکا ہوا سلسلہ جاری ہو گیا۔
٭٭