دعا ۔ نمرہ نے ناک کر کے پکارا
ہاں؟ آجاؤ۔لیپ ٹاپ پر کام کرتی مصروف سی بولی
تم فری ہو کیا؟ ایک بات کرنی تھی۔ وہ جھجھکی
بیٹھو کہو۔سامنے اشارہ کیا
کیا مجھے کیس کرنا چاہیے اپنا سب واپس لینے کے لیے؟۔ نمرہ الجھن سی بولی
خاموش رہنے سے بہتر ہے جو اپنا ہے وہ واپس لو۔ لیپ ٹاپ ہابرنیٹ کرتے اسے دیکھا۔
لیکن کیسے؟ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولی۔
حقوق نسواء کے تحت ۔ ۔ ۔ ریپورٹ کر دو آپ کے ساتھ جو بھی ہوا۔ دعا نے اس کے ہاتھ پر دباؤ بڑھا کر اسے تسلی دی۔
تھینکس دعا۔ نمرہ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔
دعا ایک اور بات کہوں۔ واپس بیٹھتے بولی۔
ہممم۔ دعا مسکرائی
کیا میں کچھ ہلپ کر سکتی ہوں۔ نمرہ انگلیاں مڑوڑتے بولی
کیسی ہلپ؟۔ دعا نے آنکھیں سکیڑیں۔
گوہر اور آپ کے ردمیان کوئی۔ ۔ میرا مطلب ۔ ۔ وہ الجھن سے دھیرے دھیرے بولی
مجھے ہلپ کی ضرورت ہوئی تو ضرور کہوں گی گڈ لک ۔ ۔ اپنی بات مکمل کر کے وہ اٹھ گئی۔
کیسی ہو دعا ؟ وہ دعا کے پاس بیٹھتے بولیں۔
میں ٹھیک ہوں ۔ دعا مسکرائی
یہ دیکھو زرا ۔اپنا موبائل دعا کی طرف بڑھایا
یہ ؟ دعا سوچنے لگی
میرا بھائی ہے چھوٹا ارتضٰی۔ انہوں نے یاد دلایا
رضوان بھائی کا پوچھنے آیا تھا یاد آ گیا مجھے ۔ دعا کو جھٹ سے یاد آیا۔
ہمممم۔ ۔ ۔ کیسا لگا؟ موبائل واپس کرتے دعا کو غور سے دیکھا۔
ما شااللہ اچھاہے۔
دعا اس میں ایک ہی پرابلم ہیں۔ وہ سرجھکائے بتانے لگیں
کیا؟دعا حیران ہوئی۔ دیکھنے میں تو کوئی پرابلم نہیں تھی
بچپن سے ہی اس کا سر سفید ہو گیا کافی زیادہ اس وجہ سے وہ کافی احساس کمتری کا شکار ہو گیا۔۔ اس لیے باہر چلا گیا۔
یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے بھابی ۔ ویسے آپ مجھےکیوں بتا ری ہیں ۔ ؟
میں تم سے۔۔ ۔ دیا کا۔ ۔ ہاتھ مانگنا چاہ رہی تھی اپنے بھائی کے لیے۔ وہ پریشان سے گویا ہوئیں۔ وہ سیچوئیشن کو سمجھ سکتی تھیں جس سے دعا گزر رہی تھی۔
سعودیہ میں ہوتا ہے اپنا گاڑیوں کا شو روم ہے اس کا وہاں ۔ اس سال کچھ چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔وہ کھٹ سے ڈیٹیلز بتانے لگیں۔
بھابی آپ جانتی ہیں نا پہلے بھی رشتہ ختم ہو گیا وجہ آپ پہلے اسے بتا دیں پھر میں امی سے کہو گی۔
کونسی وجہ ؟
دیا کی دوست گھر والوں نے اس کے خلاف الزام لگایا تھا خیر وہ بعد میں ہٹ گیا لیکن اس کا پیچا ابھی تک کررہا ہے۔ میں نے پہلے ان لوگوں کو معمولی بات سمجھ کر نہیں بتایا تو کسی نے بتا کر وہ رشتہ ختم کروا دیا۔
کس نے؟ وہ حیران ہوئیں
کچھ اپنے ایسے ہوتے ہیں جو جس کے سامنے بیٹھتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں اور جو ان کی نظروں کےسامنے نہیں ہوتے ہیں وہ ان کےسب سے بڑے دشمن بن بیٹھتے ہیں۔ ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا ہم کتنے ایسے دشمنان دوست سے گھرے ہوتے ہیں۔ دعا افسردگی سے بولی
دعا اس میں دیا کی غلطی نہیں ہے لیکن میں پھر بھی اس سے بات کرتی ہوں دعا اسے کوئی ایشو نہیں ہوگا۔ وہ پر امید لہجے سے بولیں۔
بھابی برا مت مانیے گا۔ کیا آپ اسے یہاں بلا سکتی ہیں ؟ دعا کو لگا پہلے اس سے بات کر لے پھر ہی زرینہ بیگم سےبات کرے گی۔
میں کہو گی اس سے ۔ ۔ ۔ اس میں برا مانےوالی کیا بات ہے تمہیں حق ہے چھان بین کرنے کا
اسلام علیکم ماما کب آئے آپ لوگ ۔ آفس سے واپس آتے ہی شمائلہ بیگم کو دیکھتے خوشی سے بولا۔
چار بجے ۔ شمائلہ بیگم کا چہرا از حد سنجیدہ تھا
آپ کال کر دیتیں میں جلدی آ جاتا اور ائیر پورٹ سے پک کر لیتا۔ وہ آگے بڑھا۔
گوہر ۔ اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا
جی۔ وہ مسکرایہ اور بیٹھ گیا۔
آپ کے اور دعا کے درمیان کوئی پرابلم چل رہا ہے؟ وہ مسلسل اسے گھور رہی تھیں
نہیں تو۔ وہ جلدی سے بولا مگر اندر سے گھبرایا تھا
آپ جھوٹ کب سے بولنے لگے ہیں؟ وہ اپنی نشست سے کھڑی ہوئیں
میں سمجھا نہیں۔ گوہر نے ہڑبڑا کر چہرا اٹھایا
شمائلہ بیگم نے ایک لفافہ اس کے ہاتھ میں رکھا
یہ کیا ہے؟ وہ کھول کے دیکھنے لگا۔
گوہر ۔ ۔ ۔ وہ اسے کے عین سامنے آئیں
نہیں ۔ ۔ نہیں کر سکتی وہ ایسا ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ وہ الٹے قدموں تیزی سے خلع کے پیپرز اٹھائے سیدھا دعا کے گھر بھاگا
دعا کیا بکواس ہے یہ۔ پیپرز لاؤنج میں پڑھی شیشے کی ٹیبل پر اس کے سامنے پٹخے۔
وہی جو آپ چاہتے تھے۔ دعا لاپرواہی سے اٹھی۔
میں چاہتا ہوں؟ تبھی تم نے یہ خلع کی ہماقت کی ہے؟ غصے سے اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ دعاکو ایک تھپڑ رسید کرے۔
میں آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتی۔ آپ جیت گئے اور میں ہار گئی۔ جائیں جا کر کر لیں جس سے شادی کرنی ہے۔ وہ اٹھ کر مڑی۔
دعا تم غلطی کر رہی ہو۔ مجھے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا تو وقت دو۔گوہر تیزی سے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا
وقت؟ تا کہ آپ میرے رشتوں کو مزید نقصان پہنچائیں۔ وہ تلخ لہجے میں گویا ہوئی
خدا کے لیے دعا۔ وہ بے بسی سے دیکھنے لگا۔
میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ لیو می آلون۔ نفرت ہے مجھے آپ سے۔ وہ ہاتھ جوڑ کے نم آنکھوں سے بولی
Okay fine! To hell with you and this damn relation.
دعا کی ہٹ دھرمی سے اس کا صبر جواب دے گیا وہ مزید برہم ہوا۔
کسی کے گرنے کی آواز پردونوں چونک کر مڑے۔
امی۔ ۔ ماں کو گرتے دیکھ وہ ان کہ طرف لپکی۔
امی ۔ ۔ امی آنکھیں کھولیں پلیز۔ ۔ ۔
دعا انہیں اسپتال لے کر جانا پڑے گا۔ گوہر نے جلدی سے انہیں اٹھایا
تمہارا کھیل ختم ہوا خرم۔ بغیر ناک کیے وہ دروازہ کھول کر اس کے سر پر آ کھڑی ہوئی۔
اوہ مجھے لگا تمہیں ڈھونڈنے میں کافی وقت لگانا پڑے گا۔ مگر تم تو خود ہی آگئیں۔ وہ کرسی سے اٹھا۔
مجھے تو آنا ہی تھا۔ وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر لھڑی ہوئی۔
چلو آؤ بیٹھو۔ مل کر حل سوچتے ہیں۔ آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا
وہ وقت گیا خرم جب میں تمہاری باتیں سنتی تھی۔ خرم کا ہاتھ جھٹک کر پیچھے ہٹی
نمرہ ڈئیر آپ کہ پوزیشن ابھی بہتر نہیں ہے چلو گھر جا کر بات کرتے ہیں۔ وہ مسکرا کر اپنے کوٹ کو جھٹک کر بٹن بند کرنے لگا۔
میری پوزیشن کیا ہے ابھی پتا چل جائے گا۔ جب میں سب کو بتاؤں گی تم نے میرے ساتھ کیا کیا۔ وہ نڈر انداز سے بولی
ہاہاہا۔ ایک بات بتاؤں ۔ ۔ ۔ کوئی یقین نہیں کرے گا پورے آفس کو پتا ہے عرفان صاحب کی موت نے تمہیں پاگل کردیا ہے اور پاگل تو کچھ بھی بول دیتے ہیں۔ وہ ہنستے ہنستے بولا۔
لیکن پولیس میری بات پر یقین کرے گی۔ خرم کی ہنسی اسے سلگا گئی تھی۔
اس تک پہنچنے دوں گا تو تم جاؤگی نا۔ خرم نے جھٹ سے آگے بڑھ کر اسے دبوچا۔
میں پولیس۔ ۔ ۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتی خرم نے ایک ہاتھ سے اس کے منہ کو بند کیا۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی اگلا قدم اٹھاتا۔کسی نے اس کے سر پر ریوالور تانی۔
لڑی کو چھوڑو ورنہ اس کی گولی تمہارے بھیجے کو چیرتی ہوئے نکلے گی اور اگلی سانس تمہیں نصیب نہیں ہوگی۔ پولیس کے ساتھ ساتھ آفس کے ملازمین بھی روم میں جمع ہوگئے۔
نمرہ ہانپتی ہوئی ہٹی۔ سر شکریہ مجھ پر یقین کرنے کا۔ امید ہے اس حرکت کے بعد مزید کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اس نے مجھے ڈرگز بھی دی تھیں اور یہ بات میری رپورٹ سے بھی ثابت ہو جائے گی۔
آپ بے فکر رہیں محترمہ آپ کو پورا پوراانصاف دیا جائے گا۔ خرم کو ہتھکڑی پہناتے بڑے اطمنان سے بول کر اسےلے جانے لگے
سر میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں؟ آفس کے پیون نے سر جھائے فریاد کی۔
بولو۔ انسپکٹر نے خرم کو حولداروں کے حوالے کیا۔
سر ۔ ۔ انہوں نے ۔ عرفان صاحب کو۔ ۔ ۔ ۔ مارا ہے ۔ ۔ وہ ڈرتے ڈرتے بولا۔
یہ ۔ ۔ یہ ۔ ۔ بکواس کر رہا ہے۔ خرم نے کچھ بولنا چاہا۔ مگر انسپکٹر کے ایک تھپڑ نے اس کی بولتی بند کر دی۔
سر اس دن انہوں نے کافی منگوائی تھی میں جب لے کر جانے لگا تو یہ ان کے کمرے سے نکلے تھے۔ میں جب اندر گیا تو وہ سانس کی پوابلم میں تھے میں ان کے انہیلر ڈھونڈنے لگا تو وہ کہنے لگے کہ خرم صاحب دھوکے باز وہ لے ۔ ۔ اس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔
تو آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ نمرہ نم آنکھوں سے بولی۔
بی بی جی میں آپ کے گھر آیا تھا مگر آپ کسی سی ملی نہیں۔
تو آپ پولیس کو بتا سکتے تھے نا۔ انسپکٹر نے اسے گھورا۔
میں غریب آدمی ہوں گھر میری آمدن نے ہی چلتا ہے یہ خطرہ مول لینا میری اوقات سے باہر تھا۔ وہ سر جھکا کر بولا
میں قتل کا کیس بھی کرنا چاہتی ہوں۔ نمرہ خرم کے سامنے کھڑی ہوئی۔
بالکل لیکن اپنے پیون سے کہیں وہ ہمارے ساتھ چل کر بیان رہکارڈ کروائے۔
ج۔ ۔ جج۔ ۔ جی ۔ ۔ میں۔وہ ایک دم گھبرایا
بے فکر رہیں آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ انسپکٹر نے اسے کندھے کودبایا۔
رکو سٹیچر منگواتا ہوں میں۔ آگے بڑھا وارڈ بوائے سے سٹیچر کا کہا
دعا پلیز رونا بند کرو۔ گوہر یہاں وہاں دیکھا رہا تھا کچھ ہی لمحوں میں ایک وارڈ بوائےسٹیچر لایا اس کا ساتھ مل کر زرینہ بیگم کو گاڑی سے سٹریچر پر منتقل کیا دونوں سٹریچر کے ساتھ ساتھ تیز چلنے لگے۔۔
سر پلیز انہیں دیکھ لیں۔ ایک ڈالٹر کو پاس سے گزرتا دیکھ وہ بولا۔
ڈاکٹر واپس مڑا۔ زرینہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا۔
سوری شی از نو مور۔ وہ کہہ کر مڑا۔
گوہر نے ساتھ دعا کو دیکھا جو ایسے کھڑی تھی جیسے کوئی مجسمہ ہو۔ گوہر نے دعا کو کندھے سے پکڑا ہی تھا کہ وہ جوں کی توں زمین بوس ہوئی۔
ڈاکٹر اور وارڈ بوائے واپس مڑے اسے اسے ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے۔
جب انسان سے انچاہا کوئی کام ہو جائے جس سے وہ کسی کو دکھ پہنچائے تو وہ اسے گناہ سمجھنے لگتا ہے وہ گناہ کسی پل اسے چین نہیں لینے دیتا۔ کوئی دوسرا عمل اس بے چینی کو کم نہیں کر سکتا۔ یہ صاف دل۔والوں کی نشانی ہے۔
وہ بے چین تھی خود کو بھی اسی سے مزید پریشان کر رکھا تھا اس نے دعا کا دل دکھایا تھا۔ بیڈ کے کراؤن سے سر ٹکائے اسی کشمکش میں پڑی تھی کہ وہ شیری کو بتائے یا نہیں۔
شیری کو بتانے سے وہ کیا ری ایکٹ کرے گا وہ جانتی تھی۔ وہ اسے کھونے سے بھی ڈرتی تھی۔
زی کیا ہوا؟ شیری نے سے کچھ دینوں سے گم سم دیکھا تھا مگر اگنور کیا لیکن اس کی خاموشی میں توالت دیکھ کر بول پڑا۔
زی نے سر اٹھایا تو آنکھیں نم تھیں۔
طبیعت خراب ہے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔ شیری زی کے سامنے ہی بیٹھ گیا۔
ٹھیک ہوں میں۔ ۔ ۔ نظریں ملا نہیں پائی۔
پھر کیا بات ہے کیوں پریشان ہو؟۔ شیری نے گود میں رکھا اس کا ہاتھ پکڑا۔
شیری مجھ سے ایک غلطی ہو گئی۔ وہ نظریں جھکائے بولی
کیا؟۔ وہ حیران ہوا اس کی سنجیدگی دیکھ
تم مجھے معاف کر دو گے؟ زی نے نظریں اٹھائیں
یار پہیلیاں مت بھجواؤ میں پہلے ہی دعا کی وجہ سے پریشان ہوں۔
مل لیتے۔
نا آفس آتی ہے نا فون اٹھاتی ہے۔ گھر جاؤ تو ہوتی نہیں۔ کیا کرو سارا کام بکھرا پڑا ہے۔ ۔ ۔
مجھے معلوم ہے وہ آفس کیوں چھوڑ رہی ہیں۔
کیا؟ وجہ بتاؤ کیوں کر رہی ہے وہ ایسا۔
میں ہوں وجہ۔ وہ شرمندگی سے پھر نظریں جھکا گئی
کیا مطلب؟ وہ الجھن سے بولا
وہ۔ ۔ ۔ اتنے شیری کا فون بجنے لگا
ایک منٹ گوہر کا فون ہے۔ جیب سے فون نکال کر دیکھا
ہیلو۔دوسری طرف کی بات سن کر اسے شاک لگا
وٹ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے آتا ہوں میں۔ وہ جھٹ سے اتھا
کیا ہوا؟ زی بھی کھڑی ہوئی
وہ زرینہ آنٹی کی ڈیتھ ہو گئی۔ وہ الجھن سے بولا جیسے یقین نہ آیا ہو۔
کیا؟ زی نے منہ پر ہاتھ رکھا
تم آنٹی انکل کو اور رضوان کو کال کر کے دعا کے گھر جاؤ۔ میں ہسپتال جا رہا ہوں۔ وہ کہہ کر تیزی سے نکلا
گوہر ۔ ۔ شیری نے آگے بڑھ کر کندھا تھپتھپایا۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا شہریار۔ وہ بالوں میں بار بار انگلہاں چلاتا چکر کاٹ رہا تھا
باڈی میں کلکٹ کر لیتا ہوں۔ دعا کو کیسے بتاؤ گے؟ اسے دعا ا خیال آیا۔
شیری وہ آنٹی کا سن کے بے ہوش ہوئی ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ڈاکٹر نے بولا ہے کہ اسے نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے اب تک بے ہوش ہے۔ اس کی آواز اس کے اصطراب کو ظاہر کر رہی تھی۔
کیا؟ وہ سر پکڑ کے رہ گیا۔
اچھا تم دعا کے پاس رکو میں اور رضوان سب سنبھال لیں گے۔
امی ۔ ۔ ۔ امی۔ ۔ وہ نیم بے ہوشی سے یک دم چلاتے اٹھی
دعا ۔ ۔ کیا ہوا۔ ۔ ۔ وہ جلدی باہر ڈاکٹر کو انفارم کرنے بھاگا تین دنوں کے بعد آج وہ ہوش میں آئی تھی۔
ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد اسے ٹرینکولائزر دیا اور مڑ کر گوہر کو مخاطب کیا۔
ہوپ فلی اب جلدی ریکور کر لیں گی مگر آپ کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ انہیں مزید کوئی سٹریس نہ پہنچے۔
جی۔ نظریں دعا پر جمی تھیں۔
دعا پلیز ٹھیک ہو جاؤ۔ میں تمہیں ایسے نہیں دیکھ سکتا۔ ڈاکٹر کے جاتے ہی وہ ضبط کھو کر بولا
اس کا ہاتھ تھا مے کب سویا اسے پتا نہیں۔ کسی کت جھٹکے سے آنکھ کھلی تھی۔دعا نے غصے سے ہاتھ جھڑوایا وہ ہڑبڑا کر اٹھا
دعا تھینک گاڈ تم ہوش میں آ گئی۔ وہ ایک دم اس انداز میں خوشی سے بولا جیسے دونوں میں گہری دوستی ہو۔
آپ یہاں۔ ۔ وہ سر کو پکڑے ہلکی سی آواز میں بولی
میں وہ۔ ۔ ۔ وہ الجھا
میری امی۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ وہ کہاں ہیں ۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگی
دعا وہ۔ ۔ ۔ گوہر کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا کرے
ڈاکٹر نے دسچارج کر دیا ہے تمہارے ہوش میں آنے کا ویٹ کر رہا تھا میں۔ وہ سنبھل کر بولا
گوہر میری امی۔
تم بولنے دو گی تو بتاؤ گا نا۔ اب پہلے گھر چلو پھر بتاتا ہوں۔ وہ اسے یہ نہیں بتا سکا کہ انہیں ان کی آخری آرام گاہ پہنچا دیا گیا ہے۔
گوہر۔ وہ اٹھتے پھر سے گرنے لگی تو گوہر نے سہارا دیا۔
پلیز دعا۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی۔ اسے گاڑی میں بٹھا کر واپس آیا ڈاکٹر سے ملا ڈسچارچنگ پیپرز لیے بل کلیئر کیے۔
دعا تم پھر سے رو رہی ہے۔ واپس گاڑی میں بیٹھتے دعا کو روتےدیکھا۔
آپ کو میری تکلیف کا اندازہ نہیں ہے گوہر۔ وہ جھٹ سے بولی
دعا مجھے ہے۔ ۔ ۔ گوہر نے کچھ کہنا چاہا۔
ماں مر گئی ہے میری۔ آپ اس تکلیف کو نہیں سمجھ سکتے گوہر۔۔
وہ جو کھو گیا ہے حصہ میرا ؎
اسے کھوج رہی ہوں لمحہ لمحہ
ہر رشتے کی کمی وقت کسی نہ کسی طریقے سے پوری کر دیتا ہے۔زندگی ہر رشتے کا نعم البدل دے دیتی ہے سوائے ماں کے رشتے کے۔ یہ جب بچھڑ جائے تو کوئی اس کی کمی پوری نہیں کر سکتا نہ وقت نہ لوگ نہ خوشیاں۔
دعا ناشتہ لگ گیا ہے۔ گوہر کی آواز پر چونک کر مڑی
مجھے نہیں کھانا۔ وہ دن میں ایک دفعہ ضرور آتا تھا۔ اب وہ چڑنے لگی تھی۔
مت کھاؤ میں ان بچوں کو کہہ دیتا ہوں بھوکے ہی چلے جائیں سکول مجھے کیا جب تمہیں ہی فکر نہیں۔ وہ کہہ کر مڑ گیا۔
ائینگ ٹیبل پر دونوں اسے ہی دیکھ رہے تھے
منع کر دیا نا دعا نے؟۔ دیا نے منہ بسوڑا۔ اسے دعا کا گوہر کو یوں نظر انداز کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔
نہیں آرہی ہے وہ۔ ۔ ۔ وہ خاموشی سے دانی کے پاس بیٹھ گیا۔ دانی بھی اپنی بہن کی طرح خاموش سا ہو گیا تھا اب نہ کھیلتا نہ بات کرتا۔
اسلام علیکم ۔ ۔ دعا نے سلام کیا اوردیا کے ساتھ بیٹھ گئی۔
دیا نے گوہر کی طرف دیکھ کر ایسے منہ بنایا جیسے کہا ہو۔ واہ کیا بات ہے آپ کی۔
گوہر مسکراہٹ دبا گیا۔
بہت غصہ ہوں میں تم سے ۔ شیری نے اسے گم سم بیٹھے دیکھ جتا کر کہا
دعا کچھ بھی بول نہیں سکی۔
کر کیا رہی ہو تم اپنے ساتھ؟ شیری نے اب کھنکار کر کہا
شہریار کیا بول رہے ہو۔ وہ الجھی
مجھ سے ناراض ہو کیا؟ چتون سکیڑے پوچھا
نہیں۔ وہ سر جھکا کر بولی
تو پھر کیا ہے یہ سب؟ آفس کیوں نہیں آرہی؟ شیری نے جیسے یاد دلایا
میرا دل نہیں چاہتا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولی
یہ کیا بات ہوئی۔ وہ حیران ہوا
میں تنگ آ گئی ہوں نائن ٹو سیکس جاب سے ۔ ۔ بے جان وجہ بنائی
دعا ۔ ۔
پلیز فورس مت کرو۔ سر جھٹک کر بولی
اچھا میں کوئی حل سوچتا ہوں۔۔ ۔ ۔ سر پر انگلی رکھے سوچنے کے انداز میں بولا
تم نے اور زی نے مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ زی کا خیال آتے ہی بولا
زی ۔ ۔ کیا ہوا اس کو؟ وہ حیران ہوئی
پریشان ہے۔۔ ۔ ۔ کچھ کہنا چہتی ہے مگر بتا نہیں پا رہی سمجھتی ہے میں ناراض ہو جائوں گا۔ رات کو بھی مجھے لگا وہ روئی ہے۔ تم پوچھوں شائد تمہیں بتا دے۔ تفصیل بتانے لگا
اس سے کہنا مجھ سے ملے۔ دعا مسکرائی۔
پتا ہے کبھی کبھی مجھے لگتا تھا گوہر کے لیے میرا سوچنا غلط تھا۔ شائد میں تمہیں جس طرح خوش دیکھنا چاہتا تھا تم کبھی مجھے اتنا خوش نہیں دکھیں۔ لیکن گوہر نے جیسے سب کو سنبھالا ہے آنٹی کے بعد میں اور بابا بہت مطمئن ہیں۔ وہ اپنی رو میں بول رہا تھا۔
دیا۔ گوہر نے اسے اکیلا گھومتے دیکھ گاڑی پاس روک کر پکارا
ج۔ ۔ جی۔ وہ ایک دم گھبرا گئی۔
اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو تم۔ وہ گاڑی سے باہر نکلا
وہ۔۔ ۔ میں۔ وہ ہڑبڑائی۔
دیا چلو گھر چھوڑ دوں تمہیں۔ گوہر نے حکمیہ انداز سے کہا
نہیں مجھے ایک کام ہے۔ میں چلی جاؤں گی۔ وہ رک رک کر بولی
کیا کام ہے بتاؤ۔ گوہر نے چتون سکیڑیں
مجھے ٹی۔سی ایس آفس جانا تھا۔ اسے بتانا پڑا
اچھا بیٹھو۔ اسے بیٹھنے کا بولا کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ اب فرار کا کوئی طریقہ نہ تھا سو چپ چاپ بیٹھ گئی لیکن اس کا پورا دھیان باہر دیکھنے میں تھا۔
گوہر بھائی ۔ ۔ ۔ روکیں ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ والا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا چلتی گاڑی سے کود جائے۔
تم نے جاسوسی شروع کر دی ہے؟ اس کے ہاتھ میں لیٹر دیکھ وہ ہنسا
بھائی یہ کسی نے بہت غلط نیت سے کیا ہے۔ رکیں ۔ ۔ رکیں۔ وہ پیچھے چلا گیا ٹی۔سی ایس۔
اچھا اچھا ایک منٹ۔ گوہر نے گاڑی روکی۔ دیا تیزی سے نکلنے لگی۔
رکو میں پتا کر کے آتا ہوں۔ ہاتھ اٹھا کر روک ک اندر بڑھا۔
جی نہیں میں بھی آؤں گی۔ وہ منہ بسوڑ کر بولی۔ گوہرسر جھٹ کر اثبات میں ہلایا۔
ہو نہ پھر اس ازلی ضدی کی بہن۔ ۔ ۔
دونوں تیزی سے اندر بڑھے۔
سر یہ لیٹر آپ کے ٹی۔سی ایس سےڈیلیور ہوا ہے ہمیں اس سینڈر کی ڈیٹیلز چاہیے۔ گوہر نے لیٹر دیا سے پکڑ کر اس کی طرف بڑھایا۔
آپ کو یہ انفارمیشن کیوں چاہیے؟ لڑکے نے حیرانگی سے پوچھا
یہ دراصل مجھے لیٹر آیا ہے مگر کچھ چیزیں مسنگ ہیں تو اس لیے ان سے رابطہ کرنا ہے۔ ۔ دیا نے جھٹ سے بولا
دیکھیں ہم۔انفارمیشن نہیں دے سکتے۔ لڑکا نے معذرت طلب لہجے میں کہا۔
دیا تم زرا باہر جاؤ میں اپنے طریقے سے پوچوں گا۔ گوہر نے دیا کو گھورا۔
مگر ۔
گاڑی میں جاؤ۔ گوہر نے غصے سے کہا۔
دیا گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔ مگر دل بار بار پریشانی سے باہر آنے کو بے تاب تھا۔ کوئی بیس منٹ کے بعد گوہر واپس آیا۔
مل گیا۔ لیکن صرف نمبر ہے۔ گوہر نے نمبر والا کاغذ دیا کی طرف بڑھایا۔
ڈائل کریں نا۔ دیا نے نمبر پکڑ کے دھرایا
گوہر نے نمبر ڈائل کیا۔ گوہر نے فوراً ڈائل کیا
یہ تو سیو ہے آپ کے پاس۔ ماہی کون؟۔ دیا فون کو دیکھ کر بولی۔
ماہ جبین۔ گوہر کے اعصاب تن گئے۔
دیکھا کہا تھا میں نے دعا کو۔ پتا چلے گا نا پھر شرمندہ ہوگی اور سوری بولے گی۔ وہ پر جوش سی بولی
دیا ماہی کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں۔ گوہر شرمندہ ہوا۔
ایسا تو نہ کہیں ۔ وہ افسردگی سے بولی۔
مگر وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں۔ ۔ ۔ وہ بڑبڑائی۔
گوہر نے فون واپس رکھا اور ڈرائیو کرنے لگا۔
گھر آ گیا۔ دیا کی طرف دیکھا۔
اللہ حافظ۔ اپنا خیال رکھیے گا گوہر بھائی۔ ابھی دعا کو بتاتی ہوں۔ تھینکس فار لفٹ۔وہ گاڑی سے باہر نکلی
دیا دعا سے مت کہنا کہ میں یہ جانتا ہوں۔ گاڑی سے باہر نکلتے بولا۔
کیوں؟ وہ واپس مڑی
میں چاہتا ہوں غلط فہمی دور ہو مگر یہ نہیں چاہتا کہ وہ شرمندہ ہو۔ گوہر نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے کہا۔
اب آپ اسے لے جائیں گے؟ وہ رکی
نہیں۔ پہلے تمہاری شادی ہو جائے پھر دعا اور دانی کو لے جاؤں گا۔ وہ مسکرایہ
آپ بہت اچھے ہیں گوہر بھائی۔
کہاں تھیں۔ دعا نے اسےپانی پیتے دیکھ سوال کیا
وہ میں۔ ۔ وہ چونکی
گوہر یہاں کیا کر رہے تھے؟ گوہر کی گاڑی دیکھ چکی تھی
دعا گوہر بھائی نے امی کے بعد کتنا خیال رکھا ہمارا اب بھی تم۔ دیا نے تنگ آ کر کہا
بس کر دو دیا پلیز میں کچھ بھی نہیں سننا چاہتی گوہر کے بارے میں۔ دعا نے بولنے سے روکنے کو کہا۔
وہ لیٹر گوہر نے نہیں ماہ جبیں نے بھیجا تھا۔ میں ٹی۔سی۔ایس سے پتا لگایا ہے۔ دیا سامنے چلتے ہوئے آئی
وہ لیٹر ۔ ۔ دعا بڑبڑائی
ہاں دعا وہ مہ جبیں نے پوسٹ کیا تھا۔ ۔
وہ۔ ۔ ۔ گوہر کی رائیٹنگ کاپی کر سکتی ہے؟ دعا خود سے بڑبڑائی۔
ہو سکتا ہے یا پھر اس نے کسی سے کاپی کروائی ہو۔ یہ کوئی مشکل بات تو نہیں ہے نا۔ دیا نے کندھے اچکائے
دعا ساکن سی ہو گئی۔
اب گوہر بھائی سے سوری بولو گی؟ دیا اسے ٹٹولا
گوہر کو۔ ۔ ۔ یہ بات۔ ۔ پتا ہے؟
نہیں ۔ ۔ ۔ وہ تو راستے میں ملے تھے لفٹ دی بس۔ اوکے گڈ نائیٹ۔ وہ ہڑبڑا کر بولی اور کمرے سے نکل گئی۔
اس کا مطلب وہ کارڈ۔ ۔ ۔ وہ اس کے آگے کچھ نہیں سوچ سکی۔ اپنی ہی نظروں میں گری تھی۔
الجھی تھی اپنی زندگی میں کچھ اس قدر
کھو گئی کہیں ویرانے میں ذات میری
کہ اب ڈھونڈ رہی ہوں میں دربدر
گھبرا گئی ہوں می اس قدر
چلا رہی ہوں میں ہر پل
کہاں گئی وہ ذات میری
کہاں گئی وہ ذات میری
ماہ جبیں۔ دعا نے ایک تھپڑ رسید کیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی
تم۔ ۔ ۔ دعا نے اس کے طرف بڑھنے والا ہاتھ ہوا منہ ہی پکڑا۔
تم اتنی گر سکتی ہو سوچ بھی نہیں سکتی تھی میں۔ دعا کو شدید غصہ آیا تھا کہ وہ یہ بھی بھول گئی کہ وہ اس وقت اسی کے گھر آئی ہے
کیا بول رہی ہو۔۔ ماہی پیچھے ہٹی۔ دعا کا یہ روپ اسے چونکا گیا تجا
بس کرو۔ تم نے میری بہن کے ساتھ جو کیا وہ میں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔ دعا کا بس نہیں چل رہا تھا وہ دو تین اور تھپڑ لگا دیتی
مجھے تمہاری معافی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ تم نے مجبور کیا مجھے۔ ماہی پر شرمندگی کے کوئی اثار نہیں تھے
تمہارا المیہ یہ ہے کہ تمہیں یہ بھی احساس نہیں کہ تم غلط ہو۔ اس سے بڑی بد بختی کوئی نہیں کسی انسان کے لیے ماہ جبیں کہ اللہ اس کے دل پر کفل لگا دے اور وہ صحیح اور غلط کا فرق بھی نہ کر سکیں۔ ترس آ رہا ہے مجھے تم پر۔ ۔ ۔ دعا نے افسوس سے سر ہلایا
مجھے تمہارے لکچر کی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ وہ کندھے اچکا کر مڑی۔
میں تم پر اپنے مزید الفاظ ضائع نہیں کروں گی۔ تم اس قابل نہیں۔ دعا نے سر جھٹکا
قابل تو تم بھی نہیں ہو گوہر کے۔ ماہی نے مڑ کر آبرو اٹھا کر کہا
لیکن پھر بھی گوہر کی بیوی میں ہوں۔ ۔ دعا نے جیسے جتایا تھا
تم نے اسے مجھ سے چھینا ہے دعا اور میں اسے واپس لے کر رہوں گی۔ اٹل لہجے میں بولی
تمہارا دماغ ٹھکانے پر ہے ماہ جبیں؟
نہیں جب تک تم اس کی زندگی میں ہو میرا دماغ ٹھکانے پر نہیں رہ سکتا۔ ۔
خود پر رحم کرو ماہ جبیں کیوں سیراب کے پیچھے بھاگ رہی ہو۔
یہ تو وقت بتائے گا۔ میں کچھ بھی کر سکتی ہوں اس کے لیے۔ تم کر سکتی ہوں؟ جان دے سکتی ہو؟
مجھے جان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دعا کو اس کہ غائب دماغی پر شیدید رنج ہوا۔
ہا ڈر گئی تم مگر میں جان دے بھی سکتی ہوں اور لے بھی سکتی ہوں۔ ۔ آنکھوں میں خون اترا تھا
اب اگر تم نے میرے کسی رشتے کو نقصان پہنچایا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ ۔ دعا کو مزیدغصہ آیا۔
تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔ تو سب ٹھیک ہوجائے گا تمہارا ہر رشتہ محفوظ رہے گا۔ ماہی نے جیسے احسان جتایا
اگر میں ہٹ جاؤ تو ؟۔ ۔ دعا سوچنے لگی
میں وعدہ کرتی ہوں کبھی بھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاؤں گی میں گوہر سے محبت کرتی ہوں بس۔ تم نہیں کرتی چھوڑ دو نا اسے۔ چہرے کے تاثرات بدل گئے
دعا سوچنے لگی۔ سر جھکایا پھر کچھ سوچ کر اسے دیکھا
چھوڑ دوں گی۔۔ ۔ ۔