ڈاکٹر انور محمود(اسلام آباد)
جرمن ادیب فرانز کافکا کی کہانی “Auf der Galerie” (بالکونی پر) ایک نہایت ہی مختصر کہانی ہے جو صرف دو پیروں پر مشتمل ہے لیکن اس کے باجود یہ اپنے اندر اسرارو رموز کے خزانے چھپائے ہوئے ہے اور ایک ایسی گتھی ہے جسے سلجھانا نہایت ہی دشوار کام ہے۔یہ کہانی کافکا کی جرمن زبان کے استعمال پر مکمل مہارت، نثرمیں اس کے کمالِ فن اور اس کی باریک بین نگاہوں سے زندگی کے مشاہدات کو فن کے سانچے میں ڈھالنے کی زندہ مثال ہے۔پیشتر اس کے ہم اس کہانی کو زیر بحث لائیں ذیل میں اس کا ترجمہ پیش کیا جاتاہے۔:
’’جب کوئی لاغر ،ٹی بی کی مریضہ گھڑ سوار فنکارہ سرکس میں ایک جھولتے ہوئے گھوڑے پر سوار لہراتی ہوئی، پیار کرتی ہوئی، کمر کوبل دیتی ہوئی انتھک تماشائیوں کے سامنے ایک چابک لہراتے ہوئے بے رحم رِنگ ماسٹر کے اشارے پر کئی مہینوں تک بغیر کسی وقفے کے دائروں میں گھمائی جائے اور جب یہ کھیل غیر مختتم سازوں اور پنکھوں کے شور کے درمیان لا انتہا مبہم مستقبل میں دم توڑتے اور پھر نئے سرے سے شروع ہوتے ہوئے تحسین آمیز تالیوں کے شور میں جو کسی بھاپ سے چلنے والے ہتھوڑوں سے کم نہ ہو جاری و ساری رہے تب شاید ایک بالکنی میں بیٹھا نوجوان تماشائی لمبی سیڑھیوں کی تمام سطحوں کو تیزی سے عبور کرتا ہوا نیچے اتر کر سرکس کے پنڈال میں آئے گا اور ماحول سے مطابقت پیدا کرتی ہوئی سازوں کی دھنوں کے درمیان پکارے گا’’رک جاؤ‘‘۔
لیکن چونکہ ایسا نہیں ہے ایک خوب صورت سرخ و سفید لڑکی پردوں کے پیچھے سے جنہیں وردیوں میں ملبوس فخر مند ملازم کھولتے ہیں نمودار ہوتی ہے۔ سرکس کا ڈائریکٹر بڑے وفا شعارانہ انداز میں اس کی توجہ کا متلاشی ہے اور جانوروں کے سے انداز میں اس کی اورسانس لیتا ہے اور پھر نہایت ہی محتاط انداز میں اسے اٹھا کر چتکبرے گھوڑے پر بٹھانے میں اس کی مدد کرتا ہے جیسے کہ وہ اس کی ہر چیز سے پیاری پوتی ہو جو کسی خطرناک سفر پر روانہ ہونے والی ہو اور وہ روانگی کے لیے چابک کا اشارہ دینے کا فیصلہ نہ کر سک رہا ہو۔با لآخر وہ اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے ایک زناٹے کے ساتھ یہ کام کر گزرتا ہے۔منہ کھولے وہ گھوڑے کے ساتھ ساتھ دوڑتاجاتا ہے۔گھڑسوار کی چھلانگوں کا اپنی تیز نگاہوں سے پیچھا کرتا ہے جس کے فن کی مہارت اس کے لیے نا قابلِ یقین ہے۔ انگریزی الفاظ میں اس کو تنبیہ کرنے کی کوشش کرتا ہے؛ رنگ پکڑے سائیسوں کی غصے میں سرزنش کرتا ہے۔اور نہایت محتاط رہنے کی تلقین کرتا ہے؛ بڑی جمپ سے پہلے ہاتھ اٹھا کر سازندوں کو خاموش ہونے کی التجا کرتا ہے؛ بالآخر لڑکی کو کانپتے ہوئے گھوڑے سے اتارتا ہے اس کے دونوں رخساروں پر پیار کرتا ہے اور تماشائیوں کا پرجوش خراج تحسین بھی اس کو ناکافی محسوس ہوتا ہے جب کہ وہ لڑکی خود اس کا سہارا لیے اپنے پاؤں کی انگلیوں کے سروں پر کھڑی، گرد کے غبار میں گھری، اپنے بازو پھیلائے سر کو پیچھے کی طرف جھٹکتے ہوئے اپنی خوش قسمتی میں پوری سرکس کو شریک کرنا چاہتی ہے۔ چونکہ یہ ایسا ہے بالکنی والا تماشائی اپنا چہرہ جنگلے پر رکھتا ہے اور اختتامی مارچ کے دوران جیسے وہ کسی گہرے خواب میں ڈوبا ہوا ہو۔رودیتا ہے۔اس کا ادراک کئے بغیر۔‘‘
کافکا نے یہ کہانی غالباً ۱۹۱۷ء میں تحریر کی اور یہ پہلی بار ۱۹۱۹ء میں کہانیوں کے مجموعے”Ein Landarzt” میں شائع ہوئی1۔خیال کیا جاتا ہے کہ کافکا نے یہ کہانی رابرٹ والزر (Robert Walser) کی کہانی “Lustspielabend” سے متاثر ہو کر لکھی جس میں ایک تماشائی سرکس کی بالکنی سے سٹیج پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کر کے ا نہیں بیان کرتا ہے۔ کافکابھی اپنی اس کہانی میں پہلے سرکس کے سٹیج پر کمالات دکھانے والی ایک گھڑ سوار عورت اور اس کے فن کی تصویر کشی کرتاہے اور اس کے بعد سرکس کی بالکنی میں بیٹھ کر اس تماشے کو دیکھنے والے شخص کے رد عمل کو بیان کرتا ہے لیکن یہ تصویر کشی اور تماشائی کا رد عمل ہر دو پیرا گرافوں میں مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے۔
پہلا پیرا ایک ایسے جملے پر مشتمل ہے جو ’’جب‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور سرکس میں ہونے والے کھیل کی ایک فرضی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس میں گھڑ سوار عورت ایک بیمار اور مجبور عورت کے طور پر سامنے لائی جاتی ہے جو ایک ظالم رنگ ماسٹر کے رحم و کرم پر ہے اور اس کے اشاروں پر ایک مشین کی طرح کئی کئی مہینوں تک بغیر کسی وقفے کے اس کھیل میں حصہ لینے پر مجبور ہے۔ اس کی بیزاری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تماشائیوں کی تالیاں بھی اس کے لیے ہتھوڑوں سے کم نہیں۔اس صورتحال کو جانچتے ہوئے شاید کوئی بالکنی میں بیٹھا تماشائی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور تیزی سے سرکس کے اکھاڑے میں آکر کھیل کو روکنے کے لیے کہے۔
دوسرے پیرے میں اس فرضی خیال کی نفی کی گئی ہے اور گھڑ سوار عورت کو ایک نوجوان اور خوبصورت لڑکی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کے آگے نہایت مہربان اور با ادب سرکس کا ڈائریکٹر بچھا جا رہا ہے اور اس کا اس طرح خیال رکھتا ہے جیسے وہ ایک نہایت نازک شے ہو اور ذرا سی بد احتیاطی سے اس کے ٹوٹنے کا احتمال ہو ۔ یہ گھڑ سوار عورت اپنے فن پر نازاں ہے اور تماشائیوں کے خراجِ تحسین کو خوش دلی سے قبول کرتی ہے لیکن اس صورتِ حال میں سرکس کی بالکنی پر بیٹھا تماشائی بجائے خوش ہونے کے کسی گہرے خواب میں ڈوبا،رو دیتاہے اور بظاہر اس کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔
اس طرح یہ کہانی دو متضاد پیروں پر مشتمل ہے جو ایک ہی مواد کو دو مختلف زاویوں سے پیش کر رہے ہیں ۔بظاہر پہلے پیرے میں صورتحال کو گھڑ سوار عورت کے زاویے سے پیش کیا گیا ہے جس میں اس کے اندرونی کرب کی عکاسی کی گئی ہے اور ظاہری شان و شوکت اور تماشائیوں کی واہ واہ محض ایک دھوکا نظر آتاہے اور اس کی انتہا مبہم مستقبل میں حدِ نظر تک معدوم دکھائی دیتی ہے ۔بالکل اس طرح جیسے اس پیرے میں جملہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اور پورے پیرے پر محیط ہے۔اس کے برعکس دوسرے پیرے میں زاویہ نگاہ تبدیل ہو جاتا ہے اور سرکس کے کھیل کی ظاہری شان و شوکت کی تصویر کشی کی جاتی ہے جیسے کہ یہ سب کچھ تماشائیوں کو نظر آرہا ہوتا ہے۔ ان دو متضاد زاویوں کی عکاسی دونوں پیروں میں استعمال کئے گئے متضاد الفاظ اور جملوں میں بھی ہوتی ہے۔مثلاً:
پہلا پیرا دوسرا پیرا
لاغر،ٹی بی کی مریضہ خوبصورت سر خ و سفید لڑکی
چابک لہراتا ہوا بے رحم رِنگ ماسٹر سرکس کا ڈائریکٹر وفا شعارانہ انداز میں اس کی توجہ کا متلاشی
کئی مہینوں تک بغیر کسی وقفے کے دائروں میں جیسے کہ وہ اس کی ہر چیز سے پیاری پوتی ہو جو
گھمائی جائے۔ کسی خطر ناک سفر پر روانہ ہونے والی ہو
تحسین آمیز تالیوں کا شور جو کسی بھاپ سے تماشائیوں کا پر جوش خراجِ تحسین بھی اس کو
چلنے والے ہتھوڑوں سے کم نہیں، وغیرہ وغیرہ نا کافی ہوتاہے ،وغیرہ وغیرہ
کہانی کا عنوان اس بات کا متقاضی ہے کہ سرکس کی بالکنی کے تماشائی کی نگاہ اور اس کے ردِ عمل سے سرکس کے کھیل کو پرکھا جائے لیکن اس تماشائی کادونوں پیروں میں متضاد ردِعمل قارئین کے لیے ایک معمے سے کم نہیں۔پہلے پیرے میں وہ اس کھیل کو ظالمانہ سمجھتے ہوئے باقی تماشائیوں سے الگ تھلگ عملی قدم اٹھاتا ہے جب کہ دوسرے پیرے میں سرکس کی شان و شوکت کے باوجود وہ باقی تماشائیوں کے ساتھ خراجِ تحسین پیش کرنے کے بجائے آخر میں رودیتا ہے اور قاری یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ بالکنی کا تماشائی روتا کیوں ہے؟Scholzکے مطابق تماشائیوں کو جو کہ عام لوگ ہیں جو کچھ بظاہر نظر آتا ہے وہ اسی کو حقیقت سمجھتے ہیں۔جبکہ بالکنی والا تماشائی ان عام لوگوں سے مختلف ہے اور اس میں وہ کچھ دیکھنے کی صلاحیت ہے جو ایک عام آدمی نہیں دیکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے اس ظاہری شان و شوکت کے پیچھے چھپا حقیقی کرب اور ظاہر کی اصلیت اس پر آشکار ہو چکی ہے جس نے اس کو رونے پر مجبور کر دیا2۔اگر اس استدلال کو تسلیم کر لیا جائے تو دوسری کہانی میں پیش کیا گیا زاویہ نگاہ حقیقی پس منظر کو وا گزار نہیں کر رہا بلکہ ایک فریب نظر کی عکاسی کرتا ہے۔متعدد نقاد اس نقطہ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے پہلے پیرے میں بیان کی گئی فرضی کہانی کو اصل میں حقیقت کا عکس قرار دیتے ہیں 3۔اس سلسلے میں کافکا کی Janouchکے ساتھ گفتگو کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے4۔ اور یہ کہ اصل حقیقت ہمیشہ غیر حقیقی ہوتی ہے اور ایک Ilusionہے5 ،اس لیے جو چیز ایک فرضی کہانی کے طور subjunctive modeمیں لکھی گئی ہے وہ اصل حقائق ہیں۔نتیجتاً کہانی میں لکھے گئے الفاظ’’یہ ایسا ہے‘‘ اپنے اصل معانی کھو بیٹھتے ہیں یہ الفاظ قاری کو فریب دینے کے مترادف ہیں۔ اگر ہم دوسرے پیرا گراف میں حقیقت کے روپ میں بیان کئے گئے واقعات کو ایک Illusionکے طور پر تسلیم کر لیں تو بالکنی کے تماشائی کا رونا دراصل حقیقت اور فریب نظر کی کشمکش میں سچائی کو جان لینے کے باوجود کچھ نہ کر سکنے میں اس کی بے بسی کا اظہار ہے۔6
بعض نقاد اوپر بیان کئے گئے نقطہ نظر کو تسلیم نہیں کرتے ۔ ان کے نزدیک دونوں مناظر میں سے کوئی بھی واضح طور پر illusionaryیا واضح طور پر حقیقی نہیں ہے۔اس صورت حال میں تماشائی کے رونے کی تشریح Boaان الفاظ میں کرتی ہے۔
“The man perhaps weeps because he recognises that he is not seeing through the surface to the underlying truth, but is himself caught up in a fiction.”7
لہٰذا دونوں تشریحات متنازع فیہ ہیں اور حقیقت اور illusionمیں تفریق پر اتفاق رائے مفقود ہے۔ یہی چیز حقیقی دنیا پر بھی صادق آرہی ہے۔ اگرہم سرکس کو اس دنیا کے لیے ایک علامت کے طور پر سمجھیں تو یہ کافکا کے لیے ایک ایسی پہیلی ہے جو تضادات سے بھر پور ہے۔Glasserکے مطابق اس دنیا میں ظاہر و باطن ، چیزوں کی ظاہری ہیئت اور ان کی اصلیت نا قابلِ جد احد تک باہم آمیختہ ہیں کہ ان کے ابہامات اور اشتباہا ت کا ادراک کرنا نہایت ہی دشوارکام ہے۔8
کافکا کے ادب پاروں میں قنوطیت پسندی کا پہلو جابجا نظر آتا ہے جس کا اظہار وہ دنیا کی حقیقتوں کو مسخ کر کے اور واقعات میں الجھاؤ پیدا کر کے کرتاہے۔ نتیجتاً کافکا کی کہانیاں جو بظاہر نہایت مختصر اور آسان نظر آتی ہیں قارئین کے ذہنوں میں ایک الجھاؤ کی سی کیفیت پیدا کر دیتی ہیں اور ان میں بے یارو مددگاری کا احساس جنم لیتاہے۔کافکا کے نزدیک انسان کا اس دنیا میں وجود ایک لمبی اور اندھیری سرنگ کی مانند ہے جس کا داخلی دروازہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے اور اس کا خارجی دروازہ ماورائے رسائی حد تک دور ہے جہاں سے آنے والی ایک ننھی سی جھلملاتی روشنی کی کرن اس کے وجود کا پتہ دیتی ہے9۔ یہی ننھی سی روشنی شاید اس کے لیے امید کی موہوم سی کرن ہے،جو زیر بحث کہانی کے پہلے پیرے میں بالکنی کے تماشائی کے جرأت مندانہ اقدام کی شکل میں نمودار ہوتی ہے لیکن اس کی انسان سے ماورائے رسائی حد تک دوری اپنے اندر مایوسی کا پہلو پنہاں کئے ہوئے ہے جو کہانی کے دوسرے پیرے میں بالکنی کے تماشائی کے مایوس کن رد عمل میں جاں گزیں ہے۔***
حوالہ جات
۱۔Scholz1991ص۵۸
۲۔ایضاً ص۶۱
۳۔دیکھیےEmrich 1965ص۳۶اورBinder 1966ص ۱۹۴
۴۔Scholz11991ص۶۱
۵۔Politzer 1975ص ۲۰۸
۶۔Scholz 1991ص۶۲
۷۔Boa 1991ص ۴۸۹
۸۔Glaser 1962ص ۴۲، ۴۳
۹۔Floto 1979ص ۷۷
کتابیات
Binder, Hartmut (1966): Motiv und Gestaltung bei Franz Kafka, Abhandlungen zur Kunst-,Musik- und Literaturwissenschaft, 37,
H. Bouvier Verlag Bonn.
Boa, Elisabeth (19919): |Kafka’s “Auf der Galerie”: a resistant reader. In: Deutsch Vierteljahrsschrift for Literaturwissenschaft und Geistesgeschichte (DVjs) 3(1991), pp.48 6-501.
emrich, Walter (1965): Franz Kafka. Frankfurt am Main:
Athenaum Verlag.
Floto, Christian(1979): Basisinterpetationen for den Literatur- und Deutschunterricht der Sekundarstufen Band I. Hollfeld: C. Bange Verlag.
Glaser, Hermann (1962): Franz Kafka. Auf der Galerie. In: Interpretationen moderner Prosa. Frankfurt am Main: Verlag Moritz Diesterweg, pp. 3 8- 46.
Politzer, Heinz (Hrsg.) (1975): Das Kafka-Buch. Eine innere Biographie in Selbstzeugnissen. Frankfurt am Main: Fischer Taschenbuch Berlag,
Scholz, ingeborg (1991): Erlauterungen zu Franz Kafka:
Erzahlungen II. Hollfeld: C. Bange Verlag.
٭٭٭
سمجھ لو کہ جو شے نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں،
کہیں بھی نہیں ہے
سمجھ لو کہ جو شے دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے
وہ یہیں ہے!
میرا جی کی نظم جزو اور کُل سے اقتباس