محمود اور فاروق چلتے چلتے رک گئے…. سڑک کے کنارے پبلک ٹیلیفون پر کوئی شخص ریسیور ہاتھ میں پکڑے پراسرار لہجے میں چپکے چپکے کچھ کہہ رہا تھا… لہجہ دھیما سا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی انداز میں حکم بھی
تھا… دونوں کے کان کھڑے ہو گئے… فون کرنے والا شاید بہت ہی جلدی میں تھا… اسی لیے اُس نے اس چھوٹے سے شیشے کے کمرے کا دروازہ بند نہیں کیا تھا… ورنہ محمود اور فاروق کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے… ان الفاظ نے ان کے رونگٹے کھڑے کر دیئے…
“آج رات……. ٹھیک بارہ بجے………. پھر سُن لو… وہ اپنے گھر میں ہی ملے گا……. مکان نمبر گیارہ…… شافی روڈ……… اگر تم اسے مارنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر تمہاری اپنی خیر نہیں….”
اس کے سر پر ہیٹ تھا اور چہرہ ہیٹ اور اوور کوٹ کے کالروں میں چھپا ہوا تھا… بات کرنے کے بعد اس نے ریسیور کریڈل میں رکھ دیا اور باہر نکلنے لگا تو محمود اور فاروق انجان بنے آگے بڑھتے چلے گئے… انہوںنے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ وہ شخص ٹیلیفون بوتھ سے نکل کر کس طرف گیا ہے… چند قدم چلنے کے بعد وہ ٹہلنے کے انداز میں واپس مڑے, اب اس اجنبی کا دور دور پتا نہ تھا…
“شافی روڈ…….. مکان نمبر گیارہ…….” محمود بڑبڑایا…
“آ گئی بیچارے کی شامت…”
“مگر ابھی بارہ بجنے میں کئی گھنٹے ہیں…” محمود نے معنی خیز انداز میں کہا…
“پھر….. کیا کہنا چاہتے ہو تم؟”
“کیوں نہ ہم شافی روڈ پر چلیں…… کیا ہی اچھا ہو ہم اس کی جان بچا سکیں, نی جانے وہ کون ہے اور یہ لوگ اسے کیوں جان سے ما ڈالنا چاہتے ہیں…”
“میرا خیال ہے کہ ہمیں گھر چلنا چاہیے……. امی نے ہمیں صرف ایک گھنٹے کی سیر کی اجازت دی تھی, اگر دیر ہو گئی تو وہ پریشان ہوں گی اور وہ واپسی پر ہماری خبر بھی لیں گی…” فاروق بولا…
“لیکن یہاں ایک زندگی کا سوال ہے… ساری بات انہیں بتا دیں گے تو وہ کچھ نہیں کہیں گی…”
“جیسے تمہاری مرضی…”
شافی روڈ تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھا انہوں نے یہ فاصلہ تقریباً پندرہ منٹ میں طے کیا… شافی روڈ پہنچنے کے بعد انہیں گیارہ نمبر کا مکان تلاش کرنے میں کوئی دقّت نہیں ہوئی تھی…
یہ ایک اوسط درجے کا مکان تھا اندر روشنی ہو رہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اندر کوئی شخص موجود ہے… انہوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازے کی طرف قدم بڑھائے… پھر محمود نے دستک دی…
جلد ہی دروازہ کھل گیا… دروازہ کھولنے والا ایک نوجوان شخص تھا جو چہرے سے بہت شریف رکھائی دیا…
“کیا بات ہے؟” اس نے دونوں کو حیرت بھری نگاہوں سے گُھورا…
“ہم ایک ضروری کام سے آئے ہیں…. کیا آپ ہمیں اندر آنے کے لیے نہیں کہیں گے؟” محموف نے شائستہ لہجے میں کہا…
وہ مسکرایا اور پھر انہیں راستہ دیتے ہوئے بولا….
“آ جاؤ اندر…”
وہ دونوں کو ایک کمرے میں لایا… فاروق بالکل خاموش تھا… محمود کو ہی کہنا پڑا…
“آپ کی زندگی کو شدید خطرہ ہے…”
“جی…” وہ اس طرح اچھلا جیسے اُسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو…
“جی ہاں….. کیا آپ کے لیے یہ غیر متوقع بات ہے…”
“نہیں……… جی ہاں…”
“میں سمجھا نہیں…. آپ نے ہاں کہا ہے یا نہیں…” محمود نے پوچھا…
“تم صاف صاف کیوں نہیں بتاتے, کیا بات ہے..”
“کچھ لوگ آپ کو جان سے مار دینا چاہتے ہیں…”
“تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟”
“بس کہہ سکتے ہیں…”
“دیکھو بیٹے! تم مجھے پریشان کر رہے ہو….. اگر تم اس طرح بعد میں مجھ سے کسی انعام کے امیدوار ہو اور یہ سب ناٹک اسی لیے کر رہے ہو تو ابھی بتا دو, میں تمہیں مایوس نہیں لوٹاؤں گا…”
“آپ ہمیں غلط سمجھے…” فاروق کو غصہ آگیا… “ہم بھکاری نہیں ہیں…”
“ارے! میں نے کب کہا ہے کہ تم لوگ بھکاری ہو… میرا مطلب ہے شاید تم اسی طرح لوگوں کو خوفزدہ اور ہراساں کر کے پیسے بناتے ہو…”
“جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے…” اس مرتبہ بھی فاروق ہی بولا… اس کا غصہ ابھی کم نہیں ہوا تھا…
“پھر کیا بات ہے؟” اس نے پوچھا…
“آپ کا نام کیا ہے؟” محمود اچانک پوچھ بیٹھا…
“شاہد… مجھے شاہد کہتے ہیں…”
“اچھا تو جناب شاہد صاحب بات دراصل یہ ہے کہ ہم دونوں ارجن روڈ سے گزر رہے تھے کہ ہم نے ایک شخص کو ٹیلیفون پر کسی کو پیغام دیتے سنا… پیغام بڑا ڈراؤنا تھا’ اس لیے ہمارے کان کھڑے ہو گئے…”
“مگر تم پیغام کیسے سن سکتے تھے… ٹیلیفون شیشے کے چھوٹے سے چوکور کمرے میں رکھا ہوتا ہے اور جب اس کا دروازہ بند کر دیا جائے تو آواز باہر نہیں آ سکتی…”
“جی ہاں.. آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں, لیکن اس وقت سڑک بالکل سنسان تھی اور فون کرنے والا شاید جلدی میں تھا اس نے دروازہ بند نہیں کیا تھا…”
“خیر….. تو وہ کیا پیغام تھا اور اس پیغام کا میری ذات سے کیا تعلق ہے؟”
“آپ کا تعلق نہ ہوتا تو ہم یہاں کیوں آتے… بہرحال پیغام یہ تھا, شافی روڈ مکان نمبر گیارہ, وہ رات کو گھر پر ہی ملے گا… آج رات ٹھیک بارہ بجے اسے ختم ہو جانا چاہیے…”
“کیا!!!” شاہد ایک بار پھر اچھل پڑا… “کیا تم لوگ سچ کہہ رہے ہو…”
“بھلا ہمیں جھوٹ بولنے سے کیا حاصل ہو گا…”
“اس شخص کا حلیہ بتا سکتے ہو…” اب شاہد کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار صاف دیکھے جا سکتے تھے’ اس کا اطمینان ختم ہو گیا تھا…
“اس کے سر پر ہیٹ تھا جسم پر اوور کوٹ تھا… کوٹ بالکل سیاہ تھا اور اس سے زیادہ تو ہم بھی نہیں دیکھ سکے, کیونکہ اس وقت ہماری یہی کوشش تھی کہ اس کی توجہ ہماری طرف نہ ہو…”
“ہوں! شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو… میں تم دونوں کا شکر گزار ہوں اور اگر زندہ رہا تو ضرور تمہیں انعام دوں گا’ اس وقت تو میں تمہاری کوئی بھی خدمت نہیں کر سکتا’ کیونکہ مجھے اپنی زندگی کے بچاؤ کا سامان کرنا ہے…” وہ خاموش ہو کر انہیں دیکھنے لگا…
“نہیں کوئی بات نہیں, ہم یہاں تک کسی انعام کے لالچ میں نہیں آئے تھے…”
“پھر بھی میرا جی چاہتا ہے تمہیں انعام سے لاد دوں بہتر ہے تم اپنا پتا مجھے دے جاؤ… یہ لو اس کاغذ پر لکھ دو…”
“مگر اس کی ضرورت ہی کیا ہے…”
“شاید مجھے پھر تمہاری مدد کی ضرورت پڑ جائے…”
“جی بہتر…” محمود کاغذ پر اپنا پتہ لکھنے لگا… اس دوران شاہد سوچ میں کھویا رہا… پھر اچانک وہ کہنے لگا…
“نہیں! میں ان سے اپنے آپ کو کبھی نہیں بچا سکتا’ وہ مجھے پہاڑ کی کھوہ سے بھی باہر نکال لیں گے اور اگر میں ان کے ہتّھے چڑھ گیا تو……….. تو………” وہ چپ ہو کر کسی سوچ میں کھو گیا…
“کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟” اس نے اچانک کہا…
“جی فرمائیے…”
“میں تمہیں ایک امانت سونپتا ہوں, وہ کسی نہ کسی طرح محکمہ سراغرسانی کے دفتر تک پہنچا دینا… اگر تم یہ امانت وہاں نہ پہنچا سکے تو اس سے بہت بڑا نقصان ہو گا… یہ نقصان ملک اور قوم کا ہے… بس تم یہ سمجھ لو کہ یہ بہت ہی اہم چیز ہے… یہ کسی طرح ان لوگوں کے ہاتھ نہیں لگنی چاہیے… تم اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہو کہ میں اس کی خاطر اپنی جان دے رہا ہوں… شاید میں کل اس دنیا میں نہیں ہوں گا… کل کا سورج نہیں دیکھ سکوں گا…”
یہ کہتے کہتے شاہد اچانک مڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا…
دونوں پتھر کے بت کی مانند گُم صم بیٹھے رہ گئے…
تھوڑی دیر میں شاہد اندر داخل ہوا تو اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا…
“وہ چیز اس پیکٹ میں ہے, تم اسے کھولنا نہیں اور کل پہلی فرصت میں اسے وہاں پہنچا دینا جہاں میں چاہتا
ہوں…”
“آپ فکر نہ کریں… صبح ہوتے ہی یہ امانت وہاں پہنچ جائے گی… اس جگہ ہماری بھی جان پہچان ہے…”
“ارے.. وہ کیسے؟”
“ہم انسپکٹر جمشید کے صاحب زادے ہیں…” فاروق نے کہا…
“انسپکٹر جمشید……. اوہ!” شاہد کے منہ سے بےساختہ
نکلا…
“آپ چونکے کیوں؟” وہ بھی چونکے بغیر نہ رہ سکے…
“اب ان باتوں کا وقت نہیں, تمہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا… تم جس قدر جلد ہو سکے’ یہاں سے نکل جاؤ…”
“بہت بہتر…” وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور شاہد سے رخصت ہو کر گھر سے باہر نکل آئے… اس بات سے بےخبر کے ان کے نکلتے ہی تین سیاہ پوش شاہد کے گھر میں گُھس گئے ہیں…
ان کے جانے کے بعد شاہد فوراً اٹھ کھڑا ہوا… وہ جانتا تھا کہ اب اس کے جانی دشمن آیا ہی چاہتے ہیں… اس نے اپنا ریوالور چیک کیا اور ایک سوچی سمجھی جگہ پر کھڑا ہو گیا… یہ جگہ ایسی تھی جہاں سے وہ ہر آنے والے کو دیکھ سکتا تھا… ریوالور اس کے ہاتھ میں تھا اور انگلی لبلبی پر!
یکایک دروازے پر دستک ہوئی وہ چپ چاپ کھڑا رہا… دستک ایک بار پھر ہوئی مگر وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا… پھر ایک کھڑکی کا شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی جس سے شاہد کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی… نہ جانے کیوں؟
تین آدمیوں کے باری باری کودنے کی آوازیں آئیں’ وہ دم سادھے کھڑا رہا… جب وہ کچھ آگے آ گئے تو یکایک شاہد چلّا کر بولا…
“تم تینوں ہاتھ اوپر اٹھا دو’ ورنہ تمہارے جسم چھلنی ہو جائیں گے…”
انہوں نے ڈر کر اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیے… شاہد اپنی جگہ سے باہر نکل آیا… اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی اس نے گرج کر کہا… “اپنے منہ دیوار کی طرف کر لو…”
وہ مڑ گئے… شاہد نے باری باری تینوں کی جیبوں سے پستول نکال لیے…
“اب بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے, تم مجھے مارنے آئے تھے… تمہیں یہی حکم دیا گیا تھا نا مگر اب تم میرے ہاتھ سے نہیں بچ سکتے… تمہارے بعد تمہارے باس کی باری ہے… وہ بھی تمہارے کارنامے کی داد دینے یہاں ضرور آئے گا اور میرے ہاتھ سے نہیں بچ سکے گا…”
اچانک ایک فائر ہوا اور شاہد کے ہاتھ سے ریوالور فضا میں اچھل کر نیچے آ رہا… شاہد ہکّا بکّا فائر کی سمت دیکھنے لگا… اچانک ان تینوں نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا…
دروازے میں ایک پُراسرار شخص کھڑا تھا جس نے اپنے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال رکھا تھا…
“کاغذات کہاں ہیں؟” وہ گرجا…
“یہاں نہیں ہیں…” شاہد نے جواب دیا…
“پھر کہاں ہیں؟”
“مجھے نہیں معلوم…”
“تمہاری یہ جراّت…”
“ہاں! تم مجھے جان سے بھی مار ڈالو میں زبان سے کچھ نہیں اُگلوں گا…”
“ابھی پتا چل جاتا ہے کہ تم کتنے بہادر ہو…” اس نے کہا…
پھر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا… “تلاشی لو سارے مکان کی…”
وہ تینوں اِدھر اُدھر پھیل گئے اور تقریباً پندرہ منٹ کی تلاش کے بعد وہ واپس لوٹے تو اُن کے چہرے پر مایوسی کی جھلک تھی…
“نہیں ملے…”
“ہوں………… تم بتاتے ہو یا نہیں…” وہ پھر شاہد سے مخاطب ہوا…
“نہیں…”
وہ غصے میں آگے بڑھا مگر اچانک ٹھٹھک کر رُک گیا… اس کی نگاہیں میذ پر پڑے کاغذ کے ایک پُرزے پر پڑیں… اس نے پرزہ اٹھا لیا… پرزہ اٹھاتے دیکھ کر شاہد کا رنگ اُڑ گیا جیسے اس کے سارے جسم کا خون نچوڑ لیا گیا ہو…
یہ کاغذ کا وہی پرزہ تھا جس پر محمود اپنے گھر کا پتا لکھ کر دے گیا تھا…
……………………………………………
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...