اے سہیلی بتا!
جسم کی یاترا کر کے آئی ہے تو
موتیے کی ہنسی سے مہکتے ہوئے تیرے گلنار چہرے پہ
شکنوں میں لکھے ہوئے
بید کے شبد پڑھ کے سناؤں تجھے ؟
(اے سکھی! انت کا بھید کس پہ کھلا ہے کبھی)
کیا بتاؤں کہ ان درشنوں سے
مری آنکھ سیراب ہو کے بھی
پیاسی رہی
ہاتھ کا لمس ایسا تھا
ہر پور سے دیپ کی لو لپکتی تھی ہر سانس میں
تھرتھری سی کسی ان سنے گیت کی
کیا بتاؤں سکھی! کس طرح دل دریچے کھلے
اور پنجرے سے
احساس کی نارسائی کا پنچھی اڑا
میں نے دیکھا سکھی
جھیل کی لہر پھواریوں میں
نئے چاند کا عکس اگتا ہوا
اور پھر ٹمٹماتے ستاروں کی پریاں مجھے
کل کے سپنوں کے آکاش پرلے گئیں
اسے سکھی! اور پھر یوں ہوا
جب سورے کی پہلی کرن نے جگایا مجھے
گاؤں کا راکششش
جانیے کونسی سمت لے جا چکا تھا انہیں
میں تو چاہت کی ہاری ہوئی
مر گئی
اے سہیلی بتا! دکھ کی بپتا سناتے ہوئے
تو بڑی سخت جاں ہے کہ
روئی نہیں
ہاں۔۔ ۔۔ مجھے کل کی سچائیوں پر بھروسا جو ہے
دکھ کے پردیس سے
دیکھنا! شیام پیارے ضرور آئیں گے
٭٭٭
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...