” کہاں مر گئے ہو سارے..
کب سے آوازیں لگا رہا ہوں جلدی سے جاؤ
اور لڑکی کو ڈھونڈو مجھے لڑکی چاہیے۔۔۔ ابھی اور اسی وقت جلدی جاؤ ۔۔۔دفع ہو جاؤ ۔۔۔”
احسان بلبلاتا ہوا سر پر ہاتھ رکھ کے باہر نکل کر اپنے آدمیوں کی طرف آیا اور انہیں غصے سے کہا ۔۔۔۔
آدمی جلدی سے رامین کی تلاش میں نکل پڑے ۔۔۔
########
” رآمین ۔۔۔۔
رآمین۔۔۔۔
آنکھیں کھولو ۔۔۔”
رومان نے رامین کو اپنے باہوں میں اٹھا کر اسکا منہ تھپتھپاتے ہوئے کہا ۔۔۔
رومان جب اس جنگل نما وادی میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ سامنے سے کوئی آرہا ہے۔۔۔ تو اس نے جلدی سے اس سمت میں دوڑ لگا دی ۔۔۔
جو پاس آکے دیکھا تو وہ رامین تھی ۔۔۔
اس کی حالت بہت خراب تھی
پاؤں شامل ہو چکے تھے اور جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا
اور ایک پتھر سے ٹکرا گئی ۔۔۔
اس سے پہلے کے اس سے ٹکرا کر اسکا سر پتھر سے لگتا۔۔۔
رومان نے آگے بڑھ کر جلدی سے رامین کو تھام لیا ۔۔اور اسے جلدی سے اپنی پناہ میں لے لیا ۔۔۔
رامین کو تھام ہی تھا کہ وہ بے ہوش ہو کر اس کی باہوں میں جھول گئی۔۔۔
تبھی رومان جلدی سے رامین کو اٹھایا اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی ۔۔۔۔
جب رامین ہوش نہ آیا۔۔۔
تو رومان نے جلدی سے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا ۔۔
اور اپنی گاڑی کی طرف دوڑ لگا دی تاکہ وہ جلدی سے رامین کو ہسپتال پہنچائے۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ رامین کو بار بار ہاتھ لگا کر محسوس کرتا کہ وہ اس کے پاس ہے۔۔ محفوظ ہے ۔۔۔۔
لیکن اس بات سے بے خبر کے کوئی ایک شخص چھپا ہوا ان اسے رامین کو اٹھائے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔اور یہ خبر رامین کی زندگی میں ایک نیا بھونچا ل لے کر آنے والی تھی ۔۔۔
#########
کچھ ہی دیر میں پولیس وہاں پر پہنچ چکی تھی ۔۔۔
انہوں نے جلدی سے احسان شاہ کو اپنی حراست میں لے لیا
اور باقی کمروں میں جلدی سے رامین کی تلاش کرنا شروع کردی ۔۔
” ابتسام۔۔۔ ہم نے سارے کمرے چھان مارے ہیں لیکن رامین کا کوئی اتا پتا نہیں لگا ۔۔۔”
انسپیکٹر نے آکر ابتسام سے کہا جو خود بھی تلاش کر رہا تھا ۔۔۔
” کہاں ہے رامین ؟؟
کہاں چھپایا ہے تم نے اسے ؟؟”
ابتسام نے غصے میں آگے بڑھ کر احسان شاہ کے منہ پر مکوں کی برسات کردی
اور ساتھ ساتھ رامین کا پتہ پوچھنا شروع کر دیا ۔۔۔۔
انسپیکٹر اور زین نے بڑی مشکل سے ابتسام کوقابو کیا اور ٹھنڈا کیا۔۔۔
“بھاگ گئی ۔۔
اپنے عاشق کے ساتھ ۔۔۔
نہیں یقین آتا تو خود جا کے دیکھ لو۔۔۔
مجھے کیا پتہ کہاں گئی میں تھوڑی اسکو آکر لایا تھا ۔۔۔”
احسان شاہ نشے میں جھولتا ہوا اپنے خون کو دیکھتا ہوا غصے اور مکاری ہنسی ہنس کر بولا ۔۔۔
“you Baster…
I’ll kill you ….”
یہ سن کر ابتسام غصے سے احسان شاہ کی طرف لپکا۔۔۔
مگر راستے میں ہی انسپیکٹر اور زین نے اسے قابو کر لیا ۔۔۔
” اسے مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے یہ خامخواہ ھی غصہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے ..
اور رہی بات رامین کی تو وہ میرے خیال میں یہاں سے بھاگ گئی ہے…
ہم اسے جلدی تلاش کرلیں گے …”
انسپکٹر نے ابتسام کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔
” سر یہ ہمیں یہاں سے ایک چادر ملی ہے ۔۔”
ایک سپاہی نے ہاتھ میں چادراٹھاکر لا کر دکھاتے ہوئے کہا ۔
” مطلب وہ یہی کہی ہوگی ۔۔ہمیں اس کو ڈھونڈنا ہوگا ۔۔”
انسپکٹر نے کہا ۔۔
پھر احسان شاہ کو گرفتار کرکے پولیس اسٹیشن لے گئے جبکہ۔۔۔
انسپکٹر۔۔ ذین اور ابتسام تینوں مل کر رامین کو ڈھونڈنے لگ گئے ۔۔۔
########
” زیادہ پریشانی والی بات نہیں ہے ۔۔
کچھ ڈپریشن کی وجہ سے اور مسلسل بھاگتی رہنے کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہوئی ہے۔۔۔
میں نے ان کو نیند کا انجکشن دے دیا ہے تھوڑی دیر بعد ان کی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی ۔۔۔”
ڈاکٹر نے رومان کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا ۔
” ڈاکٹر وہ ٹھیک ہوجائے گی نہ زیادہ پریشانی والی بات نہیں ہے نہ۔۔۔
کوئی پرابلم ہے تو آپ مجھے کلیئر بتا سکتے ہیں ۔۔”
رومان عباس نے پریشانی میں ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔
” ارے نہیں بیٹا ۔۔
بلکل ٹھیک ہے تم زیادہ پریشان مت ہو اور دیکھو تمہارے مسلسل سوچنے کی وجہ سے طبیعت خراب ہو رہی ہے میں تو کہتا ہوں تم بھی تھوڑا ریسٹ کر لو ۔۔۔”
ڈاکٹر نے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
پھر تھوڑی میڈیسن غیرہ کے بارے میں بات چیت کرنے کے بعد رمان عباس ڈاکٹر کو دروازے تک چھوڑ کر آیا ۔۔۔
########@
ابتسام ذین اور انسپکٹر رامین کو سارے جنگل میں ڈھونڈتے رہے۔۔۔
مگر لیکن وہاں پر رآمین نہیں ملی ۔۔۔
” میرے خیال میں اسے کوئی لے گیا ہے یہ دیکھو اسے گاڑی کے پہیوں کے نشان ہیں ۔۔۔”
انسپکٹر نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
” ہاں میرا بھی یہی خیال ہے ہمیں ی اسے ڈھونڈنے کی بجائے ہاسپیٹل اور باقی جگہوں پر ڈھونڈنا چاہیے ۔۔۔”
زین نے بھی انسپیکٹر کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
چارو نا چار ابتسام کو ان کے ساتھ واپس جانا ہی پڑا ۔۔۔
#######
” جب اسے شہر بھیج کے آپ لوگوں نے اس سے رنگ رنگیاں ہی منوانی تھی تو میرے ساتھ اس کا نکاح کیوں کیا ۔۔۔
کیا ضرورت تھی میرے ساتھ نکاح کرنے کی۔۔۔ خوب عیش و عشرت کی زندگی تو گزار رہی ہے وہاں لاہور میں ۔
دھوکا دیا ہے آپ لوگوں نے مجھے ۔۔۔۔
اسی اپنی اولاد کی تربیت کی ہے آپ نے ایسی اولاد کو تو زمین میں گاڑ دینا چاہیے ۔۔۔
ویسے بھی آپ سے کام کہاں ہو گا جس نے اپنی بہن نے خاندان کی عزت کو رول کر اپنی مرضی سے جا کر شادی رچالی اس کی بیٹیبھی ایسا کرلے تو کہاں فرق پڑتا ہے ۔۔۔ ”
اسداللہ خان صحن میں کھڑا رحمان خان کی طرف اشارہ کر کے اس کو غصے میں برا بھلا کہہ رہا تھا ۔۔
کیونکہ اس کے مخصوص بندے نے اسے ساری بات بتا دی تھی کہ رامین کسی اجنبی نامحرم کی باہوں میں جھول رہی تھی اور اس نے خود اسے جنگل میں دیکھا تھا رنگ رلیاں مناتے ہوئے ۔۔۔جبکہ باقی احسان شاہ کا اسے اغوا کرنا اور وہاں پر لے جانا اس سب سے وہ نا واقف تھا ۔۔۔۔
اسے مزید کے وہ اور بولتا رحمان خان نے آگے بڑھ کر ایک زور دار تھپڑ اسد اللہ خان کے منہ پر مار دیا ۔۔۔۔
” بند کرو اپنی بکواس ۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کے بارے میں بات کرنے کی۔۔۔
اگر تم نے ایک لفظ بھی اور بولا تو میں تمہاری جان لے لوں گا ۔۔۔
جس کی سوچ ہی اتنی گھٹیا ہو میں اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ کبھی نہیں جوڑوں گا ۔۔۔
آج اور ابھی اسی وقت رامین کو طلاق دو ۔۔۔”
رحمان خان نے غصے سے اسداللہ خان گریبان پکڑ کر کہا ۔۔۔
” ارے آپ کیا مانگیں طلاق۔۔۔
میں تو خود اس طرح کی بے غیرت خاندان کے ساتھ تعلق نہیں رکھنا چاہتا ۔۔اور خاص کر اس بدکردار عورت کے ساتھ ۔۔”
اسداللہ خان نے غصے سے اپنا گریبان چڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔
“دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔
میں نے بہت بڑی غلطی کی ۔۔۔
جو اپنی معصوم ۔۔پاکباز بیٹی کے لیے تم جیسے گھٹیا انسان کا چناؤ کیا ۔۔۔
اور تم لوگوں کی وجہ سے اتنے سال اپنی بہن کا دشمن بنا رہا ۔۔۔”
رحمان خان نے غصے اور دکھ سے کہا ۔۔۔
” ارے جو شخص اپنی بہن اور بھائی کا نہ بنا وہ ہمارا کیا بنے گا ۔۔۔”
اسداللہ خان نے طنز کرتے ہوئے کہا ۔۔
اور اپنے کپڑے جھاڑ کر باہر کی طرف نکل گیا ۔۔۔
رحمان خان وہیں پر ڈھ سا گیا ۔۔۔
اسے اپنے کیے پر بہت پچھتاؤ ہو رہا تھا۔۔۔
#########
” مون بھیا۔۔
اب تھوڑا آرام کر لیں ۔۔
یہاں میں ہوں ناں ۔۔۔دیکھ بھال کرنے کے لئے ۔۔
ایسے پریشان مت ہو۔۔ ٹھیک ہو جائیں گی بھابھی ۔۔”
مہر نے اپنے بھائی کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔
کیونکہ جب سے وہ رامین کو اپنے گھر لایا تھا ۔۔
تب سے وہ مسلسل اس کے پاس بیٹھا ہوا ہاتھ تھامے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔
” مہر گڑیا۔۔۔
دعا کرو بس ایک دفعہ رامین کو ہوش آ جائے میں اسے کبھی کوئی مشکل مصیبت نہیں آنے دونگا ۔۔۔
ہمیشہ اس کا سائے کی طرح اس کے ساتھ رہوں گا اور اس کی حفاظت کروں گا ۔۔۔”
رومان نے آنکھوں میں ای نمی کو صاف کرتے ہوئے مہر کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔
” بھیا۔۔۔
آپ تو بہت بہادر ھے نا پھر ایسے کیوں پریشان ہو رہے ہیں ۔۔۔
اور آپ بھابھی کے گھر والوں کو بھی اطلاع کردیں ۔۔
وہ پریشان ہو رہے ہوں گے ۔۔۔”
مہر رومان پاس آکر اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولی ۔۔۔
” ہاں مجھے تو یاد ہی نہیں پریشانی میں۔۔
میں نے اس کے گھر والوں کو کر اطلاع نہیں دی اور اس کا نمبر بھی نہیں ہے۔۔۔
تم ایسے کرو تم اس کے پاس بیٹھو ۔۔ میں ابھی ڈھونڈ کر لاتا ہوں ۔۔۔”
مہر کو پاس بٹھا کر رومان رامین کے گھر والوں کا نمبر ڈھونڈنے کے لئے چل پڑا ۔۔۔
اس نے اپنے پرنسپل سے رآمین کی کنٹیکٹ کے بارے میں پوچھا اور پھر وہاں سے اس کے گھر والوں کا نمبر لے کر ان کو اطلاع دی ۔ . .
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...