کہاں ہو؟ حیات نے جلدی میں جیک کو کال کی۔”
میں دوستوں کے ساتھ ہوں.
کیوں کیا ہوا۔ فکر مند انداز میں جیک نے اس سے پوچھا۔”
گھر آجاؤ ۔ ہم لوگ بھی اب گھر جاریے.
حیات نے جیک کو جلدی گھر آنے کا کہا۔
کیونکہ گھر کی چابی جیک کے پاس تھی۔”
اچھا ٹھیک ہے۔ تم لوگ پہنچو میں بھی گھر ہی آرہا ہوں۔ جیک نے کال کٹ دی اور گھر کیطرف روانہ ہوا۔ کہ کہیں گھر والے اس سے پہلے نہ پہنچ جائیں۔
ورنہ جیک کو اچھی خاصی سننے کو ملنی تھی۔”
—————————– ————————-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
کیسا رہا بیٹا آج کا دن۔ فردوس بیگم نے آج کافی دنوں کے بعد جیک سے بات کی۔”
جب سے آیت کے کلائی کٹی تھی فردوس بیگم نے جیک کو بلانا چھوڑ دیا تھا۔
وہ تب سے جیک کو بری نگاہ سے دیکھتی تھیں۔”
جی بہت ہی اچھا تھا۔ حیرانگی سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے،ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے کہا۔”
آپ سب کا آج کا دن کیسا رہا؟
جیک نے سب سے پوچھا۔ مگر جیک نے نظر آیت
پے تھی۔”
بہت شپنگ کی پھر سب نے؟ سر اٹھا کر جیک نے آیت کو اشارے سے پوچھا۔
ڈائننگ ٹیبل پے بیٹھے سب رات کا کہنا کھا رہے تھے۔ اور جیک آیت کے برابر میں بیٹھا تھا۔”
حیات پلیز ٹرے پاس کرنا۔ آیت نے کہا۔
یہ لو! ” چاول کی ٹرے حیات نے آیت کیطرف بڑائی ۔۔۔۔۔۔۔۔
آیت شرمیلی نظروں سے جیک کو دیکھ رہی تھی۔”
اب پکڑ بھی لو۔ حیات نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔”
آیت مسلسل عائشہ کو اشارہ کر رہی تھی کہ آگے ٹرے وہ پاس کر دے۔ لیکن جیک نے نہ میں سر ہلاتے ہوئے عائشہ کو منع کردیا تھا۔
باقی سب کھانا کھانے میں مصروف تھے۔”
چھوڑ دیں ہاتھ میرا۔ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے آیت نے کہا۔”
جیک خود بڑے آرام سے کھانا کھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ ہنس بھی رہا تھا۔
عائشہ کو شک ہورہا تھا کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔”
عائشہ نے آنکھوں کے اشاروں سے آیت کو پوچھا۔”
آیت نے آنکھ سے نیچے کیطرف اشارہ کر کے عائشہ کو سمجھایا۔”
ٹیبل کے نیچے جھانک کر عائشہ نے دیکھا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی ۔ جس کی وجہ سے اسے کھانسی شروع ہوگئی۔”
کیا کر رہی ہو۔ آرام سے کھاؤ، فردوس بیگم نے کہا۔ فکر مندی سے عائشہ کیطرف دیکھا۔”
کیا ہوا سجل نے جیک کو ہنستا دیکھ کر پوچھا۔
کچھ نہیں کوئی پرانی بات یاد آگئی ہے۔”
عائشہ نے منہ پے ہاتھ رکھے ہنستے ہوئے کہا ۔”
جیک آنکھ جھپکتے ہوئے عائشہ کو دیکھا۔ اور وہ مسکرایا۔”
آیت ابھی تک ہاتھ چھڑانے کی کوشش میں لگی پڑی تھی۔”
کوئی دیکھ لے گا۔ اب چھوڑ بھی دیں ۔ پر شکوہ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے آیت نے کہا۔”
تو دیکھنے دو۔ جیک نے پانی کا گلاس اٹھایا اور آیت کو بےقرار نظروں سے دیکھا۔”
حد ہے ویسے…۔ آیت نے خفگی سے کہا۔”
اوہ ہو! جگ میں پانی ختم ہوگیا ہے ۔۔۔۔ تم لے آؤ بیٹا۔۔۔ فرورس بیگم نے آیت کیطرف دیکھا۔”
جی میں لے آتی ہوں۔ آیت نے بھی جلدی سے کہا۔ کیونکہ اسے بھی بہنا مل گیا تھا ہاتھ چھڑانے کا۔”
آیت کھڑی ہونا چاہ رہی تھی لیکن وہ ہاتھ کی وجہ سے اٹھ نہ پائی، اور وہ بیٹھی رہی۔ اب التجائی نظروں سے وہ جیک کو دیکھ رہی تھی ۔”
مگر جیک بھی موڈ میں تھا۔ وہ آیت کا ہاتھ چھوڑ نہیں رہا تھا۔”
کیا ہوا آیت جاؤ بھی حیات نے سر اٹھا کر کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔”
فردوس بیگم آیت کو گھورنے لگیں۔
آیت نی درشت نظر سے مصنوعی خفگی
سے جیک کو گھورا۔۔۔
مسکراتے ہوئے جیک نے اسکا ہاتھ چھوڑا۔۔۔”
—————————- ————————-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا حرکت کی آج آپ نے؟
کھانا کھانے کے بعد آیت جیک کے کمرے میں گئی.”
دونوں ہاتھ کمر پر باندھے دروازے سے ٹیک لگائے وہ جیک کو خفگی سےدیکھ رہی تھی۔”
کیا ہوا؟میں نے تو کچھ نہیں کیا!
جیک نے ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی بند کر دی۔۔
چلتا ہوا آیت کے قریب آیا ایک ہاتھ پاکٹ میں جبکہ دوسرا دروازے پر رکھے وہ آیت کو محبت سے دیکھ رہا تھا.”
بس۔۔۔۔۔۔ اب آپ فورا بچے بن جاؤ۔ آیت خفگی سے بولی۔”
جیک آیت کی اس بات پہ مسکرایا۔۔اپنا چہرا مزید آیت کے قریب کرتے گویا ہوا…۔
چلو اب بڑا بن جاتا ہوں… جبکہ آیت کا دل تیز رفتار سے دھڑکتا چلا گیا… جیک کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے اسے پیچھے دھکیل دیا”
سب وہاں بیٹھے تھے۔ اگر کوئی دیکھ لیتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اوہ غصہ؟؟ جیک اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔۔۔۔
ویسے غصے میں تم اور بھی اچھی لگتی ہو۔۔۔
آیت نے خفگی سے ایک سرسری نگاہ جیک پے ڈالی۔۔۔
اس پر جیک نے آنکھ جھپکتے آیت کو دیکھا۔۔۔۔”
میں ماروں گی آپکو.. جیک کے بال پکڑتے ہوئے بولی… آہ!!! روکو ایسے ہی رہنا۔ مجھے کچھ پیکس لینی ہیں۔۔۔۔”
جیک نے موبائل اٹھایا۔ اور کیمرے کا آپشن کھولا۔۔۔۔”
جس کی کھینچنی ہے کھینچ لو۔۔۔
میں تو سونے کیلئے جارہی ہوں۔۔۔ آیت روٹھنے والے انداز میں بولی۔۔اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔”
ارے بات تو سنو۔۔۔ جیک نے اسکی کلائی پکڑ کر اسے قریب کیا جبکہ آیت اسے دھکیلتی شرارت سے باہر نکل گئی۔۔۔”
مجھے نہیں سننی آپ کی کوئی بھی بات۔۔
آیت نے نفی میں سر ہلایا اور انگوٹھا دیکھاتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔”
—————————— —————————
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن
آج جیک کا برتھ ڈے تھا۔
اتفاق سے آج جیک کو حیدر کیساتھ شہر سے باہر پیکنک پے جانا تھا۔”
کیا بات ہے صبح صبح کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہیں؟ چائے کا کپ ٹیبل پے رکھتے ہوئے حیات نے یہ سوال کیا۔”
دوست کے ساتھ پیکنک پے جا رہا ہوں۔
جیک شیشے کے سامنے بال سنوار رہا تھا۔
آیت کو بولاو ذرا۔”
اچھا ٹھیک ہے میں بھیجتی ہوں اُسے۔ ٹرے ہاتھ میں لیے وہ باہر کیطرف بڑھنے لگی۔”
اچھا سنو؟ جیک نے اسے پیچھے سے آواز دے کر روکا۔”
اب کیا ہے۔ اکتاہٹ بھرے لہجے میں حیات بولی کیونکہ اسے کاموں کی فکر تھی جو اسے صبح صبح نپٹانے تھے۔”
اُسے کہنا جلدی آئے، دیر نہ لگائے۔ جیک مسکرانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
جلدی بھیجو اسے۔۔۔ میں لیٹ ہو رہا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دوبارہ بولا۔۔”
کیا ہوا کچھ کہا اِس نے،؟ کمرے میں داخل ہونے کی دیر تھی کہ سب کے سوالیہ نظروں سے حیات کو دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔۔”
نہیں، وہ اپنے دوست کے ساتھ پیکنک پے جا رہا ہے۔ حیات کپڑوں کا ڈھیر لیے صوفے پے بیٹھ گئی۔”
مجھے تو لگتا کے اُسے خود ہی اپنا برتھ ڈے یاد نہیں۔ مناہل نے حیات کیطرف دیکھتے ہوئے حیرانگی سے کہا۔ اور وہ حیات کے کپڑے سمٹنے بیٹھ گئی۔”
ایسا نہیں ہو سکتا۔ جسے سب کا برتھ ڈے یاد رہتا ہے وہ خود کا برتھ ڈے کیسے بھول سکتا ہے۔ کے اُسے اپنا برتھ ڈے یاد نہ ہو،،،
عائشہ نے کہا۔۔۔۔ جو الماری کے پاس کھڑی ڈسٹینگ کر رہی تھی۔”
لیکن مجھے اس کے اندازِ سے تو یہی لگا، کے اُسے یاد نہیں ہے۔ حیات سمیٹتے ہوئے کپڑے، اٹھا کر الماری کیطرف بڑھی۔”
اوہ یاد آیا۔ حیات نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔”
کیا ہوا؟ مناہل نے پوچھا۔”
آیت تمہیں جیک بلا رہا ہے۔ جلدی جاؤ۔”
اُس نے پہلے ہی مجھے یہ کہہ کر بھیجا ہے کے آیت کو کہنا جلدی آئے۔۔
آیت ،حیات کے کہنے پے جیک کے کمرے میں بال سنوارتی ہوئی بڑھ رہی تھی۔”
آپ نے بلایا مجھے؟ ناب پر ہاتھ رکھے آیت نے کمرے میں جھانک کر کہا ۔ دل ہی دل میں وہ کافی خوش بھی تھی۔
جی ؛ وہاں کیوں کھڑی ہو اندر آؤ نا.”
جیک نے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
کیا بات ہے آج تو موڈ کافی اچھا لگ رہا ہے۔
شریر نظروں سے آیت نے کہا۔”
ہاں آج واقعی میرا موڈ بہت اچھا ہے۔
مست آنکھوں سے جیک نے اس کی طرف دیکھا۔”
اچھا جلدی سے آنکھیں بند کرو میں تمہارے لیے کچھ لایا ہوں۔ آیت سوالیہ نظروں سے جیک کو دیکھنے لگی۔ دل میں عجیب سؤال پیدا ہورہے تھے۔ کہ آخر یہ صبح صبح کس شرارت کے موڈ میں ہے۔۔۔۔۔ ”
ارے تو ایسے ہی بتا دو کہ کیا لائے ہو۔
میں آنکھیں کیوں بند کروں؟
بیتابی سے آیت نے اس سے پوچھا۔۔۔”
مجھے جانا ہے دیر ہورہی ہے جلدی کرو۔
نخرے نہ دکھاؤ۔ جیک اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔”
یہ دیکھو۔ جیک نے اسے چوڑیاں دیکھتے ہوئے کہا۔”
واو چوڑیاں ۔
آیت نے بڑی خوشی سے جیک کے ہاتھوں سے چوڑیاں لیں۔۔۔۔”
یہ آج پہن لینا۔ جیک نے چوڑیاں آیت کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے منتظر نظروں سے اسے دیکھا۔”
لیکن میں تو کل مارکیٹ سے لے آئی ہوں ۔
آیت شرارت کے موڈ میں بولی۔۔”
ٹھیک ہے اب وہی پہنا یہ توڑ دو۔
جیک نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔”
کیوں توڑوں؟؟؟؟ ۔ میں دوبارہ پھر کبھی پہن لوونگی ۔۔۔۔۔ آیت جان بوجھ کر نخرے دکھانے لگی۔ تاکہ جیک اس کو یہی چوڑیاں پہننے کو اسرار کرے ۔۔۔۔۔”
مجھے دے دو۔ سجل نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔”
تم کب آئی؟ جیک نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں تو بس یہاں سے گزر رہی تھی۔۔۔۔
اگر کسی کو اچھا نہیں لگا تو میں واپس چلی جاتی ہوں۔ سجل نے آیت کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ ”
کیونکہ سجل کو پتا تھا کہ آیت کا موڈ اسے دیکھ کر خراب ہوجاتا ہے۔ لیکن سجل بھی دل کے ہاتھوں مجبور تھی۔ آیت کو جیک کے ساتھ دیکھ کر، یہ بات اس کیلئے بھی قابلِ قبول نہ تھی۔”
ارے! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تمہارے آنے سے کسی کو کیوں بُرا لگے گا۔ جیک چاہ رہا تھا کہ سجل اس طرح کے کسی گمان میں نہ رہے۔ وہ آیت کو خفگی سے دیکھ رہا تھا۔ آیت چپ کھڑی رہی۔”
تم چلو میں آتی ہیں۔۔ آیت نے سجل کو جانے کا کہا۔”
ٹھیک ہے آپ دونوں کرو باتیں میں بعد میں بات کر لوں گی۔ سجل اداس لہجے میں بولی۔ اور شرمندگی محسوس کرتے ہوئے وہاں سے جانے لگی۔۔ کہ ایک دفع پھر آیت نے اس کو کمرے سے جانے کا کہا تھا۔”
جیک اچھے لگ رھے ھو۔ سجل نے ہنستے ہوئے کہا۔ سجل کی نظروں میں جیک کا پیار جھلک رہا تھا۔
اور یہ بات آیت کو بلکل پسند نہ آئی۔”
Thanks you so much۔”
جیک نے اپنائیت بھرے لہجے سے کہا۔”
کیونکہ جو کلر شرٹ کا تم نے پہنا ہے وہ میری پسند کا ہے۔ وہ سہمے ہوئے لہجے میں بولی۔ اور آیت اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔”
اچھا مجھے تو نہیں پتہ تھا۔ جیک نے مخصوص انداز میں کہا۔ اور اپنا بیگ اٹھایا۔”
اچھا میں اب چلتی ہیں
بائے۔ سجل مایوسی سے وہاں سے چلی گئی۔ اٌسے آیت کا یہ رویہ بلکل بھی پسند نہیں آرہا تھا۔”
لاؤ دو اب چوڑیاں، تم تو پکڑ کر بیٹھ گئی؟ جیک اسے تنگ کرنے لگا۔”
کیوں دوں ؟؟ میری چوڑیاں ہیں یہ۔ آیت نے چوڑیوں کو اپنے پیچھے چھپا لیا۔”
نہیں تمہارے پاس یہ پہلے سے ہی ہیں۔ تو یہ چوڑیاں میں سجل کو دے دیتا ہوں۔
شریر آنکھوں سے اس کیطرف دیکھتے ہوئے کہا۔”
یہ لو رکھ لو۔ اور جاکر اُسے ہی دو۔ اب میں کبھی نہیں پہنوں گی کالے رنگ کی چوڑیاں۔
وہ منہ بنائے باہر کیطرف بڑھی۔ اور چوڑیاں جیک کے ہاتھ میں دے دیں۔۔۔۔”
اور اب جا رہی ہوں۔ مجھے نہیں کرنی آپ سے کوئی بھی بات ۔ وہ مایوسی سے جیک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔”
ناراض کیوں ہو رہی ہو؟ جیک نے آیت کا ہاتھ پکڑا اور دروازہ بند کر دیا۔”
تیز رفتار سے دھڑکنیں دھڑک رہی تھیں۔….کہ وہ دروازے کے ساتھ والی دیوار کے ساتھ چپک گئی۔”
جل رہی ہو سجل سے۔ جیک نے شریر نظروں سے اس کیطرف دیکھا۔…آیت کے چہرے پر حسن رنگوں کا حسین امتزاج نمایاں تھا… بے دردی سے ہونٹ کچلتی تو مسلسل نیچے دیکھی جا رہی تھی…”
” نہیں! ”
تو پھر؟ یہ حسد نہیں تو کیا ہے۔ آئی براؤ اٹھا کر جیک مستانہ انداز سے یہ سوال کیا۔”
کچھ نہیں مجھے جانے دیں ۔ جھجھکتے ہوئے آیت نے کہا۔ حیا سے اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔”
چہرے پر جھولتے بالوں کو پیچھے کرتا اسنے اسکے حسین چہرے کا بوسہ لیا… آیت کی تو جان ہی نکل گئی…”
آیت نے اسے ہنستے ہوئے پیچھے دھکا دیا اور جلدی سے دروازے کا ناب گما کر باہر نکل گئی…جیک کا قہقہہ ہوا میں بلند ہوا… ”
—————————- ————————-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب تک واپس آؤ گے؟ جیک کی ماں نے اٌسے روک کر پوچھا۔ جو سعدیہ فروز اور کے ہمراہ لاؤنچ میں بیٹھی تھیں۔
شام تک آجاؤ گا آپ فکر نہ کے۔ ان کو پریشان دیکھ کر جیک نے انہیں فکر سے آزاد کرنا چاہا…”
منع بھی کیا تھا، کے آج کے دن دوست کو منع کر دو۔کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔
کسی اور دن چلے جانا، مگر نہیں کسی کی سنی ہی نہیں، کرنی تو اپنی ہی مرضی ہے۔ شفق بیگم نے اعتراض کرتے کہا۔”
ماما ایسی بات نہیں۔ میں نے کبھی آپ کی کسی بات کو رد نہیں کیا اور یہ بات آپ بھی اچھی سے جانتی ہیں۔ ان کے پاس بیٹھے،جیک ان سے گویا ہوا۔”
بھابی نے اپنے گھر اسلام آباد واپس جانا تھا ایک مہینے کیلئے۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس لیئے آج کا دن بچا تھا اُن کے پاس۔ پیکنک کیلئے۔”
حیدر نے تو مجھے دو ہفتے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔۔۔ لیکن مجھے ہی فری ٹائم نہیں مل رہا تھا ابھی تک۔۔۔۔۔ میں نے ہی اسے روکا تھا۔”
وہ تو روز مجھے پوچھتا تھا کے جب فری ٹائم ہوگا ۔۔ اٌس دن مجھے بتا دینا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔ جیک نے مخصوص انداز میں بتایا۔”
تو تم نے آج کا کہہ دیا اٌسے۔ شفق بیگم نے استفسار کیا۔”
جی! کیونکہ آج میرے پاس فری ٹائم تھا اِس لیئے میں نے اُسے آج کا کہا ہے۔ محتاط انداز میں جیک نے اپنی ماں کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر کہا۔”
چلو ٹھیک ہے دھیان سے جاؤ۔ خدا تمہاری حفاظت کرے۔ کندھے پر پیار سے بھری تھپکی دیتے ہوئے شفق بیگم نے کہا۔۔۔۔”
شفق بیگم بچوں کی طرح جیک کی فکر اور پیار کرتیں تھیں۔ کیونکہ جیک ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔۔۔۔”
ٹائم سے آجانا۔ شفق بیگم نے پھر پیچھے سے جیک کو آواز دی۔۔۔۔”
آج کل کے بچے کہاں کسی کی سنتے ہیں۔ بس وہ وہی کرتے ہیں جو انکو ٹھیک لگتا ہے۔۔۔۔ سعدیہ فروز نے پریشانی میں مبتلا شفق بیگم کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔”
—————————- —————————
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتیں
ہوں۔ اٌس دن بھی بات کرنی تھی لیکن فردوس نے بلا لیا تھا۔ جھجھکتے ہوئے
سعدیہ فروز نےکہا۔”
جی کہیے کیا کہنا چاہتیں ہیں آپ؟ شفق بیگم نے پرجوش انداز سے کہا۔”
اس پر سعدیہ فروز کو بات کرنے میں تھوڑی آسانی پیدا ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
جیسا کہ آپ اچھے سے جانتی ہیں سجل کے پاپا نے آپ سے جیک اور سجل کا راشتہ ان دونوں کے پچپن میں تہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔”
جی میں جنتی ہوں۔ میں نے بھی آپ سے اس بارے میں بات کرنی تھی لیکن مجھے لگا کہ شاید آپ بھول گئیں ہیں، یا آپ اس طرح کی بات کبھی مجھ سے کرنا ہی نہیں چاہتیں ۔ تو مجھے مناسب نہیں لگا کے میں آپ سے یہ بات کر سکوں۔
شفق بیگم ملتجی لہجے میں بات کر رہیں تھیں۔”
ٹھیک ہے مُجھے تو یہ رشتہ منظور ہے۔ اور میں تو اس رشتے سے بہت خوش بھی ہوں۔ شفق بیگم جلدی سے سعدیہ فروز کے گلے لگ گئیں۔”
جانتی ہوں اِس لیئے تو آپ سجل کی اتنی پروا کرتی ہیں۔ خوشگوار انداز سے سعدیہ فروز نے کہا۔”
لیکن میں آپ سے کچھِ پوچھنا چاہتی ہوں۔
سعدیہ فروز نے سوالیہ نظروں سے حیرت سے کہا۔”
جی کہیے۔ شفق بیگم نے گہری سانس لی پھر کہا۔”
کیا جیک کسی کو پسند کرتا ہے؟ سعدیہ فروز پیشانی پے بل ڈالے شفق بیگم کو دیکھ رہیں تھیں۔”
نہیں نہیں میرا بیٹا ایسا نہیں ہے۔ شفق بیگم انہیں مطمئن کرتے ہوئے بولیں۔”
دیکھے آپ ماں ہیں اُسکی، میں نے یہ سوال اس لیے آپ سے پوچھا کیونکہ ہر ماں اپنے بچوں کے کی ہر عادت اور کام سے پوری طرح واقف ہوتیں ہیں۔ پھر لمحے سوچنے کے بعد سعدیہ فروز گویا ہوئیں تھیں۔”
مجھے نہیں لگتا کے جیک کسی کو پسند کرتا ہے۔ وہ اپنے کے حق میں صفائی دے رہیں تھیں۔”
اُس نے مجھے کبھی نہیں بتایا۔
میں جب بھی کہتی ہوں تو وہ اُسی ٹائم گھر واپس آجاتا ہے۔ ہاں کبھی کبھار اگر اُسی دیر ہوجائے
تو میں فوراً فون کرکہ اٌسے بلا لیتی ہوں۔
میرے ایک فون پے وہ بھگتا چلا آتا ہے۔
شفق بیگم استحقاق سے بات کر رہیں تھیں۔”
اچھی بات ہے ہر اولاد کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ خوشگوار انداز سے سعدیہ فروز نے ان کیطرف دیکھتے ہوئے اپنائیت بھرے انداز میں کہا۔”
ویسے آپ نے ایسا سوال کیوں پوچھا۔ شفق بیگم نے حیرت سے کہا۔”
کیوں کے یہ عمر ایسی ہے اس اسٹیج پر اکثر بچے کسی نہ کسی کو پسند کرتے ہیں۔”
میں نہیں چاہتی کے ان پاپا نے اپنی بیٹیاں اتنے لاڈ پیار سے بڑی کی ہیں۔ اور آگے چل کے ان کو درد بھری زندگی گزارنی پڑے، یا ان کو کبھی دکھوں کی اٌن وادیوں میں کھودنا پڑے جس کا کبھی یہ گمان بھی نہیں کرتیں۔ سعدیہ فروز کے چہرے پر فکر مندی کے آثار نمایاں تھے۔ ”
بلکل صحیح سوچتی ہیں آپ۔
شفق بیگم نے ان کی بات پر اتفاق کرتے ہوئے کہا۔”
اگر آپ کی اجازت ہے۔ تو میں آج جیک کی برتھ ڈے کے موقع پر سجل اور جیک کے رشتے کا اعلان کر دوں۔ ”
سعدیہ فروز کی خوشی کا جیسے کوئی ٹیکانا نہ رہا ہو۔ وہ نجانے کب سے اس لمحے کی تلاش میں تھیں۔ وہ چاہتیں تھیں کہ بس اب سجل اور جیک کی شادی جلدی جلدی ہو جائے۔۔۔۔”
جی یہ بھی صحیح ہے مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔
جیک کی برتھڈے کے موقع پر اُس کے لئے اِس سے اچھی اور کیا بات ہوگی۔ شفق بیگم نے بھی آنکھوں میں خوشی کی تمنا لئے جلدی سے ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔”
چلیں پھر
وہ دونوں ساتھ باہر کیطرف آرہیں تھیں۔۔۔”
عائشہ دروازے کے باہر کھڑی سب سن رہی تھی۔ ”
وہ گھبراتی ہوئی پیچھے کیطرف ہوئی۔
شکر بچ گئ ۔دل پے ہاتھ رکھے۔ زیر لب بولی۔”
وہ ان دونوں کی باتیں سُن کر نہایت پریشان دکھائی دے رہی تھی اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ آیت کو یہ سب باتیں کیسے بتائے ۔ ”
کیا ہوا بہت اُداس لگ رہی ہو۔ ماما نے دانٹ دیا ہے کیا؟ آیت پانی بوتل فریج سے نکال رہی تھی کہ عائشہ اس کے پاس کچن میں آکھڑی ہوئی۔”
عائشہ کو مایوس دیکھ کر آیت نے یہ سوال اس سے پوچھا۔”
عائشہ اس وقت بلکل گم سم تھی۔
اٌسے اٌن کی باتوں کے ایسے جھٹکتے لگے کہ وہ آیت کو کچھ نہیں بتا پا رہی تھی۔ کہ آیت کہیں اسے غلط نہ سمجھے۔”
نہیں، نہیں بس ویسے ہی۔ نم لہجے میں اٹکتے ہوئے وہ بمشکل بولی۔۔”
وہ اس بات واقف تھی کہ آیت، جیک کے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔۔۔۔
وہ آیت کو کبھی بھی بکھرتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔”
سنو! تم جب سے جیک کے کمرے سے ہوکر آئی ہو۔ تم تب سے خوش دکھائی دے رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ۔
تب سے ہلکا ہلکا مسکرا رہی ہو تم۔
عائشہ نے بات بدل دی۔”
بات تو کوئی بھی نہیں ۔۔۔ آیت نے مسکراتے ہوئے کہا۔”
آیت ایک بات پوچھو؟ اگر تمہیں برا نہ لگے تو۔ عائشہ کو لہجہ دھیما تھا۔ ”
ہاں ہاں پوچھو، بھلا مجھے کیوں برہ لگے گا۔”
آیت نے گلاس سائیڈ پے رکھا۔ اور بے نیازی سے عائشہ کو دیکھنے لگی۔
ہممممم”
کیا ہممم؟ اب چُپ کیوں ہو پوچھو جو پوچھنا چاہتی ہو۔ آیت اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر الجھ رہی تھی اٌسے شک ہورہا تھا کہ عائشہ کوئی خاص بات دل میں دبائے بیٹھی ہے۔ وہ کچھ تو آیت سے کہنا چاہتی ہے لیکن وہ کہہ نہیں پارہی ۔۔۔”
فرض کرو اگر جیک سے تمہاری شادی نہ ہوئی تو؟ تحمل لہجے سے عائشہ نے کہا۔”
یہ کیا بات ہوئی؟ آیت نے درشت آواز میں کہا۔”
اگر اس کی شادی کسی اور سے ہوگئ تو؟
عائشہ نے ایک اور سوال آیت سے پوچھا۔”
یہ کیسے عجیب سا سوال ہے آپی۔
آیت عائشہ کو گھورنے لگی”
آیت کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔۔
اس کے دل میں ایک الگ ہی ڈر پیدا ہو رہا تھا۔”
عجیب سوال نہیں ہے میں بس تم سے پوچھ رہی ہوں۔ عائشہ نے سنجیدہ لہجہ اختیار کیا”
” نہیں آپی،،، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔
آیت نے رونا شروع کر دیا۔”
” تم رو رہی ہو؟ عائشہ کی آنکھوں میں بھی اس وقت پریشانی جھلکتی ہوئی نظر آرہی تھی۔۔”
نہیں آپ جائیں یہاں سے۔ آیت نے عائشہ کو پیچھے دھکیلا۔۔۔”
” اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی میری خوشیوں سے جلتی ہیں۔ شکوے سے بھرپور نظروں سے وہ عائشہ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
شکوے سے بھرپور نظروں سے وہ عائشہ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔”
” میں کیوں جلوں گی تم سے؟؟؟؟ اداس لہجے میں عائشہ نے کہا۔
میں نے بس سمپل سا سوال کیا ہے تم سے۔
تم جواب دینے کی بجائے تم خفا ہو رہی ہو مُجھ سے۔”
” اچھا آنسو صاف کرو۔ عائشہ کی آنکھیں بھی نم ہورہیں تھیں”
” آپکو کو جتنی فکر میری،وہ ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جاؤ یہاں سے، مجھے نہیں کرنی آپ سے بات۔ عائشہ کو جس بات کو ڈر تھا وہی ہوا تھا آیت اس وقت عائشہ کو دشمن کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ ”
” عائشہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بہن کے دل میں اس کے لیے بدگمانیاں پیدا ہوجائیں۔”
” آیت یقین کرو میری بات کا میں تمہاری دشمن نہیں ہوں۔ وہ بےیقنی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ عائشہ کو اس کی بہت فکر ہورہی تھی۔ وہ اسے بروسا دلانا چاہتی تھی کہ وہ اس وقت غلط نہیں ہے۔”
” دشمن نہیں ہیں تو کیا ہیں؟ آیت نے چلا کر کہا۔۔۔۔”
” یہ سوال پوچھنے والا تھا؟جو آپ نے
مجھ سے پوچھا ہے۔؟ آیت نے بڑی تکلیف سے اپنے آنسو صاف کیے۔۔۔”
” جب کے آپ اچھے سے واقف ہیں کے میں اس طرح کی بات بلکل بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ نفی میں سر ہلا کر اس نے کہا۔”
” ٹھیک ہے میں کوئی سوال نہیں پوچھتی میں تم سے۔ خدا کے واسطے تم خفا نہ ہو مُجھ سے۔ عائشہ نے اس کے آنسو صاف کیے۔۔اور اس نے آیت کو گلے لگایا۔۔۔”
” اچھا چلو آؤ مل کر کھانا بناتے ہیں دونوں۔”
” عائشہ نے اسے چپ کرنے کو کہا۔۔
اور اس کا دھیان بٹانے کیلئے، اس کو اپنے ساتھ کچن میں بیٹھا لیا۔”
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...