فارس خودپے قابو نہ کر پا رہا تھا۔
اسکا غصہ آٶٹ آف کنٹرول ہو رہا تھا۔
غصہ حد سے بڑھا۔ تو ڈرینسگ ٹیبل پے رکھی ہر چی کو الٹ دیا۔
شیشے کے ٹیبل کو زور سے ٹھوکر ماری۔تو کانچ ٹوٹ کے بکھر گیا۔
آنکھوں یں سخت غصہ اور دہشت تھی۔
شیشے کے سامنے کھڑا وہ خود کو دیکھے جا رہا تھا۔
ععفان۔۔ اسکا عکس۔۔۔ ہوبہو۔۔ اس کے جیسا تھا۔
صرف آنھوں کے فرق سے وہ پہچانے جاتے تھے۔
فارس کی آنکھیں الگ تھیں۔ گہری سبز ماٸل آنکھیں۔
جن کا رنگ ہمیشہ غصے میں لال رنگ میں بدل جاتا تھا۔
جبکہ عفان کی آنکھیں بھوری تھیں۔
ایک ہنستا ہنساتا تھا۔زندگی کو بھرپور طریقے سے جیتا تھا۔
تو دوسری طرف فارس تھا۔ جسکی مسکراہٹ کیایک جھلک بھی بہت کم دیکھنےکو ملتی تھی۔جس کی پہچان صرف اسکا غصہ تھا۔
ایک زور دار مکا فارس نے شیشے پے ماراتھا۔وہ کہیں دراڑوں میں بٹ گیا۔ اور فارس کو اپنا آپ اس شیشے میں کٸ ٹکڑوں میں بٹی ہوٸی شبیہ نظر آٸی۔
کیوں۔۔۔؟؟ کیوں۔۔ کیا ایسا۔۔۔؟؟ میرے بھاٸی کو موت ۔۔کومنہ میں پہنچا دیا۔
فارس کو اپنا آپ سنبھالنا محال ہو رہا تھا۔
ہاتھ لہو لہان ہو گیا تھا۔ لیکن پرواہ کسےتھی۔۔۔؟؟
زمین پے بیٹھتا چلا گیا۔
دروازہ زور زور سے پیٹنےکی آوازیں آرہی تھیں۔
بھاٸی۔۔۔۔ !! بھاٸی۔ کدھرہیں۔۔ دروازہ کھولیں۔۔۔ پلیز۔۔؟؟
باہر سے آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔
لیکن فارس ہوش میں ہوتا تو کھولتا ناں۔۔۔
اسکے دل و دماغ میں تو بس عفان ہی کا خیال اور اسی کا چہرہ تھا۔
زیان ابھی ابھی قبرستان سے واپس لوٹا تھا۔کچھ ہی دنوں میں وہ مرجھا گیا تھا۔
چہرے کی وہ رونق ماند پڑگٸ۔ جو شادی کے روز تھی۔
سیڑھیاں چڑھتےاسے فارس کے روم سے آوازیں۔تو وہ ٹھٹھکا۔
بے اختیاری نظریں فارس کے روم کی جانب اٹھیں۔
دلعجیب انداز میں دھڑکا تھا۔
دعا جو زیان کو آتا دیکھ اسکیجانب بڑھ رہی تھی۔ زیان کو فارس کے دومکی طرف بھاگتا دیکھ وہ بھی اسی کےپیچھے ہولی۔
بھاٸی۔۔۔۔!! بھاٸی۔۔۔ دروازہ کھولیں۔
زیان تڑپ رہا تھا۔ دروازہ پیٹ رہا تھا۔
بھاٸی۔۔۔!! پلیز دروازہ کھولیں۔۔۔
بن پانی کے مچھلی کی طرح وہ باہر کھڑا تڑپ کے بولا۔
دعا بھی گبراٸی ہوٸی وہیں کھڑی دیکھ رہی تھی۔
لیکن دروازہ نہ کھلا۔
دعا۔۔۔ کیز لے کےآٶ۔
زیان نے جھٹ سے کہا۔
لیکن دعا اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ وہ وہیں گھبراٸی کھڑی تھی۔اسے سمجھ ہی نہ آیا زیان نے کیا کہا۔
دعا۔۔۔!! جاٶ۔۔۔!! زیان تقریباً چینخاتھا۔وہ ایکدمہوش میں آتی کیز لینےکےلیے نیچے کی طرف بھاگی۔
زیان دوبارہ دروازہ بجاتا۔ کہ یکدم دروازہ کھل گیا۔
زیان کا دل پرندےکی طرح پھڑکا۔
فوراً دروازہ کھولے وہ اندر آیا۔
سامنےہی صوفے پر پرسکون سا بیٹھا فارس نظر آیا۔
کمرے کی حالت ابتر تھی۔
فارس کاہاتھ لہو لہان تھا۔
خون دیکھ کرزیان تڑپ کےآگےبڑھا۔
گھٹنوں کےبل بیٹھا۔ وہ فارس کا ہاتھ تھامےعقیدت سے دیکھے جا رہا تھا۔
بھاٸی۔۔۔۔!! بھاٸی۔۔۔ یہ۔۔ کیسے ہوگیا۔۔۔؟؟
روٸی آنکھوں سے وہ فارس کی سبز آنکھوں میں دیکھتے بولا۔
فارس نے ایک نظر اپنےلاڈلے بھاٸی پر ڈالی۔
جس کی آنکھوں میں آج تک ایک آنسو نہیں آنے دیا تھا۔ وہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔
اسکے آنسو دیکھ کے فارس کے دل کو جیسے ہاتھ پڑا۔
بہت پیار سےاسکے گاموں پے آٸے آنسو صاف کیے۔
تبھی دعا پانی امی ماریہ شاہ کے ساتھ روم مثس داخل ہوٸی۔
ماریہ شاہ کو دعا خود ساتھ لےکےآٸی تھی۔
دلاور شاہ اور فراز شاہ گھر پے نہیں تھے۔
ماریہ شاہ بے چین ہو کے آگے بڑھیں۔
فارس۔۔!! میرے بچے۔۔۔!! یہ کیا کیا۔۔؟؟ کیوں خود کو تکلیف پہنچا رہے ہو۔۔؟؟
مارہہ شاہ نے فارس کا چہرہ اپنے دونں ہاتھوں میں لیا۔
وہ بہت رو رہی تھیں۔
فارس نے دھیرے سے اپنا چہرہ اٹھایا۔تو نظر سیدھا اس پے جا ٹہری۔ دروازے میں ایستاہ دعا کے ساتھ وہ کھڑی تھی۔
نظرپڑی اس پے تو ٹہر سی گٸ۔
وحشت زدہ آنکھوں سے وہ فارس اور اس کے کمرے کی حالت کودیکھ رہی تھی۔
ایک لمحے میں اس کے تاثرات بدلے۔وہ سبز آنکھیں ایک دم سے لال انگارہ ہوٸیں۔
وہ جھٹ سے کھڑا ہوا۔ اور باہر کی جانب قدم بڑھاٸے۔
گردن موڑکے ایک قہر کی نظر عین پے ڈالے وہ باہر نکل گیا۔زیان بھیفارس کے پیچھے لپکا۔ وہ۔ایک بار عفان کو۔اکیلا چھوڑ کے نقصان اٹھا چکاتھا۔
اب۔۔۔ فارس کو کواکیلا نہیں کھو سکتا تھا۔
پتہہ نہیں ۔۔۔ کس کی نظر لگ گٸ ہمارے ہنست بستے گھرکو۔۔۔؟
ماریہ شاہ۔دکھ سے رو دیں۔
دعا نے آگے بڑھ کے ماں کوسنبھالا۔
بیٹا۔۔۔!! نوراں سے کہہ کے کمرہ صاف کروادو۔
ماریہ شاہ دعا سے کہتے باہر کی جانب بڑھیں۔
دعا بھی ساکت کھڑی عین کے قریب آٸی۔
آپی۔۔۔آپی۔۔۔۔!! دعا نے اسےپکارا تو ہوش کی دنیا میں واپس آٸی۔
ایک جھر جھری لی۔اور باہر نکل آٸی۔
دعا عین سے تین سال چھوٹی تھی۔
نورالعین کی پیدٸش فرازشاہ اور ماریہ شاہ کی زندگی میں بہت منتوں مرادوں سےہوٸی۔
وہ۔باربی گڑیا ی طرح نرم و نازک تیکھے نین نقوش اور سے سے بڑھ کے اسکی آنکھ کے قریب سیاہ تل اس کے
حسن کو چار چاند لگاتا تھا۔
عین کی پیداٸش پے الماس بیگم بھی امید سے تھیں۔
عفان اور فارس چار سال کے تھے۔
گھر بھر میں ان جڑواں بھاٸیوں کی وجہ سے خوب رونق تھی۔
دونوں بھاٸی ایک دوسرے پے جان چھڑکتے تھے۔
عین کی پیداٸش پے فارس نے تو کوٸی ردعمل نہ ظاہر کیا۔ جبکہ عفان بہت خوش ہوا۔
اس باربی کو سار دن لیے پھرتا رہتا۔وہ بھی عفان کے لمس سے آشنا ہوگٸ تھی۔
تین سال کی نین نے سب کو ہی اپنا بنا لیا تھا۔
زیان بھی اسی کا عمر تھا۔
اور دونوں أیک ساتھ کھیلتے۔
ایک دن یونہی کھیلتے کھیلتے زیان سیڑھیوں سے نیچے کی طرف بھاگا۔ اور گر گیا۔
اسے چوٹ لگی۔ فارس وہاں آن وارد ہوا۔
وہ سات سال کا تھا۔ اور عین سے اسے ویسے بھی چڑ تھی۔ کیونکہ عفان اسکو بہت چاہتا تھا۔ اور اپنا زیادہ وقت اسی کے ساتھ گذارتا تھا۔
اس لمحے عین فارس کی لال انگاروں آنکھوں کے دیکھنے سے ڈر گٸ۔
فارس نے بھی بنا سوچے سمجھے رکھ اسکے گال پے تھپڑ جڑ دیا۔ اور وہ بیچاری منہ پے ہاتھ رکھے رو دینے کے در پر تھی۔
خبردار۔۔۔! جو تمہاری آواز بھی آٸی۔۔۔ ورنہ اور ماروں گا۔
فارس نے بے حد غصے سےکہا تو روٸی بھی نہ۔۔
بعد میں زیان نے خود ہی بتا دیا کہ وہ تیزی سے اترتاگر گیاتھ۔
دلاور صاحب نے فارس کو ڈانٹا۔ عین پے ہاتھ اٹھانے کی وجہ سے۔ لیکن فراز صاحب بات کو رفع دفع کر دیا۔ کہجو ہوا انجانے میں ہوا۔
بات تو ختم ہو گٸ۔ لیکن عین کے دل۔میں فارس کاڈر بیٹھ گیا۔ اور وہ اس کے سامنے بھی جانے سے ڈرنے لگی۔ وہ ڈر جو بچپن میں دل۔میں بیٹھا۔ وہ آج بھی قاٸم تھا۔
وہی لال انگارہ آنکھیں۔
عین پھر سے سہم گٸ۔
دعا جتنی پر اعتماد تھی۔وہ اتنیہی ڈری سہمی اور معصوم تھی۔ اپنے حق کے لیے بولنا بھی نہیں آتا تھا۔وہ خیالوں کی دنیا میں رہنے والی لڑکی تھی۔
اور عفان اس کے ناز نخرے اٹھاتا تھا۔ اسے سمجھتا تھا۔وہ اسکا سب سے قریبی دوست تھا۔ جس سے وہ ہر راز کی بات کر لیتی تھی۔
وہ باتیں جو وہ دعا سے بھی نہیں کر پاتی تھی۔
کیونکہ اسکا زیادہ وقت زیان کے ساتھ گذرتا تھا۔
فارس کے باہر ملک جانے پے سب سے زیادہ خوش بھی عین ہی تھی۔
اور شاید فارس بھی اسی کی وجہ سے ملک سے باہر چلا گیا تھا۔ اس کا عفان کے زیادہ قریب رہنا۔۔ اسے چبھتا تھا۔ اور وجہ جاننے سے وہ خود بھی قاصر تھا۔
غرض سبھی اپنی اپنی لاٸف میں خوش و مگن تھے۔
ہاں اس کے علاوہ ایک ہستی اور تھی اس گھر میں ۔۔۔
جس سے عین کی جان جاتی تھی۔
اور اسے عین ہمیشہ ڈیول کہا کرتی تھی۔
وہ تھا ابرار شاہ
دلاور شاہ کے سوتیلے بھاٸی کبیر شاہ کا بیٹا۔۔
شاہ حویلی خان پور کی مشہور حویلی تھی۔
جو بڑی حویلی کے نام سے جانی جاتی تھی۔
جو دلاور شاہ اور فراز شاہ کے والد اکبر شاہ نے اپنی زندگی میں بنواٸی تھی۔
اساطرزِ تعمیر شاہانہ تھا ہی۔ وہ حویلی محل سے کم نہ تھی۔
اکبر شاہ نے بڑے بیٹی کی شادی شا خاندان میں ہی الماس بیگم سے کرواٸی ۔ جو بہت خوشگوار ثابت ہوٸی۔ انہی کےتین بیٹے تھے۔
عفان اور فارس شاہ اور چھوٹا بیٹا۔ زیان شاہ۔
فراز شاہ تھوڑے ہنس مکھ مزاج کے انسان تھے۔ ماری شاہ انکی زوجیت میں آٸیں۔
اللہنے انکو دوبیٹیوں کی رحمت سے نوازا۔
نور العین اور دعا فراز۔
اکبر شہ کی ایک منہ بھولی بہن تھی۔ شمسہ بی بی۔
جن کو انہوں نے اپنے گھر اپنے ساتھ رکھاتھا۔انکا ایک بیٹا تھا۔ کبیر شاہ۔ اسے اکبر شاہ نے اپنی نسبت ہی دی تھی۔ شمسہ بی بی کی خواہش پے۔
شمسہ بی بی کے شوہر کی وفات کے بعد سب نے ان سے بناتا توڑا لیک ن اکبر شاہ کی بہن کی محبت نے جوش مارا او ر وہ انہیں گھر لے آٸے۔ اور ان کے بیٹےکا اپنے بیٹوں کی طرح خیال رکھا۔ ۔ کسی چیز کیکمی نہ ہونے دی۔
لیکن ہاۓ رے قسمت۔۔۔۔۔
کبیر شاہ کو الماس بیگم کی بہن بھا گٸی۔
اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ لیکن رشتہ نہ ہو سکا۔
کہ انکی زات الگ ہے۔ بھلے شاہ جی نے انہیں نسبت دی ہے۔ لیکن وہ شاہ فیملی سے نہیں ہیں۔
اس بات سے ان کے دل میں نفرت کا بیج بونا شروع ہوا۔ جو وقت گزرنے کے بعد ایک تناور درخت بن گیا۔
ابر شاہ اور شمہ بی بی کی وفات کے بعد کبیر شا کو کھلی چھٹی ملگٸ من مانی کرنے کی۔
اور ایک دن اپنی کسی کلاس فیلو کو بیاہ کے گھر لے آٸے۔
دلاور شاہ نے کافی باز پرس کی۔ لیکن انہوں نے بھی کان نہ دھرے۔ اور من مانیاں کرتے رہے۔
دردانہ بیگم بھی انہی کی طرح سازشی دماغ رکھتی تھیں۔
انکو بھی اللہ نے الاد ِ نرینہ سے نوازا۔
بیٹے کانام ابرار شاہ اور بیٹی کا نام فاریہ شاہ تھا۔
اور دونں ماں باپ کی کاربن کاپی تھے۔
بھاٸی۔۔۔ !! ایسااکیوں کیا آپ نے۔۔۔؟؟
زیان نے گاڑی ڈراٸیو کرتے فارس کق دیکھتے کہا۔ جس کی نظریں باہر تھیں۔
زیان ابھی فارس کوہاسپٹل سے بینڈیج کروا کے گھر واپس جا رہا تھا۔
زیان ۔۔!! گاڑی قبرستان کی طرف موڑ لو۔
بے تاثر انداز۔۔
زیان کو مزید دکھ نے گھیر لیا۔
گاڑی قبرستان کے باہر۔رکی۔دونں باہرنکلے۔
زیان ۔۔!! تم یہیں رکو۔۔۔!!
وہی بےتاثر انداز زیان کو دکھیبکیے جا رہاتھا۔
بھاٸی۔۔۔!! اتنی رات گٸے
اکیلے۔۔ مت جاٸیں۔۔!! میں بھی۔۔۔ساتھ۔۔!! زیان نے دھیمے لہجے میں کہا۔
نہیں۔۔۔! میں تھوڑی دیر میں آجاٶں گا۔ تم۔یہیں۔۔۔۔ ویٹ کرو۔
نارمل۔انداز میں کہتا وہ اندر کی جانب بڑھا۔
عفان کی قبر کے پاس جا کے رک گیا۔
آنسو خود بخود بہنے لگے۔
پاس ہی گور کن کا کمرہ تھا۔ جہاں اسکے کمرے کے باہر ایک بلب روشن تھا۔ اسی کی روشنی میں فارس چلتا ہوا۔ عفان کی قبر کے سر والی طرف آیا۔
اور گھٹنوں کے بل وہیں بیٹھ گیا۔
یار۔۔۔۔! مت کرو۔۔ناں۔۔۔! موباٸیل یوز کرتا عفان کے بار بار فارس تنگ ک رہا تھا۔ اور ہر بار اس کے بال خراب کر رہا تھا۔
جتنا وہ تنگ پڑتا فارس ہنستا ہوا اسے مزید زچ کرتا۔
مما۔۔! دیکھیں۔۔ ناں۔۔فارس کو۔۔۔!! بار بار میرے بال۔خراب کررہا ہے۔۔!!
نروٹھے پن سے دس سالہ عفان نے الماس بیگم کو شکایت لگاٸی۔
تو وہ مسکرا دیں۔
مما۔۔۔!! دیکھیں ۔۔۔ ناں۔۔ فان کے بالوں۔۔ پے چاند بنتا ہے۔۔میرے بالوں پے نہیں بنتا۔۔۔اب کی بار فارس نے منہ بنا کے کہا۔
ہاں۔۔ تو۔۔؟؟ اس میں میرے بالخراب کرنے کی کیا بات ہے۔۔۔؟؟ عفان نے اترا کے کہا۔
اور پھر سے لیٹتے ہوٸے موباٸیل۔یوز کرنے لگا۔
کہ فارس نے پھر اس کے بال۔کھینچے۔ اور بھاگا۔
اور عفان زور سے چلاتا فارس کے پیچھے بھاگا۔
اور پھر فارس آگے آگے تھا۔اور عفان پیچھے پیچھے۔
اور سب کے ہروں پے مسکراہٹیں تھیں۔
بے اختیار فارس کاہاتھ قبر کی مٹی پے گیا۔
نہ وہ تھا۔۔ نہ ہی اس کے بالوں کا چاند۔
آنسو گرتے گرتے قبر کی مٹی میں جذب ہونے لگے۔
قبر کی مٹی ہاتھ میں اٹھاٸی۔
تو دل میں ایک بار پھر سے جداٸی کا درد جاگ اٹھا۔
اچانک موسم نے انگڑاٸی لی۔اور تیز ہواٸیں چلنے لگیں۔
دور زیان گاڑی کے ساتھ ٹیک لگاٸے فارس پے ہی نظر رکھے ہوۓ تھا۔
ہاتھوں میں مٹی اٹھا ٸے وہ ایک بار پھر ماضی میں جاتا کہ ۔۔
“میں۔۔ آپ سے نہیں۔۔۔ فارس سے پیار کرتی ہوں۔ ”
“پلیز۔۔۔!! میری اور فارس کی زندگی سے نکل جاٸیں۔”
لفظوں کی بازگشت ہونے لگی۔
دکھ اور درد کی جگہ جنوں نے لے لی
دل میں بے انتہا غصہ بھر گیا۔
کبھی نہیں۔۔ چھوڑوں گا۔ اپنے بھاٸی کی موت کا بدلہ۔۔۔ ضرورلوں گا۔
میرے بھاٸی کو موت کے منہ میں پہنچانے والے کو عبرت ناک سزا دوں گا۔
نظر پھر قبر پے جا ٹہری۔
بھاٸی۔۔۔! میری جان۔۔۔ اتنا بڑا قدم۔اٹھانے سے پہلے ایک بار۔۔۔ مجھ سے ۔۔۔ پوچھ تو لیتے۔۔۔ سچ اورجھوٹ کا پتہ تو کر لیتے۔۔۔۔
اتنی جلدی کیا تھی جانے۔۔۔ کی۔۔؟؟
کیسے۔۔ اتنا بڑا گناہ کر دیا۔۔۔؟؟ کیسے۔۔؟؟ خود کو۔۔ مار ڈالا۔۔۔؟؟
نہیں۔۔۔ نہیں ۔۔ یقین آرہا ہے۔۔ کہ اب۔۔ تم نہیں۔۔۔
چھٹی نہ کوٸی سندیس
بجانے وہ کونسا دیس ۔۔
جہاں تم چلے گۓ۔۔
دھیرے سے وہاں سے اٹھا ۔ بارش شروع ہو چکی تھی۔
اس دل پے لگا کے ٹھیس ۔۔۔
جانے وہ کونسا دیس۔۔۔
جہاں۔۔ تم چلے گٸے۔۔۔
فارس گاڑی کے قریب پہنچا تو زیان نے فوراً گاڑی کا دروازہ کھولا۔
بیٹھتےہی ایک الوداعی نظر قبرستان پے ڈالی۔
اور گاڑی آگے بڑھا دی۔
میں قسم کھاتا ہوں عفان۔۔! جو بھی تمہاری موت کی وجہ ہے۔۔ میں اسے موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔
فارس نے گاڑی کی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگاتے آنکھیں موند لیں۔
ایک آہ بھری ہوگی۔۔
ہم نے سنی ہوگی۔۔
جاتے جاتے تم نے۔۔
آواز تو دی ہوگی۔۔
ہر وقت یہی ہے غم۔۔
اس وقت کہاں تھے ہم۔۔
کہاں۔۔ تم چلے گٸے۔۔؟؟