افسانہ کیا ہے ؟ کہانی کسے کہتے ہیں ؟ واقعہ کیا ہے ؟ فکشن کس چڑیا کا نام ہے ؟ کیا یہ ایک ہی چیزیں ہیں یا ان کی الگ الگ شناخت ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات دیے بغیر ہم اپنی بحث آگے نہیں بڑھا سکتے ہیں۔
یہاں میں ایک وضاحت کرتا چلوں کہ اردو ادب میں دوسری کئی اصناف کی طرح افسانہ بھی مغربی ادب کے زیر اثر پروان چڑھا ہے۔ اس لیے پہلے ضروری ہے کہ انگریزی میں افسانہ کسے کہتے ہیں، کی وضاحت ہو جائے تاکہ بات آگے بڑھانے کا صحیح جواز مل سکے۔
انگریزی میں Short story کو افسانہ کہتے ہیں۔ جبکہ فکشن (Fiction)کا لفظ افسانہ، ناول، رزمیہ اور دوسری بیانیہ اصناف کے لیے مستعمل ہے۔ تاہم جب ہم اردو ادب کے حوالے سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فقط صنف افسانہ کے لیے ’’ افسانہ‘‘ کے ساتھ ساتھ’ مختصر افسانہ‘، ’کہانی‘ اور’ فکشن‘ کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ لیکن ان ناموں کا جائزہ لیا جائے تو سبھی کو افسانہ کہنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کہانی، افسانہ اور فکشن میں کیا فرق ہے ؟
شمس الرحمن فاروقی نے اپنی کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘ میں افسانے کو کہیں کہانی، کہیں فکشن، کہیں قصہ اور کہیں افسانے کے نام سے موسوم کیا ہے۔یعنی ان کے نزدیک یہ تینوں نام افسانے کے ہیں یا ان سے افسانہ مراد لے سکتے ہیں۔جبکہ بعض جگہوں پر وہ ’افسانے ‘ کو ’فکشن ‘ کے نام سے محض ’آسانی کے لیے ‘ پکارتے ہیں۔ اصلاً وہ فکشن اور افسانے میں امتیاز برتنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔ذیل میں چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’ہمارے یہاں فکشن کے لیے کوئی لفظ نہیں۔ چلئے فی الحال یہ طے کر لیتے ہیں کہ ’افسانہ‘ اور ’فکشن‘سے ہم ایک ہی شے مراد لیں گے، جسے Short storyکہا جاتا ہے اور ’فکشن‘ سے ہم داستان کے سوا تمام اصناف مراد لیں گے، خواہ نثر خواہ نظم، جن میں کوئی افسانوی بیانیہ قائم ہوتا ہے، میں مختصر افسانہ شامل ہے۔ اگر ناول کہیں تو اس سے صرف ناول مراد ہو گا، مختصر افسانہ نہیں ‘‘۔[6]
’’آسانی کے لیے ’’افسانہ ‘‘ کو Fictionکے معنی میں رکھیے، کیوں کہ ناول اور افسانہ تخلیقی اور اظہاری اعتبار سے ایک ہی صنف ہیں اور اگر فکشن کی تعریف یا حد بندی ہو سکے تو ہم اسے ناول اور افسانہ دونوں کے لیے کام میں لا سکیں گے۔‘‘[7]
’’کہانی(Fiction)کے نقادوں کو چاہئے کہ علت اور معلول کے تعصب کو اپنے ذہنوں سے نکال پھینکیں ‘‘۔[8]
’’فکشن کے بارے میں سب سے آسان بات یہ ہے کہ فکشن ان تمام طرح کے افسانوں سے الگ ہوتا ہے جن کا تعلق کم و بیش زبانی بیان سے ہے۔ لہٰذا داستان، عوامی کہانیاں، Fables، بچوں کی کہانیاں، Fairy Tales، یہ فکشن نہیں ہیں۔ صرف اس وجہ سے نہیں کہ اصلاً ان کا تعلق زبانی بیان سے ہے، کیوں کہ بہت سی داستانیں وغیرہ لکھی بھی گئی ہیں یا انھیں زبانی سن کر لکھا جا سکتا ہے بلکہ اس وجہ سے زبانی بیان کی تکنیک، اس کے فنی تقاضے اور ایک حد تک اس کی جمالیات، جس طرح کی ہوتی ہے، وہ ان تحریروں میں نظر نہیں آتی جنہیں ناول یا افسانہ کہا جا سکتا ہے۔‘‘[9]
’’فکشن وہ تحریر ہے جس میں زبانی بیان کا عنصر یا تو بالکل نہ ہو یا بہت کم ہو‘‘۔[10]
وارث علوی نے جب شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘ کے جواب میں کتاب تحریر کی تو اسے ’فکشن کی تنقید کا المیہ ‘کا نام دیا۔سکندر احمد نے افسانے کے لیے فکشن کے لفظ کا استعمال غلط مانا ہے تاہم یہ بھی کہا ہے کہ ’’کم از کم اردو کی حد تک جب فکشن پر گفتگو ہوتی ہے، اس میں لوک کہانی، افسانہ اور ناول تینوں شامل ہوتے ہیں۔انگریزی میں افسانے کو short story کہتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بھی کہانی اگر مختصر ہو تو Short Story ہو جائے گی۔‘‘[11]
کبھی کہانی، کبھی فسانہ، کبھی فکشن تو کبھی مختصر افسانہ جیسی اصطلاحوں کے استعمال کا گورکھ دھندہ یقیناً کئی پریشانیاں پیدا کرتا ہے۔ان تمام اصطلاحوں کے مفاہیم اور حدود محض اتمام حجت کی خاطر ہی متعین کر لیے جائیں تو یقیناً کئی مسائل سر اٹھانے سے پہلے دم توڑ دیں گے۔یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ میرے نزدیک کہانی اور افسانہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔یقیناً ان دونوں میں فرق کرنا ذرا مشکل ہے تاہم تلاش کرنے سے تفریق کی صورتیں نکل آتی ہیں۔ کہانی اور افسانے کی تشکیل میں سب سے اہم عنصر واقعہ ہے۔ یعنی کہانی اور افسانہ دونوں میں واقعے کا ہونا ہی عام تصور ہے۔ اب واقعے کو پیش کرنے کا طریقۂ کار اسے کہانی یا افسانے کی صف میں داخل کرتا ہے۔
واقعہ یا وقوعہ انگریزی لفظ Event کا ترجمہ ہے اور ہر وہ بات جو ہوتی ہے اسے واقعہ کہتے ہیں۔شمس الرحمن فاروقی کے مطابق ’’واقعہ، یعنی Eventاپنے تجریدی معنوں میں ماضی، حال یا مستقبل کا محتاج نہیں ہوتا‘‘[12] ہے۔ واقعہ سے متعلق مزید باتیں آئندہ صفحات میں کی جائیں گی۔ فی الحال فکشن، کہانی اور افسانے کے درمیان فرق کی بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔کہانی اور افسانے کے بارے میں محمد حسن عسکری رقمطراز ہیں :
’’عام طور پر افسانہ اور کہانی میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا، بلکہ دونوں الفاظ کو مترادف سمجھا جاتا ہے اس لیے یہ تصریح ضروری ہے کہ یہاں کہانی سے مراد دلچسپ واقعات کا سلسلہ ہے، خواہ اس سلسلے کو ناول کی شکل میں پیش کیا جائے یا ڈرامے کی صورت میں یا افسانہ کے انداز میں۔ اس طرح یہ بھی یاد رکھیے کہ ’کہانی‘ پلاٹ اس وقت بنتی ہے جب واقعات میں کوئی منطقی رشتہ ہو اور وہ بکھرے بکھرے اور ایک دوسرے سے غیر متعلق نہ ہوں۔ اس کے بعد افسانے کا نمبر آتا ہے۔ یہ لفظ ہمارے یہاں شروع میں داستان یا کہانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔کہانی بڑی ہو یا چھوٹی اس کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ ’’فسانۂ آزاد ‘‘ کا نام ہی دیکھ لیجئے۔ یہ ایک لمبا چوڑا ناول ہے، لیکن اسے کہا گیا ہے افسانہ۔ چنانچہ اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے اردو میں ناول اور مختصر کہانی دونوں کو بے تکلف افسانہ کہا جاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے یہ لفظ اس چیز کے لیے مخصوص کر دیا گیا جسے انگریزی میں ’شارٹ اسٹوری‘ کہتے ہیں۔ کہانی اور افسانے کا تعلق ہی لچک دار واقع ہوا ہے بعض دفعہ ٹھیٹ کہانی کو افسانہ کہتے ہیں اور بعض دفعہ کہانی کا عنصر افسانے میں سے بالکل ہی غائب ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘[13]
پاکستانی ناول، افسانہ اور تنقید نگار محمد حمید شاہد نے فکشن، کہانی اور افسانے میں تفریق کی ہے اور ساتھ ہی انھوں نے افسانے کے ساتھ ’مختصر ‘ کا لاحقہ لگانے سے انکار کیا ہے۔ اپنی کتاب ’اردو افسانہ صورت و معنی ‘ میں انھوں نے اس بحث کو اٹھایا ہے اور حال میں ریختہ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہانی، افسانہ، فکشن اور واقعے کی تفریق بہت متاثر کن ڈھنگ سے کی ہے۔محمد حمید شاہد نے کہا ہے کہ ایک بڑا سا دائرہ بنایئے، یہ دائرہ فکشن کا ہے۔ اس دائرے میں ایک دائرہ بنائیے یہ دائرہ کہانی کا ہے۔ اس دائرے میں کئی دائرے بنایئے، یہ دائرے واقعات یا وقوعوں کے ہیں جن سے جڑ کر کہانی بن رہی ہے۔ یعنی ہر کہانی فکشن کے دائرے میں آ سکتی ہے تاہم ہر فکشن کہانی نہیں بن سکتا ہے۔ افسانے کے اندر کہانی تو ہو سکتی ہے لیکن ہر کہانی کے اندر افسانہ ہو، ایسا ضروری نہیں ہے۔ یعنی منطقی طور پر کہانی اور افسانے میں عموم خصوص مطلق کا رشتہ پایا جاتا ہے۔ محمد حمید شاہد کے مطابق کہانی کو افسانے کے فارم میں تبدیل کرنے کے لیے لسانی برتاؤ، باطنی بھید، بھنور اور معانی کی کئیLayers (تہہ) وغیرہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
کہانی اور افسانہ میں جو عمومی فرق بیان کیے جاتے ہیں ان میں یہ کہ کہانی کسی واقعہ یا قصہ کو من و عن ’ کہہ جانے ‘ یا بیان کر دینے کا نام ہے اور افسانہ اس کہانی میں شامل ہو کر، اس کے کرداروں کے باطن میں جھانک کر، نفس مضمون کے پیچھے کارفرما عوامل تک کو ٹٹولنے یا کم از کم ان کی نشاندہی کا نام ہے۔اس کے علاوہ کہانی میں عموماً مکالمے نہیں ہوتے۔کہانی زیادہ تر سیدھی ہوتی ہے اور افسانہ گچھے دار ہوتا ہے۔ تمام نثری اصناف ادب، ناول، ڈرامہ یا افسانہ، سب ہی میں کہانیاں ہیں۔ تاہم تکنیک کے اعتبار سے سب جدا جدا ہیں۔ ناول اور ڈرامہ طویل اور جامع کہانی ہیں جن میں ایک سے زائد موضوعات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جبکہ افسانہ کسی ایک پہلو یا واقعہ کو بیان کرتا ہے، جس میں حقیقت تو نہیں ہوتی لیکن حقیقت کا رنگ موجود ہوتا ہے۔افسانہ بنیادی طور پر کہانی ہونے کے باوجود تکنیک کے اصول و قواعد کے اعتبار سے کہانی سے مختلف ہے۔ افسانہ میں موضوع کی اکائی اس کی امتیازی اور انفرادی خصوصیت ہے۔اس میں واضح طور پر کسی ایک چیز کی ترجمانی اور مصوری ہوتی ہے۔ ایک کردار، ایک واقعہ، ایک ذہنی کیفیت، ایک جذبہ، ایک مقصد، مختصر یہ کہ افسانے میں جو کچھ بھی ہو، ایک ہو۔ کہانی میں بیانیہ تیز ہوتا ہے اور افسانہ میں علت و معلول کی وجہ سے، جزئیات کے استعمال اور تہہ داری کی وجہ سے بیانیہ تھوڑا سست ہوتا ہے۔افسانہ اور کہانی دو مختلف چیزیں ہیں۔دونوں میں بیانیہ کا بہت فرق ہے۔ افسانہ بنیادی طور پر یکجان ہوتا ہے، کہانی کے لیے یہ شرط نہیں۔ اس کا کوئی ایک مرکزی مدعا نہیں ہوتا۔قصہ کا بیانیہ کہانی کے لیے کفایت کرتا ہے۔ جبکہ افسانے کے بیانیے کی اپنی ضروریات ہیں۔ کہانی سینہ در سینہ، نسل در نسل منتقل ہوتی ہے مگر ہر اگلا سنانے والا پچھلے سنانے والے سے فنگر پرنٹ کی طرح اپنی چھاپ چھوڑتا چلا جاتا ہے، ہر ایک ورژن دوسرے سے کچھ مختلف ہوتا ہے مگر کردار اور مغز وہی رہتا ہے۔افسانہ پرنٹ میڈیم کے آنے سے معرض وجود میں آیا، اس لیے برسوں پہلے کا متن ہر جگہ یکساں ہو گا اور صدیوں بعد بھی مستند نسخہ وہی رہے گا۔
ان نکات سے مزید آگے بڑھیے تو تفریق کی کئی اور صورتیں بنتی ہیں۔ افسانہ زندگی کی حقیقت کو قریب سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے جبکہ کہانی صرف ایک احساس کا نام ہے۔کہانی در اصل جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہی ہے یا پھر جیسا مصنف چاہتا ہے کہانی ویسی ہوتی ہے۔مطلب سچی یا جھوٹی۔پر افسانہ نہ ہی سچ ہوتا ہے اور نہ جھوٹ، یہ ایک مرر امیج( Image Mirror ) یعنی شبیہ ہوتا ہے۔ افسانے کا مطلب یا مقصد pleasure ہرگز نہیں ہے، کسی کہانی میں جزئیات نگاری بے سبب بھی آ سکتی ہے مگر افسانے میں ہر صوت، ہر لفظ، ہر شے کی حصہ داری ہوتی ہے۔ یعنی جو بھی شے متعارف کرائی جائے اس کا جواز( Justification) پلاٹ میں موجود ہونا چاہیے۔وجہ اور نتیجہ کا جو ایک فطری عمل ہے کہانی میں اکثر نہیں پایا جاتا۔ انسان پیچھے مڑ کر دیکھنے پر پتھر ہو جاتا ہے۔ عمرو عیار کی زنبیل میں سے پوری دنیا برآمد ہو سکتی ہے مگر افسانے میں ایسا نہیں ہو سکتا۔
سلیم آغا قزلباش نے افسانہ اور کہانی کے باہمی فرق کے تعلق سے ایک عمدہ مضمون تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے کہانی اور افسانے کے درمیان تفریق کی ہے۔ اس بحث میں نکلنے والی با توں اور اپنے ذہن میں ابھرنے والے خیالات کو اگر نکات کی شکل میں پیش کروں تو انھیں اس طرح مرتب کیا جا سکتا ہے :
۔کہانی میں معروضی پن جبکہ افسانہ میں موضوعیت کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔
۔کہانی میں پیش کردہ واقعات میں فقط منطقی رشتہ ہوتا ہے جب کہ افسانہ کی بنت میں شامل واقعات کا باہمی رشتہ نفسیاتی نوعیت کا ہوتا ہے۔
۔کہانی افسانے کے لیے کچا مواد (Raw Material) ہے۔
۔افسانہ کہانی کی مختلف کڑیوں کی حاصل جمع سے ’’کچھ زیادہ ‘‘ہوتا ہے اور یہ زیادہ ہونا ہی افسانے کا امتیازی وصف ہے۔
۔کہانی میں واقعات کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اور کردار صرف واقعات کو منطقی انجام تک پہچانے کا ایک وسیلہ یا ذریعہ بنتا ہے، جب کہ افسانہ میں اس کردار کو تفوق حاصل ہوتا ہے جس پر واقعہ یا حادثہ گزرا ہو۔
۔افسانہ میں افسانہ نگار کا نقطۂ نظر، افسانہ کے تار و پود میں غیر مرئی طور پر سرایت کر جاتا ہے اس کے مقابلے میں کہانی میں نقطۂ نظر تقریباً مفقود ہوتا ہے۔ اس میں فقط مجرد صورت حال معروضی انداز میں نمایاں ہوتی ہے۔
۔کہانی میں کردار کے ’’اعمال ‘‘پر زیادہ زور صرف کیا جاتا ہے جبکہ افسانہ میں کردار کے ذہنی واقعات (Mental Event) کا اظہار ہوتا ہے۔یعنی کردار کی (باطنی کشاکش) افسانہ میں نمایاں کی جاتی ہے جبکہ کہانی میں کردار کی خارجی زندگی، عمل اور رد عمل کا اظہار موجود ہوتا ہے۔
۔افسانے میں فکر کا پہلو جبکہ کہانی میں عمل کا پہلو حاوی ہوتا ہے۔
۔جب واقعہ اکہری سطح پر خارجی حوالے سے مصنف کی غیر حاضری اور محض Actionاور واقعات کی رنگارنگی کی مدد سے اظہار کرے تو اس کے لیے ’کہانی‘ کی اصطلاح اور جب واقعہ کردار کو ذہنی، جذباتی، احساساتی سطح پر ہلا دے، اس کے اندر کشاکش اور باطنی شکست و ریخت کو سامنے لائے اور واقعات شخصی زاویے سے دکھ سکھ، خوشی و غم، آلام و مصائب کو منظر عام پر لانے کا موجب بنیں اور کردار کی داخلی دنیا اس کی خارجی دنیا سے ٹکراؤ یا انضمام کا منظر نامہ، جدلیاتی منہاج کے انداز میں مرتب کرنے لگے تو ایسی تحریر کو ’افسانہ ‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔
۔کہانی میں بیان کرنے اور سننے کا عمل ایک ساتھ وجود پذیر ہوتا ہے جبکہ افسانہ خالص مطالعے کے لیے ضبط تحریر میں لایا جاتا ہے۔
۔کہانی کا ڈھانچہ اکہرا ہوتا ہے جبکہ افسانے کا پیچیدہ۔
۔کہانی انفرادی نقطۂ نظر نہیں بلکہ اجتماعی ذہن کی مشتہر ہوتی ہے جبکہ افسانے میں بیان کردہ خیالات و احساسات افسانہ نگار کی شخصیت سے براہ راست منسلک ہوتے ہیں۔
برقی میڈیا پر جب چند ادبی شخصیات کے ساتھ کہانی، افسانہ اور فکشن کے درمیان امتیاز و تفریق کی بحث چھیڑی گئی تو اردو کی ایک نئی بستی میں آباد ممتاز ناقد احمد سہیل نے افسانہ اور کہانی میں تفریق کرتے ہوئے لکھا:
’’افسانہ ایک مختصر کہانی ہے، جسے انگریزی میں ’ شارٹ اسٹوری‘ کہتے ہیں۔ افسانے کے متن میں ایک مرکزی نکتہ ہوتا ہے۔ مختصر پن ہی اس کی صفت ہے۔ مختصر وقت میں یہ اپنا اختتام کرتا ہے۔ جب کہ داستان میں کئی کہانیاں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ افسانے میں فنی لوازمات کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور یہ شعوری طور پر خلق ہوتا ہے جب کہ کہانی پر یہ شرط عائد نہیں ہوتی، کیونکہ کہانی میں ایک برجستگی اور خود زائدگی ہوتی ہے۔ افسانے میں ’آورد‘ ہوتی ہے جبکہ کہانی میں ’آمد‘ ہوتی ہے۔‘‘[14]
جبکہ اسی حوالے سے عہد حاضر کے افسانہ نگار اقبال حسن آزاد نے کہا :
’’ میری ناقص رائے میں کہانی اور افسانے میں کوئی فرق نہیں۔’کہانی‘ ہندی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’کہنا‘، ’سخن‘، ’ قصہ‘ وغیرہ وغیرہ اور ‘افسانہ’ فارسی کا لفظ ہے اور اس کے معنی بھی قصہ اور کہانی کے ہوتے ہیں۔یہ تو وہی بات ہو گئی کہ ’راجا‘ اور ’بادشاہ‘ میں کیا فرق ہے۔ ہر افسانے یا کہانی میں کوئی نہ کوئی قصہ ضرور ہوتا ہے۔کسی میں یہ قصہ بہت واضح ہوتا ہے اور کسی میں مبہم لیکن ہوتا ضرور ہے۔ اور یہ قصہ حقیقت اور تخیل کے امتزاج سے وجود میں آتا ہے۔ کسی میں حقیقت کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور کسی میں تخیل کی کارفرمائی زیادہ ہوتی ہے۔اب یہ الگ الگ لکھنے والے پر منحصر کرتا ہے کہ وہ قصے کو کیسے بیان کرے۔اس میں کتنی حقیقت ہو، کتنا تخیل ہو۔۔۔۔افسانے اور کہانی میں تھوڑا فرق ضرور ہے۔یعنی واقعات کے سیدھے سادے بیان کو کہانی کہیں گے اور اگر اس میں مصنف اپنی جانب سے کچھ تخلیقی رنگ شامل کرتا ہے تو پھر وہ افسانہ ہو جائے گا۔‘‘[15]
یعنی فکشن ایک عمومی شے ہے جس میں کہانی اور افسانہ دونوں آ سکتے ہیں۔ جبکہ کہانی اور افسانہ دو الگ الگ اصناف ہیں۔ افسانے میں کہانی کا وجود ہوتا ہے لیکن وہ سراپا کہانی سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کہانی میں افسانے کا گزر تک نہیں ہوتا۔چونکہ دونوں بیانیہ ہیں اس لیے بہت ساری خصوصیات ایک جیسی ہیں تاہم دونوں میں امتیاز کے پہلو ماقبل مذکور با توں سے نکالے جا سکتے ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ آخر افسانہ کس بلا کا نام ہے ؟ شمس الرحمن فاروقی نے ’افسانے کی حمایت میں ‘ کئی جگہ اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ افسانہ کیا ہے ؟متعین کر لیا جائے۔ انھوں نے افسانوی خصوصیات، لوازمات اور ضروریات کا تذکرہ کیا ہے اور مختلف مقامات پر افسانے کی مختلف توجیہات بھی کی ہیں البتہ کہیں بھی واضح طور پر اس کی نشاندہی نہیں کی ہے کہ افسانہ کہتے کسے ہیں۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو اب تک اس راز سے پردہ نہیں اٹھا ہے کہ آخر جس چیز کا نام افسانہ ہے، وہ کس فسانے کا نام ہے۔کچھ نقاب شکن افراد ضرور ہوئے ہیں جن میں کسی نے افسانے کے لب، کسی نے رخسار، تو کسی نے اس کے کسی دوسرے حصے کو بے پردہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس کے مکمل وجود کو ناظرین/قارئین کے سامنے پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں، کہ یہ عجیب سخت جان شے ہے جو اپنی چولیں بھی بدلنے میں دیر نہیں کرتی۔ابھی زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا کہ وہ وقت کے چوکھٹے میں مقید زندگی گزار رہا تھا، پلاٹ کی حد بندیاں تھیں، کرداروں اور آغاز و وسط و انجام کے پیراہن میں لپٹا ہوا تھا کہ چند خانہ خراب لوگوں کے ہاتھوں میں آ کر اس نے بغاوت کی اور ایک ایسا تصادم ہوا کہ پلاٹ، کردار، بیانیہ، وقت اور مکان کے سارے تصورات ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے اور افسانہ اپنی ایک نئی تفہیم لے کر سامنے آ گیا۔در اصل ایسی کسی صنف کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے جو ہمیشہ ہیئت، تکنیک اور موضوعاتی سطح پر تجربوں کی زد میں ہو۔ لیکن پھر بھی وہ کچھ تو ہو گا جسے ہم افسانہ کہتے ہیں ؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کسی بھی واقعاتی تحریر، کہانی یا کہانی نما کے ساتھ افسانہ لکھ دینے سے وہ افسانہ ہرگز نہیں بن سکتی۔ کچھ کا خیال ہے کہ افسانے میں فسوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، کہانی، بنت، اسلوب اور فضا بھی۔ یہ فسوں ہی افسانے کو اخباری واقعے سے الگ کرتا ہے۔ اسی سے افسانہ چھو کر محسوس کر لیے جانے کی چیز نہیں رہتا بلکہ کسی دھند میں لپٹا ایسا اسرار بن جاتا ہے جسے ہر قاری اپنے اپنے انداز سے جاننے، محسوس کرنے اور معنی پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔
کوئی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے افسانہ کی تفہیم کا ایک اور زاویہ پیش کرتا ہے کہ اس کی سب سے اہم چیز پلاٹ، یعنی واقعاتی ترتیب ہے۔ جو بجائے فطرت یا سماج کے بے ہنگم واقعات، یا کسی حادثاتی یا واقعاتی وجہ کے، انسانی تعقل کی بنت ہوتی ہے، اور اس کا انجام اپنے آپ میں اغلب اور ناگزیر، یا لازمیت کا حامل ہوتا ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ افسانہ گزرے ہوئے واقعے کی نقل ہے۔کسی کے نزدیک ایک اچھا پلاٹ، منفرد کردار، متاثر کن کلائمکس اور قاری کو غور و فکر کی دعوت دینے والا اختتام افسانہ ہے جبکہ کوئی کہتا ہے کہ افسانہ ایک ایسی کہانی ہے جسے ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے اور جس میں ایک خاص واقعہ، مخصوص کردار، ایک تجربہ یا ایک احساس کی فنکارانہ پیشکش ہوتی ہے۔کچھ لوگ اختصار کو افسانے کے لیے سب سے ضروری مانتے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ افسانہ ذہنی اختراع کا ایک مختصر منظر نامہ ہے۔وقت کے ٹھہرے ہوئے پانی کو چھو کر اس میں لہریں بنانا، جس میں قاری خود کو پا لے، افسانہ ہے۔افسانہ ایک رسی کے دو کناروں کے درمیان کا فاصلہ ہے۔گزرے ہوئے واقعات میں تھوڑا سا جھوٹ ملا کر بیان کرنے کو افسانہ کہتے ہیں۔جبکہ کسی کے نزدیک زندگی کے نشیب و فراز اور وقت کے پیچ و خم میں سے کسی بھی پہلو کو لفظوں میں پرونا افسانے کی پہچان ہے۔
آئیے اب مغربی ناقدین کی زبانی سنتے ہیں کہ افسانہ کیا ہے ؟۔
امریکی افسانہ نگار ایڈگر ایلن پو[Edgar Allan Poe] نے اپنے ایک مضمون The Philosophy of Composition میں کہا ہے کہ افسانہ ایک ایسی نثری داستان کو کہتے ہیں جسے ایک نشست میں پڑھا جا سکے۔ایک دوسری جگہ پر اسی افسانہ نگار نے کہا ہے :
“A short story must have a single mood and every sentence must build towards it.”[16]
ہر افسانے کا ایک خاص موڈ ہونا چاہئے اور تمام جملے اسی کے ارد گرد تعمیر کیے جانے چاہئے۔ایلن پو نے Unity of Effect کو بھی افسانے کا خاص حصہ مانا ہے۔
Concise Encyclopedia کے مطابق Short Story(افسانہ)نام ہے :
Brief fictional prose narrative. It usually presents a single significant episode or scene involving a limited number of characters. The form encourages economy of setting and concise narration; character is disclosed in action and dramatic encounter but seldom fully developed. A short story may concentrate on the creation of mood rather than the telling of a story.[17]
مغرب سے لے کر مشرق تک ناقدین کے اقوال کی قرأت سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے افسانے کے اختصار کو اس کا وصف خاص بنایا ہے، اسے ناول کا ایک مختصر روپ بتایا ہے اور بعض لوگوں نے اسے وقت کے مخصوص دورانیے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے۔یعنی افسانہ پڑھنے میں آدھا گھنٹہ سے لے کر دو گھنٹے تک کا وقت لگے یا کسی نے اسے ایک نشست یا ایک بیٹھک میں پڑھ لیے جانے کا حامل بتایا ہے۔ حالانکہ یہ باتیں افسانے کے وجود کو سامنے نہیں لا سکتی ہیں۔ کیونکہ اگر ایک نشست کی بات سچ مان لی جائے، جسے بیشتر لوگوں نے قبول کیا ہے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا تمام قارئین کے پڑھنے کی رفتار ایک سی ہوتی ہے اور کیا تمام قارئین کے مراکز توجہ بھی ایک ہوتے ہیں ؟ ظاہر سی بات ہے کوئی افسانے کے ایک ایک جملے کی ساخت و بناوٹ کا لطف لیتا ہے جبکہ کوئی اس کی مرکزی کہانی کے سرے تلاش کرتا ہوا افسانے کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔بعض لوگ معنوی تمثالوں میں گم ہو کر علم کے موتی نکالنے والے غواص ثابت ہوتے ہیں جبکہ بعض لوگ سیلاب کے ساتھ آئی ہوئی مچھلیوں کو مچھر دانی والے جال میں سمیٹنے کے قائل۔ دوسرا سوال یہ بھی لازم آتا ہے کہ’ ایک نشست‘ کے ساتھ خاص کرنے والی شرط پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے بالمقابل بہت زیادہ دیر تک بیٹھ سکتے ہیں۔ میں نے خود اپنے ساتھیوں میں ایسے ایسے قاری دیکھے ہیں، وہ جب کوئی ناول لے کر بیٹھتے ہیں تو اسے ختم کیے بغیر دم نہیں لیتے۔ ناول کی بات اگر چھوڑ دی جائے تو بہت سے افسانے ایسے ملیں گے جن کی قرأت میں ہمیں اتنا ہی وقت لگے گا جتنا ہمیں راجندر سنگھ بیدی کی ’ایک چادر میلی سی‘کی قرأت میں لگتا ہے۔ظاہر ہے بیدی کی اس تخلیق کو ناقدین نے ناولٹ کا نام دیا ہے اور ناولٹ افسانہ نہیں۔
ان تمام تعریفات کو سامنے رکھ کر اگر افسانے کا ایک مجموعی چہرہ تیار کیا جائے تو چند نکات کے سہارے اس کا خلاصہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ اسے نثر میں بیان کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہانی کا ہی ایک روپ ہے۔ تیسرے یہ کہ اس میں اختصار کا ہونا ضروری ہے۔ ناول کی بہ نسبت اس کا کینوس محدود ہونا چاہیے۔ ایک اہم اور بنیادی بات وحدت تاثر، تاثر کی مرکزیت یا شدت احساس بھی ہے جو افسانے کے وجود کے لیے ضروری ہے۔ ان تمام با توں کو جوڑ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ افسانہ ایک ایسی مختصر نثری کہانی ہے جس کا کینوس محدود ہو اور جس میں احساس کی شدت اور تاثر کی مرکزیت پائی جائے۔اس کا حسنِ ایجاز اس کی روح ہے۔مشہور افسانہ نویس چیخوف نے کہا تھا کہ’ ’اگر مختصر افسانے میں کسی دیوار پر لٹکی بندوق کا ذکر ہو، تو اس بندوق کو افسانے میں ہی چل جانا چاہیے ‘‘۔[18]یعنی افسانہ تمام قسم کے حشو و زوائد اور ٹھونس ٹھانس سے پاک ہونا چاہیے۔
میری رائے میں افسانے کا کوئی مکمل تعریفی فارمولا متعین نہیں کیا جا سکتا ہے اور کوئی فارمولا ایسا نہیں ہے جو افسانے کی ہیئت یا ساخت کے تشکیلی اور تعمیری امکانات کو محدود کر سکے، کیونکہ یہ صنف مسلسل ارتقا اور تبدیلیوں کی زد میں ہے۔اور یہی ایک کامیاب صنف کی پہچان بھی ہے جو ہر وقت ارتقائی سفر میں رہے، جس کی ہیئت میں لچک بھی ہو اور ٹھوس پن بھی۔اسی لیے تو ہم دیکھتے ہیں افسانے میں پلاٹ کا قدیم تصور اور روایتی پلاٹ کا فارمولا تبدیلیوں سے دوچار ہے۔ کچھ لوگ اپنی کہانیاں ایک انجام پر ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ بعض لوگ پلاٹ کے آغاز، وسط اور اختتام کے تصور سے الجھے بغیر اپنے افسانوں کو ڈاٹ ڈاٹ پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا عظیم افسانہ نگار منٹو پلاٹ کے اسی تصور کو پسند کرتا تھا کہ اسے اپنے افسانوں میں غیر متوقع یا ڈرامائی اختتام عزیز تھا۔افسانے کی تعریف و تفہیم کے حوالے سے ڈاکٹر انوار احمد نے کیا بھلی بات کہی ہے، جو میرے بھی دل کو چھوتی ہے :
’’اصل میں ہم مختصر افسانے کے فن پر جتنے بھی ناقدین اور کتابوں کی آراء جمع کر لیں، ماجرا یہ ہے کہ ہر صنف ادب کی آبرو اس کے بڑے تخلیق کار کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اس تخلیق کار کا تجربہ اور اسلوب اس صنف ادب کی معنوی دنیا میں توسیع کرتا رہتا ہے اور خود ان کے اپنے تجربات کا تنوع اور تموج نئی ہیئتوں اور فنی تدبیروں کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔ یہی افسانے کے قارئین کی ذہنی و حسی تربیت کا موجب بھی ہوتا ہے اور ناقدین کے لیے بھی سامان بصیرت اعلیٰ تخلیقات ہی فراہم کرتی ہیں، افسانے کی کتابی تعریفوں کے مقابل عظیم تخلیق کاروں کے تخلیقی فقرے زیادہ بلیغ ہیں، جیسے گابریل مرکیوزے نے کہا کہ جب یونس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ میں تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ہوں، تو اس نے اسے ایسے دیکھا، جیسے وہ کہانی سنا رہا ہو‘‘۔[19]
اس ضمن میں اپنی بات مرزا محمد رفیع سوداؔ کے اس شعر پر ختم کر رہا ہوں :
سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے سے
٭٭٭